|رپورٹ: ولید خان|
خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے 8مارچ کو ناصر باغ چوپال میں پروگریسیو یوتھ الائنس(PYA) اور ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) کے زیر اہتمام پنچم کے تعاون سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت پنچم سے فائزہ رعنا جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) سے عدیل زیدی نے ادا کئے۔ پروگرام میں بڑی تعداد میں مختلف کالج، یونیورسٹیوں اور اداروں کے طلبہ اور محنت کشوں نے شرکت کی۔ پروگرام میں پنچم کی جانب سے خواتین پر ہونے والے گھریلو تشدد اور سرمایہ دارانہ نظام میں ہونے والے استحصال کے حوالے سے خاکے بھی پیش کئے۔
پروگرام کے آغاز میں رائل کالج سے رائے اسد نے کیفی اعظمی کی نظم ’عورت‘‘ پیش کی اور سامعین سے خوب داد بٹوری۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ابرار اور حمزہ نے خواتین پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سماج میں خواتین کو برابر کے حقوق دینا تو درکنار ان کو انسان بھی نہیں سمجھا جاتا۔ جو عورت معاش کے سلسلے میں گھر سے باہر قدم نکالتی ہے اسے نازیبا اور حقارت آمیز ’القابات‘ سے نوازا جاتا ہے۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے باتیں تو بہت کی جاتی ہیں مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔ عورت کے ساتھ خواہ وہ بہن، بیٹی، بہو یا ماں ہو ہر روپ میں بدترین برتاؤ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس کاوش کو سراہا اور کہا کہ خواتین کو درپیش مسائل کو سمجھنے ،بالخصوص مردوں کو اس حوالے سے آگاہی اور ان کی تربیت کرنے کیلئے اس طرح کی تقریبات کا انعقاد بہت ضروری ہے۔
اس کے بعد پنچم کی جانب سے خاص طور پر اس دن کے حوالے سے تیار کیا گیا ایک خاکہ پیش کیا گیا جس میں خواتین پر ہونے والے گھریلو تشدد اور اس کے خلاف متحد ہوکر جدوجہد کرنے کی ضرورت کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔
گھریلو تشدد کے حوالے سے پیش کئے جانے والے اس خوبصورت خاکے کے بعد صدر تقریب فائزہ رعنا کو دعوت خطاب دی گئی۔ فائزہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کا عالمی دن اور آج ہونے والی یہ تقریب ہمیں ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم سماج کے اس سلگتے مسئلے کو زیر بحث لائیں تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ کیوں خواتین کو اس ظلم و جبر کا آج بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فائزہ نے کہا کہ اس دن کو منانے کا مقصد نا صرف خواتین کی اپنے حقوق کیلئے کی جانیوالی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ دن تقاضا کرتا ہے کہ اس سرمایہ دارانہ سماج میں خواتین کو پسماندگی اور جبر کی اتھاہ گہرائیوں سے نکالنے کیلئے حتمی فتح، سوشلسٹ سماج کی تعمیر تک مسلسل جدوجہد کی جائے۔ جب تک یہ طبقاتی سماج موجود ہے سماج کے اس نصف حصے کے ساتھ یہ ستم روا رہے گا۔ پدرسری کا خاتمہ طبقات کے خاتمے کے ساتھ جڑا ہے۔ تمام خواتین کو ایک جیسے ظلم اور استحصال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ایک عام محنت کش عورت کو جس سماجی اور معاشی جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسمبلیوں میں بیٹھی خواتین اس کا گمان بھی نہیں کرسکتیں بلکہ الٹا وہ خود حکمران طبقے کا حصہ ہیں۔ ایک سوشلسٹ سماج میں ہی خواتین کو صدیوں سے جاری ان اذیتوں سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔
صدر تقریب کے خطاب کے بعد پنچم سے ادریس نے ایک نظم پیش کی جس کے بعد یسریٰ نے خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے بات کی۔ ریڈ ورکرز فرنٹ لاہور کے آرگنائزر اور واپڈا کے محنت کش مقصود ہمدانی نے کہا کہ خواتین کے مسائل اس طبقاتی نظام کی پیداوار ہیں۔ سرمایہ داروں کے منافعے بڑھانے کیلئے لازمی ہے کہ مرد محنت کش گھریلو کاموں سے آزاد ہوں ،تب ہی وہ فیکٹریوں اور ملوں میں جا کر سرمایہ دار کے ہاتھ اپنی محنت بیچ سکتے ہیں اور اس کیلئے لازمی ہے کہ گھر داری کیلئے عورت کو پابند کر دیا جائے۔ جب تک یہ طبقاتی نظام موجود ہے خواتین کو حقیقی آزادی حاصل نہیں ہو سکتی۔ صرف خواتین کی آزادی کے نعرے مارنے سے خواتین کو آزادی نہیں مل سکتی بلکہ اس کے لئے وہ حالات پیدا کرنے ہوں گے جو خواتین کو گھریلو محنت سے نجات دلاتے ہوئے اسے معاشرے کی تعمیر میں حصہ لینے کے قابل بنا سکیں اور یہ آج کے عہد میں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
