|تحریر: رزاق غورزنگ|
کسی ملک میں جب حکمران طبقہ سماج کو معاشی اور سماجی ترقی دینے سے قاصر ہوتا ہے تو وہ اپنی اس تاریخی نا اہلیت، متروکیت اور اپنے ظالمانہ اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے محنت کشوں اور مظلوم عوام کو رنگ، نسل، زبان اور فرقے کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے تا کہ ایک طرف وہ اپنی جابر حکمرانی کو جاری رکھ سکے تو دوسری طرف ان تقسیموں کے ذریعے لوگوں کے شعور کو کند کرکے اصل مسائل اور ایشوز سے ان کی توجہ ہٹائی جائے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب حکومت کی طرف سے پنجاب میں پشتون آبادی کیخلاف کریک ڈاؤن اور گرفتاریاں اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق پنجاب حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے الرٹ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کے اندر وہ لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں جو حلیے سے پٹھان یا پشتون لگتے ہیں۔ اس سلسلے میں پنجاب کے اندر سینکڑوں پشتون محنت کشوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اور مختلف انجمن تاجران کی طرف سے پشتون تاجروں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں کہ وہ اپنے تمام تر کوائف متعلقہ تھانوں میں جمع کروائیں۔ اگر جمع نہیں کروائے تو کسی کاروائی کی صورت میں انجمن ذمہ دار نہیں ہو گی۔ اسی طرح راولپنڈی کے اندر فاٹا سے تعلق رکھنے والے پشتونوں کو ایک خاص ایریا تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ان کے لیے خصوصی سیکیورٹی کارڈز جاری کیے گئے ہیں تا کہ ان پر خصوصی نظر رکھی جائے۔ یہ تمام تر اقدامات پنجاب کے حکمران طبقے کی نسل پرستانہ اور تاریخی طور پر پاکستانی قوم پرستی کے خصی پن کی غمازی کرتے ہیں۔
برصغیر کے خونریز بٹوارے کے بعد مسلم قوم پرستی کے جس مؤقف پر پاکستان کی تشکیل کی گئی وہ اپنے آغاز سے انتہائی مصنوعی اور تاریخی طور پر بے بنیاد تھی۔ یہاں پر بسنے والی مختلف قومیتوں اور تاریخی ثقافتوں کا ریاست کی سرکاری قوم پرستی سے نہ صرف یہ کہ تضاد تھا بلکہ یہ باہمی طور پر متصادم تھی۔ مالیاتی طور پر کنگال، تکنیکی طور پر پسماندہ، معاشی طور پر کرپٹ اور سیاسی طور پر رجعتی حکمران طبقہ پاکستان کو ایک جدید سیکولر، ڈیموکریٹک اور صنعتی ملک بنانے سے یکسر طور قاصر تھا۔ اس صورتِ حال میں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے حکمران طبقات نے ایک طرف ننگا طبقاتی استحصال کیا تو دوسری طرف یہاں پر بسنے والی مختلف قومیتوں کا شدید استحصال کیا۔ اِنکے وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کی گئی جسکی وجہ سے یہاں پر بسنے والی مختلف قومیتوں کے اندر قومی محرومی کے انتہائی شدید جذبات پائے جاتے ہیں، جس طرح لینن نے زار شاہی کے روس کے بارے میں کہا تھا کہ زار کا روس مظلوم قومیتوں کا بد ترین عقوبت خانہ ہے۔ لینن کے یہ الفاظ پاکستان پر بھی درست بیٹھتے ہیں۔ آج پاکستان بھی مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ بن چکا ہے اور یہاں قومی سوال انتہائی دھماکہ خیزشکل اختیار کر چکا ہے۔ مارکسسٹوں کا یہ تاریخی فریضہ ہے کہ وہ مظلوم قومیتوں کی آزادی کی جدوجہد کو محنت کش طبقے کی جدوجہد سے جوڑتے ہوئے یہاں پر سماج کی ایک سوشلسٹ تبدیلی کے لیے جدوجہد کریں۔
دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی جدید مذہبی بنیاد پرستی کی ماں امریکی سامراج ہے۔ افریقہ اور ایشیا میں ترقی پسند اور قومی آزادی کی تحریکوں کو زائل کرنے کے لیے ہی سامراج نے مذہبی بنیاد پرستی کو تخلیق کیاتھا۔ لیکن اسکی سب سے خونریز شکل ہمیں افغانستان کے ثور انقلاب کے خلاف نظر آتی ہے۔ خلق پارٹی کی قیادت میں افغانستان کے اندر 1978ء میں برپا ہونے والا ثور انقلاب جنوبی ایشیا کی تاریخ میں انتہائی اہم واقعہ تھا۔ جس نے نہ صرف جنوبی ایشیا میں سامراجی مفادات کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی بلکہ خطے کی رجعتی ریاستوں اور حکمران طبقات کے لیے بھی ایک خطرہ ثابت ہو رہا تھا۔ افغانستان کے اس نوخیز انقلاب کو تباہ کرنے کے لیے امریکی سامراج نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن ’’آپریشن سائیکلون‘‘ لانچ کیا تھا۔ اس آپریشن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سب سے مجرمانہ کردار پاکستانی ریاست نے ادا کیا۔ پاکستان نے ایک طرف افغان انقلاب کے خلاف سامراج کی طرف سے شروع کئے گئے رجعتی پٹرو ڈالر جہاد میں ایک پراکسی کے طور پر عالمی سامراج سے بھاری قیمت وصول کی تو دوسری طرف افغانستان پر استعماری قبضے کے لیے تزویراتی گہرائی (اسٹریٹجک ڈیپتھ) کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانا بھی شروع کر دیا۔ ان سامراجی اور پراکسی جنگوں کے نتیجے میں افغان انقلاب کو برباد کیا گیا۔ وہاں کے انفراسٹرکچر کو تباہ کیا اور ایک مسلسل خانہ جنگی مسلط کی گئی، جسکے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے گئے، بستیاں، شہر اور گاؤں اْجڑ گئے۔ کابل جس کو مشرق کا پیرس کہا جاتا تھا کھنڈرات میں تبدیل کیا گیا غرضیکہ افغانستان کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا گیا۔
لیکن سوویت یونین کے انہدام کے بعد بنیاد پرستی ختم ہونے کی بجائے زیادہ زہریلے انداز میں سامنے آئی۔ سامراج نے ثور انقلاب کو کْچلنے کے لیے سامراجی مالیاتی سرمائے سے جن بنیاد پرستوں کو تخلیق کیا تھا وہ بالآخر اتنے طاقتور ہو گئے کہ انہوں نے اپنے خالق کو آنکھیں دکھانا شروع کیں۔ اور اسکی واضح مثال ہمیں 11/9 میں امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ اپنی ہی تخلیق کردہ قوتوں کو قابو میں لانے کے لیے امریکہ نے افغانستان میں براہ راست فوجی مداخلت کی۔ پاکستان نے ایک بار پھر فرنٹ لائن کے اتحادی کے طور پر ایک پراکسی ریاست کی حیثیت سے خدمات پیش کیں اور بدلے میں اچھی خاصی قیمت بھی وصول کی۔ امریکی قبضے کے 15 سال گزرنے کے باوجود افغانستان کے اندر صورتحال مزید گھمبیر اور پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ افغانستان ایک بار پھر مختلف سامراجی قوتوں کے درمیان گریٹ گیم کا میدان بنا ہوا ہے۔ جو نہ صرف افغانستان اور اسکے مظلوم عوام کو تاراج کر رہی ہے بلکہ پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر رہی ہے۔
پشتون قوم پرستوں کا ردِ عمل
