|تحریر: آصف لاشاری|
گرینڈ ٹیچرز الائنس پنجاب کے زیر اہتمام پنجاب میں سرکاری سکولوں کی نجکاری کے خلاف اساتذہ کی تحریک جاری ہے۔ گرینڈ ٹیچرز الائنس کا قیام حال ہی میں مختلف اساتذہ تنظیموں کی قیادتوں کی جانب سے کیا گیا۔
قائدین کے مطابق اس الائنس کے بنانے کا مقصد سکولوں کی نجکاری اور اساتذہ کو درپیش دیگر مسائل کے حل کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنانا تھا۔
گرینڈ ٹیچر الائنس کا قیام ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس الائنس کو صرف صوبائی سطح تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ تحصیل اور ضلعوں کی سطح تک اس الائنس کے ڈھانچوں کی تشکیل کی جائے۔
تعلیم کے شعبے میں اس وقت درجنوں اساتذہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور یونینز کے الیکشنز نہ ہونے کی وجہ سے سالہا سال سے ان تنظیموں پر جو قیادتیں براجمان ہیں وہ نیچے اساتذہ کمیونٹی میں اپنا اثر و رسوخ نہیں رکھتیں اور نہ ہی کسی قسم کے فعال و متحرک تنظیمی ڈھانچے موجود ہیں۔ ان یونین قیادتوں میں موجود اکثریت ایسے اساتذہ کی ہے جو اپنی ملازمت کی مدت کے آخری سالوں میں ہیں اور عرصہ دراز سے تنظیمی ڈھانچوں میں سکوت اور کسی تحرک کے نہ ہونے کی وجہ سے پژمردگی اور بے عملیت کا شکار ہیں۔
یونین کی متحرک سرگرمیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے نئے بھرتی ہونے والی اساتذہ کو بھی اساتذہ تنظیموں کی طرف راغب نہیں کیا جا سکا اور پرانی قیادتوں اور نئے نوجوان اساتذہ کے درمیان ایک خلا موجود ہے۔
پچھلے عرصے میں معاشی حملوں کے بڑھنے کے دباؤ کے نتیجے میں اساتذہ میں بڑھتے ہوئے غم و غصے کی وجہ سے اگیگا کے قیام اور احتجاجوں و دھرنوں کے دوران نوجوان اساتذہ میں جوش و جذبہ بڑھا ہے اور اس وجہ سے ایک محدود مقدار میں ہی سہی لیکن نئے نوجوان اپنے تئیں سرگرم ہوئے ہیں اور پہلے سے موجود تنظیموں کا حصہ بننے کی طرف گئے ہیں۔
لیکن اس طرح کے نوجوانوں کو بھی پرانی قیادتوں کے رویوں، ان کی بے عملی اور عہدوں پر زبردستی قابض رہنے کی نفسیات کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس تمام صورتحال میں جہاں حکمرانوں کی جانب سے معاشی حملوں و نجکاری کے حملوں میں انتہائی شدت آئی ہے اور اساتذہ کمیونٹی میں بھی اس سب کے خلاف شدید غم و غصہ بھی موجود ہے، وہیں یہ تمام تر تنظیمی مسائل و مضبوط تنظیمی ڈھانچوں کا نہ ہونا ان حملوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ریکارڈ کرانے اور ہڑتال کرنے کے راستے میں رکاوٹ کا کام کر رہا ہے۔
بلاشبہ ان تمام تر تنظیمی کمزوریوں اور ایک طاقتور مزاحمت نہ کر سکنے کی سب سے بڑی اور اہم وجہ ان قیادتوں کی انقلابی نظریات سے عدم آگاہی اور شکست خوردگی پر مبنی نفسیات ہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان قیادتوں میں سے زیادہ تر یقین رکھتے ہیں کہ جدوجہد سے کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا اور حکمران طبقہ اگر نہ چاہے تو کوئی مطالبہ پورا نہیں کرایا جا سکتا۔
اس لیے ہمیں نظر آتا ہے کہ پنجاب بھر میں ہونے والے 02 نومبر کے احتجاجوں میں حکمرانوں کے دلوں کو نرم کرنے کے لیے خصوصی دعائیں کرائی گئیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہے کہ یہ تمام تر قیادتیں اپنے طبقے کی طاقت پر یقین نہیں رکھتیں اور حکمران طبقے کے طاقتور ہونے کے رعب کا شکار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان حکمرانوں کے دل دعاؤں سے نرم نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی رحم کی اپیلوں سے ان سکولوں کو اور اپنی نوکریوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
ان حکمرانوں کو ان حملوں اور ان کے ملازم دشمن اقدامات کا راستہ کوئی روک سکتا ہے تو وہ سرکاری اداروں کے محنت کشوں کی اپنی طاقت ہے۔ اس طاقت کا بھرپور استعمال کرنے کے لیے نیچے سکولوں و مراکز کی سطح سے لے کر ضلعی اور صوبائی سطح تک مضبوط تنظیمی ڈھانچے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو منظم محنت کش طبقے کی طاقت کا مقابلہ کر سکتی ہو۔ تعلیمی اداروں کے محنت کش ملازمین اپنی محنت سے ہزاروں تعلیمی اداروں کو چلاتے ہیں اور اگر یہ متحد ہو جائیں تو تمام تعلیمی اداروں کو ہڑتال کے ذریعے بند کر سکتے ہیں اور ان حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ یونین قیادتوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ فوری طور پر اساتذہ کو منظم کرنے کی طرف بڑھیں اور نجکاری کے خلاف جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے اساتذہ کمیونٹی کو متحرک کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کی نجکاری کے خلاف عوام کو اس تحریک میں جوڑیں۔
اس کے علاوہ ان سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے لاکھوں طالب علموں کو بھی نجکاری کے خلاف متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور ضرورت پڑنے پر ان طالب علموں کو بھی اپنے ساتھ سڑکوں پر لے کر آنا ہو گا۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکمران طبقے کے موجودہ نجکاری کے حملے کو روکنا سرکاری اداروں کے محنت کشوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
اگر حکومت اس حملے میں کامیاب ہو گئی تو اس کے بعد سرکاری تعلیمی نظام اور اساتذہ کی نوکریوں کو بچانا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ حکمران طبقے کا ہر کامیاب معاشی حملہ اس کی رعونت و طاقت میں مزید اضافہ کرے گا اور وہ اس کے بعد پہلے سے بڑھ کر حملے کرنے کی طرف جائیں گے۔
اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ اس لڑائی کو انتہائی سنجیدگی اور پوری جرات کے ساتھ لڑا جائے اور قیادت میں موجود بزدل عناصر اور غداروں کو صفوں سے نکال باہر کیا جائے اور اساتذہ کو مضبوط تنظیمی ڈھانچوں اور کمیٹیوں کی شکل میں جوڑتے ہوئے صوبہ بھر میں احتجاجوں اور عام ہڑتال کی طرف بڑھا جائے۔