|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ|
ہزارہ قوم کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف علمدار روڈ کوئٹہ میں جاری دھرنا اختتام پذیر ہوگیا۔ یہ دھرنا مسلسل آٹھ روز تک کامیابی کیساتھ جاری رہا جس میں صوبہ بھر کے سیاسی و سماجی کارکنوں اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔ خاص طور پر رکشہ اور ٹیکسی ڈارئیوروں کی ایک بڑی تعداد اس دھرنے میں شریک تھی۔ کوئٹہ کے مصروف ترین کاروباری مرکز قندھاری بازار میں دن دیہاڑے ہزارہ قوم سے تعلق رکھنے والے ٹیکسی ڈرائیورز کے بہیمانہ قتل عام کے بعد اس دھرنے کا آغاز ہوا۔ قتل کے واقعے کے بعد نامعلوم موٹرسائیکل سواروں کیخلاف تھانہ سٹی میں مقدمہ درج کیا گیا جوکہ اب ایک معمول بن چکا ہے۔ نامعلوم افراد کون ہیں، اس کا جواب ہم دھرنے کے اندر شریک شرکا کی تقریروں اور نعروں سے واضح ہوچکا ہے کہ یہ نامعلوم افراد کون ہیں۔ اس احتجاجی دھرنے سے اظہار یکجہتی کے لیے پروگریسیو یوتھ الائنس کے کارکنان مسلسل اور روزانہ کی بنیاد پر دھرنے میں مختلف وفود کیساتھ شریک رہے اور دھرنے کے اندر ریاست کے اس گھناؤنے عمل کو سب شرکاء کے سامنے انتہائی شاندار طریقے سے پیش کیا۔ پروگریسیو یوتھ الائنس کے کارکنان نے احتجاجی دھرنے میں ہزارہ قوم کیساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہمیشہ ہزارہ قوم کے دکھ درد کو اپنا سمجھتے ہیں اور اس دکھ کی گھڑی میں ہم کبھی ان کو نہ اکیلے چھوڑینگے اور نہ ہی ہزارہ قوم خود کو اکیلا سمجھے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہزارہ قوم کی مسلسل اور منصوبہ بند قتل عام کے پیچھے ریاست کے کونسے عزائم کارفرما ہیں۔ ہزارہ قوم کو گزشتہ 15 سالوں سے ایک سوچھی سمجھی سازش کے تحت پورے بلوچستان اور بالخصوص کوئٹہ شہر سے کاٹ کر ایک جیل میں بند کیا گیا ہے تاکہ اس قوم کے ساتھ جو ظلم ہو رہاہے اسکے خلاف کوئی دوسری قوم نہ آواز اٹھاسکے اور نہ ہی انکے دکھ درد میں شریک ہو سکے۔ ہزارہ قوم کا قتل عام اس ریاست کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ریاست خوف کی فضا کوبرقرار رکھنے کے لیے اس شرمناک عمل سے باز نہیں آتی جبکہ خوف کی فضا ختم ہونے کوجارہی ہے۔ پروگریسیویوتھ الائنس کے نمائندوں نے اپنے تقریروں میں باربار یہ واضح کیا کہ ہزارہ قوم ریاست کی اس دانستہ کاٹنے والے عمل کیخلاف خود کو صوبے کے دیگر مظلوم عوام سے جوڑنے کے لیے ریاستی زندان کو توڑنے کے لیے آگے بڑھے۔ اس احتجاجی دھرنے کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں شریک افراد کا تعلق کسی بھی سیاسی یا مذہبی پارٹی سے تعلق نہیں تھا اور نہ ہی ہزارہ روایتی سیاسی یا مذہبی پارٹیوں نے اس احتجاجی دھرنے میں نہ شرکت کی اور اس کو اپنانے سے کترارہے تھے۔ اس دھرنے کے اندر سب شرکاء اپنی تقریروں اور نعروں کے ذریعے ان روایتی پارٹیوں کو مکمل طور پر مسترد کرچکے تھے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہزارہ قوم کی ٹارگٹ کلنگ ایک سامراجی منصوبہ ہے جوکہ اب ایکسپوز ہوچکا ہے۔ مگرساتھ ہی ساتھ ان سیاسی اور مذہبی قوتوں کوبھی ایکسپوز کرنے کا وقت اب آگیا جوکہ ان ریاستی مظالم پر اپنی سیاسی اور مذہبی دکانیں چمکاتے ہیں۔ کیونکہ یہی زوال پذیرسیاسی پارٹیاں ہزارہ قوم کے قتلِ عام پر سیاست کرکے ان کو بیچنے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ اس احتجاجی دھرنے نے جہاں پرانی نام نہاد روایتوں کو للکار کے مسترد کردیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف ہزار قوم کے اندر ریاستی جبر اور اس کے خلاف احتجاج کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز کیا۔ کیونکہ اس دھرنے سے پہلے بہت سارے دھرنے ہوئے ہیں مگر وہ مختلف روایتی سیاسی یا مذہبی پارٹیوں کے دکانداری کے نذر ہوجاتے تھے۔ مگر اب کی بار اس دھرنے نے ہزارہ قوم کو ان ریاستی دلالوں کی زنجیروں سے نہ صرف چھٹکارا دلایا ہے بلکہ بلوچستان کے اندر دوسری مظلوم قومیتوں کیساتھ ریاستی جبر کے خلاف ایک متفقہ لائحہ عمل بھی سامنے لے آیا۔ اور اس دھرنے کے پیغام کوصوبے اور پورے ملک کے دیگر حصوں تک پہنچایا کہ ہم فرقہ واریت پر کسی بھی قسم کا یقین نہیں رکھتے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس دھرنے کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہونے جارہا ہے اور ہزارہ قوم کو خطے کی دیگر قومیتوں سے کاٹنے کے سامراجی عمل کو لوگ اب جان چکے ہیں اور ان سب بزدلانہ کاروائیوں کے پیچھے کون ہے یہ اب بچہ بچہ جانتا ہے۔ اس ظلم اور جبر کیخلاف ہزارہ قوم کی لڑائی کو صوبے اور ملک کے دیگر مظلوموں کیساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ یہی آگے بڑھنے کا رستہ ہے۔