|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، پشاور|
8 اپریل کو پشاور رنگ روڈ کے مقام پر پشتون تحفظ تحریک(PTM) کا تاریخ ساز جلسہ منعقد ہوا جس میں پختونخوا ، فاٹا، بلوچستان کے ساتھ ساتھ لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی اور دیگر شہروں سے طلبہ اور محنت کشوں نے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس سے ایک دن قبل تیاریوں کے سلسلے میں 7 اپریل کو پشاور شہر میں ریلی ہوئی جس سے بھاری اکثریت میں عوام کی شرکت کا اندازہ لگ رہا تھا۔ اس کے بعد پی ٹی ایم کے کارکنوں نے بینرز اور جلسے کیلئے باقی ماندہ انتظامات کئے۔
8اپریل کے دن صبح سے ہی شرکا کے قافلے جلسہ گاہ پہنچنا شروع ہوگئے۔ پختونخوا اور ملک کے دوردراز سے تعلق رکھنے والے پشتون محنت کش اور نوجوان ریاستی جبر کو شکست دینے جوق درجوق جلسے کے مقام پر پہنچ رہے تھے۔ شرکا کا جوش وجذبہ دیدنی تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہر شخص اپنے دکھوں کے مداوے کے لئے یہاں پہنچا تھا۔ جلسے کے باقاعدہ آغاز سے قبل ہی جلسہ گاہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ سینکڑوں افراد جلسہ گاہ کے باہر موجود تھے۔جلسے کی سب سے خاص بات خواتین کی ایک بڑی تعداد کی شرکت تھی۔ انتہائی قدامت پرست سمجھے جانے والے سماج میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کی اس سیاسی جلسے میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ سب تبدیل ہوچکا ہے۔
جلسے کے باقاعدہ آغاز کے بعد تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا اور یہاں بھی خواتین بازی لے گئیں۔ اس جلسے کی سب سے دل دہلا اور گرما دینے والی تقریر خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والی خاتون نے کی۔ بسرو بی بی کا کہنا تھا کہ وہ 5 بچوں کی ماں ہے۔ اس کے دو بچے خون کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں اور اس کا خاوند کافی عرصے سے لاپتہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر فوج ہماری حفاظت کرتی ہے تو میرا سلام ہے، اگر ظلم کرتی ہے تو مجھے نفرت ہے ایسی فوج سے۔ پہلے میں پولیس اور آرمی کو دیکھ کر خوش ہوا کرتی تھی، آج مجھے انھیں دیکھ کر اپنا آپ بے عزت لگتا ہے۔‘‘ اسی طرح اپنے گمشدہ پیاروں کی رہائی کی خاطر بھی کافی مرد و خواتین نے شرکت کی اور ان کی تصویریں ساتھ لاکر شدید احتجاج کیا۔ اس کے علاوہ باقی لوگوں دیگر سماجی و سیاسی شخصیات نے بھی جلسے سے خطاب کیا لیکن بارش کے باعث باقی جلسے کو مختصر کرنا پڑا اور جلسہ ختم ہونے سے پہلے آخری تقریر منظور پشتین کی ہوئی۔
منظور پشتین نے اپنی خطاب میں کہا کہ ہم ریاستی اداروں کے خلاف نہیں ہیں لیکن اگر وہ ظلم کرتے ہیں تو ہم خلاف ہیں ایسے اداروں کے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کسی بھی صورت میں پی ٹی ایم کے کارکنوں کے تحفظ پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ’’ہم امن کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اگر کسی نے ان پر امن مظاہرین پر ہاتھ اٹھایا تو ان لوگوں کو ہم نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
اسی طرح منظور نے ’’گمشدہ افراد‘‘ کے بارے میں کہا کہ صرف 2 گھنٹوں میں دو ہزار لوگوں نے پی ٹی ایم سے رابطہ کیا۔ انھوں نے ایک سیاسی جماعت کے لیڈروں کو مخاطب کیا اور کہا کہ “’’آج تم کہتے ہو کہ پی ٹی ایم والے پہلے کدھر تھے! میری عمر اس وقت کم تھی اور آج تم ہمیں قربانیاں دینا سکھاؤ گے۔ میں کہتا ہو کہ تم کدھر تھے اس وقت جب وزیرستان کے عام لوگ قربانیاں دے رہے تھے۔‘‘ قندوز حملے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم بے گناہ لوگوں کے مارنے کی مذمت کرتے ہیں لیکن اگر کوئی ’’گڈ‘‘ اور ’’بیڈ‘‘ طالبان مرتے ہیں تو ہمیں کوئی دکھ نہیں ہے۔ ’’خواہ وہ طالبان ہے، خواہ اچھے ہیں خواہ برے ہیں، امن کمیٹی ہے یا آئی ایس آئی ہے یا ایم آئی ہے، ہم ان کے خلاف ہیں۔‘‘
ماضی قریب میں پاکستان میں اتنا بڑا اور ریڈیکل جلسہ ڈھونڈنے کو نہیں ملتا۔ جلسے میں اکثریت محنت کش عوام کی تھی۔ قومی و ریاستی جبر کے خلاف منعقدہ اس عظیم عوامی جلسے میں پروگریسو یوتھ الائنس کے کامریڈز نے بھرپور شرکت کی جس میں پشتونخوا کے علاوہ بلوچستان اور اسلام آباد سے بھی وفود شریک تھے۔ پشتون تحفظ تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب لیف لیٹ بھی شائع کیا گیا جس کو بھرپور پذیرائی ملی۔ پشاور یونیورسٹی میں پی وائی اے کے کارکنان نے اس لیف لیٹ کے ذریعے طلبہ کو جلسے میں شرکت کے لئے متحرک کرنے کے لئے بھرپور کمپین چلائی۔ لیف لیٹ کیمپین کے ساتھ ساتھ مختلف علاقائی سوسائٹیز کے نمائندگان کے ساتھ سے ملاقاتیں کی۔ اس دوران اس جلسے کے لئے کمپین کی پاداش میں پولیس نے پروگریسو یوتھ الائنس کے تین اور پی ٹی ایم کے ایک کارکن کو گرفتار کرلیا جن کو بعد میں دباؤ کے باعث رہا کرنا پڑا لیکن لیف لیٹ پھر بھی تقسیم ہوتے رہیں۔ پی وائی اے کے ہمدرد افسر افغان، عصمت نواز اور کامران پختونیار اور باقی ساتھیوں نے بھی بڑھ چڑھ کر کمپین میں حصہ لیا۔
جلسے کے روز پشاور یونیورسٹی کے پرل لان میں تمام طلبہ اکٹھے ہوئے جہاں سے ریلی کی شکل میں نعرے بازی کرتے ہوئے یونیورسٹی کے مین گیٹ تک پہنچے۔ اس کے بعد بسوں میں جلسہ گاہ پہنچ کر پی ٹی ایم کے ساتھ بینرز کے ذریعے یکجہتی کا اظہار کیا۔ جلسے میں پی وائے اے کا کیمپ بھی لگایا گیاجہاں مارکسی لٹریچر دستیاب تھا جو کہ ایک گھنٹے میں سیل ہوگیا۔