پختونخواہ: امیر تہکالی پربد ترین ریاستی تشدد کیخلاف ہزاروں افراد کے احتجاجی مظاہرے

|تحریر: صدیق جان|

پولیس بربریت کیخلاف پشاور میں ہونے والے احتجاج کا ایک منظر

کسی بھی طبقاتی نظام کے اندر ریاست جبر کا آلہ ہوتی ہے۔ ریاست مسلح جتھوں پر مشتمل ہوتی ہے جس کا مقصد امیر طبقے یعنی سرمایہ داروں کی مفادات کا تحفظ جبکہ غریب اور محنت کش طبقے کو دبائے رکھنے کے سوا کچھ نہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان کے اندر ایسے کئی واقعات منظر عام پر آئے ہیں جس میں پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عام شہریوں پر بد ترین جبر اور ظلم کیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ چند روز قبل پشاور میں پیش آیا۔ پشاور کے رہائشی امیر تہکالی نامی نوجوان نے نشے کی حالت میں چند دن پہلے دوستوں کے ساتھ ایک ویڈیو بنائی جس میں وہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے بالا افسروں کو گالیاں دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ بدھ کے روز ایک دوسری ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس میں عامر تہکالی پولیس کی حراست میں ہے اور پشاور کے ایک مقامی تھانے کا ایس ایچ او دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر اس کو برہنہ کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس والے عامیر کو گا لیاں دیتے ہیں۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد لوگوں نے سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ JusticeForAmirسوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور اس پولیس گردی کے خلاف لوگوں نے پولیس کے ادارے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

نوجوانوں کی بڑی تعداد نے مسلسل دو روز تہکال تھانے کے باہر احتجاج کیا

اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد آئی جی پختونخوا نے اس واقعے میں ملوث اہلکاروں کو معطل کرتے ہوئے گرفتار کرنے کا بادل نخواستہ حکم تو دے دیا مگر یہ اقدام ریاستی جبر کے خلاف مجتمع غصے کو پھٹنے سے نہ روک سکا اور پختونخوا کے مختلف شہروں اور علاقوں میں خودرو احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
پولیس گردی کے اس واقعے کے خلاف جمعرات کے روز پورے پختونخوا میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ پشاور میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں بڑی تعداد میں لوگ پختونخواہ اسمبلی کے باہر اکٹھے ہوئے اور دھرنا دے دیا۔ ان مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ اس دوران مظاہرین نے پولیس گردی کیخلاف خوب نعرے بازی کی۔ اس احتجاج کی ایک ویڈیو میں چند نوجوان پولیس کی ایک بکتر بند گاڑی پر کھڑے ہوکے نعرے بازی کرتے نظر آئے۔ گو کہ اس احتجا ج میں بہت سی سیاسی پارٹیوں کے مقامی قائدین بھی موجود تھے مگر مظاہرین ان سے لاتعلق نظر آئے۔ پولیس گردی کے خلاف ہونے والے اس پرامن احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے بھی انتظامیہ کو جبر کا سہارا لینا پڑا اور پولیس نے مظاہرین پر شدید لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے برسائے جس میں کئی مظاہرین زخمی ہوگئے۔ اسی طرح مردان، صوابی، چارسدہ، ملاکنڈ، سوات، دیر لوئر، باجوڑ، دیر اپر اور بنوں سمیت کئی شہروں اور دیہاتوں میں اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا گیااور ریاستی جبر اور پولیس گردی کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ مزید برآں، کئی علاقوں میں ایک ایک ضلع میں تین تین چار چار جگہوں پر بھی احتجاج ہوئے۔

گذشتہ روز بھی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے پشاور کے اس تھانے کا گھیراؤ کر لیا جہاں یہ انسانیت سوز واقعہ پیش آیا۔ ان نوجوانوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے ایک بار پھر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا

سوات

پولیس بربریت اور ریاستی جبر کے خلاف ہونے والی ان احتجاجوں کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ احتجاج خودرو طریقے سے ہو رہے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی یا کوئی تنظیم یا موومنٹ ان احتجاجوں کی قیادت نہیں کر رہی بلکہ تمام لوگ خود رو طریقے سے باہر نکلے ہیں اور ریاستی جبر کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ نہ ہی ان احتجاجوں کو منظم کرنے کے لیے کسی بھی پارٹی، تنظیم یا موومنٹ نے کال دی۔ اس واقعے کے خلاف پختونخواہ کے ایسے علاقوں میں بھی بھر پور احتجاج ہوئے جہاں پر اس سے پہلے بہت کم احتجاج نظر آتے ہیں بلکہ پچھلے عرصے میں پی ٹی ایم کے ایک بڑی تحریک کے دوران بھی ان جگہوں پر مظاہرے نہیں ہوئے تھے۔

ان احتجاجوں میں ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ عوام تمام سیاسی پارٹیوں کو مسترد کر چکی ہے اور اس وقت لوگ یہ بھی گوارا نہیں کرتے کہ ان روایتی پارٹیوں کا ان احتجاجوں میں کوئی نام بھی لے، ان کی قیادت میں احتجاج کرنا تو دور کی بات ہے۔ اسی طرح، عوام نے حکمران پارٹی پی ٹی آئی کے خلاف بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور پی ٹی آئی کی نام نہاد تبدیلی، مثالی پولیس پر لعن طعن کی۔ لیکن اگر کہیں پر روایتی سیاسی پنڈتوں نے احتجاج کو ہائی جیک کرنے کی کوشش بھی کی تو وہاں پر بھی ان روایتی مداریوں نے بحیثیت مجمو عی ریاست اور ریاستی اداروں کے کردار پر قطعی طور پر بات نہیں کہ بلکہ عوامی غم و غصے کو زائل کرنے اور ریاست کی دلالی کرتے ہوئے اس واقعے کو چند پولیس اہلکاروں کی غلطی یا اخلاقی مسئلے کے طور پر پیش کیا۔

