کوئٹہ: ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

رپورٹ: |کریم پرھر|
پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) کے زیر اہتمام 30جولائی بروز ہفتہ ایک روزہ مارکسی سکول منعقد کیا گیا۔ سکول میں کل اٹھارہ نوجوانوں نے شرکت کی۔ سکول دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن ’’ عالمی اور پاکستان تناظر ‘‘ تھا جس کو سجاد نے چئیر کیا۔ دوسرے سیشن کا موضوع ’’ثور انقلاب اور آج کا افغانستان‘‘ تھا جسے جنید بلوچ نے چئیر کیا۔
One Day Marxist School - Quetta (13)پہلے سیشن پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کریم پرھر نے عالمی معاشی اور سیاسی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ عالمی معیشت 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد سے آج تک نکل نہیں پائی بلکہ یہ بحران دن بدن گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے بلکہ بورژوا معیشت دان خود ایک نئے عالمی بحران کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ عالمی منڈی گراوٹ کا شکار ہے اور عالمی سرمایہ داری پیداواری قوتوں کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہے۔ اس بحران کی وجہ سے عالمی سیاسی منظر نامہ بھی بدل گیا ہے۔ ایک عرصے سے حکمرانی کرتی چلی آرہی سیاسی جماعتیں ٹوٹ کر بکھر رہی ہیں اور نئی سیاسی پارٹیاں عالمی منظر نامے پر ابھر رہی ہیں۔ امریکی سامراج اپنے اندرانی تضادات کی وجہ سے شکست خوردہ نظر آرہا ہے۔ تمام عالمی سامراجی قوتیں مل کر بھی شام میں جاری خانی جنگی کا خاتمہ نہیں کر سکیں بلکہ اس خونی جنگ کے شعلے اب یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ پوری دنیا میں محنت کش طبقہ اپنے حقوق کی لڑائی کے لئے متحرک ہے۔ بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے بلاول بلوچ، چنگیز بلوچ اور شمروز موسیٰ خیل نے عالمی اور پاکستان کی صورتحال کے مختلف پہلوؤں خصوصاً جمود کے عہد کے خاتمے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سیشن کے آخر میں کریم نے سوالات کی روشنی میں بحث کو سمیٹا۔

One Day Marxist School - Quetta (4)دوسرے سیشن پر بحث کا آغاز ولی خان نے کیا۔ ولی خان نے افغانستان کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے امان اللہ خان کے دور سے لے کر 1978ء میں ہونے والے ثور انقلاب، اس انقلاب کے خطے پر اثرات اور انقلاب کی ردانقلابی قوتوں کے ہاتھوں شکست پر تفصیل سے بات رکھی۔ انقلاب کے بعد خلق پارٹی کی قیادت میں بننے والی حکومت نے خطے کے عوام کی خوشحالی اور معیار زندگی بلند کرنے کے لئے انقلابی اقدامات اٹھائے۔ بے زمین کسانوں کو قرض اور سود کی دلدل سے نکالا۔ نئے تعلیمی اداروں کا قیام عمل مین لایا گیا۔ بڑے بڑے جاگیرداروں سے زمینیں چھین کرکسانوں میں تقسیم کی گئیں۔ عورتوں کو پسماندہ روایات کی جکڑبندیوں سے آزاد کیا اور زندگی کے تمام شعبوں میں عورتوں کی شمولیت کے لئے اقدامات کئے گئے۔ مگر امریکی سامراج نے نوزائیدہ انقلابی حکومت کے خلاف پاکستانی ریاست کی مدد سے ردانقلابی قوتوں کو پروان چڑھایا اور ڈالر جہاد کا آغاز کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ولی نے انقلاب کو ناکام بنانے کے لئے سوویت بیوروکریسی کے ردانقلابی کردار پر بھی تفصیل سے بات کی۔ بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے بلاول بلوچ، سجاد خان اور غلام محمدنے ثور انقلاب کے خطے پر اثرات اور آج افغانستان کی حالت زار پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد سوالات کی روشنی میں ولی خان نے بحث کو سمیٹا اور کہا کہ اس نظام میں افغانستان کے مسائل کا حل ممکن نہیں۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کی ایک انقلابی تحریک ہی اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے افغانستان سمیت اس پورے خطے کو اس بربریت سے نکال سکتی ہے۔
آخر میں انٹر نیشنل گا کر سکول کا اختتام کیا گیا۔





Comments are closed.