اس کے بعد پنچم کی جانب سے بابا بلھے شاہ کی کافی پر ایک خاکہ پیش کیا گیا جس میں طبقاتی سماج میں مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ ہونے والے استحصال کو انتہائی خوبصورت انداز میں ایکٹ کر کے دکھایا گیا اور طبقاتی جڑت کا سبق دیا گیا کہ مزدور اور کسان طبقاتی بنیادوں پر جڑت بناتے ہوئے ہی اس استحصال سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔
اس خوبصورت پرفارمنس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس سے زین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج صرف ہم ہی اس دن کو نہیں منا رہے بلکہ عالمی سطح پر اس حوالے سے تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے لے کر اقوام متحدہ تک اس دن کو منا رہی ہے۔ یہاں پاکستان میں بھی بہت سی این جی اوز اس دن کے حوالے سے خاص طور پر بڑی دھوم دھام سے بڑی بڑی تقریبات منعقد کرتی ہیں جن میں عورتوں کو بہت ہی مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ان کی اس مظلومیت کا پھر کاروبار کیا جاتا ہے اور خوب مال بنایا جاتا ہے۔ مگر اس دن کو نہ صرف اس کی تاریخی جڑوں سے کاٹ دیا گیا ہے بلکہ یہ دن جو خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا علمبردار ہوا کرتا تھا، اس کو حکمران طبقے اور درمیانے طبقے کی خواتین کی نمود و نمائش کے پیچھے چھپا دیا گیا ہے۔ آج ہمیں پھر سے اس دن کو ناصرف اس کی جدوجہد کی تاریخی جڑوں سے جوڑنے کی ضرورت ہے بلکہ خواتین کے مسائل کی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ جب بھی خواتین کے مسائل کے حل کیلئے بات کی جاتی ہے تو ہمیں دو انتہائیں نظر آتی ہیں۔ ایک طرف ملائیت کا جبر نظر آتا ہے جو عورتوں سے ہر طرح کے حقوق چھین کر ان کو گھروں تک مقید کرنے کو ہی حل سمجھتے ہیں تو دوسری طرف سرمایہ دار طبقے کے دلال لبرلز اور فیمینسٹ نظر آتے ہیں جو عورتوں پر جبر کا سارا ملبہ مذہب پر ڈالتے نظر آتے ہیں، اور ان کے نزدیک عورتوں کی آزادی یہی ہے کہ وہ ماڈرن ملبوسات میں ملبوس آزادی سے گھوم پھر سکیں اور کام کرسکیں یا پھر اسمبلیوں میں خواتین کی تعداد مردوں کے برابر کر دی جائے توخواتین کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ عورتوں کے حقوق کے ان چیمپینز نے عورت کو بھی منڈی کی ایک جنس بنا دیا ہے جس کو خریدا اور بیچا جا سکتا ہے۔ مگر ہمیں عورت کے سوال کا بھی طبقاتی بنیادوں پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مریم نواز جیسی حکمران طبقے کی خواتین کسی طور بھی مظلوم نہیں بلکہ وہ تو خود مرد محنت کشوں کو اپنے جبر کا نشانہ بناتی نظر آتی ہیں۔ اس لئے ہمیں عورتوں کے مسائل کو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ یہ طبقاتی نظام ہی عورتوں کی اس پسماندگی اور جبر کی اصل وجہ ہے۔ ضیا الحقی آمریت نے پاکستانی سماج میں خواتین کو پتھر کے دور میں واپس بھیجنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ مزدور تنظیموں اور طلبہ تنظیموں پر بھی حملے کئے گئے۔ ضیا الحق آمریت کے دوران لگائی گئی طلبہ تنطیموں پر پابندی آج تک برقرار ہے جس کے باعث آج طلبہ کے پاس اپنے حقوق کی جدوجہد کیلئے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں۔ طلبہ یونیز میں صرف مرد سٹوڈنٹس ہی حصہ نہیں لیتے تھے بلکہ خواتین بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ ضیا آمریت کے خلاف جدوجہد میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ لڑیں۔ آج پھر سے نا صرف خواتین بلکہ نوجوانوں اور محنت کشوں کو درپیش دیگر مسائل کے خلاف جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے، بس اپنی سوچ بدل لو تو سب مسائل حل ہو جائیں گے مگر سوچ تبدیل کرنے کیلئے اس سماج کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تبھی ایک سماج کے طور پر افراد کی سوچ تبدیل کی جاسکتی ہے۔ آج سے سو سال قبل روس میں ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے وہ حالات پیدا کئے گئے تھے کہ جس میں عورتوں کو برابر کے حقوق مل سکتے تھے۔ تاریخ میں پہلی بار عورت کو ایک انسا ن کا درجہ ملا۔ سوویت یونین میں عورتوں کے حوالے سے انقلابی اقدامات کئے گئے۔ پبلک کچن اور پبلک لانڈریوں سے خواتین کو گھریلو کاموں سے نجات دلا کر ان کیلئے ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ وہ معاشرے کی تعمیر میں ایک فعال فرد کے طور پر اپنا حصہ ڈال سکیں۔
اس کے بعد پنچم سے فائقہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خواتین کے حوالے سے اپنے رویوں کو تبدیل کرنا چاہیے اور اس کیلئے تعلیم و تربیت کی بہت ضرورت ہے۔ خواتین بھی مردوں کی طرح انسا ن ہیں اور اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان کے ساتھ برابر کا سلوک کیا جائے۔ ہمیں اپنی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
