کوئٹہ: مظلوم عوام اور دہشت گردی کا عفریت

 

|تحریر: زلمی پاسون|

ایک طرف جہاں مہنگائی، بیروزگاری، بھوک اور بیماری عوام کو موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے وہیں پر دہشت گردی اور بم دھماکوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور حکمرانوں کی ناکامہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔17 فروری 2019 ء کو کوئٹہ شہر میں ہونے والے خود کش دھماکے کے نتیجے میں ہسپتال ذرائع کے مطابق اب تک 23 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جب کہ 35 کے قریب زخمی ہیں۔ کوئٹہ شہر میں ہونے والا یہ دھماکا اپنی نوعیت کا پہلا دھماکا نہیں ہے بلکہ ان دھماکوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے جس میں روزانہ کی بنیاد پر مظلوم محنت کش عوام اس ظلم و بربریت اور دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ رواں سال کے پہلے مہینے میں دس جنوری کو کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن کی مسجد میں خود کش دھماکے کے نتیجے میں 15 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ مگر ہمیشہ کی طرح حکومتی سطح پر ان دھماکوں کی صرف اور صرف مذمت دیکھنے کو ملتی ہے، اس سے بڑھ کر اور کوئی اقدامات آج تک دیکھنے کو نہیں ملے ہیں۔ کوئٹہ شہر کے اندر سکیورٹی فورسز بشمول فرنٹیئرکور کی چیک پوسٹوں کی بھرمار ہے اور اس کے باوجود ایک درمیانے حجم کے شہر میں اتنے بڑے بڑے دھماکوں کا ہونا نہ صرف حکومتی نااہلی کا ثبوت ہے بلکہ سکیورٹی فورسز کی مجرمانہ غفلت اور مکمل ناکامی کی بھی واضح علامت ہے۔ دھماکے کے بعد یا اس طرح کے ہر واقعے کے بعد اس ملک کے تمام سیاسی رہنماؤں، فوج کے جرنیلوں اور نام نہاد دانشوروں کے رٹے رٹائے بیانات سننے میں آتے ہیں۔ اور زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی طرف سے کوئٹہ دھماکے کے حوالے سے جو رپورٹنگ سامنے آئی ہے وہ ہمیشہ کی طرح انتہائی جانبدار اور حقائق کے منافی ہے۔ صوبائی سیول سنڈیمن ہسپتال کے ٹراما سنٹر سے بائیس افراد کے موقع پر جاں بحق ہونے کی اطلاعات تھیں مگر ملک بھر کے تمام الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں صرف آٹھ افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات گردش میں تھیں۔ ماضی کی طرح اس دھماکے کے بعد بھی معمول کے مطابق یہ کہا جائیگا کہ سیکیورٹی کافی نہیں تھی۔ سیکیورٹی فورسز نے ملک سے دہشت گردی کی اس لعنت کو ختم کرنے کا عزم کر رکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تاہم،ان تمام دعوؤں اور سطحی کوششوں کے باوجود، دہشت گردی باقاعدگی سے اپنا سر اٹھاتی ہے اور ان سارے کھوکھلے نعروں کو بار بار بکھیر دیتی ہے۔ جنوری2016ء میں باچا خان یونیورسٹی میں جب دہشت گرد صبح سویرے کیمپس میں داخل ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ سیکیورٹی ایجنسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ لیکن فوج کے ترجمان نے اس وقت یہ جواب دیا تھا کہ دنیا بھر میں پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیاں بہترین ہیں اور ناکام نہیں ہوسکتی۔کیونکہ دہشت گرد صبح سویرے شدید دھند کی موجودگی کیوجہ سے یونیورسٹی میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن اگر دھند نہ ہوتی تو وہ ہمارے ہاتھوں سے بچ نہیں سکتے تھے!

