|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|
پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام 22-20 دسمبر کراچی میں تین روزہ مارکسی سکول (سرما) منعقد ہوا۔ انتہائی شدید معاشی مشکلات کے باوجود، سکول میں ملک بھر کے مختلف شہروں سے لگ بھگ 100 طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں نے شرکت کی۔ سکول مجموعی طور پر پانچ سیشنز پر مشتمل تھا۔
جمعہ کی صبح سکول کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ سکول کے پہلے سیشن کا موضوع ”عالمی و پاکستان تناظر“ تھا۔ اس سیشن کو کراچی سے انعم خان نے چئیر کیا، جبکہ لیڈ آف اسلام آباد سے عمر ریاض نے دی۔
آغاز میں انعم نے پورے ملک سے آئے ہوئے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور موجودہ عالمی و ملکی صورتحال کے تناظرمیں اس موضوع کی اہمیت کا ذکر کیا۔ اس کے بعد عمر ریاض کو بات کرنے کیلئے مدعو کیا۔ عمر ریاض کا کہنا تھا کہ موجودہ عہد تیز ترین تبدیلیوں کا عہد ہے۔ ماضی کی مستحکم ترین ریاستیں آج عدم استحکام کی حدوں کو چھو رہی ہیں اور پوری دنیا پر انقلابات کا بھوت منڈلا رہا ہے۔ عمر ریاض کا کہنا تھا کہ آج ہر خطہ عوامی تحریکوں کی زد میں ہے۔ فرانس تا چلی، ہانگ کانگ تا لبنان، ہر جگہ ایک دفعہ پھر محنت کش طبقہ اور نوجوان انگڑائی لے رہے ہیں۔ ان تحریکوں کے ابھار کی وجوہات اور ارتقاء کو آج مارکسی فلسفے کے بغیر بالکل نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ انقلاب کا سالماتی عمل (Molecular Process) ہے جس میں لمبے عرصے سے مجتمع شدہ عوامی غم و غصہ آج انقلابی غیض و غضب میں اظہار پذیر ہے اور آنے والے عرصے میں مزید انقلابی تحریکوں کا اُبھار دیکھنے کو ملے گا۔
سرمایہ دارانہ نظام اس وقت اپنی فطری عمر پوری کرچکا ہے اور اس کو ایک کے بعد دوسرے بحران کا سامنا ہے۔ 2008ء کے عالمی بحران کے بعد نام نہاد ”طویل ترین بحالی“ ایک نئے اور معیاری طور پر پہلے سے زیادہ خطرناک بحران کو جنم دینے کا سبب بن رہی ہے۔ آج عالمی جی ڈی پی مسلسل سکڑ رہا ہے اور طبقاتی خلیج میں شدید ترین حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ وہیں سرمایہ دارانہ نظام کے اندر بہتری کے امکانات مکمل معدوم ہوچکے ہیں، جس کے باعث عوامی شعور کو جست لگی ہے اور آج سیاسی منظر نامے میں پولرائزیشن میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ میں ٹرمپ کے اُبھار کو اسی تجزیے کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے، کہ امریکہ کا دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے بنا کردار اس وقت مہندم ہو رہا ہے۔ فری ٹریڈ کا علمبردار آج تحفظاتی پالیسیاں لاگو کر رہا ہے۔ وہیں افغانستان تا شام اس کو شدید ناکامیوں کا سامنا ہے۔ عمر کا مزید کہنا تھا کہ عالمی سرمایہ دارانہ بحران کا اظہارتجارتی جنگ کی صورت میں ہورہا ہے اور دوبارہ یہ عالمی بحران میں مزید شدت لارہا ہے۔
