|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
سوئی سدرن گیس کمپنی میں نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کا عمل آہستہ آہستہ آخر کار شروع ہوچکا ہے جس میں مینجمنٹ نے مزدوروں کو مزید کمزور کرنے کے لئے اور انہیں کمپنی سے نکالنے کے لئے پی ایم ایس (پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم)یعنی سالانہ انکریمنٹ اور پروموشن سسٹم میں BE(Below Expectations)اورNA(Not Acceptable)دے کر سینکڑوں ملازمین کو ذہنی کوفت کا شکار بنادیا
ہے۔ BEاورNAسوئی سدرن گیس کمپنی میں زیادہ تر کام کی بنیاد پر نہیں بلکہ پسند نا پسند کی بنیاد پر دیا جاتا ہے اور اس سال یعنی 2019ء میں سینکڑوں کے حساب سے ملازمین کو جان بوجھ کر BEاور NAدیا گیا تاکہ مستقبل میں مزید ملازمین کو نکالنے اورانہیں پروموشن سے روکنے کی ایک راہ ہموار کی جائے جبکہ سوئی گیس کمپنی کے اندر سفارش کلچر ایک عام سی بات ہے۔
پی ایم ایس(پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم) کا عمل سوئی سدرن گیس کمپنی میں ایک مضحکہ خیز عمل کے علاوہ کچھ بھی نہیں جہاں پرہائی پی ایم ایس یعنی(SSE-Substantially Exceeds Expectation) اور(EE-Exceed Expactations) آپ کو کام یا قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ خوشامد اور تحفہ تحائف و کرپشن، پسند نا پسند کے بعد دیا جاتا ہے حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ پی ایم سسٹم کو ایک صاف شفاف طریقہ کار کے ذریعے عمل میں لایاجائے مگر سوئی سدرن گیس کمپنی اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔ مزدوروں کا استحصال زور و شور سے پورے ملک میں جاری ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی میں اس پی ایم ایس کے نظام کے تحت کرپشن بھی عرو ج پر ہے۔ یہاں پر بھی وہی بات آجاتی ہے جو ہیڈآف دی ڈیپارٹمنٹ ہیں جیسے ڈپٹی چیف انجینئر سے لے کر جی ایم، ڈی ایم ڈی تک ان کی تنخواہ کم از کم 4لاکھ سے شروع ہو کہ 28لاکھ سے بھی اوپر تک ہے انہیں EE، SEE(یعنی بونس اور مزید مراعات)سے نوازا جاتا ہے اور چھوٹے طبقے کے آفیسر گریڈ 1سے لے کر 4تک جن کی تنخواہ 45ہزار سے شروع ہو کر 80ہزار تک تقریباً ہے ان میں زیادہ تر کو ME یا BEاور NAدیا جاتا ہے اور ان میں بھی SEE اور EEصرف انہیں ملتا ہے جو کہ خوشامد کریں اور تحفہ تحائف و دیگر راستے اپنائیں۔ اور اس کمپنی میں اب تک نیب و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اب تک کوئی خاطر خواہ اقدامات بھی نہیں کئے گئے جہاں پر روزانہ کی بنیاد پر کرپشن کی جاتی ہے۔ ایک میٹر لگانے سے لے کر بلنگ تک ہر جگہ کسی غریب عام آدمی کو پیسے دے کر اپنا کام کرانا پڑتا ہے۔
پی ایم ایس کا بنیادی مقصد کسی کی قابلیت کو جانچنا اور کام کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اس کی تنخواہ میں اضافہ اور پروموشن دینا ہوتا ہے مگر سوئی سدرن گیس کمپنی میں پی ایم ایس کا مقصد ہی کچھ اور ہے۔ یہاں پر مزدور کا استحصال روزانہ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، پسند نا پسند کی بناء پر اسے مراعات سے نوازا جاتا ہے۔ BEاور NAکی وجہ سے تنخواہ بڑھنا تو دور مگر انہیں مستقبل میں نوکری سے فارغ کرنے کی راہیں بھی ہموار کی جارہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق کمپنی نے 3ہزار ملازمین کی لسٹ ایسی بھی تیار کی ہے جس میں یہ موقف اپنایاجائے گا یہ مزدور کمپنی میں اضافی ہیں اور اس کا سب سے زیادہ ملبہ کنٹریکٹ ملازمین پر گرے گا جو کہ سراسر غلط اور ناانصافی ہے جس سے ایک مزدور کا معاشی قتل عام کرنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ ایک سرمایہ دار حکومت جو کہ آئے دن ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کررہی ہے تو دوسری جانب بڑے بڑے لیول کے افسر صاحبان کو مزید ترقیوں اور مراعاتوں سے نوازا بھی جارہا ہے اگر کوئی کمپنی نقصان میں جارہی ہے تو اس کے ذمہ دار مزدور نہیں بلکہ حکومتی پالیسیاں اور افسران کی عیاشیاں اور کرپشن ہے جو کمپنی میں 25,25لاکھ تنخواہ کے ساتھ ساتھ مراعات بھی لیتے ہیں اور کرپشن بھی کرتے ہیں۔ ایک کنٹریکٹ ملازم جو بے چارہ 20 ہزار روپے لیتا ہے اور اپنے گھر کا گزر بسر کرتا ہے اس سے اس کمپنی کو کیا نقصانات آخر کار ہوسکتے ہیں؟ کمپنی ایک مزدور کو نقصان کا ذمہ دار تو کہہ رہی ہے مگر ان موٹی موٹی تنخواہ لینے والوں کو نہیں۔
ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سوئی سدرن گیس کمپنی میں پی ایم ایس کے نام پر اس گھناؤنے کھیل کو ختم کرکے مزدورں کو احساس محرومی و ذہنی کوفت سے بچائے اور اس کرپشن کے کھلے بازار کو ختم کرنے کے لئے باقی اداروں کی طرح یہاں پر بھی Flat Rateیعنی سب کو مشترکہ طور پر سالانہ انکریمنٹ دیاجائے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو اور سب کو برابری کی بنیاد پر ان کے حقوق ملیں۔