جس طرح مارکس نے کہا تھا کہ سرمایہ جس وقت اس کرہ ارض پر نمودار ہوا تو اس کے ہر ایک مسام سے انسانی خون ٹپک رہا تھا۔ اورآج یہ بات پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان جیسے ملک پربھر پور طریقے سے لاگو ہوتی ہے۔ 2003ء میں پاکستان میں دہشت گردی سے ہونے والی سالانہ اموات 164 تھیں جو 2009ء میں 3318 تک جا پہنچیں۔ پاکستان کے وہ علاقے جہاں دہشت گردی کے زیادہ واقعات ہوئے ہیں ان میں کراچی، بلوچستان،سابقہ فاٹا اور خیبرپختونخواشامل ہیں۔ لیکن ملک کا ہرحصہ ہی متاثر ہوا ہے۔2001ء سے 2011ء کے درمیان کل 35,000 ہزار شہری مارے گئے۔ حکومت پاکستان کے مطابق دہشت گردی کے نتیجے میں ملکی معیشت کو لگ بھگ 68 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔دہشت گردی سے سماج کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ مظلوم محنت کش عوام ہیں جو کہ عالمی،علاقائی اور ریاستی آشیرباد کیساتھ ہونے والی اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دہشت گردی سے متاثر ہونے والے خطوں کے مظلوم عوام اس وقت پورے ملک کے اندر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اس کی واضح مثال سابقہ فاٹا کے وہ دربدر مظلوم عوام ہیں جوکہ 2004ء سے لے کر آج تک جینے کے لئے بنیادی ترین انفراسٹرکچر سے بھی محروم ہیں۔ اس وقت خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں سابقہ فاٹا سے آئے ہوئے آئی ڈی پیز انتہائی غیرانسانی حالات میں پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں جہاں دہشت گردی ہوئی ہے وہاں لوگوں کے مسائل میں ہر حوالے سے خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
اگر دہشت گردی کی وجوہات کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کی تاریخ کافی لمبی ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ حتمی تجزئیے میں دہشت گردی کی سرپرستی سرمایہ دارانہ نظام کے سرمایہ دار حکمران طبقات اور ریاستی اشرافیہ کی جانب سے ہی کی جاتی ہے۔ اور دنیا بھر میں جو بھی دہشت گردی ہورہی ہے اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں اس ظالم نظام کے حکمران طبقے کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ لبرل پروپیگنڈا ہے کہ سماج کے محنت کش عوام میں دہشت گردی (انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت) کی جڑیں موجود ہوتی ہے جو کہ سراسر جھوٹ اور حقائق کے منافی ہے۔ دہشت گردی کی تمام اقسام کے ساتھ حکمران طبقات اور ریاستی اشرافیہ کے مالی،سماجی و سیاسی مفادات جڑے ہوتے ہیں۔ جن کا بالواسطہ مطلب یہی ہوتا ہے کہ محنت کش عوام کو دہشت اور وحشت میں ڈبوتے ہوئے ان کے جائز حقوق پر کس طرح غاصبانہ قبضہ برقرار رکھا جائے۔ اور محنت کش عوام کے اندر اپنے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے کی جو چنگاری ہوتی ہے،اسے کیسے بجھایا جائے۔
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کے تمام تر نظریات افکار اور غلیظ پروپیگنڈے کا بھی بھانڈا پھوٹ رہا ہے۔ خاص طور پر عوام میں مذہبی بنیاد پرستی اور فرقہ واریت کی موجودگی کے حوالے سے سرمایہ دارانہ نظام کے دلالوں کے تمام تر پروپیگنڈے کا انہدام ہمیں مشرقِ وسطیٰ بالخصوص (لبنان، عراق اور ایران) کے اندر ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں پر 2019ء میں محنت کش عوام کی زبردست احتجاجی تحریکیں اُٹھیں اور ان تحریکوں نے حکمران طبقات کی طرف سے سماج پر مسلط کئے گئے تعصبات کو پاش پاش کرتے ہوئے محنت کش عوام کی طبقاتی جڑت کا کھل کر اظہار کیا۔