اپر دیر میں بڑی تعداد میں مظاہرین نے پولیس بربریت کیخلاف احتجاج کیا

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہم نے پہلے لکھا کہ کسی بھی طبقاتی نظام کے اندر ریاست مسلح جتھوں پر مشتمل ایک ادارہ ہوتا ہے جو سرمایہ داروں کی دولت اور مفادات کی تحفظ کرتا ہے۔ یہ تمام تر سیاسی، مذہبی اور قوم پرست سیاسی پارٹیاں امیر اور غریب کی تسیم پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کو ازلی و ابدی سمجھتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان تمام تر سیاسی پارٹیوں کے مفادات بھی اسی سرمایہ دارانہ نظام اور لوٹ مار کے ساتھ جڑے ہیں۔ ان کے درمیان نام نہاد اختلافات بھی بس لوٹ کے مال میں حصے داری پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے اپنے تلخ تجربات کی بنیاد پر ان تمام سیاسی دکانوں کو رد کردیا ہے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے ان سیاسی پارٹیوں یا ریاستی اداروں کی دہلیز پر جانے کے بجائے اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہیں جس کی ایک تازہ مثال عامر تہکالی پر پولیس تشدد کے خلاف ابھرنے والے یہ احتجاج ہیں۔یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی عام لوگوں پر ریاستی اداروں کے ظلم اور جبر کے واقعات ہمارے سامنے ہیں جس میں سرفہرست 2014ء میں ماڈل ٹاون کا واقعہ، 2018ء میں کراچی میں راؤ انوار کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کا قتل اور اس کے بعد پشتون تحفظ مومنٹ کا احیا اور سانحہ ساہیوال شامل ہیں۔

چارسدہ میں نوجوان سراپا احتجاج

کسی بھی واقعے کو ہم اس کے سیاق وسباق سے کاٹ کر اور اس کو تسلسل میں دیکھے بغیر ہم اس کا صحیح تجزیہ نہیں کر سکتے۔ پشاور کے اس واقعے کے خلاف احتجاجوں کو اگر گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ صرف ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ ان احتجاجوں میں لوگوں نے مہنگائی، بے روزگاری لاعلاجی اور دوسرے مسائل کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیاہے۔ پاکستان کے عوام پہلے سے ہیں بد حال تھے لیکن کرونا وبا کے دوران ریاستی پالیسیوں اور حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ مہنگائی میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہیں جس کی وجہ سے محنت کش عوام فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اس بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہیں جبکہ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں اور اوپر سے رہی سہی کسر کرونا وبا نے پوری کردی۔ ایسے میں یہ واقعہ ایک چنگاری ثابت ہوئی ان مسائل کے خلاف عام عوام نے سڑکوں، چوکوں اور چوراہوں پر آکر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔

کوئی بھی سرمایہ دارانہ ریاست بیوروکریسی، عدالتوں، جیل، اور اپنے مسلح جتھوں یعنی پولیس، فوج اور دوسرے سیکیورٹی اداروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کا مقصد ”لاء اینڈ آرڈر“ کو برقرار رکھنا ہوتا ہے یعنی سرمایہ داروں کی نجی ملکیت اور دھن دولت کے دفاع کے لیے بنائے آئین و قوانین ا ور سرمایہ داروں کے لیے ہی نظم و ضبط تاکہ وہ کھل کر محنت کشوں کا استحصال اور لوٹ مار کرسکیں اور اپنی دولت میں بغیر کسی خوف کے اضافہ کر سکیں۔ ان ریاستوں اور ان کے اداروں کو اصلاحات یا کسی اخلاقی تربیت کے ذریعے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ خصوصاً پاکستان جیسے پسماندہ اور سابقہ نو آبادیاتی سرمایہ دارانہ ممالک میں ان ریاستی اداروں کا کردار انتہائی عوام دشمن ہے۔پولیس، فوج، عدلیہ اور تمام تر قوانین انگریز سامراج یہاں کی مقامی آبادی پر ظلم و جبر اور اپنی لوٹ مار اور اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے بنائے تھے جو کہ آج تک اس خطے کی عوام پر مسلط ہیں۔ ایسے میں ریاست اور ریاستی اداروں میں اصلاحات اصل میں ایک دھوکہ اور فریب ہیں۔ اس وقت امریکہ جیسے ترقی یافتہ جدید ملک میں امریکی عوام پولیس کے ادارے کے جبر کے باعث اس کو یکسر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہاں ان نوآبادیاتی اداروں میں اصلاح کی بات کرنا عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ پولیس سمیت طبقاتی جبر کے تمام تر اداروں اور اس پوری سرمایہ دارانہ ریاست اور اس ظلم واستحصال کو کو ایک صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں بننے والی مزدور ریاست کے تمام تر امور میں عوام کی براہ راست مداخلت ہوگی اورسرمایہ داروں کی نجی ملکیت کے محافظ ان اداروں اور ان کے آئین اور قوانین کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور ہر قسم کے ریاستی اور طبقاتی جبر کا خاتمہ ہو گا۔

Comments are closed.