|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|
گذشتہ روز پنجاب بھر سے آئی ایک ہزار سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز کا پنجاب اسمبلی کے سامنے چئیرنگ کراس پر احتجاجی دھرنا سارا دن جاری رہا۔ یہ ہیلتھ ورکرز پنجاب کے دور دراز کے علاقوں سے سخت مشکل حالات اور معاشی تنگدستی کے باوجود اپنے مطالبات منوانے کا عزم لئے لاہور پہنچیں۔
پنجاب کے مختلف اضلاع سے آئیں ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کا کہنا ہے کہ پچھلے سال جب ہم ملازمت کی مستقلی کیلئے اسی جگہ دھرنا دیا تھا تو حکام کی جانب سے مستقل کرنے کیلئے جھوٹا وعدہ کیا گیا جو ابھی تک ایفا کا منتظر ہے۔1995ء اور 2003ء میں بڑی تعداد میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو بھرتی کیا گیا جو اپنی زندگی کے قیمتی سال ملازمت میں ضائع کرنے کے بعد آج بھی مستقل ملازمت کی سکیورٹی سے محروم ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا مطالبہ ہے کہ ان کو مستقل کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں روپوں کے بقایا جات ادا کیے جائیں اور گریڈ 7 میں اپ گریڈ کیا جائے۔ لیکن اس بار وہ مستقل ہونے کے مطالبے کیساتھ ساتھ چند دیگر مطالبے بھی ساتھ لیکر آئیں ہیں۔
حکومت کی جانب سے ان کو صرف سمز دی گئیں ہیں ، جسے وہ اپنی جیب سے خریدے گئے سمارٹ فون میں ڈال کر میسج کے ذریعے اپنی حاضری لگانے پر مجبور ہیں۔ یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کے ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ڈیوٹی ایسے دور افتادہ علاقوں میں ہوتی ہے جہاں عام طور پر سگنلز کمزور ہوتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے ڈیوٹی کرنے کے باوجود وہ اس ’’حاضری‘‘ لگانے سے کسی مسئلے کی وجہ سے رہ جاتیں ہیں تو ان کے خلاف محکمانہ کاروائی شروع ہوجاتی ہے، جس کی کم از کم سزا تنخواہ کی بندش کی صورت میں نکلتی ہے۔
ایک طرف تو حکومت فیملی پلاننگ کے ذریعے آبادی کنٹرول اور ’کم بچے خوشحال گھرانہ‘ کا پرچار کرتی ہے تو دوسری طرف ہر لیڈی ہیلتھ ورکر کیلئے لازم ہے کہ مہینہ میں سات ڈلیوریز کروائے اور اگر کوئی لیڈی ہیلتھ ورکر ایک ایسا معاملہ جو مکمل طور پر ان کے کنٹرول سے باہر ہو اور وہ ’’ٹارگٹ‘‘ حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اس کے خلاف تادیبی کاروائی کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ ایک طرف تو ناقص طبی سہولیات کی وجہ سے عوام کا اعتبار ان دیہی مراکز صحت سے مکمل طور پر اٹھ گیا ہے، ایسی صورت میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کیلئے یہ مضحکہ آمیز ٹارگٹ حاصل کرنا ناممکن ہے تو دوسری طرف اگر کوئی قسمت کا مارا اپنی اہلیہ یا بیٹی کی ڈلیوری دیہی مرکز صحت سے کروا بھی بیٹھے اور کسی حادثہ کی صورت میں تمام تر ملبہ لیڈی ہیلتھ ورکرز پر ڈال دیا جاتا ہے۔
اس قسم کے اقدامات سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس ریاست کو یہ ورکرز مکمل طور پر بوجھ محسوس ہوتے ہیں، جن پر غیر انسانی حالات مسلط کرنے کا واحد مقصد ان سے چھٹکارا نظر آتا ہے۔ تو دوسری طرف ریاست دیہی مرکز صحت کو جدید میڈیکل سائنس کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مسلسل ناکام نظر آتی ہے بلکہ ان کی نجکاری کی جارہی ہے اور اپنی نااہلی کا سارا ملبہ ملازمین پر ڈال کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہونے کی جلدی میں ہے۔
دھرنے کی شرکاء خواتین اس بار پہلے کی نسبت زیادہ ولولے سے لڑنے کا عزم لیکر اور انتہائی کٹھن حالات میں پنجاب کے کونے کونے سے یہاں پہنچی ہیں، یہ عمل ان کے بلند طبقاتی شعور کی غمازی کرتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں حکمران طبقہ خواتین کو کم ہمت اور کمزور ثابت کرنے کے درپے ہے وہاں اس طبقے کا کوئی بھی فرد اپنے چودہ طبق روشن کروانے کی حاجت محسوس کرے تو چیرنگ کراس کا ’’دورہ‘‘ کر سکتا ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مطالبات کے حصول کی یہ لڑائی دوسرے اداروں کے ملازمین کی لڑائی کا ہی حصہ ہے، اس جزو کو اس کل سے جوڑنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ ایسے وقت میں جب ریاست اور اس کا نظام شدید بحران میں ہوں تو چھوٹے سے چھوٹا مطالبہ بھی ایک انقلابی مطالبے کا روپ دھار لیتا ہے، جس کیلئے ایک منظم لڑائی کی ضرورت ہوتی اور منظم لڑائی مختلف اداروں کے ملازمین علیحدہ علیحدہ رہ کر نہیں لڑ سکتے ہیں۔ طبقاتی جڑت ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