|تحریر: یاسر ارشاد|
14 فروری کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں جموں سرینگر ہائی وے پر سنٹرل ریزرو پولیس فورس(CRPF) کے ایک قافلے پرجیش محمد نامی دہشت گرد تنظیم کے ایک کارکن عادل احمد ڈار کے خودکش حملے میں چالیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران بھارتی افواج پر ہونے والا یہ سب سے بڑا حملہ ہے۔ اس حملے کے فوری بعد حسب روایت بھارتی حکمران طبقات نے پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگانا شروع کر دیا ہے اور جواب میں پاکستانی حکمران طبقات نے بھی اپنی معمول کی سفارتی منافقت کو جاری رکھتے ہوئے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ ہندوستان کے حکمران طبقات نے دشمنی کے درجہ حرارت کو زیادہ بڑھانے کے لئے پاکستان کو 1996ء میں تجارت کے حوالے سے پسندیدہ ملک قرار دئیے جانے کا درجہ واپس لے لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مودی نے اس حملے کا انتقام لینے کے لئے بھارتی افواج کو کھلی چھوٹ دینے کا اعلان بھی کیا ہے جو کشمیر کے حوالے سے بالکل بھی کوئی نئی بات نہیں جہاں بھارتی افواج کو گزشتہ تین دہائیوں سے ہر قسم کے وحشیانہ جبر کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعہ کے رد عمل میں پورے ہندوستان میں ہندو انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے کشمیری طلبہ اور محنت کشوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور ہراساں کرنے کے لئے حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے۔ بھارت کے مختلف شہروں کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کو تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے جانب سے اداروں سے نکالے جانے کی خبریں بھی سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر گردش کر رہی ہیں۔ جموں میں بھی بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی املاک کو جلایا گیا اور تشدد کے واقعات کو روکنے کے لئے سیکیورٹی فورسز کو کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ اس حملے کے حوالے سے بھارتی حکومت کے سرکاری مؤقف سے ذرہ بھر اختلاف کا اظہار کرنے والے کو بھی بھارت کا غدار اور دشمن کا ایجنٹ ہونے کے القابات سے نوازا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعے کے محرکات کے حوالے سے بھی مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔ کچھ لوگ اسے بھارتی لوک سبھا کے اپریل میں ہونے والے انتخابات کے لئے پیدا کیا جانے والا مدعا بھی قرار دے رہے ہیں جس کا خالق خود مودی سرکار کو قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ کشمیر میں جاری سنگ بازوں کی تحریک، جسے بھارتی افواج تمام تر جبر کے باوجود کچلنے میں ناکام ہو چکے ہیں ،کے خلاف ایک سازش ہے۔ اسی طرح اس حملے کو پاک بھارت تعلقات کے خلاف بھی ایک سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حملے کے ان مختلف پہلوؤں سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس قسم کی کوئی بھی واردات خواہ اس کے ابتدائی محرکات کچھ بھی ہوں اس کو حکمران طبقہ ایک ہی وقت میں مختلف مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے اور اس کا ہر استعمال محنت کشوں اور مظلوموں کے خلاف ہی ہوتا ہے۔
سنگ بازوں کی تحریک اور شکستہ جبر
کشمیر میں ہونے والے واقعات کو کسی بھی صورت میں کشمیر کی تحریکِ آزادی کے ارتقاء اور موجودہ کیفیت سے کاٹ کر درست طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی 2010ء میں ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی تھی جس کی سب سے بنیادی خصوصیات اس کا نہ صرف مسلح جدوجہد کے راستے کو ترک کر دینا تھا بلکہ اس سے بڑھ کر نئی نسل نے بڑے پیمانے پر کشمیر میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں اور قیادتوں کو مسترد کر دیا تھا جس کے باعث اس سال ابھرنے والی سنگ بازوں کی تحریک کو ذرائع ابلاغ نے بغیر قیادت کے تحریک قرار دیا تھا۔
