|ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
بلوچستان ہائی کورٹ نے 27 مئی کو اپنے ایک متنازعہ فیصلے میں بلوچستان بھر کے سرکاری اداروں میں ٹریڈ یونینز کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ یہ متنازعہ اور جانبدارانہ فیصلہ مذکورہ ہائی کورٹ نےپبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی دو مزدور یونینز کی آپس کی لڑائی میں دائر کی گئی اختلافی آئینی درخواست پر دیا۔
اس اختلافی آئینی درخواست کی مد میں عدالت نے ایسا متنازعہ فیصلہ دیا کہ جس کی وجہ سے نہ صرف مزدوروں کے جمہوری حق پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی بلکہ عدالت نے آئین اور قانون کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا کیونکہ یہ فیصلہ قانون اور آئین کے خلاف ہے۔ آئین کے ارٹیکل 17 میں واضح لکھا ہے کہ شہری اپنےلیے سیاسی پارٹی، ایسوسی ایشن اورمزدور یونینز بناسکتے ہیں۔ یہ سیاسی پارٹیاں اور دیگر تنظیمیں پاکستان کے آئین کی مختلف شقوں کے تحت بنائی جاتی ہیں۔ جس میں مزدور یونینز، انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ کےتحت رجسٹر کی جاتی ہیں اور تمام صنعتی اور کاروباری اداروں میں جہاں 10 مزدور ہوں وہ اپنے لیے یونین بناسکتے ہیں اور ورک مین کمپنسیشن ایکٹ اور فیکٹری ایکٹ کے تحت سرکاری اداروں میں جو ملازمین مزدور کے زمرے میں اتے ہیں وہ یونین بناسکتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں ڈرائیور،کلینر، قلی، فیلڈ ورکر، فورمین،مالی اور دیگر محنت کش مزدور کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور ان سب مزدوروں کو آئینِ پاکستان کے مطابق یونین بنانے کا جمہوری حق حاصل ہے مگر یہاں پر نہ صرف مزدوروں کے جمہوری حقوق پر قدغنیں لگائی جارہی ہیں بلکہ پورے ملک میں مزدور طبقے پر روزانہ کی بنیاد پر معاشی حملے بھی کیے جارہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پوری ریاستی مشینری ملک بھر میں مٹھی بھر سرمایہ داروں اور ریاستی اشرافیہ کے مالی مفادات کی نگرانی پر مامور ہیں۔
دوسری طرف حکومتِ بلوچستان نے مختلف اخباروں میں یہ اعلامیہ جاری کیا تھا کہ صوبے بھر کے محنت کشوں کو کسی بھی ٹریڈ/لیبر یونین کے سرگرمیوں میں حصہ لینے پر بیڈا ایکٹ (BEEDA ACT 2011) کے تحت سخت کاروئی عمل میں لائی جائیگی، جس میں ملازمت سے برخاستگی بھی شامل ہے۔
دراصل یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب ایک طرف ملک بھر میں IMF کی شرائط کے تحت بننے والے بجٹ کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان امڈ آیا ہے جس کے بعد سے نئے ٹیکسز کا نفاذ، صحت تعلیم اور دیگر اداروں کی نجکاری عمل میں لائی جا رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں مزدور طبقہ اپنی جدوجہد میں سارے ملک میں سب سے آگے ہے۔ کٹھ پتلی حکومت کیساتھ مل کر کے دیگر مقتدر قوتوں کی طرح عدلیہ بھی اس گٹھ جوڑ میں شامل ہے، اور یہ فیصلہ نام نہاد آزاد عدلیہ کی مزدور دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔ ریاست کے دیگر اداروں کی مدد سے حکمران طبقے کی یہ کوشش ہے کہ وہ ایسے حربوں سے مزدوروں کی آواز کو دبا نے میں کامیاب ہو جائیں گے، مگر یہ ان کی بھول ہے کیونکہ اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں طبقاتی جنگ شدت اختیار کر رہی ہے۔ اور آنے والے وقتوں میں ملک میں محنت کش طبقے کی بھرپور تحریک اٹھنے کے واضح اور روشن امکانات موجود ہیں۔ اس ممکنہ ڈر اور خوف سے حکمران طبقہ محنت کشوں پر قسم قسم کی پابندیاں لگا رہے ہیں، جس میں یہ پابندی اپنی نوعیت میں پہلا واقعہ ہے، جوکہ نہ صرف قابلِ مذمت ہے بلکہ اس فیصلے کیخلاف صوبے اور ملک بھر کے محنت کشوں کو اس پابندی کیخلاف عملی میدان میں نکلنا ہوگا، تاکہ حکمران طبقے کو مزدور اپنی قوت سے آگاہ کرسکیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ ایسے تمام ریاستی حربوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور بلوچستان کے محنت کشوں سمیت ملک بھر کے محنت کشوں سے ایسے ریاستی حربوں کے خلاف متحد ہونے کی بھرپور اپیل کرتا ہے۔ ریڈورکرزفرنٹ ایسے تمام نام نہاد فیصلوں اور عدالتی احکام کے خلاف محنت کش طبقے کے ساتھ ہراول دستے کا کردار ادا کرے گا۔