کوئٹہ: گرینڈ ہیلتھ الائنس کا نجکاری مخالف کانفرنس کا انعقاد، نجکاری کے خلاف جنگ مگر کیسے؟

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، کوئٹہ|

بلوچستان میں ہسپتالوں کی مجوزہ نجکاری کے خلاف پچھلے دو مہینوں سے گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جانب سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران یکم جنوری 2025ء کو پی جی ایم آئی ہال سول ہسپتال میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں بلوچستان بھر سے درجن سے زیادہ سیاسی پارٹیوں نے شرکت کی جس میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھیوں نے بھی بھرپور شرکت کی۔ اس کے علاوہ مذکورہ آل پارٹیز کانفرنس میں سیاسی پارٹیوں کی شرکت کے ساتھ ساتھ گرینڈ ہیلتھ الائنس میں شامل تمام 16 تنظیموں کے نمائندے موجود تھے جنہوں نے اس پوری کانفرنس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

کانفرنس کے دوران تمام شرکاء کو 40 نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا گیا۔ جس میں نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو مکمل طور پر مسترد کرنے، کنٹریکٹ اور ایڈہاک بیسڈ ریکروٹمنٹ کو مسترد کرنے، صوبے بھر کے تمام ہسپتالوں کو ضروری آلات اور دوائیوں کی مفت فراہمی سمیت دیگر اہم نکات شامل تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے صوبے میں محکمہ صحت کی زبوں حالی کے حوالے سے چند اہم شواہد پیش کیے۔

اس وقت پورے بلوچستان میں تین ہزار نو سو پچانوے ڈاکٹرز ہیں، یعنی تین ہزار ستاسی افراد کے لیے ایک ڈاکٹر ہے۔ جبکہ اس حوالے سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کرائٹیریا ایک ہزار افراد پر ایک ڈاکٹر ہے۔ اس کے علاوہ پورے صوبے میں ایک ہزار ایک سو سترہ نرسز ہیں، جس کا تناسب آبادی کے حساب سے گیارہ ہزار گیارہ افراد کے لیے ایک نرس بنتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے صوبے میں بانوے فارماسسٹ ہسپتالوں میں موجود ہوتے ہیں جبکہ پیرامیڈکس سٹاف کی تعداد چھبیس ہزار ہے۔ دوسری جانب چار ہزار ڈاکٹرز اور تین ہزار نرسز بے روزگار ہیں جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں فارماسسٹ بے روزگاری کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔

اس وقت صوبے کے سب سے بڑے یعنی سول ہسپتال کا میڈیسن بجٹ 28 کروڑ روپے ہے جو کہ سول ہسپتال میں گزشتہ سال کے اِن ڈور اور آؤٹ ڈور مریضوں کی تعداد کے حساب سے ایک مریض پر سالانہ 215 روپے بنتے ہیں۔

بریفنگ کے دوران ایک اور اہم مثال دی گئی کہ اس وقت سول ہسپتال میں بیڈز کے تین وارڈز ہیں جس میں ایک وارڈ CLF (Child Life Foundation) کو دیا گیا ہے جو کہ 20 بیڈز پر مشتمل ہے، جن کا سالانہ بجٹ 19 کروڑ روپے ہے اور 6 سے 8 ڈاکٹرز وہاں پر موجود ہوتے ہیں اور کراچی سے مذکورہ بالا فاؤنڈیشن کے ڈاکٹرز ویڈیو لنکس کے ذریعے یہاں پر موجود ڈاکٹرز کو مریضوں کے علاج کے سلسلے میں ہدایات دیتے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب بیڈز کے دو اہم وارڈز دتو اور ڈاکٹر مبین کے نام سے مشہور ہیں۔ 120 بیڈز پر مشتمل یہ دو وارڈز ہیں جن کو سالانہ بجٹ محض 92 لاکھ روپے ملتا ہے اور یہاں پر محض 75 کے لگ بھگ ڈاکٹرز اپنی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔

پیتھالوجی ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ مذکورہ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ نے گورنمنٹ سے سالانہ محض 17 کروڑ روپے کے بجٹ کی مانگ کی تھی اور انہوں نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ ہم آغا خان ہسپتال کی طرح پروٹوکول کی بنیاد پر ٹیسٹ کریں گے مگر اسی ڈیپارٹمنٹ کو حکمرانوں نے اپنی ملی بھگت سے 45 کروڑ میں انڈس ہسپتال کو بیچنے کا ایگریمنٹ کیا ہے۔

ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ نے حکومت سے محض 10 کروڑ روپے کے عوض 24 گھنٹوں کی بنیاد پر مریضوں کو سہولیات دینے کا کہا جبکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے اسی شعبے کو 33 کروڑ روپے سالانہ کے عوض بیچنے کا ایگریمنٹ ہونے جا رہا ہے۔

کانفرنس کی صدارت گرینڈ ہیلتھ الائنس کے چیئرمین ڈاکٹر بہار شاہ نے کی، جبکہ کانفرنس کا آغاز ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر ڈاکٹر کلیم اللہ کاکڑ نے تفصیلی بریفنگ کے ساتھ کیا۔ جس میں انہوں نے سب سے پہلے نجکاری مخالف گرینڈ ہیلتھ الائنس کی تعمیر کے ساتھ ساتھ گزشتہ دو مہینوں میں کی گئی جدوجہد کے دوران مختلف مراحل پر تفصیل سے روشنی ڈالی جبکہ بریفنگ کے دوسرے سیشن میں انہوں نے بلوچستان بھر کے شعبہئ صحت بالخصوص ہسپتالوں کی مجوزہ نجکاری اور صوبے بھر کے تمام تر ہسپتالوں کی عمومی صورتحال پر مفصل رپورٹ پیش کی۔ اس کے بعد سیشن کے فلور کو سیاسی پارٹیوں کی نمائندوں کے لیے اوپن کیا گیا۔

سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان نے اپنی اپنی پارٹی کا مؤقف پیش کیا جس میں سب پارٹیوں نے گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جانب سے جاری جدوجہد میں ان کا ساتھ دینے اور ان کے مطالبات کی حمایت کی۔ مگر چند پارٹی نمائندگان نے محکمہ صحت میں کام کرنے والے تمام ملازمین بالخصوص ڈاکٹرز کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا جس میں بلوچستان کے دور دراز مضافاتی اضلاع میں ڈاکٹرز کی عدم موجودگی اور ڈیوٹی نہ دینے پر ڈاکٹرز کمیونٹی پر سوالات کیے گئے، کہ ایک طرف ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں دوسری جانب ہم ڈاکٹرز حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ آپ لوگ بھی اپنے فرائض سر انجام دینے میں مخلص ہوں۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی نے مذکورہ کانفرنس میں اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے ہم گرینڈ ہیلتھ الائنس کی مجموعی اور گرینڈ ہیلتھ الائنس میں شامل تنظیموں کی انفرادی طور پر جدوجہد جو کہ پچھلے نو سالوں سے جاری ہے ان کو سراہتے ہیں۔ بالخصوص نجکاری کے خلاف محکمہ صحت میں کام کرنے والی تمام تنظیموں کی جانب سے گرینڈ ہیلتھ الائنس کی تعمیر ایک شاندار اور آگے کا قدم ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے انقلابی کمیونسٹ پارٹی نے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ گرینڈ ہیلتھ الائنس کی یہ اچھی کاوش ہے کہ انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا تاکہ وہ اپنا مدعا ان تمام سیاسی پارٹیوں کے سامنے پیش کر سکیں، مگر ساتھ ہی ساتھ قابلِ افسوس مقام یہ بھی ہے کہ اس کانفرنس میں شامل تمام سیاسی پارٹیاں نجکاری کی مجوزہ پالیسی کو سمجھنے سے قاصر ہیں کیونکہ نجکاری کی تمام تر پالیسیاں عالمی مالیاتی سامراجی ادارے یعنی آئی ایم ایف کے احکامات کی تعمیل میں نافذ کی جا رہی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی اکثریت آئی ایم ایف کے احکامات کی مکمل حمایت میں ہے، اگر کوئی ایک پارٹی، ناممکنہ طور پر، آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی مخالفت میں ہے بھی تو اس کے پاس کوئی متبادل پروگرام نہیں۔ کیونکہ اس وقت ملک بھر میں جاری مزدور دشمن پالیسیوں میں یہ تمام سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی صورت میں شامل ہیں اور بالخصوص اگر پچھلی ایک دہائی سے ہم پاکستان بھر میں محنت کش طبقے پر حکمرانوں کی جانب سے کیے گئے حملوں کا ذکر کریں تو اس ہال میں موجود تمام تر سیاسی پارٹیوں نے ان پالیسیوں کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ انہوں نے مکمل طور پر حکمران طبقے کا ساتھ بھی دیا ہے۔ لہٰذا یہ تمام سیاسی پارٹیاں محض اپنی پولیٹیکل سکورنگ بڑھانے کے لیے ہمیشہ محنت کشوں کے اوپر ہونے والے حملوں پر برائے نام لب کشائی کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے نجکاری کے خلاف جاری جدوجہد میں بیوروکریسی اور بالخصوص عدلیہ کے گھناؤنے کردار کی شدید مذمت کی گئی اور وضاحت کی گئی کہ بیورو کریسی عدلیہ اور فوجی و سول اشرافیہ اس وقت ملک کے ایک ایک عوامی ادارے کو بیچنے پر تلے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اس وقت بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں نجکاری مخالف عوامی تحریکیں پنپ رہی ہیں۔ لہٰذا ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ نجکاری کے خلاف بلوچستان کی سطح پر کم از کم اس گرینڈ ہیلتھ الائنس کے مذکورہ ڈھانچے کو وسیع کیا جائے اور جو ادارے اس وقت نجکاری کے نشانے پر ہیں، ان اداروں کے تمام تر محنت کشوں کو اپنے ساتھ آن بورڈ لیا جائے، اس کے علاوہ پنشن کے خاتمے، کنٹریکٹ کی بنیاد پر ریکروٹمنٹ، آؤٹ سورسنگ، جمہوری حقوق پر پابندیوں اور محنت کش طبقے کے دیگر مسائل کی بنیاد پر بلوچستان بھر کے محنت کشوں اور ملازمین کے حقیقی نمائندگان کو دعوت دیتے ہوئے ”آل ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز کانفرنس“ بلائی جائے جس میں صوبے کی سطح پر ایک نمائندہ الائنس تشکیل دیتے ہوئے حکمران طبقے کے ممکنہ اور مجوزہ حملوں کو روکا جا سکتا ہے۔ حکمران طبقے کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے کم از کم بلوچستان کی سطح پر عام ہڑتال کی کمپیئن کی جائے تاکہ حکمران طبقے کو یہ پتہ چلے کہ یہاں پر سماج کو چلانے والے اور حقیقی طاقت کا سرچشمہ کون ہیں۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کارکن نے گرینڈ ہیلتھ الائنس کی صوبے بھر کے ہسپتالوں کی نیم خود مختار حیثیت کی تجویز کو مزید آگے لے جاتے ہوئے یہ کہا کہ ہسپتالوں کو گرینڈ ہیلتھ الائنس میں شامل محکمہ صحت کے عوامی اداروں کی تنظیموں کے تمام محنت کشوں اور ملازمین کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے، تاکہ حکمران طبقے، بیوروکریسی، عدلیہ اور فوجی اشرافیہ کو یہ دکھایا جا سکے کہ ان عوامی اداروں کو چلانے والے اس ادارے کے محنت کش ہی ہیں اور وہی ان اداروں کو بہتر طور پر چلا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرینڈ ہیلتھ الائنس کو چاہیے کہ وہ پاکستان بھر میں نجکاری مخالف چلنے والی تحریکوں کے ساتھ بھی روابط بنائیں تاکہ نجکاری کے خلاف تحریک کو ملک گیر سطح پر جوڑا جا سکے۔

کانفرنس کے آخر میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کے چیئرمین ڈاکٹر بہار شاہ نے تمام پارٹیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے باقاعدہ اعلان کیا کہ ہم اس آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ شائع کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی تحریک کو مزید مضبوط کرنے کے لیے صوبے بھر کے دیگر سٹیک ہولڈرز سے روابط بنائیں گے اور محکمہ صحت کو نجکاری سے بچانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔

Comments are closed.