یہ پہلی تحریک تھی جس پر تمام تر کوششوں کے باوجود بھارتی حکمران پاکستان کی حمایت یافتہ ہونے کا الزام نہیں لگا پائے تھے اور اس تحریک نے بھارت کے طلبہ اور ترقی پسند سیاسی و دانشورانہ حلقوں کو دہائیوں کی خاموشی ختم کرنے اور اپنی حمایت میں بولنے اور لکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ تحریک کچھ وقفے کے بعد 2016ء اور2017ء میں دوبارہ بڑے پیمانے پر ابھری جس میں ایک مرحلے پر ہزاروں کی تعداد میں طالبات نے بھی سرگرمی سے شرکت اختیار کرتے ہوئے تحریک کو بہت زیادہ ریڈیکل اور ہمہ گیر رنگ دے دیا تھا۔ تحریک کے ان تمام مرحلوں پر بھارتی ریاست نے وحشیانہ جبر جاری رکھا لیکن وہ تحریک کو کچل نہیں سکے۔ ہزاروں نوجوانوں کو قید و بند کی اذیتیں برداشت کرنی پڑیں دیگر ہزاروں پر مظاہروں کے دوران تشدد کیا گیا جبکہ سینکڑوں کو پیلٹ گن کی فائرنگ سے بینائی سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیا گیا لیکن تحریک اپنے سیاسی ڈگر اور ریاستی جبر کے خلاف سنگ بازی کے طریقہ کار پر جاری رہی۔ اگرچہ 2013ء کے بعد کچھ نوجوانوں نے مسلح گروپوں کا حصہ بننا شروع کیا لیکن ان کی تعداد بہت محدود تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق’’ 2013ء میں صرف 6 نوجوانوں نے مسلح جدوجہد میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی تھی جبکہ 2017ء میں مودی حکومت نے کشمیر میں ایک فوجی آپریشن شروع کیا تھا جس کے نتیجے میں اس سال 126 اور اور اس سے اگلے سال لگ بھگ 200 نوجوانوں نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔‘‘ (ہفنگٹن پوسٹ، 15 فروری 2019 ء) یہ مسلح گروپ نہ صرف تحریک کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں بلکہ مقامی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی بھی بیرونی امداد کے بغیر ہی اپنی کاروائیاں منظم کر رہے ہیں اور ان کو کشمیر کے عوام کی مکمل حمایت دستیاب ہے۔ گزشتہ دو تین سالوں کے دوران ہندوستانی فوج نے جس بھی علاقے میں ان کے خلاف کاروائی کرنے کی کوشش کی وہاں سینکڑوں کی تعداد میں مقامی لوگ ہندوستانی فوج پر پتھراؤ کرنے کے لئے جمع ہوجاتے ہیں اور ان نوجوانوں کو فرار ہونے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ در حقیقت ہندوستانی فوج کا قبضہ اور جبر ہی وہ بنیاد ہے جو ہندوستان کے خلاف کسی بھی طریقے سے لڑنے والے کشمیری نوجوانوں کو کم از کم وادی کے اندر تمام لوگوں کی خاموش یا سرگرم حمایت فراہم کرتی ہے۔
پلوامہ حملے کے حوالے سے خود ہندوستانی فوج کے ایک جرنیل ڈی ایس ہودہ، جو 2016ء میں ہندوستانی فوج کے شمالی ونگ کا کمانڈر رہ چکا ہے،نے 16 فروری کو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے اتنی بھاری مقدار میں بارود کسی دوسرے ملک سے سمگل کرنے کے امکان کو رد کر دیا ہے۔ جنرل ہودہ کے مطابق یہ 350 کلو بارودی مواد ’’ ممکنہ طور پرجموں سری نگر ہائی وے کی کشادگی کے لئے استعمال ہونے والے بارودی مواد سے حاصل کیا گیا ہے۔‘‘ ہندوستان کے حکمران طبقے کے زیادہ تر سنجیدہ حصے اس تحریک کے مکمل طور پر مقامی ہونے کی حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں اور کبھی کبھار اس کا کھلم کھلا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ ہندوستانی ریاست کی جانب سے کشمیریوں پر جو وحشیانہ جبر کیا جاتا ہے اس دلسوز داستان کا ہزارواں حصہ بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعے منظر عام پر نہیں آ پاتا۔ سوشل میڈیا اگرچہ اس قسم کے واقعات کو منظر عام پر لانے کا ایک متبادل ذریعہ بن کر ابھرا ہے لیکن بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تحریک کی شدت اور پھیلاؤ کے باعث آئے روز انٹر نیٹ کی سروس بند کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی اخبارات کی اشاعت اور موبائل فون سروس پر بھی پابندی عائد کر دی جا تی ہے۔ محکمۂ داخلہ امور کشمیر نے فروری 2018ء میں اپنی ایک رپورٹ میں کشمیر اسمبلی کو بتایا کہ ’’2015ء سے 2017ء کے درمیان 14210 سنگ بازوں کو گرفتار کیا گیا‘‘۔ 2016ء میں ’’Doctors Without Borders‘‘ نامی ایک عالمی این جی او کے ایک سروے کے مطابق ’’کشمیر کی بالغ آبادی کا 43 فیصد حصہ کسی نہ کسی اعصابی تناؤ کی بیماری میں مبتلا ہے جبکہ 93 فیصد آبادی کشمیر تنازعہ سے جڑے صدمے کا شکار ہے۔‘‘ (ہفنگٹن پوسٹ، 25 اکتوبر 2018ء )
