تحریر: |کریم پرھر|
سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم، جبر اور بر بریت سے پوری دنیا میں بدامنی، دہشتگردی، بیروزگاری اور دوسرے نامساعد حالات میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اور دنیا بھر میں کوئٹہ جیسے سانحوں میں اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ پسماندہ سرمایہ دارارانہ ممالک خصوصاََ پاکستان میں ہر روز کوئی نہ کوئی دن سانحہ کے طور پر منایا جاتا ہے جوکہ اس سرمایہ داری کے نظام کی بوسیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
08اگست کو کوئٹہ میں رونما ہونے والا واقعہ جوکہ اپنے ساتھ 110سے زیادہ شہداء اور تقریباََ 200کے قریب زخمیوں کو ناقابل فراموش زخم دے گیا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بلوچستان جوکہ عرصہ درازسے سیکیورٹی اداروں کا گڑھ بنا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود آئے روز یہاں کے باسیوں کے لئے ایک دردناک اور کر بناک سانحہ رونما ہوتا ہے۔ فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ کر جہاں سینکڑوں لوگ جام شہادت نوش کر گئے وہاں اس فرقہ واریت کو طول دینے اور فنڈنگ کرنے والے عالمی سامراج امریکہ اور سعودی عرب سمیت ایران کے بیچ میں نیا ڈرامہ ہوا۔ جب اپریل 2015ء میں ایران امریکہ نیوکلئیر معاہدہ ہوتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس فرقہ واریت کی جنگ میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔جس کا کریڈٹ بلوچستان کے نام نہا د قوم پرست اور دوسری قومی پارٹیوں کے حکمران لیتے ہیں۔ جوکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
بلوچستان میں ایک نئی جنگ کا آغاز CPECکے ٹھیکوں اور کنٹرول میں حصے داری اور اپنے پروان چڑھائے ہوئے ان کرائے کے قاتلوں کوکنٹرول میں رکھنے پر ہوا ہے جس کا خمیازہ یہاں کے محنت کش اور عام عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ وکلا پر حملہ اور پھر خصوصا پشتون وکلا کو ٹارگٹ کرنا یہاں پرانی جنگ کو نئی شکل دینے کی ایک بھرپور کوشش ہے۔ نام نہاد کالعدم تنظیمیں جو کہ فرقہ واریت میں ریاستی سربراہی میں سرگرم عمل رہی تھی ان کے پر کاٹنے کی وجہ سے یہاں سیکیورٹی فورسز اور مذکورہ تنظیموں کے درمیان کشمکش جاری ہے جس کا ایندھن پھر محنت کش ہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ محنت کش اور دوسرے عام لوگ جو اس جنگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں کیاان کو اس بات کا ادراک ہے کہ ہم کیوں مر رہے ہیں؟ اس کا جواب اکثریت لوگ ہاں میں دیں گے کہ ’’یہ بدامنی ریاست کی پھیلائی ہوئی ہے۔ یہاں کے ہرباسی کو بیروزگاری، غربت، لاعلاجی اور ان گنت مسائل کا سامنا ہے اور اب تو ان کی جان کو بھی ریاستی غنڈوں سے خطرہ ہے‘‘۔ یہاں کے ہرباسی کے منہ پریہ الفاظ ہوتے ہیں جس سے ان کے شعوری معیار کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
سب سے اہم نکتہ یہاں یہ اٹھتاہے کہ ان ریاستی اداروں کا کردار کیاہے؟ سانحہ کوئٹہ میں جہاں ہسپتال میں خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ ہلاک و زخمی ہوتے ہیں وہیں ٹارگٹ کلنگ میں بار ایسویشن کے صدر کو ان کے گھر کے قریب دن دہاڑے سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔آیا یہ سیکورٹی فورسز کی ناکامی ہے یا جو ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں وہ بہت مضبوط ہیں؟ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آرمی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کے آپسی اختلاف کاشکار ہمیشہ محنت کش کیوں بنتے ہیں؟ وزیر اعظم اور جنرل راحیل شریف دونوں کا متنازعہ کردار اس سانحہ کے حوالے سے مزید متنازعہ کن بن جاتا ہے جن کے الگ الگ دوروں سے ان کے آپسی تضادات کا واضح پتہ چلتا ہے۔ ریاستی ادارے دھماکے میں شہید ہونے والوں کو قربانی کے نام سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ ان کے لواحقین انصاف کا تقاضا کررہے ہیں کہ ہمیں ایسی قربانیاں نہیں چاہئے جس میں ہمارا خون بغیر حساب اور بغیر ثمر بہایا جائے۔