یورپی یونین کا مستحکم ترین ملک برطانیہ آج عدم استحکام کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ عمر نے برطانیہ میں بورس جانسن کی حالیہ جیت کی وجوہات بیان کیں اور مستقل میں اسے نئے تضادات کو جنم دینے کی قوت محرکہ قرار دیا۔اسی طرح عمر کا کہنا تھا کہ جرمنی اس وقت صنعتی پیداوار میں گراوٹ کا سامنا کر رہا ہے اور آنے والے عرصے میں یورپ دوبارہ تحریکوں کی زد میں ہوگا۔ عمر کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ عہد میں طاقتوں کے توازن میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، جنوبی ایشیا میں ہندوستان کے کشمیر کی خود مختاری کے خاتمے کا عمل اسی چیز کا اظہار ہے مگر اس ساری صورت کے اندر خود ہندوستان ایک تحریک کے دہانے پر کھڑا ہے، جبکہ پاکستان کے اندر ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل کھلے عام اپنا اظہار کررہا ہے اور حکمران طبقے کی آپسی لڑائیاں آج کھل کر سطح پر اپنا اظہار کررہی ہیں۔ سوڈان، چلی، ہانگ کانگ، ایکواڈور، ایران، عراق و دیگر ممالک کی تحریکیں نیولبرل پالیسیوں اور سرمایہ داری کی ناکامی کا مجسم اظہار ہیں اور یہ سب تحریکیں عالمی انقلابی عہد کا ثبوت ہیں۔ ضرورت صرف ایک حقیقی انقلابی قیادت کی ہے جو ان ساری تحریکوں کو عالمی انقلاب کی لڑی میں پرو سکے۔
اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اوردیگر شرکاء نے بھی بحث میں شمولیت کی۔ لاہور سے رائے اسد نے عالمی بحران کے پسماندہ ممالک پر اثرات پر بات کی۔ ہندوستان پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کانگریس اور دیگر روایتی سیاسی پارٹیوں اور بائیں بازو کی قیادت کے خصی پن نے مودی کے اُبھار میں اہم کردار ادا کیا ہے، مگر ہندوستان میں فاشزم کے ابھار کی باتیں کرنے والے آج عوامی تحرک کو دیکھ کر حیران ہیں اور تجزیہ کرنے سے مکمل قاصر نظر آتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی ریاست اور حکمران طبقہ کئی دھڑوں میں منقسم ہے، جو دولت کی بندر بانٹ پر آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ وہیں دوسری طرف محنت کش طبقے کو مہنگائی، نجکاری اور بیروزگاری کے حملوں کا سامنا ہے، جس کے خلاف لڑنے کا واحد راستہ ایک ملک گیر عام ہڑتال ہے۔ بہاولپور سے عرفان منصور نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا پاکستان کے اکثر دانشور اور سوشل ڈیموکریٹ، لاقانونیت کو مسائل کا سبب بتاتے ہیں، مگر درحقیقت اس وقت قانونیت ہی کے اندر مسائل کی جڑیں موجود ہیں اور ضرورت ہے کہ عبوری مسائل کو سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ جوڑتے ہوئے محنت کش طبقے کی جدوجہد کو مہمیز دی جائے۔ دادو سے ستار جمالی نے موجودہ عہد میں قومی سوال کے ابھار کی وجوہات اور انکے حل پر بات کی۔ ملتان سے اسماء نے کشمیر میں ہندوستانی حکمران طبقے کی جارحیت کی وجوہات پر بات کی اور اس کے ہندوستان میں نئی ابھرنے والی تحریک کیساتھ تعلق کو بیان کیا۔ کراچی سے عادل عزیز نے برطانوی الیکشن پر تفصیلی بات کی۔