|رپورٹ:مرکزی بیورو،ریڈ ورکرز فرنٹ|
آج 21اکتوبر کو گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب کی کال پر صوبہ بھر کے سرکاری ٹیچنگ ہسپتالوں کے ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈکس، نرسز اور دیگر سپورٹ سٹاف نے اپنے ہسپتالوں کے باہر شہر کی مرکزی شاہراؤں پر نجکاری مخالف احتجاجی مظاہرے کئے۔ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات، راول پنڈی، سیالکوٹ، ملتان، ڈی جی خان، بہاولپور اور رحیم یار خان سمیت کئی ایک دوسرے شہروں میں ہونے والی ان مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں شعبہ صحت کے محنت کشوں نے شرکت کی اور ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر ڈٹ جانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ یاد رہے کہ نجکاری ایکٹ(ایم ٹی آئی) کے خلاف پنجاب بھر کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں آؤٹ ڈور،ریڈیالوجی اور لیبارٹری سروسزکی ہڑتال کا آج بارہواں روز تھا۔ان مظاہروں کے دوران جی ایچ اے کی قیادت نے ہڑتال کو جاری رکھنے اور اس کے ساتھ ساتھ مستقل بنیادوں پر مظاہروں کے ذریعے نجکاری کیخلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کا بھی اعلان کیا۔
جیسا کہ ہم نے اپنی پچھلی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ حکومت کے لئے اس روز شدت اختیار کرتی تحریک کو جبر یا تادیبی کاروائیوں کے ذریعے کچلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ دھوکہ دہی اور نام نہاد مذاکرات کے ذریعے تحریک کو تھکانے اور توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی بھی اسی حکومتی سازش کی غمازی کرتی ہے۔ یاد رہے کہ آج سے چند ماہ قبل بھی ایک ایسی ہی مذاکراتی کمیٹی بنائی گئی تھی جس کا سربراہ یہی پروفیسر تھا جو کہ موجودہ کمیٹی کا سربراہ ہے۔ اس ایک امر سے ہی ہمیں اس کمیٹی کی تشکیل اور مذاکرات کی دعوت کے پیچھے چھپے حکومت کے مذموم مقاصد کا بخوبی ادراک ہو جاتا ہے۔ شعبہ صحت کے محنت کشوں کو بالکل واضح ہو نا چاہیے کہ حکومت ان کے ساتھ کمیٹی کمیٹی کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے تا کہ ایک تو تحریک کو تھکایا اور مایوس کیا جاسکے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان مذاکرات کے ذریعے شعبہ صحت کے محنت کشوں کی نمائندہ تنظیموں میں اختلافات پیدا کر کے الائنس کو توڑا جا سکے۔
جی ایچ اے قیادت کو بھی یہ واضح ہونا چاہیے کہ تحریکیں روز روز نہیں بنتیں اور اسی لئے یہ ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں“ والا معاملہ ہے۔ قیادت کو بالکل واضح انداز میں یہ موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایم ٹی آئی ایکٹ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور یہ ایکٹ کسی نام نہاد ترمیم شدہ حالت میں بھی انہیں قابل قبول نہیں ہے،لہٰذا اس معاملے پر مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس حوالے سے گھبرانے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ یہ ہسپتال ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کی شب وروز کی محنت سے چلتے ہیں اور ان کے علاوہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں چلا نہیں سکتی۔ لہٰذا ہڑتال اور احتجاج اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک کہ حکومت ایم ٹی آئی آرڈیننس واپس نہیں لیتی اور اس ایکٹ سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کی تحریری یقین دہانی نہیں کراتی۔ہاں،اس کے بعد بالفرض حکومت اگر ہیلتھ بجٹ کو بڑھانے،نئے سرکاری ہسپتال بنانے،بڑے پیمانے اور مستقل بنیادوں پر طبی عملہ بھرتی کرنے جیسی حقیقی اصلاحات کرنے کا ارادہ کرتی ہے(جس کے امکانات تقریباً صفر ہیں) تو اس حوالے سے مثبت مذاکرات کے لئے جی ایچ اے حاضر ہے۔
اس نجکاری مخالف تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے جی ایچ اے پنجاب اور خیبر پختونخوا کو اپنی رابطہ کاری مزید آگے بڑھاتے ہوئے ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دینے کی بھی ضرورت ہے جو کہ اس امر کا واضح اعلان کرے کہ دونوں صوبوں میں شعبہ صحت کی نجکاری کے مکمل خاتمے تک ہڑتال اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا تا کہ حکومت دونوں صوبوں میں چلنے والی نجکاری مخالف تحریکوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے میں کامیاب نہ ہو پائے۔ اسی طرح نجکاری کے نشانے پر موجود دیگر اداروں،نجی صنعتوں کے محنت کشوں اور عوام تک اپنا پیغام پہنچاتے ہوئے ان سے یکجہتی کی کھلی اپیل کرنے اور ان کے ساتھ طبقاتی جڑت بنانے کی اشد ضرورت ہے۔صرف اس طبقاتی اتحاد کے بلبوتے پر ہی نجکاری کے اس حملے کا حتمی طور پرخاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
آگے بڑھو ساتھیو،
فتح تمہاری ہو گی!!!
لاہور۔ جنرل ہسپتال
لاہور۔ جناح ہسپتال
لاہور۔ سروسز ہسپتال
لاہور۔ چلڈرن ہسپتال
لاہور۔ میو ہسپتال
لاہور۔ گنگا رام ہسپتال
ملتان۔ نشتر ہسپتال
ملتان۔ چلڈرن ہسپتال
الائیڈ ہسپتال۔ فیصل آباد
گجرات
رحیم یار خان