|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ|
بلوچستان ایجوکیشنل ایمپلائز ایکشن کمیٹی میں شامل تنظیموں نے محکمہ تعلیم کو لازمی سروس قرار دینے کے خلاف 24دسمبر کو میٹرو پولیٹن کے سبزہ زار میں دوپہر کو احتجاجی جلسہ کیا جبکہ جلسے کے بعد صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا شروع کیا۔ احتجاجی دھرنے اور جلسے میں مظاہرین نے مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے۔ احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے BPLA کے صوبائی صدر پروفیسر آغا زاہد نے کہا کہ ہم صوبائی کابینہ کے فیصلے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر محکمے کے اصل اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے صوبائی حکومت بیورو کریسی کے مذکورہ ناقابل عمل اور بنیادی انسانی و آئینی حقوق سے متصادم ایکٹ واپس لینے کا اعلان کرے، ہم متحد ہیں ،ہمیشہ متحد رہیں گے اور اپنے انسانی و آئینی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔حکومتی فیصلے کے خلاف بلوچستان بھر میں تحریک شروع ہوچکی، اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں ہوئے تو تحریک کا دائرہ ملک بھر تک پھیلانے پر مجبور ہونگے۔ اس کے علاوہ بلوچستان ایجوکیشنل ایمپلائز ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں حاجی حبیب الرحمان مردانزئی، قاسم خان کاکڑ، محمد یونس کاکڑ، محمد خان نوشیروانی، عبدالہادی اچکزئی، در محمد لانگواور دیگر مقررین نے بھی احتجاجی جلسہ عام اور بعدازاں صوبائی اسمبلی کے باہر دیئے گئے احتجاجی دھرنے سے خطاب کیا۔
صوبائی اسمبلی کے باہر جاری احتجاج حکومتی و اپوزیشن اراکین اسمبلی کی مثبت یقین دہانی کے بعد ختم کیا گیا۔ میٹروپولیٹن سبزہ زار پر منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں تعلیمی شعبے کی بہتری اور مثبت و تعمیری اصلاحات کے لئے ایسوسی ایشنز نے ہمیشہ حکومت اور محکمے کے ساتھ تعاون کیا ہے وزیراعلیٰ میر جام کمال کی قیادت میں موجودہ حکومت سے ہمیں یہی توقع تھی کہ یہ حکومت اصلاحات کے سلسلے میں سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے لائحہ عمل بنائے گی مگر ہمیں یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی جب صوبائی کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں ایک ایسے ایکٹ کی منظوری دی گئی جو بظاہر تو تعلیمی ایکٹ کہلاتا ہے مگر اصل میں یہ ایکٹ تعلیم دشمن اورآئینی حقو ق سے متصادم ہے اس ایکٹ نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ حکومت بیورو کریسی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اصل مسائل سے آنکھیں چرارہی ہے۔
مقررین نے کہا کہ تعلیم کو لازمی سروس قرار دینے کا فیصلہ اور اس کی آڑ میں پرامن احتجاج پر قدغن اور قید وبند و جرمانوں کی سزاؤں کا اطلاق ملازمین سے ان کے بنیادی حقوق چھیننے کے مترادف ہے جس کے خلاف تمام تنظیموں نے مشترکہ جدوجہدشروع کردی ہے اور اس سلسلے میں نہ صرف پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری ہے بلکہ بلوچستا ن کی سیاسی جماعتوں ، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کی جارہی ہیں انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں تعلیم کا شعبہ اصلاحات چاہتا ہے مگر اصلاحات کی آڑ میں ہمارے بنیادی حقوق پرکوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ متنازعہ ایکٹ کے خلاف ہمارا پرامن اور جمہوری احتجاج جاری رہے گا اس موقع پر صوبائی اسمبلی کے ایوان سے سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم خان رئیسانی، اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی، صوبائی مشیر تعلیم محمد خان لہڑی، قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ اور ملک نصیر شاہوانی پر مشتمل کمیٹی نے آکر ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کئے اور انہیں مثبت یقین دہانی کرائی کہ تشکیل کردہ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں ایکشن کمیٹی کے نمائندے بھی شریک ہوں گے اور مسئلے کا حل نکالا جائے گا جس کے بعدمظاہرین اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے پرامن طورپر منتشر ہوگئے۔ دریں اثناء بلوچستان ایجوکیشنل ایمپلائز ایکشن کمیٹی کے جاری کردہ بیان کے مطابق ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں اور حکومتی و اپوزیشن اراکین پر مشتمل کمیٹی نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ کابینہ سے پاس ہونے والا ایکٹ موجودہ صورت میں ایوان میں نہیں لایا جائے گا بلکہ اس حوالے سے اصلاحات کے بعد مشاورتی عمل سے چیزوں کو بہتر بنایا جائے گا جس کے لئے دونوں جانب سے تعاون کیا جائے گا۔
ریڈورکرزفرنٹ بلوچستان ایجوکیشنل ایمپلائز ایکشن کمیٹی کے تمام مطالبات کی بھرپور حمایت کرتا ہے، اور مذکورہ ایکشن کمیٹی کے مطالبات کیساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہیگا۔ واضح رہے کہ احتجاجی جلسے اور دھرنے میں محکمہ تعلیم کے تمام محنت کشوں کا اتحاد اور اتفاق قابل تحسین ہے جنہوں نے اپنے جمہوری اور معاشی حقوق پر قدغن لگانے کیخلاف کامیاب مزاحمت کی۔ اور اسکے ساتھ ساتھ یہ اتحاد اگر صوبے کے دیگر محنت کشوں تک پھیلایا جائے تو یہ مزید طاقتور ثابت ہوگا۔