|رپورٹ: ڈاکٹر ولید خان|
آج مختلف اخبارات میں ینگ ڈاکٹرز کے لیے پنجاب ہیلتھ فاؤنڈیشن کے ذریعے حکومت پنجاب نے نرم شرائط پر قرضے (7 لاکھ روپیہ) دینے کا اعلان کیا ہے جس کے ذریعے ینگ ڈاکٹرز اپنے کلینک گلی محلوں میں کھول سکیں گے۔ اس کے علاوہ پیرا میڈیکس اور نرسوں کے لئے بھی 2 لاکھ روپے تک کے ’’نرم‘‘ قرضوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان اقدامات کی وجہ نوجوان ڈاکٹروں کے لئے روزگار، گلی محلوں میں عطائیوں اور جعلی ڈاکٹروں کی صفائی اور عوام کو ان کے ’’دروازوں‘‘ پر صحت کی سہولیات پہنچانا بتایا گیا ہے۔
شعبۂ صحت میں کام کرنے والے نوجوان خواتین و حضرات اس شعبے کی ریڑھ کی ہڈی ہیں جن کے کندھوں پر ہسپتال چلتے ہیں۔ ینگ ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکس کی ان تھک محنت کے نتیجے میں ہی پروفیسر حضرات کی خون آشام پرائیویٹ پریکٹس چمکتی ہے اور حکومت کے گھٹیا پروٹوکول بھگتائے جاتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو کھلی رشوت دینے کے اس حکومتی اقدام کے کئی مقاصد ہیں۔ یاد رہے کہ حکومت پچھلے چند سالوں سے مختلف طریقوں سے صحت کے شعبے کی نجکاری جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ نجکاری اس جامع نجکاری پروگرام کا حصہ ہے جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا وضع کردہ ہے۔ اس عمل کے لئے ’’ڈرامۂ اعلیٰ‘‘ نے لندن اور انقرہ جا کر بھی ہیلتھ روڈ شوزمیں نجی سرمایہ کاری کی بھیک مانگی ہے۔
صحت کا شعبہ کسی بھی صحت مند سماج میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور ہر مرد، عورت اور بچے کا بنیادی حق ہے کہ اسے مفت اور معیاری صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ یہ حق ریاست اور حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں سماجی امن کے لئے ریاست نے کچھ دہائیاں سہولتیں دینے کی کوشش بھی کی جس کی وجہ سے غریب عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف مل جاتا تھا۔ لیکن پوری دنیا میں مزدور تحریک کے کمزور ہونے اور سرمایہ داری کی یلغار میں سماجی سہولتوں میں کٹوتیاں اور نجکاری ہونی شروع ہو گئی۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد اس عمل میں تیزی آ گئی ہے اور دیگر ممالک کے حکمرانوں کی طرح مقامی حکمرانوں نے بھی اس بحران کا سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔
اس وقت نجکاری کے عمل میں ترکی، چین اور مقامی پرائیویٹ ہسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کے مگرمچھ مالکان بندر بانٹ میں مصروف ہیں۔ اور ظاہر ہے یہ بندر بانٹ شعبۂ صحت کے ملازمین یا عوامی فلاح و بہبود کے لئے تو نہیں ہو رہی۔ مقصد منافع کا حصول اور حکومت کی صحت کے شعبے کی ذمہ داری سے جان چھڑانا ہے تاکہ عوا م کے ٹیکسوں کا پیسہ بنیادی سہولیات کی فراہمی کی بجائے حکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ ہو ۔ وفاقی حکومت پہلے ہی صحت کے شعبے کو صوبوں کی صوابدید بنا کر آزاد ہو چکی ہے۔ نجکاری کے خلاف پچھلے چند سالوں میں وقتاً فوقتاً شعبہ صحت کی مختلف یونینوں اور ایسو سی ایشنوں نے احتجاج اور مظاہرے کیے ہیں جن میں سب سے نمایاں شعبے کی تینوں برانچوں کے نوجوان ورکر ہی رہے ہیں۔ لیکن فی الحال اندرونی لڑائیوں، ذاتی مفادات کے تحفظ، کرپشن اور کسی تحریک میں گمنام ہو جانے کے خوف میں مبتلا قیادتیں لیت ولعل سے کام لے رہی ہیں۔
اب تک ریڈیالوجی، پتھالوجی، لانڈری، پارکنگ اور کینٹین ٹھیکوں پر دی جا چکی ہیں۔ ٹیسٹوں کے شعبہ جات سے ہسپتال کے مختلف شعبوں کی نجکاری کرنے کے عمل کا آغاز ہی مقصد بتانے کے لئے کافی ہے کہ حکمرانوں کے آقا، حکمران اور ان کے دم چھلے عوام کا خون چوسنے کے لئے کس قدر بیقرار ہیں۔ یہ بھی اعلان کر دیا گیا ہے کہ ایم ایس کی جگہ ہر ہسپتال میں اب ایک بیوروکریٹ بیٹھا کرے گا۔ ہسپتال کی انتظامیہ ڈاکٹر ہو یا بیوروکریٹ وہ دونوں ہی حکومت کا دم چھلہ رہے ہیں اور ان سے کسی قسم کی ہمدردی نہیں کی جا سکتی لیکن ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ عمل نجکاری کی پالیسی کا حصہ ہے تاکہ اس عمل کو تیز تر کیا جا سکے۔
