|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
چیف جسٹس آف پاکستان کے ریلوے کے حوالے سے متنازعہ ریمارکس اور ریلوے کی مبینہ نجکاری، ڈاؤن سائزنگ کیخلاف ریلوے گرینڈ مزدور محاذ کوئٹہ ڈویژن کے زیرِاہتمام 27 جون کو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر احتجاجی ریلی اور جلسہ ہوا۔ احتجاجی ریلی کا آغاز ریلوے اسٹیشن کے اندر لوکو شیڈ سے ہوا اور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر یہ احتجاجی جلسے میں تبدیل ہو گئی۔
احتجاجی ریلی اور جلسے میں سینکڑوں مزدوروں نے شرکت کی جنہوں نے ریلوے کی مبینہ نجکاری اور اپنے دیگر بنیادی مطالبات کے حوالے سے مختلف پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جب کہ اپنے تمام تر مطالبات کے حوالے سے شدید نعرے بازی بھی کی گئی۔ واضح رہے کے ریلوے گرینڈ مزدور محاذ میں جماعت اسلامی سے منسلک پریم لیبر یونین کے علاوہ باقی تمام تر یونینز شامل ہیں۔ اس احتجاجی ریلی اور جلسے میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے ساتھیوں نے بھی بھرپور شرکت کی۔
احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کامریڈ مجید زہری، لال جان بلوچ،رحیم لانگو،ماما افضل بنگلزئی اور دیگر مقررین نے کہا کہ ریلوے میں اس وقت 76ہزار کے قریب محنت کش اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جبکہ اب بھی 28 ہزار کے قریب خالی آسامیاں موجود ہیں جن کو پر نہ کرنے کی وجہ سے ایک مزدور چار سے پانچ آدمیوں کا کام کرتا ہے۔ جبکہ اس استحصال سے ہٹ کر ریلوے میں پی ایم سکیم اور دیگر کنٹریکٹ ملازمین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کی تنخواہیں پچھلے پانچ سے دس سال کے عرصے میں ایک روپیہ بھی نہیں بڑھی ہیں اور نہ ہی ان کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کے احکامات جاری ہوئے ہیں مگر اس سب کے باوجود ریلوے کے اندر موجود تمام تر تباہی اور خرابی کا ملبہ محنت کشوں کے اوپر ڈالا جاتا ہے جو کہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ ہم اس کے خلاف مزاحمت کرنے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تبدیلی سرکار نے اپنی الیکشن مہم میں ایک کروڑ روزگار دینے کے جھوٹے وعدے کیے تھے لیکن اس وقت ملک بھر کے اندر جبری برطرفیوں کا آغاز ہو چکا ہے جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
اس کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان کے صوبائی آرگنائزر کریم پرہار نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب سے پہلے ریلوے کے محنت کشوں کو ایک متفقہ اتحاد بنانے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے مشترکہ جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں کرونا وبا اور معاشی بحران کے باعث محنت کش طبقے کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اس ضمن میں عدالت عالیہ کی جانب سے ریلوے کے محنت کشوں کے حوالے سے متنازعہ ریمارکس انتہائی قابل مذمت ہیں اور ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ملک بھر کے اندر جتنے بھی ریاستی ادارے ہیں وہ مزدور دشمن پالیسیوں پر عالمی سامراجی ادارے کی ہدایات کے مطابق عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریلوے کی تباہی کو محنت کشوں کے اوپر ڈالنا ایک سفید جھوٹ ہے جب کہ اس جرم کے اصل مجرم یہاں کے حکمران اور ریلوے کی کرپٹ بیوروکریسی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اس اتحاد کو ریلوے سے باہر نکال کر بلوچستان اور ملک بھر کے محنت کشوں تک پھیلائیں کیونکہ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک بھر میں جبری برطرفیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس کا آغاز پاکستان سٹیل ملز کے 9,350 ملازمین کے جبری برخاستگی سے ہوا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں محنت کش طبقے کے اندر ارتعاش اور تحرک کا آغاز ہو چکا ہے اور یہ درحقیقت ایک طبقاتی جنگ کا اعلان ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اتحاد کو ملک بھر کے محنت کش طبقے کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جوڑنے کی جستجو کریں اور اسی طبقاتی جڑت کا اظہار ایک ملک گیر عام ہڑتال کی صورت میں سامنے آئے گا جو مزدور دشمن حکمرانوں کے دانت کھٹے کر دے گی۔ جلسے کے اختتام پر ریلوے گرینڈ مزدور محاذ کے رہنماؤں کی طرف سے محنت کشوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ ہم اپنی اس جدوجہد کو بلوچستان اور ملک بھر کے محنت کش طبقے کے ساتھ جوڑنے کے لئے رابطے اور مشاورت کر رہے ہیں تاکہ نااہل، کرپٹ، بے حس حکمرانوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے اس ظالمانہ جبر کے خلاف مزدور طبقے کی جدوجہد کو مشترکہ بنیادوں پر آگے بڑھایا جا سکے۔