|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|
پروگریسو یوتھ الائنس کے زیراہتمام دو روزہ مارکسی سکول گرما 2017ء 19 اور 20 اگست کو راولاکوٹ‘ کشمیر میں منعقد ہوا۔ سکول میں شرکت کے لئے ملک بھر سے نوجوانوں اور محنت کشوں کے قافلے 17اگست کو ہی کشمیر پہنچنا شروع ہوگئے۔ کراچی سے لے کر کشمیر تک ملک کے تمام بڑے شہروں اور تعلیمی اداروں سے نوجوانوں نے اس سکول میں شرکت کرکے اس کو کامیاب بنایا۔ سخت مشکل حالات اور معاشی رکاوٹوں کے باوجود نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کا اس سکول میں پہنچنا صرف اور صرف مارکسی نظریات پر پختہ یقین اور درستگی کی بدولت ہی ممکن ہوا۔ شرکت کے حوالے سے بھی یہ ایک انتہائی کامیاب سکول رہا اور 140 نوجوانوں اور محنت کشوں نے اس سکول میں شرکت کی۔ یہ سال 1917ء کے روس انقلاب کی صد سالہ تقریبات کا سال ہے اور کشمیر میں منعقد ہونے والایہ سکول بھی انسانی تاریخ کے اس سب سے بڑے واقعے سے منسوب کیا گیا تھا جس سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
19اگست کی صبح سکول کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ کشمیر سے آمنہ فاروق نے ملک بھر سے آئے شرکا کو خوش آمدید کہا اور دو روزہ سکول کا ایجنڈا پیش کیا۔ اس کے ساتھ ہی سکول کے پہلے سیشن کو آغاز ہوا جس کا موضوع ’’عالمی و پاکستان تناظر‘‘ تھا جس پر فیصل آباد سے مجاہد پاشا نے لیڈ آف دی۔ مجاہد نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پوری دنیا میں ہونے والی تیز ترین سیاسی تبدیلیوں، عالمی تعلقات میں ردوبدل اور گہرے ہوتے معاشی بحران کی منظرکشی کی۔ مجاہد کا کہنا تھا کہ ہم انتہائی دلچسپ وقت میں زندہ ہیں جس کا موازنہ ماضی کے کسی بھی عہد سے نہیں کیا جاسکتا۔ جس تیزی سے دنیا میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا کے ہر ملک میں پولرائزیشن بڑھتی جارہی ہے اور دائیں اور بائیں بازو کے مظاہر سامنے آرہے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والا ورلڈ آرڈر بکھر چکا ہے جس میں امریکی سامراج عالمی پولیس مین کا کردار ادا کرتا نظر آتا تھا۔ مگر اس عہد کا خاصہ امریکی سامراج کی کمزوری اور اس کا خصی پن ہے اور شام کے شہر حلب کی جنگ امریکی سامراج کا قبرستان ثابت ہوئی ہے۔ امریکی سامراج کی اس تاریخی کمزوری کے نتیجے میں جہاں عالمی تعلقات میں نئی دوستیاں اور دشمنیاں بن رہی ہیں تو وہیں اس خلا کو پر کرنے کے لئے چین اور روس اپنے سامراجی عزائم کو فروغ دے رہے ہیں۔ عالمی حکمران طبقے میں تضادات بڑھتے چلے جا رہے ہیں جس کا اظہار ہمیں G7اور G20کی میٹنگز میں نظر آتا ہے اور ٹرمپ کی تحفظاتی پالیسیوں نے اس عمل کو مہمیز دی ہے۔ امریکہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مجاہد نے کہا کہ ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ میں واضح ٹکراؤ دیکھنے کو مل رہا ہے اور امریکی ریاست کا داخلی خلفشار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی بحران کے گہرے ہونے سے ٹرمپ انتظامیہ کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بھی اختلافات کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں جس کا واضح اظہار انجیلا مرکل اور ٹرمپ کی بیان بازی سے ہوا۔ یہ واضح ہے کہ امریکہ دنیا میں پہلے جیسا کردار دا کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ یورپ پر بات کرتے ہوئے مجاہد نے کہا کہ حال ہی میں برطانیہ اور فرانس کے انتخابات نے یورپ کا سیاسی نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ تھریسامے کا انتخابات کو جوا اس کے اپنے گلے پڑگیا اور جیرمی کاربن ایک عوامی لیڈر کے طور پر ابھرا اور بھرپور عوامی حمایت جیتتے ہوئے اس وقت انتہائی مضبوط پوزیشن میں ہے۔ تھریسامے کی حکومت کا کسی بھی وقت خاتمہ ہوسکتا ہے اور متوقع عام انتخابات میں یہ واضح نظر آرہا ہے کہ جیرمی کاربن حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ جیرمی کاربن کے بائیں بازو کے انتخابی منشور نے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو متحرک کیا ہے اور لیبر پارٹی اس وقت یورپ کی سب سے بڑی پارٹی بن چکی ہے۔ بریگزٹ ٹوری پارٹی کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ فرانس کی بات کرتے ہوئے مجاہد نے کہا کہ یورپ کے سرمایہ دار طبقے کی آنکھ کا تارا، ایمانوئل میکرون اس وقت فرانس کی تاریخ کا سب سے جلد غیر مقبول ہونے والا صدر بن چکا ہے اور ’اکثریت‘ کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ فرانس میں بھی ہمیں پولرائزیشن بڑھتی نظر آتی ہے جس کا اظہار انتہائی دائیں جانب میری لی پین کی شکل میں ہوا تو بائیں طرف میلنشاں تیسرا بڑا امیدوار ابھر کر سامنے آیا۔ جرمنی جس کی ترقی اور خوشحالی کی مثالیں دی جاتی تھیں اور یورپی یونین کا سب سے مضبوط ملک تصور کیا جاتا تھا، حالیہ G20 کی میٹنگ کے دوران ہونے والے مظاہروں نے اس تصور کی قلعی کھول کر رکھ دی جب لاکھوں لوگ Capitalism Kills کے بینروں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے۔ یونان کے بعد اٹلی کو اس وقت یورپی یونین کی سب سے کمزور کڑی کہا جارہا ہے اور اٹلی کی بینکاری کا بحران شدید ہوتا جا رہا ہے اور اطالوی حکومت نے غیر قانونی طور پر کئی بینکوں کو بیل آؤٹ کیا ہے۔ یورپی یونین کے مستقبل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مجاہد نے کہا کہ کسی ایک ملک میں ہونے والا سماجی دھماکہ یورپی یونین کو بکھیر کا رکھ دے گا اور اس عمل کا آغاز برطانیہ سے ہوچکا ہے۔ یورپی یونین کے ممالک میں تضادات بڑھتے جارہے ہیں اور جرمنی یورپی یونین کو بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے جس کا اظہار بریگزٹ مذاکرات میں ہوا۔ یونان میں سپراس کی غداری سے تحریک پسپائی کا شکار ہوئی ہے مگر سماجی اور معاشی بحران گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے اور آنے والے وقت میں تحریک ایک نئی اٹھان لے گی۔
لاطینی امریکہ کی بات کرتے ہوئے مجاہد نے کہا اس وقت وینز ویلا میں ہمیں انقلاب اور ردانقلاب کی واضح کشمکش نظر آتی ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے امریکی سامراج کی پشت پناہی سے نام نہاد حزب مخالف کی کاروائیوں میں شدت نظر آئی ہے۔ آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لئے اپوزیشن کی جانب سے کروائے جانے والے ریفرنڈم میں حکمران طبقے اور درمیانے طبقے نے ہی حصہ لیا اور سماج کی وسیع اکثریت نے اپنے جذبات کا اظہار اس کے بعد ہونے والے آئین ساز اسمبلی کے انتخابات میں کیا جس کو روکنے کی اپوزیشن نے ہر ممکن کوشش کی۔ عالمی میڈیا نے بھی عوامی طاقت کے اس مظاہرے کا مکمل بائیکاٹ کیا جبکہ اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کھل کر وینزویلا اور ٹرمپ کے خلاف بیان بازی کی۔ صدرماڈورو آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کے بعد بھی مسلسل حکمران طبقے کو رعایتیں اور مصالحت کی پالیسی پر گامزن ہے جس کے زیر اثر محنت کشوں اور کسانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وینزویلا کے انقلاب کو مکمل کیا جائے۔ تمام بینکوں، بڑی صنعتوں کو ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلایا جائے۔ تمام بیرونی قرضے ضبط کر لئے جائیں۔ اگر ماڈورو اسی مفاہمت کی پالیسی پر گامزن رہا تو عالمی سامراج اور مقامی حکمران طبقہ وینزویلا کے انقلاب کو خون میں ڈبو دے گا۔ برازیل کی بات کرتے ہوئے مجاہد نے کہا کہ برازیل میں بھی اس وقت کرپشن کے خلاف ایک آپریشن جاری ہے جس میں چند ہفتے قبل سابق صدر لولا ڈی سلوا کو کرپشن کے الزامات میں مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ کرپشن کے خلاف جاری یہ آپریشن دراصل برازیلی حکمران طبقے کی جانب سے بڑھتے عوامی دباؤ کو کم کرنا ہے جس کا اظہار اپریل کے آخر میں عام ہڑتال کی شکل میں ہوا۔ عالمی معاشی بحران کے زیر اثر برازیل کی معیشت بھی زوال پذیر ہے اور حکمران طبقہ بڑے پیمانے پر نجکاری اور کٹوتیاں کررہا ہے اور کرپشن کے خلاف جاری یہ آپریشن دراصل ممکنہ انقلابی تحریک کو ٹالنے کی کوشش ہے جس میں چند افراد کو مورد الزام ٹھہرا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے ہی ترقی کی جاسکتی ہے۔ برکس کا بلبلہ بھی پھٹ چکا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی بات کرتے ہوئے کہا کہ شام کی خانہ جنگی عالمی سرمایہ داری کے تاریخی بحران کی زندہ تصویر ہے اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود مشرق وسطیٰ کے بحران سے نکلا نہیں جاسکا۔ شام، لیبیا، عراق ماضی جیسی ریاستیں نہیں رہیں۔ شام اور عراق عالمی اور مقامی سامراجی طاقتوں کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے۔ حلب امریکی سامراج کا قبرستان ثابت ہوا ہے اور روس ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ مگر روس کے خطے کی دوسری سامراجی طاقتوں جیسے ترکی کے ساتھ تضادات موجودہیں۔ شام کی جنگ میں سعودی بادشاہت کو ہزیمت اٹھانا پڑی ہے اور خطے میں ایران کا اثرورسوخ بڑھتا ہو انظر آیا ہے۔ ارودگان خلافت عثمانیہ کے دوبارہ ابھار کے خواب دیکھ رہا ہے جس کا واضح اظہا رحالیہ سعودی۔قطر تنازع میں ہوا جس میں ارودگان نے کھل کر قطر کی حمایت کی اور اپنے فوجی دستے قطر بھیجی۔ آستانہ معاہدے کے بعد شام کے حصے بخرے کر دیے گئے ہیں لیکن اس معاہدے میں امریکہ، یورپ اور مغربی دنیا کے کسی بھی ملک کو بندر بانٹ میں شامل نہیں کیا گیا جو پرانے ورلڈ آرڈر کے بکھرنے کا واضح ثبوت ہے۔ حلب کی خفت مٹانے کے لئے موصل کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا ہے اور داعش کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں ہزاروں عام لوگ مارے جاچکے ہیں۔ یمن جنگ سعودی بادشاہت کے لئے انتہائی مہنگا سوادا ثابت ہوئی ہے مگر ولی عہد محمد بن سلمان کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے سے سعودی شاہی خاندان کے تضادات بھی کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ مصر کا معاشی بحران بڑھتا جارہا ہے اور مصر سعودی حکومت کا ایک پٹھو بن کررہ گیا ہے۔ السیسی آمریت کا جبر بڑھتا جا رہا ہے جو کہ درحقیقت ایک ممکنہ تحریک کو روکنے کے لئے ہے۔ سعودی ۔قطر تنازعے نے خلیج تعاون کونسل کو عملی طور پر ختم کردیا ہے۔ چین کا معاشی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے سامراجی عزائم میں بھی شدت آتی جارہی ہے۔ چین کے اندر ہڑتالیں اور مظاہرے بڑھتے جارہے ہیں اور چین اس بحران کو باہر ایکسپورٹ کرنا چاہتا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ چین کے سامراجی عزائم کا واضح اظہار ہے اور اس کے نتیجے میں خطے میں طاقتوں کا توازن تبدیل ہورہا ہے۔ نئی دوستیاں قائم ہورہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی جنگ پاکستان کی دہلیز پر دستک دے رہی ہے۔ سی پیک پاکستان کو سامراجی طاقتوں کا اکھاڑہ بنادے گا۔ بلوچستان میں سعودی عرب اور ایران کی بڑھتی ہوئی مداخلت خطے کو آگ و خون میں نہلانے کی طرف جائے گی۔ بھارت میں ایک بار پھر نومبر میں عام ہڑتال کی کال دی جا چکی ہے جو کہ مزدور تحریک کو نئی طاقت اور توانائی بخشے گی اور مودی حکومت کے خلاف ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستانی ریاست کا بحران انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ ریاستی دھڑوں میں تضادات شدید ہوتے جا رہے ہیں اور عوام کے سامنے ننگے ہوتے جا رہے ہیں۔ مجاہد کا کہنا تھا کہ عالمی حکمران طبقہ پاگل پن کا شکار ہوچکا ہے اور اس کیفیت میں وہ نسل انسانی اور اس کرہ ارض کو اپنے منافع برقرار رکھنے کے لئے کو تباہی سے دوچار کرسکتا ہے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی، اس بیمار نظام کا اظہار ہیں۔ اصلاح پسندی کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ ضرورت اس نظام کو اکھاڑ پھینک کر ایک انسان دوست سوشلسٹ سماج تعمیر کرنے کی ہے۔ضرورت اس مر کی ہے کہ درست مارکسی نظریات پر ایک عالمی انقلابی پارٹی تعمیر کی جائے اور ابھرنے والی تحریکوں کا رخ اس نظام کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کی جانب موڑ دیاجائے۔
لیڈ آف کے بعد عالمی اور ملکی صورتحال کے حوالے سوالات کیے گئے جس میں شرکا نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سوالات کے بعد بحث کو آگے بڑھانے کے لئے کنٹری بیوشنز کا سلسلہ شروع ہوا جس میں لاہور سے رائے اسد، اسلام آباد سے عادل راؤ، پشاور سے اسفند یار شنواری، فیصل آباد سے عثمان، پونچھ یونیورسٹی راولاکوٹ سے مبشر، کراچی سے فارس راج ، حب چوکی سے ثنا زہری، ملتان سے راول اسد، حیدر آباد سے علی برکت، گوجرانوالہ سے مشعل وائیں اورمرکز سے آدم پال نے بحث کو آگے بڑھایا۔ اس دوران افغانستان میں پراکسی وار اور ریاستی بحران، مشرق وسطیٰ میں مہاجرین کے مسئلہ، پاکستان میں نوجوانوں اور طلبہ کے مسائل، سندھ میں روایتی پارٹیوں کے زوال اور سماجی بحران، بلوچستان میں شدید ہوتا قومی سوال اور اس کے ساتھ قوم پرست پارٹیوں کے زوال، عالمی حکمران طبقے میں بڑھتے تضادات، پاکستانی ریاست کا مستقبل اور سیاسی خلا، سی پیک اور اس کے زیر اثر چین اور امریکہ کے ٹکراؤ، عالمی معیشت میں ’بہتری‘ اور ممکنہ عالمی معیشت کے بحران کو زیر بحث لایا گیا۔ مجاہد نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بحث کو سمیٹا اور ان الفاظ کے ساتھ اپنی بات کا اختتام کیا کہ جس تیزی سے پوری دنیا میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ہمارے پاس ضائع کرنے کو وقت موجود نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ درست مارکسی نظریات پر مبنی ایک بالشویک قیادت تعمیر کی جائے۔ سوشلزم ہی راہ نجات ہے اور سرمایہ داری کی وحشتوں سے انسانی تہذیب کے بچانے اور ایک سوشلسٹ مستقبل کی یقینی بنانا ہمارا تاریخی فریضہ ہے۔
اس سال عظیم فلسفی کارل مارکس کی شہرہ آفاق کتاب ’داس کیپیٹل‘ کی پہلی اشاعت کو ڈیرھ سو سال مکمل ہو چکے ہیں اسی مناسبت سے آج کے عہد میں مارکسی نظریات کی اہمیت اور بالخصوص سرمایہ داری کے اپنے تاریخی بحران میں کیپیٹل میں کئے گئے سرمایہ دارانہ نظام کے سائنسی تجزیے اور ان کی درستگی اور اس کے بعد مارکسزم کے نظریات میں ہونے والے نظریاتی اضافے کو زیر بحث لانے اور نوجوانوں کو ان سے روشناس کروانے کے لئے دوسرا سیشن ’’داس کیپیٹل کے ڈیرھ سو سال‘‘ رکھا گیا تھا۔ کھانے کے وقفے کے بعددوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ اس سیشن کو ملتان سے راول اسد نے چئیرکیااور لیڈ آف گوجرانوالہ سے صبغت وائیں نے دی۔ لیڈ آف کے آغاز پر صبغت نے کہا کہ موضوع اتنا وسیع ہے اور یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کہاں سے آغاز کیا جائے۔ صبغت نے کہا کہ خود کو پہچاننے کی بات اکثر سننے کو ملتی ہے خاص طور پر صوفی لوگ اس پر بات کرتے نظر آتے ہیں اور بہت سے فلسفیوں نے بھی اس پر بات کی ہے مگر میری نظر میں وہ واحد شخص جس نے ناصرف خود کو پہچانا اور جانا ہے بلکہ اس کو تحریر بھی کیا ہے وہ کارل مارکس ہے۔ یہ کسی طور پر بھی ایک جذباتی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی فلسفی کے کسی ایک کام کو سمجھنے کے لئے اس کے دوسرے کاموں کو پڑھنا بھی ضروری ہے اور یہ بات مارکس کے لئے بھی درست ہے جیسے سرمایہ کو مارکس کی دیگر تحریروں کے تسلسل میں ہی دیکھناچاہیے۔ ہم نے سرمایہ کے بعد کے ڈیڑھ سالوں پر بات کرنی ہے۔ مارکس کہتا ہے کہ سرمایہ داری میں جو کچھ بھی پیدا ہوتا ہے وہ انسان کے لئے نہیں ہے بلکہ منافع کے لئے ہے مگر جدلیاتی طور پر کوئی بھی کام ، کوئی بھی تحقیق یا فطرت پر ہونے والے کام دراصل انسانوں کے لئے ہی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کون ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی موجود ہے وہ انسانوں کے لئے ہے۔ انسان فطرت پر کام کر کے اس کو تبدیل کرتا ہے۔ مگر مارکس انسانوں میں تخصیص کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تاریخ کے آغاز سے اب تک ایک ایسا طبقہ موجود رہا ہے جو کہ باقی انسانوں سے افضل رہا ہے اور یہ حکمران طبقہ ہے۔ خیال اور کیٹگری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیال یا تصور ہی وہ چیز ہے جو انسان کو باقی جانداروں سے ممتاز کرتاہے۔ اس کے بعد انہوں نے داس کیپیٹل کے فلسفیانہ، ادبی، سیاسی، سماجی اور معاشی پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور اسے گزشتہ ڈیڑھ صدی میں دنیا کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والی کتاب قرار دیا۔یہ کتاب اتنا لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی دنیا کے کئی ممالک میں بیسٹ سیلر ہے اور اس کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔مارکس کے بد ترین نظریاتی دشمن بھی اس امر کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ کتاب آج بھی سرمایہ داری کو سمجھنے کے لیے کار آمد ہے۔
صبغت کی لیڈ آف کے بعد لاہور سے آفتاب اشرف، کشمیر سے یاسر ارشاد، گوجرانوالہ سے سلمیٰ اور ناصرہ اور فیصل آباد سے اختر منیر نے موضوع پر بات کی۔ آفتاب کا کہنا تھا کہ داس کیپیٹل مارکس کا سب سے اہم کام ہے اور اس کتاب میں مارکس نے مارکسی طریقہ کار جدلیاتی مادیت کو اپنی انتہا تک پہنچایا اور ہمیں بھی دراصل اس طریقہ کار کو سیکھنے اور اس پر عبور حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یاسر نے کہا کہ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ داس کیپیٹل معیشت کی کتاب ہے مگر جوں جوں اس کتاب کو قاری پڑھتا جاتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ فلسفے کی کتاب ہے اور کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی ادب کی کتاب ہے۔ اسی طرح سلمیٰ اور ناصرہ نے کیپیٹل اور اس کے بعد کے ڈیڑھ سے سالوں میں ہونے والی نظریاتی بحثوں پر روشنی ڈالی۔اس کے بعد صبغت نے بحث کو سمیٹتے ہوئے تمام سوالات کا جواب دیا۔انہوں نے لینن کے کردار پر بھی روشنی ڈالی جس نے اس کتاب کو درست انداز میں سمجھا اور بیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ نظام میں آنے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ان نظریات کا اطلاق کیا۔لینن کی شہرہ آفاق تصنیف’’سامراج۔۔۔ سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ انہی نظریات کا تسلسل ہے اور مارکسزم کے حوالے سے اہم اضافہ ہے۔صبغت نے سامراج کے کردار پر بھی تفصیلی اظہار خیال کیا اور آج کے عہد میں داس کیپیٹل کو درست انداز میں سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