اس کے علاوہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے دو اہم پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط بھی ہیں۔ ایک طرف طالبان کی شکل میں دہشت گردی ہے جبکہ دوسری طرف فرقہ واریت کی شکل میں دہشت گردی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا کہ دہشت گردی کے ہر قسم اور ہر عمل کو امریکہ،برطانیہ جیسے عالمی اور سعودی عرب،انڈیا،ایران جیسے علاقائی سامراجی ممالک اور ریاست پاکستان جیسی ریاستوں کی سرپرستی اور مکمل پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ اس ضمن میں وہ تمام تر ثبوت اور شواہد’مملکت خداداد‘ کی ریاستی دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے حوالے سے موجود ہیں، جن میں کشمیر کے اندر لڑائی جانے والی دہشت گرد تنظیمیں، فرقہ واریت کے حوالے سے بنائی گئی تنظیمیں اور افغانستان کے اندر طالبانائزیشن کی کھلم کھلا حمایت کے حوالے سے شواہد اس ریاست کے دہشت گردی کی حمایت اور سپورٹ کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر وحشیانہ حملے کے نتیجے میں 156 معصوم بچوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد احسان اللہ احسان کے فرارہونے کے حوالے سے جو ڈرامہ سامنے آیا ہے اس پر حکومتی و فوجی اہلکاروں کی طرف سے مکمل خاموشی ریاست پاکستان کے اس مکروہ کردار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یاد رہے کہ احسان اللہ احسان کے پاکستانی فوج کی حراست سے فرار ہونے کے دعوے کے فوری بعد میں جب وزیر داخلہ برگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ سے سوال کیا گیا تو اس نے کہا کہ مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ اس سے پہلے سرکاری سطح پر احسان اللہ احسان کے’فرار‘ ہونے کے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔ اس امر کا انکشاف پاکستانی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک آڈیو پیغام سے ہوا، جس میں تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس پر بی بی سی سمیت دیگر میڈیا نے جب رد عمل کے لیے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے رابطہ کیا تو فوجی ذرائع نے اس دعویٰ کی تصدیق یا تردید نہیں کی اور کہا کہ وہ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ مگر احسان اللہ احسان نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ریاست پاکستان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی دستاویز وائرل کردی۔ اس انکشاف کے کئی دن بعد بالآخر اعجاز شاہ نے تصدیق کی کہ احسان پاکستانی فوج کی تحویل سے فرار ہو چکا ہے۔ مگر تمام تر آثار یہ بتاتے ہیں کہ یہ سب ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت ہوا ہے اور اس خونی ڈیل کے نتیجے میں میں ہمارے بچوں کے قاتل اس درندے کو آزاد کر دیا گیا ہے۔
بلوچستان کے اندر قومی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے یہاں پر سعودی و ایرانی پراکسیز کے ذریعے مذہبی فرقہ واریت کو فروغ دیا گیا۔ گو کہ ہم شرطیہ کہتے ہیں کہ سماج کے اندر مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی کوئی بھی روایات اور جڑیں موجود نہیں ہیں بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے رکھوالوں کی جانب سے اوپر سے مسلط کئے گئے فرسودہ نظریات اور تعصبات ہیں۔ حالیہ کوئٹہ دھماکے کے دن کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کا ایک احتجاجی مظاہرہ بھی تھا، جس وقت یہ دھماکہ ہوا اس وقت احتجاجی مظاہرے کے اندر شریک مقرر نے اپنی تقریر کو روکنے کی بھی زحمت نہیں کی اور اس کے الفاظ یہ تھے کہ”ہم نے کتنی لاشیں اٹھائی ہیں انتظامیہ والے آکر یہ لاشیں بھی اُٹھائیں“۔ اسی طرح اس دھماکے کو فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ریاستی بیانیہ پر وموٹ کیا جا رہا ہے کہ ان تمام تر حالات کے ذمہ دار افغان مہاجرین ہیں۔ اور ریاست کے اس بیانیے کو پروموٹ کرنے کے لیے بلوچستان کے اندر بلوچ نسل پرست سیاست کرنے والے سب سے آگے ہیں، جبکہ بلوچستان میں ریاستی جبر اپنی بد ترین شکل میں موجود ہے۔
دہشت گردی کے خلاف نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں کئے جانے والے اقدامات محض عوام کو بیوقوف بنانے اور انہیں کنٹرول میں رکھنے کا ایک طریقہ ہیں جس کی بھی اب قلعی کھل گئی ہے۔ کیونکہ اب عوام جانتے ہیں کہ حکمران طبقات کی’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا اصل مقصد عوام کا استحصال بڑھانا اور ان کی جدوجہد کو کمزورکرنا ہے۔ 8 اگست 2016ء کو کوئٹہ میں وکلا کی ایک کھیپ کو دہشت گردی کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ اور اس سانحے کے خلاف جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا جس کی صدارت قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے جنہوں نے اپنی رپورٹ 16 دسمبر 2016ء کو شائع کی۔ اور اس رپورٹ میں سکیورٹی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کی مکمل ناکامی اور غفلت کو منظر عام پر لایا گیا۔ مگر اس رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمد ہونا ناممکن تھا کیونکہ حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے مالی مفادات براہ راست طور پر دہشت گردی کو جنم دینے والی کالی معیشت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے نتیجے میں نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا، اور اس کے بعد جو بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ان کی وجوہات کو سیاسی و عسکری قیادت اور نام نہاد کرائے کے دانشور نیشنل ایکشن پلان پر صحیح طور سے عمل درآمد نہ کرنا بتاتے ہیں۔ ان سب حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بالآخر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ دہشت گردی، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی دنیا بھر میں کہیں پر بھی ریاستی پشت پناہی کے بغیر نہیں چل سکتے۔ مگر بات وہیں پر آ جاتی ہے کہ دہشت گردی کے اس ناسور کے خلاف کس طرح لڑا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے باچاخان یونیورسٹی پر حملے کے بعد ایک مفصل آرٹیکل شائع کیا تھا جس کا موضوع بھی یہی تک کہ ”دہشت گردی کے خلاف کیسے لڑا جائے“۔اس مضمون میں بھی واضح کیا گیا تھا کہ مزدور تنظیموں، طلبہ یونین اور عوامی کمیٹیوں کے ذریعے اس عفریت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ نیشنل سیکورٹی، قومیت اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے یہاں کے سامراجی طاقتوں کے گماشتہ سرمایہ دار حکمران طبقات نہ صرف دہشت گردی کے خاتمے بلکہ عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کے حوالے سے بھی مکمل طور پر نا کام ہو چکے ہیں اور یہ محض اپنے مالی مفادات کی خاطر نام نہاد جمہوریت کے نام پر اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرتے آ ئے ہیں۔بالکل یہی صورتحال ریاستی اشرافیہ کی عوام دشمنی کی بھی ہے جس میں معاشی دہست گردی بھی اپنے عروج پر ہے اور بد ترین مہنگائی اور بیروزگاری لاکھوں محنت کشوں کو بھوک اور بیماری میں دھکیل چکی ہے۔
اسی طرح قوم پرستوں کی مفاد پرستی اور مہم جوئی کی سیاست سے بھی عوام بیزار اور تنگ آچکے ہیں کیونکہ غلط نظریات کے تحت ہونے والی اس مفاد پرستی اورمہم جوئی کی سیاست یا جنگ سے حکمران طبقات اور ریاستی اشرافیہ کو ہی تقویت ملتی ہے۔ اسی طرح ریاستی اداروں کے آپسی تضادات کی وجہ سے بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں معصوم محنت کش عوام مارے جاتے ہیں۔
کوئٹہ واقعے کے بعد یہاں کے لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کا وہ بر ملا اظہار کرتے ہیں خصوصاََ سیکیورٹی اداروں کو ہدف تنقید بناتے نظر آتے ہیں مگر ابھی تک اس غصے نے منظم سیاسی جدوجہد کی شکل میں اپنا اظہار نہیں کیا۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب یہاں کے نو جوانوں اور محنت کشوں میں ریاست، سرمایہ دار حکمران طبقات اور سامراجی طاقتوں کے اس ظلم کے خلاف بغاوت کی چنگاری اٹھے گی اور یہ چنگاری پورے ملک سمیت پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ لیکن اس انقلاب کی کامیابی کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس جدوجہد کومنزل تک پہنچانے کے لیے ایک منظم بالشویک طرز کی انقلابی پارٹی موجود ہو جو کہ ظلم، بربریت، بد امنی،بھوک،افلاس،لاعلاجی،بیروز گاری اور دہشت گردی کے اندھیرے کو ایک سرخ سویرے سے روشن کر تے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرے جس کے ذریعے ان تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے اور اس تمام تر سرمایہ دارانہ غلاظت کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک ایسا غیر طبقاتی سماج تعمیر کیا جا سکتا ہے جہاں انسان امن، سکون،چین اور خوشحالی کیساتھ اپنی زندگی گزار سکے۔

Comments are closed.