اس واقعہ کی ذمہ داری دو تنظیموں نے بیک وقت قبول کی ہے۔ جس میں داعش خراسان اور پاکستانی طالبان سے منحرف دھڑاجماعت الاحرار شامل ہیں۔ داعش خراسان افغانی اور پاکستانی طالبان دونوں کے مخالف ہیں۔ لیکن ریاست اپنے خصی پن اور داخلی انتشار کے باعث ان کو ختم کرنے میں مسلسل ناکام ہے۔ حکمران طبقے میں پھوٹ اور خصوصی طور پرآرمی میں شدید تضاد اور خلفشار کی وجہ سے ریاست کوئی واضح پالیسی یا لائحہ عمل دینے سے قاصرہے بلکہ اس حملے کو نیشنل ایکشن پلان کی مد میں آپریشن ضرب عضب کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کہا جا رہا ہے جو کہ انتہائی بے وزن اور بودی دلیل ہے۔ اس کے علاوہ اس واقعہ کو مختلف نام نہاد قوم پرست جو کہ خود یا تو حکمران طبقات کا حصہ ہیں یا پھر ان کی دلالی کرتے ہیں، قومی تعصبات کو فروغ دینے کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور حکمران طبقات کے مقاصد یعنی لسانی و قومی تعصب کو بڑھاوا دے رہے ہیں جو کہ صرف اور صرف یہاں کے با سیوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ ہے اور اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ کو عارضی طور پر بحال کرنے کی ایک نا کام کوشش ہے کیونکہ عوام ان کی حقیقت خوب جان چکے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قومیت اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے یہاں کے حکمران طبقات مکمل طور پر نا کام ہو چکے ہیں جو کہ اپنے مفادات کی غرض سے نام نہاد جمہوریت میں اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرتے آ رہے ہیں اور ہمیشہ کی طرح ایک نئے نام کے ساتھ منظر عام پر آ کر اپنے اورریاست کے گھٹیا عزائمکی تکمیل کے لیے سامراجی قوتوں کے دلال بن کر رہ جاتے ہیں۔
مفاد پرستی اور مہم جوئی کی سیاست سے عوام بیزار اور تنگ آچکے ہیں کیونکہ مفاد پرستی اورمہم جوئی کی سیاست یا جنگ سے حکمران طبقات کو روز اول سے تقویت ملی ہے۔ ریاستی اداروں کے آپسی تضادات کی وجہ سے آئے روز دہشتگردی کے نئے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں معصوم محنت کش مارے جاتے ہیں۔
کوئٹہ واقعے کے بعد یہاں کے لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کا وہ بر ملا اظہار کرتے ہیں خصوصاََ سیکیورٹی اداروں کو ہدف تنقید بناتے نظر آتے ہیں مگر ابھی تک اس نے منظم جدوجہد کی شکل میں اپنا اظہار نہیں کیا۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب یہاں کے نو جوانوں اور محنت کشوں میں ریاست کے اس ظلم کے خلاف چنگاری اٹھے گی اور یہ چنگاری پورے ملک سمیت پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔ اس کی کامیابی کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس جدوجہد کومنزل تک پہنچانے کے لیے ایک منظم بالشویک طرز کی انقلابی پارٹی موجود ہو جو کہ ظلم، بربریت، بد امنی اور دہشتگردی کے نام نہاد خود ساختہ اندھیرے کو ایک سرخ سویرے سے روشن کر کے سوشلسٹ انقلاب کی طرف بڑھے جس میں تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے ۔جہاں امن، سکون اور چین کی زندگی ہو گی۔