منافع کاری کا سب سے آسان اور فائدہ مند طریقہ یہ ہے کہ کم سے کم افراد کو کم سے کم تنخواہ دے کر زیادہ سے زیادہ کام کروایا جائے۔ بتدریج ایک حکمت عملی کے نتیجے میں تمام شعبوں کی ورک فورس کو گھٹایا جائے گا اور جو بچ جائیں گے ان کو صبح شام بائیومیٹرک سسٹم کے طواف کا موجودہ عمل ہی مستقبل کی تصویر واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔ پچھلے 35 سالوں میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے نئے بڑے ہسپتال نہیں بنائے بلکہ ایک دو شعبوں کی تعمیر کر کے عوام کو ریلیف دینے کا ڈھونگ ہی رچایا ہے۔ پہلے دیہی علاقوں اور قصبوں میں صحت کا شعبہ تباہ کیا گیا اور پھر اسے ٹھیکے پر لگا دیا گیا۔ اب یہی عمل بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں جاری ہے۔
قرضہ جات دینے اور ان کی نگرانی کرنے کا کام پنجاب ہیلتھ فاؤنڈیشن کو سونپا گیا ہے۔ یہ وہ شعبہ ہے جس کے اپنے بیشتر ملازین ڈیلی ویجز پر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ یہ بات بعید القیاس نہیں کہ کل کو ڈاکٹروں اور نرسوں کے بھی ڈیلی ویجز کا اعلان کر دیا جائے جبکہ پیرامیڈیکس پہلے سے اس شدید استحصال میں مبتلا ہیں۔ شدید ہوتے حالات زندگی اور مستقبل سے مایوسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نجکاری کا حملہ رشوت دے کر کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی اس گھناؤنی سازش سے شعبہ صحت کے نوجوانوں کو خبر دار رہنا چاہئے اور اس کو حکومت کے نجکاری حملے کے وار کے طور پر شناخت کرتے ہوئے اس کی شدید ترین مذمت کرتے ہوئے مقابلہ کرنا چاہئے۔ یہ پھول نہیں کانٹے ہیں۔ قرضہ دینے کا عمل روایتی حکومتی طریقہ کار کے مطابق انتہائی پیچیدہ اور سخت ہو گا جس کی شرائط پر شائد آدھے درخواست گزار ہی پورے اتر پائیں۔ اقربا پروری، کرپشن اور لوٹ مار زوروں پر ہو گی اور امید کی یہ بھونڈی کرن اصل حقائق سے توجہ ہٹانے کی کوشش میں بھرپور استعمال ہو گی۔
عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جبکہ موجودہ ریاست اس میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ جس ملک میں 85فیصد آبادی صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہو جبکہ اس کے باوجود ڈاکٹر بیروزگار ہوں اور روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر جا رہے ہوں اس ملک کے حکمرانوں کو عبر ت کا نشان بنا دینا چاہیے۔ قرضوں کا یہ ڈرامہ عوام کی زندگیوں سے ایک اور خونی ناٹک ہے۔ اس کاغذی کاروائی کے ذریعے تھوڑے بہت قرضے دے کر پروگرام ختم کر دیا جائے گا جسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ لیکن اس کے بعد بکاؤمیڈیا پر یہ باور کروایا جائے گا کہ ینگ ڈاکٹر کام چور ہیں اور علاج نہیں کرنا چاہتے جبکہ لندن سے اپنی چھینک کا علاج کروانے والے مکروہ اور غلیظ عوام دشمن حکمران گڈ گورننس کے علمبردار ہیں۔ درحقیقت اس جعلی پروگرام کے ذریعے نجکاری کے عمل کو ایک نئے بہانے کے تحت آگے بڑھایا جائے گا اور بڑے پیمانے پر ینگ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کو نوکریوں سے جبری برطرف کیا جائے گا۔ یہ ریاست نئے روزگار پیدا کرنے کی بجائے پہلے سے موجود روزگار ختم کر رہی ہے جس کے باعث بیروزگاری کی شرح ایک رپورٹ کے مطابق 49فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس میں ڈاکٹر، انجینئر اور پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر کی تعداد پچیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اقدام اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پنجاب حکومت پرائیویٹ کلینکس کے لئے قرضے دے کر عوام اور ینگ ڈاکٹرز کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کرنا چاہتی ہے اور خود علاج کی فراہمی سے بری الذمہ ہونا چاہتی ہے۔ اس کے ذریعے جہاں عام آدمی کی جیب خالی کی جائے گی تو دوسری طرف عوام میں ینگ ڈاکٹرز کیخلاف نفرت پھیلے گی جس سے طبقاتی جڑت کو نقصان پہنچے گا۔
شعبہ صحت کے ورکروں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے کہ نجکاری کی شدید ترین مخالفت کی جائے۔ جب تک اس شعبے کی یونینوں اور ایسو سی ایشنوں کے قائد ین کی مرضی شامل نہیں ہو گی، نجکاری نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ڈاکٹر، نرسیں اور پیرا میڈیکس ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اس ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ جائیں۔ اس وقت دیگر ریاستی شعبے بھی نجکاری کی زد میں ہیں اور یہ ضروری ہے کہ اپنے مشترکہ دشمنوں کی پہچان کرتے ہوئے تمام شعبے اور ادارے ایک دوسرے کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جڑت بناتے ہوئے نجکاری اور نجکاری کی پالیسی کا خاتمہ کریں۔
نجکاری نا منظور!
نجکاری کا جو یار ہے، غدار ہے! غدار ہے!
مفت اور معیاری علاج ہر مرد، عورت اور بچے کا حق ہے!
شعبہ صحت کے تین محافظ! ڈاکٹر! نرس! پیرامیڈیک!