|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کوئٹہ|
گذشتہ روزپی پی ایچ آئی کے ملازمین نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ احتجاجی مظاہرے میں سینکڑوں ملازمین نے شرکت کی۔ اس احتجاجی مظاہرے کا آغاز مظاہرین نے اپنے دفتر سے کیا۔ یہ احتجاجی ریلی کوئٹہ کی مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے کوئٹہ پریس کلب تک پہنچی۔ یہ احتجاجی ریلی پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی جلسے میں تبدیل ہوگئی۔ اس احتجاجی ریلی اور جلسے میں مظاہرین نے مختلف پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے تھے،جن پر اْن کے مطالبات کے حق میں اور نااہل حکمرانوں اور عدلیہ کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین نے اپنے مطالبات کے حق میں اور نااہل حکمرانوں اور نااہل عدلیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
واضح رہے کہ ان ملازمین کے مطالبات میں برطرف ملازمین کی بحالی اور کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی کے اہم اور بنیادی مطالبات شامل ہیں۔ احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی پی ایچ آئی کے ملازمین کا کہنا تھا کہ گزشتہ دس مہینوں سے ہمارا کیس ہائی کورٹ میں چل رہا ہے،اور ساتھ ہی ساتھ ضلعی لیول پر ہمارا احتجاج بھی ریکارڈ ہورہا ہے، مگر کوئی ہمارے احتجاج اور دیگر مسائل پر کان نہیں دھرتا۔ انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ 2017ء میں پی پی ایچ آئی کے حکام بالا نے محکمہ صحت کو ایک سمری ارسال کی جس میں ہمارے ملازمین کی مستقلی کے حوالے سے ذکر موجود تھا۔ مگر محکمہ صحت کے حکام نے اس سمری کو مسترد کرتے ہوئے ہمارے 150 ملازمین کو نکال دیا اور مزید 950 ملازمین کی برطرفی کا بھی سمری تیار کیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے این سی ایچ ڈی اور ایل ایچ ڈبلیو کے ہزاروں ملازمین کو مستقل کیا، مگر ہمارے ساتھ محکمہ صحت کا رویہ سمجھ سے بالا تر ہے۔
انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ صحت کے اس ناروا سلوک کے ساتھ ساتھ پی پی ایچ آئی کے حکام بالا بھی ہمارے ملازمین کی جبری برخاستگی کے حوالے سے سمری تیار کرچکے ہیں کہ ہم ان ملازمین کے خرچے برداشت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم پی پی ایچ آئی کے حکام بالا سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ محکمے کی اخراجات کو کم کرنے کے لیے ڈی ایس یو میں ریفارمز لائیں۔ جس میں باہر سے ڈی ایس ایم کو ڈائریکٹ نہ لیں،بلکہ جو ملازمین پی پی ایچ آئی کے اندر کام کر رہے ہیں اور پی پی ایچ آئی سے تنخواہیں لے رہے ہیں ان کو سینیارٹی کے بنیاد پر ترقی دے کر ان عہدوں پر تعینات کیا جائے۔
اس کے بعد پی پی ایچ آئی کے ملازمین کا پرامن احتجاجی جلسہ اختتام کو پہنچا، اور چار بجے کو پی پی ایچ آئی کے ملازمین نے پریس کانفرنس بھی کی،جس میں انہوں نے اپنے مطالبات جو کہ انہوں نے احتجاجی جلسے میں سب کے سامنے رکھے تھے انہی کا اعادہ کیا۔
ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کی طرف سے پی پی ایچ آئی کے ملازمین کے تمام مطالبات کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں،اور نااہل حکمرانوں سے پر زور الفاظ میں اپیل کرتے ہیں کہ پی پی ایچ آئی کے ملازمین کے مطالبات کو فی الفور تسلیم کیا جائے۔ برطرف 150 ملازمین کو فوری بحال اور کنٹریکٹ ملازمین کی مستقل کیا جائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے اندر مختلف شعبوں کے ملازمین کے ساتھ نااہل حکمرانوں کی طرف سے جو سلوک روا رکھا گیا ہے، ہم ان کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور پاکستان بالخصوص بلوچستان کے تمام محنت کشوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے محنت کشوں نے حتمی طور پر عام ہڑتال کی طرف جانا ہوگا، اس کے بغیر محنت کشوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ کیوں کہ پچھلے دو سال سے ہم بلوچستان کے اندر محنت کشوں کے احتجاجی تحریکوں اور احتجاجی مظاہروں کو دیکھتے ہیں،جس میں حکمرانوں کی طرف سے مختلف لوگوں کو مسیحا بنا کر ان کے پاس بھیج دیا جاتا ہے جوکہ محنت کشوں کو فریب اور دھوکے میں رکھ کر وقتی طور پر انکے احتجاجوں کو ختم کراتے ہیں اور بعد میں یہی محنت کش ان حکمرانوں،بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے چکر کاٹ کاٹ کر مایوسی کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔ جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
مگر محنت کشوں کے آپس میں جڑت ان نااہل حکمرانوں بیوروکریٹوں اور عدلیہ کے اندر بیٹھے ہوئے اس غلیظ نظام کے دلالوں کو اپنی طاقت کا اندازہ کرواسکتے ہیں۔ اور محنت کشوں کی طاقت کا اندازہ صوبے کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے اندر ایک عام ہڑتال کی صورت میں دیا جا سکتا ہے۔ تب جاکر ان نااہل حکمرانوں کے ایوان لرز اٹھیں گے اور محنت کشوں کو یہاں پر سب سے اہم حصہ دار کی شکل میں دیکھیں گے۔