|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، اسلام آباد|
20 اکتوبر کی شام ریڈیو پاکستان کے ملازمین کیلئے ایک تاریک شام ثابت ہوئی جب مزدور دشمن حکومت کی مزدور دشمن پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان کی انتظامیہ نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے بیک جنبش قلم 749 ملازمین کو نوکری سے فارغ کر دیا۔ اس سے چند ماہ پہلے بھی 277 ملازمین کو فارغ کیا گیا تھا۔ اس طرح نکالے گئے ملازمین کی کل تعداد 1020 ہے۔ ان ملازمین میں کنٹریکٹ کے ساتھ ساتھ ڈیلی ویجز ملازمین کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ کنٹریکٹ ملازمین ہوں یا ڈیلی ویجز وہ ایک طویل عرصے سے ریڈیو پاکستان کو اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے جن میں 22 سال سروس سے لے کر ڈھائی سال سروس والے ملازمین بھی شامل تھے اور لمبے عرصے سے روزگار کی مستقلی کی امید پر ادارے میں کام کرتے آرہے تھے لیکن بالآخر مستقلی کی بجائے ان کو ادارے سے ہی نکال دیا گیا۔ اس اقدام کے بعد 21 اکتوبر کو ریڈیو پاکستان (سی بی اے) کی قیادت میں عدالت عظمیٰ کے سامنے دھرنا دیا گیا جو پورا دن چلتا رہا لیکن رات گئے ضلعی انتظامیہ نے حکومت اور ریڈیو پاکستان کی انتظامیہ کے ایما پر نہتے مظاہرین کی گرفتاریاں شروع کر دیں اور قیادت سمیت مزید 20 ملازمین کی گرفتاری کر کے مختلف تھانوں میں ڈال دیا۔ اگلے دن ریڈ ورکرز فرنٹ کی ٹیم نے ماندہ قیادت کے ساتھ مل کر تمام ملازمین کی ضمانت کا انتظام کیا اور اس کے بعد ان کو ہڈیالہ جیل سے چھڑا کر واپس لے آئے۔ جس کے بعد دوبارہ احتجاجی سلسلے کا آغاز ہوا جو 24 نومبر تک چلتا رہا اور بالآخر 24 نومبر کو ڈی چوک میں دھرنا دیا گیا جس کے بعد انفارمیشن سیکرٹری زاہدہ پروین کے ساتھ مذاکرات ہوئے جس میں مطالبات کی منظوری کی یقین دہائی پر احتجاجی دھرنے ختم کردیا گیا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اول دن سے ریڈیو پاکستان کے ملازمین کے اس احتجاجی دھرنے میں موجود رہا اور نا صرف ان کوریج کرتا رہا بلکہ یکجہتی کے لیے ان کی لڑائی میں شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ یہ سمجھتا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریڈیو پاکستان کے ملازمین نے بہت سی معاشی مشکلات کے باوجود اس کامیاب دھرنے کو جاری رکھا لیکن ان کو ایک بات ناگزیر طور پر سمجھنی ہوگی کہ اقتدار میں بیٹھے کسی بھی حکمران طبقے کے نمائندے پر یقین کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے کیونکہ اقتدار کے اندر موجود لوگ محنت کش طبقے کی بجائے سامراجی اداروں اور ملکی سرمایہ داروں کے نمائندے کے طور پر وہاں موجود ہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ڈاؤن سائزنگ کی پالیسی کے زیر اثر نکالے گئے ملازمین کی اتنی بڑی تعداد میں سے کچھ کو دوبارہ بحال کر لیا جائے اور کچھ کو 14 دنوں پر دیہاڑی پر رکھا جائے لیکن تمام ملازمین کی بحالی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور حکومت کی طرف سے ایسا کوئی بھی عمل ریڈیو پاکستان کے ملازمین کے درمیان دراڑ ڈالنے کیلئے کافی ہوگا۔ محنت کش ساتھیو جیسے کہ ریڈ ورکرز فرنٹ پہلے دن سے اس بات کی وضاحت کرتا آرہا ہے کہ مستقل روزگار کے حصول کی جہدوجہد ایک دن اور محض ایک ادارے کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہیں اور نہ ہی اس طریقہ کار سے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کیلئے آگے بڑھتے ہوئے دیگر اداروں کے ملازمین کے ساتھ جڑت بناتے ہوئے ملک گیر عام ہڑتال کی طرف بڑھنا ہوگا تاکہ محنت کش طبقے کی طاقت کی بنیاد پر کام کا حق چھینا جا سکے۔