اساتذہ کا دھرنا ختم! ماضی کے وہی وعدے دہرائے گئے، نجکاری کی پالیسی جاری رہے گی

رپورٹ:| RWF لاہور|
 PTU-President-Sajjad-Akbar-Kazmi-Addressing-Sit-in-Protestکل مورخہ 15مئی 2016ء کو پنجاب بھر سے آئے اساتذہ نے پنجاب ٹیچرز یونین(PTU) کی قیادت میں جاری چیئرنگ کراس پر اپنا احتجاجی دھرنا رات 8 بجے ختم کر دیا۔ احتجاجی دھرنا دو دن سے جاری تھا جس کے مطالبات میں سرکاری سکولوں کی پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن (PEF) کو حوالگی کی پالیسی کا خاتمہ ؛ اساتذہ کی سالوں سے تعطل کا شکار اپ گریڈیشن کے مسائل حل کرنا؛ سکولوں کی سنٹر آف ایکسیلینس میں تبدیلی اور دانش اتھارٹی کا خاتمہ ؛ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کا خاتمہ؛LND موبائل ایپلیکیشن، پنجاب ایگزامینیشن کمیشن (PEC) اور بورڈ رزلٹ پر سزاؤں کا خاتمہ؛ حاضریوں کے حوالے سے بنائے گئے قواعد و ضوابط ختم کرنا؛ میونسپل ٹیچرز و ہیڈ ٹیچرز کے 2001ء سے زیرِ التوا سینیارٹی، پروموشن، ٹیچر پیکج کا اجرا؛ بناؤلنٹ فنڈ سے تعلیمی وظائف اورگرانٹس دوگنے جبکہ ریٹائرمنٹ پر گروپ انشورنس سے میچورٹی کلیم کی ادائیگی اور تمام ایڈہاک ریلیف مرج کر کے پے سکیل ریوائز کئے جانا شامل تھے۔
کل کا سارا دن PTU کی قیادت بیوروکریسی سے مذاکرات کرتی رہی اور رات کو واپس آ کر انہوں نے دھرنے کے شرکا کو مذاکرات کے نتیجہ میں ہونے والا معاہدہ پڑھ کر سنایا۔ مذاکرات ایڈیشنل سکریٹریز کے ساتھ ہوئے جن میں کوئی حکومتی نمائندہ شامل نہیں تھا جبکہ نجکاری کی پالیسی پر حکومت عمل پیرا ہے اور بیوروکریسی کا کام صرف کسی بھی حکومتی پالیسی کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے۔ تما م مطالبات پر مختلف نوعیت کی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ کسی بھی استاد کو نجکاری کے نتیجہ میں نوکری سے برخاست نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ڈسٹرکٹ کی سطح پر کمیٹیوں کو تشکیل دینے کا عندیہ دیا گیا ہے جس کے کم از کم تین ممبران ہوں گے جن میں سے ایک ممبر PTU کے ضلعی صدر اقلیتی ووٹ کے ساتھ شامل ہوں گے۔ سکول PEF کے حوالے کرنے کا معیار 20 سے کم تعداد اور 25 فیصد سے کم رزلٹ بنایا گیا ہے۔ معاہدہ کے آخر میں دستخط کسی سیکشن آفیسر کے ہیں جس کا نام تک درج نہیں۔
اس طرح کے گمنام کمیٹی معاہدے حکومتِ پنجاب مختلف اداروں کی یونینز کے ساتھ کرتی رہی ہے جن پر آج تک عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ اس میں پیرا میڈیکس، ایپکا، ڈاکٹر اور دیگر یونینز شامل ہیں۔ طریقہ کار سیدھا سادہ ہے۔ یونین احتجاج کیلئے باہر نکلتی ہے۔ حکومت رابطہ کر کے مذاکرات کی دعوت دیتی ہے۔ مذاکرات میں کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر کمیٹی در کمیٹی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ احتجاج اور دھرنے کے شدید دباؤ اور تحریک کے زور کو توڑا جائے کیونکہ حکومت اور بیوروکریسی کو اچھی طرح پتہ ہے کہ محنت کش روز روز احتجاجوں میں نہیں آ سکتے۔ اس کے نتیجہ میں مورال ٹوٹتا ہے، ہمت جواب دے جاتی ہے اور محنت کشوں کو نا امیدی گھیرے میں لے لیتی ہے۔ جہاں قیادت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس طرح کے ہتھکنڈوں اور جھانسوں کا شکار نہ بنیں وہیں پر عام ممبران کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ قیادت پر کڑی نظر رکھیں۔
آنے والے دنوں میں اساتذہ کو اپنے ساتھ ہونے والے دھوکے کا ادراک ہو گا اور اس کے نتیجہ میں جہاں مایوسی پھیلے گی وہیں شدید غم و غصہ بھی اٹھے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کی پہلی اٹھان کا شکار خود قیادت ہو۔ دیگر سیاسی اور معاشی وجوہات کی وجہ سے حکومت ہر احتجاج کے نتیجہ میں شدید دباؤ کا شکار ہوتی ہے اور اسی وجہ سے حکومت کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اول تو احتجاج ہی نہ ہو اور اگر ہو تو اسے جلد از جلد ہر ممکن طریقے سے ختم کروایا جائے۔ اساتذہ کے پاس اپنے مطالبات کو ٹھوس بنیادوں پر منوانے کا ایک بہترین موقع تھا لیکن قیادت کی کمزوریوں اور درست لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے مقاصد پورے نہ ہوسکے۔ وقت اور حالات کی سختی اور IMF کے قرضے کی شرائط کو پورا کرنے کی حکومتی ڈھٹائی اساتذہ کو بہت جلد سڑکوں پر دوبارہ آنے پر مجبور کرے گی۔ اگر درست لائحہ عمل، نڈر اور بے باک قیادت، اساتذہ کی مختلف یونینز کا اکٹھ اور دیگر اداروں کی یونینز اور فیڈریشنز کو نجکاری کے گھناؤنے جرم کے خلاف جدوجہد میں شریک کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ فتح اساتذہ کے قدم چومے گی۔



Tags: × × ×

Comments are closed.