یہ وہ چند اعداد و شمار ہیں جو کشمیر میں جاری ہندوستانی جبر کی وحشت کی ہلکی سی جھلک پیش کرتے ہیں۔ اس ریاستی جبر کے ساتھ سرمایہ داری نظام کی لوٹ مار، استحصال، غربت، مہنگائی اور بیروزگاری سمیت درجنوں دیگر عذاب ہیں جو مل کر کشمیری عوام اور خاص کر نوجوانوں کی زندگیوں کو جہنم میں تبدیل کئے ہوئے ہیں جس کے خلاف بغاوت کرنے کے لئے ہی ہر کشمیری پیدا ہوتا ہے۔ کشمیر کی حالیہ بغاوت، جس کا آغاز 2016ء میں ہوا تھا، مسلسل جاری ہے اور ہندوستانی فوج اپنے تمام تر جبر کے باوجود حالات پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ان تین سالوں میں اس تحریک کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ 2017ء میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں دوحلقوں کے ضمنی انتخابات کا جمہوری ڈرامہ بری طرح ناکام ہوا جس میں محض دو فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے۔ تحریک کی شدت کے باعث گزشتہ برس موسم گرما میں PDP اور BJP کی اتحادی حکومت کا خاتمہ ہو گیا جس کے بعد گورنر راج نافذ کر دیا گیا اور تا حال ہندوستانی حکمران طبقات نئے انتخابات کا ڈھونگ رچانے کی پوزیشن میں نہیں آسکے۔ دوسری جانب اس تحریک کے آغاز سے ہی پاک و ہند حکمران طبقات ایک جانب اس کے سیاسی اور لڑاکا کردار اور دوسری جانب اپنی تمام پالتو قیادتوں کے مسترد ہونے کی وجہ سے اس پر مسلسل بنیاد پرستی کی جانب سے حملے کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حالیہ دہشت گردی کے حملے کو اپنے اثرات کے حوالے سے لازمی طور پر اس شاندار تحریک پر دہشت گردی کے زہریلے خنجر سے قاتلانہ حملہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس حملے کا فوری رد عمل نہ صرف حکمران طبقات کی ریاستی درندگی میں کئی گنا اضافے کی صورت میں برآمد ہوا بلکہ پوری تحریک کو دہشت گردی کے الزام سے داغدار کیا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر ہندوستان بھر میں مذہبی اور قومی منافرت کی آگ بھڑکانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور خاص کر جموں میں ہونے والے واقعات جن میں کشمیریوں کو مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خلاف لڑایا جا رہا ہے ، اس کا سب سے منفی پہلو ہے۔ سنگ بازوں کی وہ تحریک، جس نے بے پناہ استقامت کے ساتھ بھارتی ریاست کے وحشیانہ جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی آزادی کی جدوجہد کو پاکستان کی حمایت یافتہ اور دہشت گردی جیسے غلیظ الزامات سے خود کو پاک کیا تھا، اس واقعے کے بعد ایک بار پھر انہی الزامات کی زد میں ہے۔ اگرچہ، ہمیں حکمرانوں کے ان آزمودہ غلیظ ہتھکنڈوں کے خلاف مسلسل جدوجہد کرنے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے اورآنے والے عرصے میں زیادہ شدت کے ساتھ اس جدوجہد کو جاری رکھنا پڑے گا۔ مسلح جدوجہد کا طریقہ کار اس وقت بھی کشمیر کے نوجوانوں کی ایک انتہائی قلیل تعداد کا راستہ ہے لیکن حکمران طبقات اس ناکارہ طریقہ کار کو شعوری طور پر پوری جدوجہد پر مسلط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس میں مسلح کاروائیاں کرنے والے دانستہ یا غیردانستہ طور پر اس قسم کی کاروائیاں کر کے ان کی معاونت کر رہے ہیں۔ حکمران طبقات کے لئے کسی بھی سیاسی جدوجہد کو کچلنا اگر ناممکن نہیں ہوتا تو انتہائی مشکل ضرور ہوتا ہے اس کے برعکس کشمیر جیسے خطے میں مسلح جدوجہد حکمرانوں کے لئے ایک ضروری عنصر ہے جس کو جواز بنا کر ریاستی جبر پورے سماج پر مسلط کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو کشمیر میں مسلح گروپوں کا وجود ہندوستانی فوج کے لئے ناگزیر ہے۔ ہندوستانی ریاست کا جبر تحریک میں شامل نوجوانوں کو تشدداور قید و بند کی اذیتوں کے ذریعے مسلح جدوجہد کی جانب دھکیلنے کا واحد سبب ہے اور اسی لئے یہ راستہ اختیار کرنے والے ایک منطقی دلیل رکھتے ہیں کہ وہ کیوں یہ راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن اس منطق کا پورا چکر یوں چلتا ہے کہ پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والوں کو ریاستی جبر مسلح جدوجہد کی جانب دھکیلتا ہے اور مسلح گروہوں کی کاروائیاں ریاست کو تھوڑا بہت نقصان پہچانے کے ساتھ پہلے سے زیادہ وحشیانہ جبر کا جواز فراہم کرتی ہیں اور ریاست کا یہ وحشیانہ جبر بالعموم سیاسی جدوجہد کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے اور مجموعی طور پر ریاستی دہشت گردی اور قبضہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ اسی لئے ریاست سب سے زیادہ جس چیز سے خوفزدہ ہوتی ہے وہ ایک منظم سیاسی جدوجہد ہوتی ہے ۔ اگرچہ کشمیر کی جدوجہد کو ابھی بھی درست نظریات، حکمت عملی اور منظم تنظیم جیسی بنیادی کمزوریوں کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود یہ سیاسی تحریک ہندوستانی حکمران طبقات کے لئے کسی بھی مسلح جدوجہد کے مقابلے میں بہت زیادہ خطرناک ہے اسی لئے یہ حکمران مسلسل یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس تحریک کو مسلح رخ اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے تا کہ آسانی کے ساتھ ان مسلح گروپوں کے ساتھ مسلسل تصادموں کو جاری رکھتے ہوئے وادی میں ننگا فوجی راج قائم کر دیا جائے۔ ان مسلح کاروائیوں کی یکطرفہ تشہیر کے ذریعے کشمیر کی جدوجہد آزادی کوپاکستان کی پراکسی جنگ یا اسلامی دہشت گردی قرار دے کر کشمیر میں جاری ریاستی وحشت کے لئے ہندوستان کے عام عوام کی مسلسل حمایت حاصل کی جا سکے۔ یہی وہ مقاصد ہیں جن کے حصول میں ہر دہشت گردانہ کاروائی ہندوستانی ریاست کی معاونت کرتی ہے اوردوسری جانب تحریک کو اپنے حاصل کردہ مقاصد سے محروم کر کے پیچھے دھکیلنے کا باعث بنتی ہے۔
پاک وہند اکھاڑہ
ہمیں اس تاریخی پہلو کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا کہ خطہ کشمیر بر صغیر پاک و ہند کے رجعتی حکمرانوں کے جنگی جنون اور دشمنی کا ایک اکھاڑہ بھی ہے اسی لئے خاص کر بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اپنی آزادی کی جدوجہد کے لئے دی جانے والی قربانیوں کے ساتھ حکمرانوں کے اس جنگی جنون کی قیمت بھی چکانی پڑ رہی ہے۔ پاک و ہند کے حکمران طبقات اپنی داخلی سیاست کے ایک اہم اوزار کے طور پر کشمیر تنازعے کو استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ داخلی طور پر طبقاتی جدوجہدوں کو دبانے اور جنگی جنون اور حب الوطنی کو ابھارنے کے لئے خطہ کشمیر اور کشمیریوں کے لہو کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس المناک سچائی کو ایک شاعر نے یوں بیان کیا ہے’’ سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا۔۔ پتہ کرو ملک میں چناؤ ہے کیا‘‘۔ یہ درست ہے کہ بھارت میں اپریل میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے مودی کو اس قسم کے کسی واقعے کی اشد ضرورت تھی جس کی بنیاد پر انتہا پسند ہندو تنظیموں کے کارکنان کو انتخابی مہم چلانے کے لئے مواد فراہم کیا جا سکے اور مودی کی پانچ سال کی حکومت کی ناکامیوں اور بدعنوانی کو چھپایا جا سکے۔لیکن پلوامہ حملے کی صرف یہی وجہ نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر بھی کشمیر کی اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لئے برصغیر پاک و ہند کے حکمران طبقات مسلسل کوششیں کرتے آرہے ہیں۔ ایک سیاسی تحریک صرف ہندوستان کے حکمران طبقے کے لئے ہی خطرناک نہیں ہے بلکہ پاکستان کے حکمران طبقات کے لئے بھی اتنی ہی خطرناک ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کے لئے بھی اس قسم کی صورتحال بہت خوش آئند ہے کہ کشمیر کی تحریک میں مسلح کاروائیوں کا سلسلہ جاری رہے اور اس کے تانے بانے بھی پاکستان کے ساتھ نہ ملتے ہوں تاکہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے اپنی منافقانہ حمایت اور بھارتی ریاستی تشدد کی مذمت کی سفارتی مکاری جاری رکھ سکے۔ کشمیری نوجوانوں کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود کشمیر کی تحریک کا حقیقی موقف بھارت اور پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی وسیع پرتوں تک نہیں پہنچ پاتا بلکہ اس تحریک کا ایک جھوٹا، غلط اور مسخ شدہ مؤقف دونوں ریاستوں کے حکمران طبقات ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی اپنی عوام کے شعور پر مسلط کرتے ہیں۔ ہندوستان کے حکمران طبقات اگر کشمیر کی تحریک آزادی کو پاکستان کی پراکسی یا مذہبی دہشت گردی بنا کر پیش کرتے ہیں تو پاکستان کے حکمران طبقات اس کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی یا صرف کشمیری مسلمانوں کی ہندو مذہب کے ساتھ لڑائی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ایک تو یہ ہے کہ کشمیر کے نوجوانوں کی تحریک کے نہ تو کوئی واضح نظریات ہیں اور نہ ہی کوئی ایسی پارٹی یا پلیٹ فارم ہے جو اپنے مقاصد اور ان کے حصول کے طریقہ کار کو واضح طور پر پیش کرسکے اور خود اپنی نمائندگی کر سکے۔ کشمیر کی تمام حریت پسند تنظیموں کی قیادتیں اپنے ناکام ماضی اور تاریخی طور پر مسترد نظریات کے بوجھ تلے دفن ہو چکی ہیں ان میں مستقبل کی کسی تحریک کی قیادت اورنمائندگی کرنے کی صلاحیت تک موجود نہیں ہے۔ اس لئے کشمیر کے جانباز نوجوانوں کو اپنی تحریک کی ان بنیادی کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے ایک درست سائنسی پروگرام اور نظرئیے کی بنیاد پر منظم ہوتے ہوئے آگے بڑھنا پڑے گا۔ اس کے بغیر ان کے حقیقی مؤقف کو برصغیر کے طول و عرض تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اس کی دوسری بڑی وجہ بھارت میں موجود بائیں بازو کی پارٹیاں ہیں جو سوشلسٹ انقلاب کے نظریات سے منحرف ہو کر بورژوا پارلیمانی سیاست ، ہندوستانی قوم پرستی اور نام نہاد سیکولرازم کو اپنی سیاست کا محور بنا چکی ہیں اسی لئے نہ تو ہندوستان کے کروڑوں محنت کشوں کی ایک یا دو روزہ ہڑتالیں جو پورے ہندوستان کو بند تو کر دیتی ہیں لیکن اس طاقت کو نہ تو ہندوستان سے سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد کے لئے منظم کر آگے بڑھایا جاتا ہے اور نہ ہی کشمیر کی تحریک آزادی کو آج تک ہندوستان کے محنت کش طبقے کی سرگرم طبقاتی حمایت مل سکی۔ ہندوستان کے بائیں بازو کے یہ وہ نظریاتی جرائم ہیں جن کی سزا نہ صرف کشمیر کے عوام بھگت رہے ہیں بلکہ بر صغیر اور جنوب ایشیا کے اربوں انسانوں کو اس گلی سڑی اور گماشتہ سرمایہ داری کی ذلتوں میں رہنے پر مجبور کر رکھا ہے۔اس سال کے آغاز پر ہندوستان کے20 کروڑ محنت کشوں نے دو روزہ عام ہڑتا ل کر کے اس نظام سے نفرت اور اس کو اکھاڑ پھینکنے کی طاقت اور خواہش کا برملا اظہار کیا ہے ۔ ہندوستان کے طلبہ کی تحریکیں بھی تیزی سے ابھر رہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ تحریکیں زیادہ شدت اختیار کریں گی اور اس نظام کی تبدیلی کے درست سائنسی نظریات کو اپناتے ہوئے انقلاب کی جانب بڑھیں گی۔ کشمیر کے نوجوانوں کو اپنی تحریک کی خامیوں اور کمزوریوں کا خود ہی تنقیدی جائزہ لے کر ان کو دور کرنے کی جانب بڑھنا پڑے گا ۔ کشمیر کی تین دہائیوں پر مشتمل جدوجہد بے شمار قیمتی اسباق سے بھری پڑی ہے لیکن اس کے ساتھ دنیا بھر میں جاری تحریکوں اور جدوجہدوں سے بھی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے جو کشمیر کی جدوجہد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں بے حد معاون ثابت ہو سکتا ہے۔