|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس ملتان|
28 جولائی بروز اتوار ملتان میں نیشنل مارکسی سکول کشمیر کی تیاری کے سلسلے میں ایک روزہ ایریا مارکسی اسکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبا جن میں بی زیڈ یو، ایمرسن کالج اور دیگر شامل ہیں نے شرکت کی۔ طلبا کیساتھ ساتھ مختلف اداروں سے محنت کشوں اور اساتذہ نے بھی شرکت کی۔ مجموعی طور پر 20 سے زائد لوگوں نے سکول میں شرکت کی۔
سکول میں دو سیشنز پر بحث کی گئی جن میں پہلا سیشن کارل مارکس کی کتاب داس کیپیٹل کے دوسرے اور تیسرے چیپٹر”زر اور گردش اشیاء”پر جس پر بحث کا آغاز راول اسد نے کیا۔ راول نے بحث کا آغا داس کیپیٹل کے پہلے چیپٹر”کموڈٹی (شے)”سے کیا اور کموڈٹی کی دو اہم خصوصیات بیان کیں جن میں پہلی خصو صیت قدر استعمال اور دوسری قدر تبادلہ کو عملی مثالوں کے ساتھ سمجھایا۔ سرمایہ داری میں سرمایہ دار یا اشیاء بنانے والے کا ان اشیاء سے تعلق کو واضح کیا کہ سرمایہ دار اشیاء کو محض تبادلے (بیچنے) کی غرض سے بناتا ہے اور یہ وہ عمل ہے جو سرمایہ داری کو پچھلے تمام تر نظاموں سے منفرد کرتا ہے۔ اسی طرح دو اشیاء کے درمیان تبادلے کے پیمانے”سماجی ضروری محنت” پر بھی روشنی ڈالی۔ اسکے بعد زر کے جنم پر بات کرتے ہوئے راول کا کہنا تھا کہ آغاز میں یہ تبادلہ شے کے بدلے میں شے سے کیا جاتا تھا۔ پھر سماج میں اشیاء کی پیداوار محنت کی تقسیم کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے اسی کے ساتھ ہی اشیاء کے تبادلہ میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اشیاء کے تبادلے میں اضافے کی بدولت ایک ایسی شے کی ضرورت پڑتی ہے (منڈی میں اضافے کیلئے) جس کے ساتھ باقی تمام اشیاء کا تبادلہ کیا جاسکے۔ اس شے کو زر کہتے ہیں۔ اسے مارکس یونیورسل ایکیویلنٹ کا نام دیتا ہے۔ اسی طرح پھر راول نے زر کے ارتقاء پر بات کی اور قیمتی دھاتوں کے بطور زر کے وجود رکھنے سے لے کر زر کی ڈیجیٹل شکل تک کے سفر کو تفصیل سے بیان کیا۔ آخر میں راول نے سوشلسٹ سماج میں زر کے کردار پر بات کی۔
اسکے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ سوالات کے بعد بحث میں حصہ ملاتے ہوئے کامریڈ عمر فاروق نے سونے کے یونیورسل ایکویلینٹ کے طور پر ابھرنے کی وجوہات بیان کیں اور کموڈٹی کی خصوصیات کے ساتھ جوڑتے ھوئے دونوں کے درمیان تعلق واضح کیا۔ اس کے بعد کامریڈ فضیل اصغر نے بات کرتے ہوئے قدیم اشتراکی طرز پیداوار سے لے کر سرمایہ دارانہ طرز پیداوار تک کے ارتقائی سفر کو بیان کیا۔ اسکے ساتھ ساتھ سماج، طبقات اور زر کے متعلق موجود مغالطوں پر بات کی اور سوشلسٹ سماج میں زر کے کردار کے پر روشنی ڈالی۔ اسکے بعد کامریڈ ماہ بلوص نے سرمایہ دارانہ طرز پیداوارکی بدولت جنم لینے والی بیگانگی پر بات کی۔ آخر میں ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے راول اسد نے سرمایہ داری کو سمجھنے میں اس کتاب کی اہمیت پر بات کی۔
اس کے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ سوالات کی روشنی میں بات کرتے ہوئے کامریڈ نعیم مہار نے سرمایہ دارانہ ریاست کے مطعلق حکمران طبقے کی جانب سے پھیلائے جانے والے پراپیگنڈے پر بات کی اور بتایا کہ کس طرح ریاست کو ایک مقدس ادارہ بنا کر پیش کیا جا تا ہے۔ اس کے بعد کامریڈ راول نے ریاست کے مارکسی نکتہِ نظر پر بات کی اور بتایا کہ روس انقلاب میں کس طرح سرمایہ دارانہ ریاست کو بزور طاقت مزدور طبقہ نے اکھاڑ پھینکا اور مزدور ریاست کا قیام عمل میں لایا۔
آخر میں کامریڈ ماہ بلوص نے پیرس کمیون سے اخذ کیے ہوئے مارکس اور اینگلز کے
تجربات بیان کئے اور سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑ پھینکنے کے بعد مزدور ریاست کے قیام کی اہمیت پر بات کی۔ مزید وضاحت کی کہ کمیونسٹ سماج تک جانے میں کس طرح ریاست اپنی اہمیت آہستہ آہستہ کم کرتے ہوئے ختم ہو جائے گی۔ آخر میں کامریڈ عمیر نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے سیشن کا اختتام کیا۔