اسی طرح بریگزٹ اور بورس جانسن کی جیت کے مستقبل میں برطانوی سماج پر پڑنے والے اثرات کو تفصیل سے بیان کیا۔ کشمیر سے عاقب نے کشمیر کے قومی سوال اور حالیہ صورت حال پر تفصیلی بات کی۔ حیدرآباد سے امر فیاض کا کہنا تھا کہ اس وقت ماضی کی تمام سیاسی پارٹیاں اپنی بنیادیں کھو چکی ہیں، سندھی قومی سوال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی سامراجی قوت کی حمایت کے ذریعے آزادی کا حصول دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں۔
بلوچستان سے کریم پرہار نے امریکی سامراج کی کمزوری اور اسکے افغانستان پر پڑنے والے اثرات پر تفصیلی بات کی۔ ملتان سے فضیل اصغر نے پاکستان کے سرمایہ دار طبقے کے تاریخی خصی پن اور موجودہ ریاستی بحران پر تفصیلی بات کی۔ لاہور سے زین العابدین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ عراق کی موجودہ تحریک اپنے ماضی کے تجربات سے لیس ہے اور اسی طرح ایران کی تحریک نے بھی موجودہ ملا ریاست کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔ لبنان کی تحریک نے تمام مذہبی منافرتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے طبقاتی اتحاد کا اظہار کیا ہے، مگر ہمیں ان میں واحد کمی انقلابی قیادت کی نظر آرہی ہے۔ حالیہ تمام تحریکیں نیولبرل پالیسیوں کی ناکامیوں کا اظہار ہیں۔ اس وقت تمام بڑے جریدوں کے اندر سوشلزم کے مخالف سُرخیاں سوشلزم کے خوف کا واضح اظہار ہیں۔اس کے بعد بحث کو سمیٹتے ہوئے عمر ریاض کا کہنا تھا کہ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کے اندر اصلاحات کے امکانات مکمل طور پر معدوم ہوچکے ہیں اور معاشی بہتری کیلئے اُٹھائے گئے تمام تر اقدامات نئے بحرانات کو جنم دینے کا سبب بنیں گے۔ اس عہد میں عوامی شعور اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے بہت آگے بڑھ چکا ہے جو نئی تحریکوں اور انقلابات کی صورت میں اپنا اظہار کرے گا۔ موجودہ عہد کو ایک قبل از انقلابی عہد کہا جاسکتا ہے۔ ضرورت صرف اور صرف ایک انقلابی قیادت کی ہے جو ان تحریکوں کو درست سمت دیکھاتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب میں بدل دے۔
دوسرا سیشن: انقلابِ چین 1925ء تا 1949ء
دوسرے سیشن کو کوئٹہ سے امیر آیاز نے چئیر کیا اور لیڈ آف لاہور سے زین العابدین نے دی۔ زین نے چین کے انقلاب پر بحث کا آغاز چین کے انقلاب کی اہمیت سے کیا کہ انقلابِ چین آج کے عہد کیلئے بیش بہا تجربات و نتائج کا خزانہ ہے۔ زین کا کہنا تھا کہ 1949ء سے قبل تک چین ایک انتہائی پسماندہ اور نیم جاگیردارانہ ملک تھا جہاں سرمایہ داری کوئی ایک بھی فریضہ پورا کرنے سے قاصر رہی۔ کسانوں کا سوال پورے ملک میں سلگ رہا تھا اور کسان بغاوتیں معمول تھیں۔ سرمایہ داری کسی انقلاب کی بجائے بیرونی سرمائے کے بل پر وار دہوئی اور ساتھ ہی سامراجی مداخلت اور بیرونی سرمائے نے ماضی کی غلاظتوں کا خاتمہ کرنے کی بجائے ان تضادات کو مزید گہرا کردیا اور ظلم اور جبر کی نئی داستانیں رقم کیں۔ 1911ء کا چین کا پہلا بورژوا انقلاب بھی ان سوالات کو حل کرنے میں ناکام رہا۔ جس قدر سرمایہ داری پروان چڑھی اس میں غیر ملکی سرمائے کا اہم کردار تھا۔ 27-1925ء کے انقلاب پر بات کرتے ہوئے زین کا کہنا تھا کہ اس انقلاب کی ناکامی کا ذمہ سوویت بیوروکریسی بالخصوص سٹالن اور بخارن کی غلط پالیسیوں کے سر جاتا ہے۔ 1925ء کا انقلاب ایک کلاسیکی پرولتاری انقلاب تھا جس میں چین کے بڑے شہروں خصوصاً شنگھائی کے پرولتاریہ کا اہم کردار تھا۔ اس انقلاب کے بعد اقتدار میں آنے والی پارٹی ’کومنتانگ (Koumintang)‘ ایک بورژوا پارٹی تھی جس کے ساتھ مرحلہ وار انقلاب کی پالیسی کے تحت چینی کمیونسٹ پارٹی کا الحاق ایک سنگین غلطی تھی، جس کا اظہار اس انقلاب کی ناکامی اور چیانگ کائی شیک کی فوج کے ہاتھوں پرولتاریہ اور کمیونسٹوں کے قتلِ عام سے ہوا۔ زین کا کہنا تھا کہ سٹالنسٹ بیوروکریسی کی مجرمانہ پالیسیوں کا اظہار اس انقلاب کی شکست کے بعد دوبارہ نظر آتا ہے جب انقلاب کی ناکامی کو تسلیم نہ کرتے ہوئے یہ پالیسی لاگو کی جاتی ہے کہ ’انقلابی پوٹینشل‘ کو ڈھونڈا جائے اور پھر انقلاب کو آگے بڑھایا جائے۔ اس سارے عرصے میں لیون ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن ہر موقع پر سٹالنسٹ بیوروکریسی کی غلط پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیتا آیا اور مشترکہ اور نا ہموار ترقی اور مستقل انقلاب کے نظریے پر قلمبند رہا۔
زین کا کہنا تھا کہ چیانگ کائی شیک (کومنتانگ پارٹی کا سربراہ) اپنے تقریباً بیس سالہ اقتدار میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ نہ تو وہ ریاست کو مکمل طور پر یکجا کرسکا اور نہ ہی کسانوں کا مسئلہ حل کرسکا۔ جس کے بعد ماؤزے تنگ کی قیادت میں پیپلز لیبریشن آرمی کی دیہی کسانوں میں حمایت میں کافی اضافہ ہوا۔ جس کا اظہار دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر خانہ جنگی (Civil War) کے نتیجے میں PLA کی فتح کی صورت میں ہوتا ہے۔ PLA ”زمین کسان کی“ کے نعرے پہ آگے بڑھتی ہے مگر جب ماؤ کی قیادت میں یہ شہروں کا رُخ کرتی ہے اور ایک دفعہ دوبارہ پرولتاریہ کے اقتدار پہ قبضے کی بجائے ایک کولیشن (Coalition) سرکار بنانے کی طرف جاتی ہے جس میں بورژوازی کو دوبارہ اقتدار میں حصہ لینے کا موقع دیا جاتا ہے۔
زین کا کہنا تھا کہ یہ انقلاب، انقلابِ روس کے برعکس دیہاتوں سے شہروں کی جانب بڑھا اور آغاز میں ملکیتی رشتوں کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہا۔ چین بجائے سوویت یونین بننے کی بجائے عوامی جمہوریہ چین بنا۔ مگر جلد دوبارہ بورژوا ملکیتی رشتے انقلاب کی راہ میں رکاوٹ بننے لگے جس کے نتیجے میں ماؤ اس نتیجے پر پہنچا کہ بنا منصوبہ بند معیشت کے کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ منصوبہ بند معیشت ہی تھی، جس نے چین کو اس قدر ترقی دی۔