تقریب کے آخر میں ریڈ ورکرز فرنٹ سے آدم پال نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج اس دن کے حوالے سے پاکستان میں بہت سی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔ پنجاب کا وزیر اعلی یہاں لاہور میں ہونے والی ایک تقریب میں مہمان خصوصی ہے جہاں عورتوں کے مسائل کے حل کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کئے جا رہے ہیں مگر حقیقت میں پاکستان میں خواتین کے حالات انتہائی تلخ ہیں۔ ہمیں ایسی کوئی سیاسی پارٹی نظر نہیں آتی جس سے خواتین کے مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی توقعات رکھی جا سکیں۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت تمام جماعتیں مزدور دشمن جماعتیں ہیں اور ان سے بھلائی کی کوئی توقع رکھنا عبث ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھے یہ حکمران اپنی فیکٹریوں اور بڑی بڑی جاگیروں میں محنت کشوں پر بے پناہ مظالم ڈھاتے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے جن دور دراز علاقوں سے خواتین کے حقوق کی علمبردار مذہبی جماعتیں اسمبلیوں کی سیٹیں جیتتی ہیں، وہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ حال ہی میں ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے خواتین کے حالات کے حوالے سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں 144 ممالک کی درجہ بندی کی گئی تھی جس میں پاکستان 143ویں نمبر پر تھا جو کہ خواتین کے مسائل کی ایک انتہائی بھیانک تصویر پیش کرتی ہے۔ لاکھوں عورتیں ہر سال مناسب طبی سہولیات نہ ملنے کے باعث زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ اس پر سونے پر سہاگہ کہ سرکاری اسپتالوں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ سکول جانے کی عمر کی نصف سے زائد لڑکیاں سکولوں سے باہر ہیں اور تعلیم حاصل نہیں کرسکتیں مگر یہ حکمران سامراجی اداروں کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر تعلیمی اداروں کی نجکاری کر رہے ہیں جس سے صورتحال مزید گھمبیر ہو جائے گی۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کو کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں جہاں ان کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، وہیں ان کا مرد محنت کشوں سے زیادہ استحصال کیا جاتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین محنت کشوں کو بہت کم تنخواہوں پر بھرتی کیا جاتا ہے۔ خواتین کی ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر مکمل پابندی ہے۔ اس حوالے سے ایک سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جب تک نجی ملکیت موجود ہے ،خواتین کو اس جبر سے نجات نہیں دلائی جاسکتی۔ آج سے سو سال قبل 1917ء میں آج ہی کے دن خواتین کے مظاہروں سے روس میں انقلاب کا آغاز ہوا تھا جس نے صدیوں سے رائج زارشاہی کو اکھاڑ پھینکا تھا اور تمام ذرائع پیداوار کو نجی ملکیت میں لیتے ہوئے ایک غیر طبقاتی سماج تشکیل دیا گیا تھا۔ سوویت یونین میں حقیقی معنوں میں خواتین کو آزادی ملی تھی جہاں ان کو گھریلو مشقت سے نجات ملی۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں پہلی بار خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ اسقاط حمل کے حق کے ساتھ ساتھ زچگی کے دوران تنخواہ کے ساتھ چھ ماہ کی رخصت کا حق دیا گیا جس کو دو سال تک بڑھا یا جاسکتا تھا۔ بچوں کی پرورش کے لئے ڈے کئیر سنٹرز بنائے گئے۔ اور اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا میں سب سے زیادہ خواتین ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسدان، ٹیچرز سوویت یونین میں پیدا کئے گئے جس کا مقابلہ اس وقت کا کوئی ترقی یافتہ سرمایہ دار ملک نہیں کرسکتا تھا۔ دنیا کی پہلی خاتون خلا نورد کا تعلق بھی سوویت یونین سے تھا۔ آج خواتین کے حقوق کی جدوجہد کو مزدور تحریک کے سنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کی نجات سمیت سماج میں موجود تعلیم، صحت، روزگار، غربت، مہنگائی اور دہشت گردی سمیت دیگر مسائل کے حل کیلئے ایک سنجیدہ سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس کیلئے ایک نئی انقلابی قیادت اور سیاسی پارٹی کی تعمیر پہلا قدم ہے اور یہی ہمارا تاریخ فریضہ ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب اور اس کے نتیجے میں ایک سوشلسٹ سماج ہی خواتین کی حقیقی آزادی کا ضامن بن سکتا ہے۔