پنجاب حکومت کی طرف سے پشتونوں کے خلاف نسل پرستانہ اقدام کے رد عمل میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے چارسدہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر پنجاب حکومت پشتونوں کو پنجاب سے نکالتی ہے تو پشتون بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ پشتونخواہ میں مقیم پنجابیوں کو نکال دیں۔ ‘‘ اسی طرح افراسیاب خٹک نے ’’دی نیشن‘‘ اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’پہلے افغان مہاجرین کے ساتھ پنجاب کے اندر نسل پرستانہ رویہ اپنایا گیا اور پھر جب پشتونخواہ اور فاٹا کے لوگ فوجی آپریشنوں کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تو پہلے پنجاب حکومت نے انہیں داخلہ دینے سے انکار کیا اور اب ان لوگوں کو نسل پرستانہ اقدامات کے ذریعے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ‘‘ لیکن افراسیاب خٹک شاید یہ بھول گئے کہ 2009ء میں وہ اے این پی کے صوبائی صدر تھے اور پشتونخواہ میں ان کی حکومت تھی جب سوات میں پاکستانی فوج نے بد ترین آپریشن کر کے لاکھوں لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ دوسری طرف پشتونخواہ میپ کی جانب سے صوبائی بیان میں کہا گیا تھا کہ ’’پشتون غیروں کی مسلط کردہ جنگ اور دہشت گردی کا شکار ہیں اور دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پشتون وطن اور پشتون آبادی کا ہوا ہے۔ ‘‘ لیکن المیہ یہ ہے کہ پشتون قوم پرستوں نے پچھلے 16 سالوں کے دوران عالمی طاقتوں کی جانب سے پشتونخواہ اور افغانستان کے متعلق دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ کے حوالے سے جو سامراجی جنگی پالیسیاں مرتب کی ہیں اس پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ اسکی خاموش حمایت بھی کرتے ہیں۔ پشتونخواہ اور فاٹا کے اندر پاکستانی ملٹری کے بد ترین آپریشنوں کی حمایت بھی انہی قوم پرستوں نے کی ہے۔ جب آپ سامراجی جنگی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں، فوجی آپریشنوں کی حمایت کرتے ہیں تویہ بھی یاد رکھیں کہ اسکے نتیجے میں گھر اجڑ جاتے ہیں، بستیاں تباہ ہو جاتی ہیں، شہر اور گاؤں مسمار ہوتے ہیں، ہجرتیں ہوتی ہیں۔ یہ تو سامراجی جنگوں کا لازمی اور ناگزیر نتیجہ ہوتا ہے۔ عجیب منطق یہ ہے کہ ایک طرف تو آپ سامراجی جنگی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں اور دوسری طرف اس کے نتیجے میں جو نقصانات ابھرتے ہیں اس پر شور، احتجاج اور رونا دھونا! چے معنی دارد؟
افغانستان اور پشتونخواہ میں بنیاد پرستی اور سامراجی مداخلتوں کے نتیجے میں بربادی کے حوالے سے حاوی دانش کی جانب سے جو حل پیش کئے جاتے ہیں وہ تمام کے تمام لبرل نظریات کے تحت ہیں جو کہ انتہائی ناممکن نظر آتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اِس خطے کو بربادی اور جنگوں سے نکالنے کے لیے قابل عمل سائنسی نقطہ نظر سوشلسٹ نقطہ نظر ہے۔ سوشلسٹ تمام تر سامراجی جنگوں اور پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں اور خطے کے تمام لوگوں کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کرتے ہیں۔ ایک سوشلسٹ سماج میں پھر کوئی نہ مہاجر رہے گا اور نہ کسی کے ساتھ نسل، فرقے اور رنگ کی بنیاد پر فرق کیا جائے گا۔ وہ جدھر بھی رہنا چاہے تو ایک سوشلسٹ ریاست اس کی تمام بنیادی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اس کے اس حق کا تحفظ اپنا بنیادی فریضہ سمجھے گی۔