زین کی لیڈ آف کے بعد سوالات کاسلسلہ شروع ہوا۔ اسکے ساتھ ساتھ دیگر شرکاء نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ بہاولپور سے عرفان کا کہنا تھا کہ چینی انقلاب پرولتاری آمریت قائم کرنے سے قاصر رہا اور تمام ڈھانچے اوپر سے مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ انقلاب ایک کلاسیکی سوشلسٹ انقلاب نہیں تھا بلکہ یہ بنیاد میں ہی تضادات کا شکار تھا۔ انہوں نے عمومی طور پر اور خصوصاً انقلاب چین میں کسانوں کے کردار اور پرولتاریہ اور کسانوں کے کردار میں فرق کو واضح کیا۔ بلوچستان سے رزاق غورزنگ کا کہنا تھا کہ روس کے انقلاب کی قوت محرکہ پرولتاریہ تھا، جب کہ اس انقلاب کی بنیاد کھیت مزدوروں اور کسانوں پر تھی جو کہ کسی صورت پرولتاریہ کی مانند یک جان اور انقلابی نہیں ہوتے۔ اس کے بعد لاہور سے عدیل زیدی کا کہنا تھا کہ سٹالنسٹ بیوروکریسی نے کئی انقلابات کو برباد کیا جن میں سب سے اہمیت کا حامل 1925ء کا انقلاب چین ہے۔ سوویت افسر شاہی نے پہلے سے طے کردہ طریقہ کار کو چین میں لاگو کرنے کی کوشش کی اور آخر میں انقلاب کو برباد کردیا۔ دادو سے ستار جمالی نے انقلاب کے بعد سٹالنسٹ بیوروکریسی اور چینی بیوروکریسی کے تعلق اور انکی غلط پالیسیوں اور قومی حدود کے اندر انقلاب کو محدود رکھنے پر تنقید کی۔
آخر میں زین نے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ماؤازم کسی تاریخی ضرورت نہیں بلکہ ایک تاریخی غلطی کا اظہار تھا۔ 1925ء کے انقلاب کے دوران سوویت بیوروکریسی کی جانب سے کی جانے والی فاش غلطیوں کا الزام چینی کمیونسٹ قیادت پر ڈال دیا گیا۔ مزید ماؤ کا انقلاب پرولتاری نہ تھا بلکہ ماؤ ہمیشہ ضرورت کے تحت مختلف طبقات کے ساتھ مصالحت کرتا آیا اور یہی نتیجہ 1949ء کے انقلاب کے دوران نظر آیا جب نجی ملکیت کے دفاع کیلئے ماؤ کے سپاہیوں نے عام محنت کشوں پر حملہ تک کر ڈالا۔ اسی طرح انقلاب کے بعد ماسکو اور چینی بیوروکریسی کی آپسی لڑائی چینی انقلاب کی محدودیت اور بیوروکریٹک زوال پذیری کا اظہار تھا اور یہ لڑائی بیوروکریسی کے مفادات کی لڑائی تھی۔ زین کا کہنا تھا پرولتاریہ کا اجتماعی کردار ہی اس کو انقلابی بناتا ہے اور آج کے چین میں ریاستی جبر ریاست کے خوف کا اظہار ہے جو جلد یا بدیر انقلابی ریلے کے آگے بہہ جائے گی۔
تیسرا سیشن: داس کیپیٹل حصہ سوئم، مطلق قدرِ زائد کی تخلیق
سکول کے تیسرے سیشن کو بہاولپور سے عرفان منصور نے چئیر کیا اور لیڈ آف کراچی سے پارس جان نے دی۔ پارس نے بات کا آغاز داس کیپیٹل کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مارکسزم کے نظریات کا عرق ہے۔ پارس کا کہنا تھا اشیاء کی قدر کا تعین ان پر لگی لازمی سماجی ضروری محنت کے وقت (Socially necessary labor time) سے کیا جاتا ہے۔ جوں جوں اشیاء کا تبادلہ عالمگیر ہوتا گیا تو ایک عالمگیر متبادل کی ضرورت پیش آئی جو زر (Money) کی صورت میں آج موجود ہے۔ زر کی سرمائے میں تبدیلی کے عمل پر بات کرتے ہوئے پارس کا کہنا تھا کہ زر اس وقت سرمایہ بنتا ہے جب اس کو قوتِ محنت کی خرید کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ قدرِ زائد پر بات کرتے ہوئے پارس کا کہنا تھا کہ یہ محنت کے عمل کے دوران پیدا ہوتی ہے جس کیلئے ضروری ہے Labor Process کو سمجھا جائے۔ Labor Process درحقیقت پیداواریت کا عمل ہوتا ہے جو دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، ایک انسانی محنت اور دوسرا فطرت۔ پارس کا کہنا تھا، پیداواریت، بیک وقت کھپت کا عمل بھی ہوتا ہے، جس میں خام مال اور انسانی محنت کھپ کے نئی پراڈکٹ بناتے ہیں۔ جب ہم محنت کی بات کرتے ہیں تو اس میں مکرونی (Concrete) اور معیاری نہیں بلکہ مقداری اور مجرد (Abstract) محنت لی جاتی یعنی ”کام“ کے اتنے گھنٹے نہ کہ ”فلاں کام“ کے۔
پارس کا کہنا تھا سرمایہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک مستقل سرمایہ (Constant Capital) دوسرا متغیر سرمایہ (Variable Capital)۔ مستقل سرمایہ وہ ہوتا ہے جو خام مال، مشینری اور اوزاروں پر خرچ ہوتا ہے، جو اپنی مکمل قدر نئی پراڈکٹ میں منتقل کردیتے ہیں۔ جب کہ متغیر سرمایہ وہ ہے جو انسانی قوتِ محنت کی خرید پر لگتا اور یہ اپنے سے اضافی قدر پیدا کرتا ہے۔ چونکہ متغیر سرمایہ نئی قدر پیدا کرتا ہے اس لیے سرمایہ دار کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کو کم سے کم کرکے زیادہ سے زیادہ قدر حاصل کرے۔ متغیر سرمائے سے اضافی جو قدر پیدا ہوگی اسے قدرِ ذائد کہا جاتا ہے۔ اسی بنا پر قدرِ زائد کی شرح بھی قدرِ زائد کو متغیر سرمائے پر تقسیم کرکے حاصل کیا جاتا ہے۔
پارس کا کہنا تھا چونکہ محنت ہی قدرِ زائد پیدا کر رہی ہے تو محنت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک ضروری محنت جو اس پر خرچ کیے سرمائے کے برابر ہوتی ہے اور دوسرا زائد محنت جو کہ قدرِ زائد پیدا کرتی ہے۔ لہٰذا اس بنا پر استحصال کی شرح بھی زائد محنت پر ضروری محنت کو تقسیم کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس سارے عمل کے اندر ہمیں واضح نظر آتا ہے کہ قدرِ زائد وہ قدر ہے جو مزدور کا استحصال کرکے حاصل کی جاتی ہے۔ وہ استحصال محنت کے گھنٹوں میں اضافے کی صورت میں ہوتا ہے، لہٰذا سرمایہ دار طبقے کی ہمیشہ ان گھنٹوں میں اضافے کی کوشش ہوتی ہے۔ مگر آج کے عہد میں کام کے کم گھنٹے محنت کش طبقے کی طبقاتی جدوجہد کے مرہون منت ہیں۔ مگر پھر ریاست کی طرف سے مختلف قوانین کے ذریعے کام کے گھنٹوں کا تعین اور پیداواری اخلاقیات کا قیام صرف اس استحصال کو جائز قرار دینا ہوتا ہے۔
اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر شرکاء نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ ملتان سے فرحان رشید نے زر کی سرمائے میں تبدیلی کے عمل پر تفصیلی بات کی۔ اسی طرح پیداواری اور غیر پیداواری کھپت پر بھی بات کی اور سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے عہد میں غیر پیداواری کھپت میں اضافے پر بات کی۔ دادو سے خالد جمالی نے قدر زائد کے جنم کو مختلف مثالوں کے ذریعے بیان کیا۔