سکول کے دوسرے روز ناشتے کے بعد تیسرے سیشن کا آغاز ہوا جس کا موضوع ’’روس: انقلاب سے رد انقلاب تک‘‘ تھا۔ اس سیشن کو کوئٹہ سے کریم پرہر نے چئیر کیا۔لیڈ آف کے آغاز پر زین نے کہا کہ یہ سال انقلاب روس کی صد سالہ تقریبات کا سال ہے اور میڈیا اور حکمران طبقے کے دلال دانشوروں کی جانب سے نا صرف بالشویک انقلاب اور اس کے قائدین بلکہ مارکسزم کے نظریات پر تازہ حملوں کا سلسلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس لئے یہ ہمارا انقلابی فریضہ ہے کہ ہم ان نظریات کا دفاع کریں اور اس کے ساتھ ساتھ محنت کشوں اور نوجوانوں کی وسیع ت پرتوں تک ان نظریات کو پہنچائیں اور انسانی تاریخ کے اس سب سے بڑے واقعے ، روس انقلاب کی حاصلات اور اس کے انہدام کی سائنسی وجوہات بیان کریں۔ ایسا صرف روس انقلاب کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ حکمران طبقات کی جانب سے ماضی کے تمام انقلابات کو تاریخ سے مٹا دینے کی کوششیں کی گئیں۔ یہ درحقیقت حکمران طبقے کا اپنے آسائشوں، منافعوں اور حکمرانی کو بچانے کا خوف ہوتا ہے جو اس کو یہ سب کرنے پر مجبور کرتا ہے اور روس انقلاب نے تو پہلی بار اکثریت کی حکومت قائم کی اور یہ ثابت کیا کہ سرمایہ داروں ، جاگیرداروں، بینکوں کے بغیر بھی سماج کو چلایا جاسکتا ہے اور سوویت یونین دنیا کے نقشے پر پہلی مزدور ریاست کی صورت میں ابھرا۔ اس لئے مارکسزم، سوشلزم، لینن، ٹراٹسکی اور سوویت یونین کے خلاف اس مسلسل ہرزہ سرائی کی وجہ سامنے آتی ہے۔ انقلاب اور انقلاب کے عمل پر بات کرتے ہوئے زین نے کہا کہ تاریخ کے دھارے میں عوام کی براہ راست اور فیصلہ کن مداخلت کو ٹراٹسکی انقلاب کا نام دیتا ہے جب عوام اپنے حالات زندگی سے تنگ آکر سٹیٹس کو کو مزید برداشت کرنے سے انکار کردیتے ہیں اور معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔ انقلاب جہاں ایک طرف موجودہ ریاستی ڈھانچے کو ڈھا کر ایک نئی ریاست تشکیل دی جاتی ہے تو دوسری طرف انقلابی عمل لوگوں کو یکسر تبدیل کردیتا ہے اور ان کو نئے سماج کو چلانے کے لئے تیار کرتا ہے۔ رائج الوقت اخلاقیات، نفسیات، رسم و رواج ، رشتے ناطے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ خودغرضی، نفسا نفسی اجتماعیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کچھ غیرمعمولی کر گزر جانے کا جذبہ غالب آجاتا ہے۔ روس انقلاب پر بات کرتے ہوئے زین نے انقلاب سے قبل روس کے حالات کو بیان کیا کہ کس طرح پہلی عالمی جنگ نے پہلے سے پسماندہ سماج کو پسماندگی اور تباہی کی انتہاؤں تک پہنچا دیا۔ فروری انقلاب کا آغاز خواتین کے عالمی دن سے ہوا جب بڑی تعداد میں خواتین بالخصوص ٹیکسٹائل کی محنت کش خواتین نے ہڑتال کردی جو کہ دوسرے شعبوں تک پھیل گئی۔ 28 فروری تک پیٹروگراڈ کے محنت کشوں اور سپاہیوں نے زارشاہی کا خاتمہ کردیا اور اقتدار محنت کشوں اور فوجیوں کی سوویتوں کے حوالے کردیا مگر منشویک اور سوشل ریولوشنریز کی غداری کے باعث اقتدار بورژوازی کے حوالے کردیا گیا۔ اس کے بعد زین نے تفصیل سے عبوری حکومت، لینن کی واپسی، مرحلہ وار انقلاب اور مسلسل انقلاب، بالشویک پارٹی کی تعمیر نو، اپریل تھیسیس، ٹراٹسکی اور بالشویک پارٹی، جولائی کے رجعتی دنوں، روس میں کسانوں اور محکوم قومیتوں کے مسئلے پر تفصیل سے بات رکھی۔ زین نے کہا کہ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں کس طرح روٹی، امن اور زمین کے درست نعرے دیتے ہوئے بالشویکوں نے سوویتوں میں اکثریت جیتی اور بالآخر اکتوبر کے آخر میں ایک فیصلہ کن مسلح سرکشی کرتے ہوئے دنیا کہ پہلی مزدور جمہوریت قائم کی اور اقتدات محنت کشوں کی سوویتوں کے حوالے کیا گیا۔ انقلاب کے فوری بعد نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے ذرائع پیداوار محنت کشوں کے اجتماعی کنٹرول میں دیے گئے اور پہلی قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت آغاز کرتے ہوئے مزدوروں اور کسانوں کی طرف وسائل کا ر موڑ دیا گیا۔ لینن کے مطابق روس کا انقلاب عالمی سوشلسٹ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع کیا گیا جس میں سوویت یونین کی ساخت، بیوروکریسی کے ابھار، سٹالن کے کردار، قومی سوال سمیت کئی پہلوؤں پر سوال کئے گئے۔
بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے لاہور سے آفتاب اشرف اور کراچی سے پارس جان نے قومی سوال پر مارکسی مؤقف اور آج کے عہد میں قومی سوال کے کردار اور حل پر بات کی۔ کوئٹہ سے ولی خان نے ثور انقلاب اور افغانستان میں سوویت بیوروکریسی کے مجرمانہ کردار پر بات کی۔اس کے علاوہ ملتان سے راول اسد، لاہور سے عمیر یونس اور گوجرانوالہ سے سلمیٰ نے موضوع پر بات کی۔ کنٹری بیوشنز کے بعد زین نے انقلاب کی حاصلات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ چند سالوں کے عرصے میں اتنی حیران کن ترقی کسی بھی ذی شعور کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسی ترقی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سائنس، تکنیک، ہیلتھ، ہاؤسنگ، تعلیم سمیت ہر شعبے میں منصوبہ بند معیشت نے اپنا لوہا منوایا۔ مگر خانہ جنگی کی تباہ کاریوں اور انتہائی پسماندگی کی کیفیت میں روس کے انقلاب کے تنہا رہ جانے نے بیوروکریسی کے ابھار کو جنم دیا اور ایک سیاسی ردانقلاب کے نتیجے میں اقتدار محنت کشوں کی سوویتوں کے ہاتھوں سے نکل کر بیوروکریسی کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ اور یوں روس میں سٹالنزم کا بھار ہوا جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جڑیں مضبوط کرتا گیا۔ منصوبہ بند معیشت کو چند افراد پر مشتمل افسر شاہی سے نہیں چلایا جاسکتا بلکہ مزدور جمہوریت کے ادارے ہی چلاسکتے ہیں اور سوویت یونین کا یہی بنیادی تضاد تھا۔ زین نے سٹالنزم اور سوویت یونین پر ٹراٹسکی کی تنقید ، پرولتاری بوناپرٹزم اور اس کے بعد ریاستی سرمایہ داری کے بیہودہ تجزیے پر بات رکھی۔ زین نے کہا کہ روس میں جو ناکام ہوا وہ سوشلزم نہیں بلکہ مزدورریاست کی انتہائی بھونڈی اور زوال پذیرشکل تھی۔ سرمایہ داری اپنے تاریخی بحران میں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی بالشویزم کا رستہ ہی انسانیت کا مستقبل بدل سکتا ہے اور ہم اسی بالشویزم کے ان ٹوٹ دھارے کا حصہ ہیں۔ ہمارا مقصد بس سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا نہیں بلکہ ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کر کے دکھانا ہمارا تاریخی فریضہ ہے۔
سکول کے آخری سیشن کا موضوع ’’مارکسزم اور خواتین کا سوال‘‘ تھا جس پر کراچی سے انعم خان نے لیڈ آف دی جبکہ اس سیشن کو لاہور سے ولید خان نے چئیر کیا۔ انعم نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ سماج میں موجود خواتین کو درپیش مسائل، خواتین پر جبر کی تاریخ، خواتین کے سوال کے طبقاتی کردار، اور رائج الوقت نظریات پر روشنی ڈالی۔ انعم نے کہا کہ خواتین کے حوالے سے ہمیں ایک طرف بنیاد پرستی اور ملائیت کا جبر نظر آتا ہے جو کہ عورت کو مجبور و مقہور بنا کر گھر کی چادریواری تک محدود کردیتا ہے اور دوسری طرف لبرلزم کی دوسری انتہا نظر آتی ہے جو کہ عورت کی آزادی کے نام پر اس کو منڈی میں بکنے والی ایک جنس بنا دیتا ہے۔ انعم نے کہا کہ مارکس وادی ان دونوں مؤقف کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ مارکسزم خواتین کے سوال اور ان کی نجات کو تاریخی پس منظر میں دیکھتا اور اور اس کی مادی بنیادوں کی تشریح کرتے ہوئے حل پیش کرتا ہے۔ ریاست اور نجی ملکیت کے ساتھ ہی خواتین پر ظلم و جبر کا آغاز ہوتا ہے اور سماج کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس جبر کی شکلیں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ انقلابات اور اس کے ساتھ منڈی کے پھیلاؤ نے عورت کو گھر سے نکال کر فیکٹریوں اور ملوں میں پہنچا دیا اور یوں وہ دوہرے جبر کا شکار ہوگئیں ۔ انعم نے کہا کہ مارکسی خواتین کی آزادی کی لڑائی کو ایک الگ تھلگ لڑائی کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ اس کو محنت کش طبقے کی عمومی لڑائی کے ایک حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ نجی ملکیت ہی وہ بنیاد ہے جو عورت پر جبر کا جواز فراہم کرتا ہے اور نجی ملکیت کے خاتمے تک عورتوں کی حقیقی آزادی ممکن نہیں۔ انعم نے خواتین کے متعلق رائج الوقت اخلاقیات اور دیگر نظریے جیسے فیمیزم اور انٹر سیکشنلٹی پر بھی بات رکھی۔ انعم کہنا تھا کہ فیمینزم ایک بورژوا نظریہ ہے اور محنت کش طبقے کو جوڑنے کی بجائے تقسیم کرتا ہے جو کہ مزدور تحریک کو نقصان پہنچاتا ہے۔ حکمران طبقے کی خواتین کسی طور بھی مجبور و مقہور نہیں بلکہ وہ مردوں پر ظلم کرتی نظرآتی ہیں جبکہ خواتین کی اکثریت کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے اور جب تک محنت کش طبقہ سرمایہ داری سے نجات حاصل نہیں کرلیتا خواتین پر جبر جاری رہے گا۔ اس کے بعد کشمیر سے آمنہ، گوجرانوالہ سے عرشیہ، صبغت، اویس اور ناصرہ، لاہور سے عثمان ضیا اور ولید خان، حیدرآباد سے علی برکت اور اسلام آباد سے ماہ بلوص اسد نے بحث کو آگے بڑھایا۔ اس کے بعد کامریڈ انعم نے سم اپ کرتے ہوئے تمام سوالوں کے جواب دیے اور خواتین میں مارکسی نظریات کی ترویج کے لائحہ عمل اور طریقہ کار کے بارے میں تجاویز کو ٹھوس انداز میں پیش کیا۔
سکول کے اختتامی کلمات اداکرتے ہوئے آدم پال نے کہا کہ اس سکول میں ہونے والی بحثوں کا مقصد کوئی دانشور تیار کرنا نہیں بلکہ ان مارکسی نظریات کو سیکھتے ہوئے ان کو عملی جدوجہد میں لانے کی ضرورت ہے۔ ان نظریات کو نوجوانوں اور محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں کر لے کر جانا ہمارا فریضہ اور اس سکول کا مقصد ہے۔ مارکسزم کے انہی نظریات کی بنیاد پر ہی وہ انقلابی پارٹی تعمیر کی جاسکتی ہے جو مستقبل کے انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے یہاں سوشلسٹ سماج تعمیر کرے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان درست نظریات کی بنیاد پر اپنی قوتوں میں تیز ترین اضافہ کریں تاکہ یہ خطہ 2011ء کا مصر یا تیونس نہ بنے جب ایک سوشلسٹ انقلاب کرنے کے مواقع موجود تھے لیکن انقلابی پارٹی موجود نہیں تھی۔ہماری تمام تر کوشش ہے کہ یہ ملک1917ء کا روس بنے اور یہاں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کی تمام تر غلاظتوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ سکول کے اختتام پر انٹرنیشنل گایا گیا۔
بحثوں کے معیار اور ثقافتی لحاظ سے یہ ایک انتہائی کامیاب سکول تھا۔سکول میں شرکت کرنے والے تمام نوجوان ایک نئے جذبے اور ولولے اور ٹارگٹس کے ساتھ واپس روانہ ہوئے اور یقیناًیہ سکول مارکسی قوتوں کی تعمیر میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا ۔