بلوچستان سے خالد مندوخیل نے سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقے اورپرانے نظاموں میں محنت کش طبقے کی ساخت اور کردار میں فرق واضح کیا۔ لاہور سے زین نے داس کیپیٹل میں استعمال ہونے والی مختلف بنیادی اصطلاحات کی تشریح کی۔ اسی طرح مختلف سوالات کے جوابات بھی دیے۔ ملتان سے فضیل اصغر نے مستقل سرمائے اور متغیر سرمائے کے سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقاء کے اندر زیادتی اور کمی کی وجوہات کو بیان کیا اور مستقل سرمائے کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہونے والے موجودہ عالمی معاشی بحران کا تعلق جوڑا۔ آخر میں سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے پارس جان نے سوالات کے جواب دیے۔ پارس کا کہنا تھا سوشلسٹ معاشرے کے اندر ابتدا میں زر کی کسی قدر ضرورت ہوگی مگر کمیونسٹ سماج کے اندر زر کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ پارس کا کہنا تھا کہ آج کے عہد میں محنت کش طبقے کی تمام مراعات جدوجہد سے حاصل کردہ ہیں۔ آج سرمایہ داری کا بحران طبقاتی جدوجہد میں شدت لارہا ہے جو صرف پرولتاریہ آمریت کے اندر اختتام پذیر ہوگا۔ قدرِ زائد، جس کی بنیاد زائد محنت اور ضروری محنت کے تضاد پر ہے، ایک انقلاب پر منتج ہوگی اور ایک کمیونسٹ سماج کا قیام ہی اس تضاد کا خاتمہ کرسکتا ہے۔
چوتھا سیشن: ریاست اور انقلاب
مجموعی طور پر سکول کے چوتھے سیشن کو لاہور سے رائے اسد نے چئیر کیا اور لیڈ آف ملتان سے راول اسد نے دی۔ راول کا کہنا تھا کہ آج کے عہد میں ریاست کا سوال سب سے اہم ترین ہے۔ ریاست کا وجود انسانی تاریخ کے ایک خاص نقطہ پر ہوا اور اس سے پہلے انسان نے لاکھوں سال بغیر ریاست (اور طبقاتی سماج) کے گزارے۔ طبقاتی سماج کا قیام زائد پیداوار کے آغاز کے ساتھ ہی ہوا اور زائد پیداوار کی ملکیت کا سوال ریاست کی بنیاد بنا۔ ریاست اس وقت ابھری جب ابھرنے والے طبقات کے درمیان مصالحت ممکن نہ رہی۔ چونکہ ریاست طبقاتی نامصالحت کی وجہ سے ابھرتی ہے تو یہ اس طبقاتی تضاد کو برقرار رکھتی ہے، نہ کہ ختم کردیتی ہے۔ ریاست کا جنم سماج کے اندر سے ہوا مگر یہ آہستہ آہستہ سماج سے بیگانہ ہوتی چلی گئی۔ ریاست ایک طبقے (طاقتور) کا دوسرے (محکوم) پر جبر کا آلہ ہے۔
راول کا کہنا تھا کہ ریاست کے اہم ترین ستون مسلح افواج کے جتھے، جیلیں، پارلیمان اور بیوروکریسی ہوتے ہیں۔ انقلاب کا اولین فریضہ ان تمام اداروں کو تحلیل کرکے انکی جگہ محنت کش طبقے کے اداروں کا قیام ہوتا ہے۔ پیرس کمیون کے تجربات نے مکمل طور پر واضح کیا کہ، پرانے ریاستی ڈھانچے کے اوپر پرولتاریہ کی ریاست کا قیام عمل میں لانا ناممکن ہے، واحد حل پرولتاری آمریت کا قیام عمل میں لانا ہی ہے۔ اسی طرح سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں سرمایہ دارانہ ریاست کے خاتمے اور پرولتاری آمریت کے قیام پر تفصیلی بات کی۔ راول نے کمیونزم کے اندر ریاست کے خاتمے کے عملکو بھی تفصیل کیساتھ بیان کیا۔
اسی طرح ریاست کے خاتمے کے متعلق انارکسٹوں کے موقف اور مارکسی موقف میں فرق کو واضح کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ رفتہ رفتہ ریاست کے تحلیل ہونے کا عمل بورژوا ریاست پر نہیں بلکہ پرولتاری ریاست پر ہوگا، جبکہ بورژوا ریاست کا خاتمہ فوری طور پر انقلاب سے ہوگا۔
لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر شرکاء نے بحث میں حصہ لیا۔ لاہور سے باسط نے ”جمہوریت پسندوں“ کے ریاست پر موقف میں اور مارکسی موقف میں فرق واضح کیا۔ کشمیر سے عبید ذوالفقار نے ریاست کے جنم پر تفصیلی بات کی۔ اسلام آباد سے عمر ریاض نے موجودہ عہد میں سرمایہ دارانہ ریاست کی محدودیت اور ذرائع پیداوار کی ترقی کے رستے میں رکاوٹ بن جانے کے عمل کو بیان کیا۔ حیدرآباد سے علی عیسیٰ نے پرولتاری آمریت کی ناگزیریت پر بات کی۔ بلوچستان سے کریم پرہار نے موجودہ عہد میں قومی سوال اور اسکے سرمایہ دارانہ ریاست کے ساتھ تعلق اور سوشلسٹ ریاست اور قومی سوال کے تعلق پر تفصیلی بات کی۔ ملتان سے فرحان نے ریاست کے متعلق بورژوا نظریات پر تنقید کی۔ اسی طرح ذرائع پیداوار کی منصوبہ بندی کے ذریعے طبقاتی تفریق کے خاتمے کے عمل کو بیان کیا۔ کراچی سے انعم خان نے ریاست کے ”اخلاقی“ ہتھیار کے استعمال پر تفصیلی بات کی اور مزدور ریاست کے خدوخال بیان کیے۔ لاہور سے زین کا کہنا تھا کہ موجودہ عہد میں ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کا اظہار ریاست کے اداروں کی آپسی لڑائی میں نظر آتا ہے۔ زین کا مزید کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہے انقلاب پرامن ہو مگر شیطان کبھی اپنے پنجے خود نہیں کاٹتا۔ انقلاب کے دوران دو ریاستیں بیک وقت موجود ہوتی ہیں، ایک محنت کش طبقے کی کمیٹیاں اور دوسرابورژوا پارلیمان۔ طبقاتی لڑائی کی صورت میں ان میں سے کسی ایک کو غالب آنا ہوتا ہے۔ اگر محنت کش طبقہ غالب آتا ہے تو اسے سوشلسٹ انقلاب کہا جائے گا اور اگر حکمران طبقہ آتا ہے تو پھر خوفناک خانہ جنگی اور تباہی ہوگی۔ آخر میں سم آپ کے دوران راول کا کہنا تھا آج کے عہد میں ریاست کے پرامن اختتام کو خواب ہی کہا جاسکتا ہے۔ سوشلسٹ ریاست میں تمام ذرائع پیداوار اجتماعی ملکیت میں ہوں گے اور انسان کی تاریخ میں ایک دفع پھر اس کا مقابلہ فطرت سے ہوگا اور اس کا مقصد تسخیرِ کائنات ہوگا۔
تیسرے روز سکول کا مجموعی طور پر پانچواں سیشن پروگریسو یوتھ الائنس کے نوجوانوں میں کام کے حوالے سے مختص کیا گیا تھا۔ اس سیشن میں پورے ملک سے آئے نوجوانوں نے بھرپور شرکت کی اور پروگریسو یوتھ الائنس اور اسکے پروگرام کو نوجوانوں کی اکثریت تک پہچانے کی منصوبہ بندی کی۔
سکول کے اختتامی کلمات پارس جان نے ادا کیے۔ پارس کا کہنا تھا کہ آج ہم قبل از انقلابی عہد میں رہ رہے ہیں۔ آج عوام نے تمام روایتی قیادتوں کو رد کر دیا ہے۔ ریاست مختلف اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے عوامی تحریک کو دبانے کی کوشش کررہی ہے جس میں جبر، این جی اوز و دیگر آلہ کاروں کو استعمال کیا جارہا ہے۔ اس وقت واحد ضرورت انقلابی قیادت کی ہے جو مارکسی نظریات سے لیس ہو اور اس عوامی تحریک کو ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب میں بدلے۔ سکول کا اختتام محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر کیا گیا۔