(تحریر: فضیل اصغر)
آج کل میڈیا اور سوشل میڈیا پر بڑے بڑے اینکر پرسن، وی لاگرز، تجزیہ نگار اور سیاستدان ایک ہی بات کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ملک کو فوری طور پر سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک کی معیشت کو بڑا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ سفارتی طور پر بھی ملک نازک ترین موڑ پر پہنچ چکا ہے اور بالخصوص انڈیا کا خطے میں بڑھتا اثر و رسوخ اور اسکے افغانستان کے ساتھ مضبوط ہوتے تعلقات پاکستان کیلئے بہت بڑا چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ چین لڑائی اور بدلتی عالمی صورتحال کے تناظر میں بھی پاکستان بہتر سفارتی حکمت عملی تب بنا سکتا ہے جب سیاسی استحکام ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت اس بحران کا ذمہ عمران خان پر ڈال رہے ہیں تو پی ٹی آئی والے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر۔ بہر حال عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح ان میں کوئی ڈیل ہو جائے۔ مگر وہ ڈیل ہو نہیں پا رہی اور سیاسی عدم استحکام شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
درحقیقت یہ ساری بحث حکمران طبقے کی اندرونی لڑائی اور مفادات تک محدود ہے۔ اس بحث میں زمینی حقائق کو چھپایا جا رہا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے زوال اور اس پر کھڑے ریاستی اور مالیاتی ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ کا ذکر کہیں نہیں۔ اس وقت ملک میں تاریخ کی بدترین مہنگائی اور بیروزگاری موجود ہے، مگر اس ساری بحث میں یا تو اُس کا ذکر ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو اُسے حکمرانوں کا ایک دھڑا دوسرے کے خلاف اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنے کی حد تک ہی زیر بحث لاتا ہے۔ دوسری طرف کمیونسٹ ایک لمبے عرصے سے یہ تجزیہ کرتے آ رہے ہیں کہ ’سیاسی عدم استحکام‘ کی بنیادیں بھی معاشی بحران کے اندر موجود ہیں۔ ہم دوبارہ واضح کرتے ہیں کہ مستقبل میں یہ معاشی بحران بھی شدت اختیار کرتا جائے گا اور سیاسی بحران بھی۔ اور معاشی بحران اور حکمرانوں کی اندرونی لڑائی جسے وہ سیاسی عدم استحکام کا نام دے رہے ہیں، بڑی تحریکوں کو جنم دے گا جن میں مزدور تحریک کا اضافہ بھی ہوگا جو کہ پورے ملک کی سیاست کو ہی تبدیل کر کے رکھ دے گی۔ پہلے ہی گلگت بلتستان، ’آزاد‘ کشمیر، بلوچستان اور پشتون آبادی میں تحریکیں موجود ہیں۔
سیاسی عدم استحکام بڑھتا جائے گا!
پچھلے 77 سالوں سے ہی حکمران مزدوروں اور کسانوں کی پیدا کردہ دولت کو لوٹتے آرہے ہیں اور لوٹ مار کے مال کی آپسی تقسیم میں آپس میں لڑتے بھی آرہے ہیں، لہٰذا آج تک ’سیاسی استحکام‘ تو ہمیں کبھی بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ 1971ء میں تو اس ’سیاسی عدم استحکام‘ کی بدولت ملک ہی ٹوٹ گیا۔ اگرچہ اُس کے بعد بھی ’سیاسی استحکام‘ کبھی بھی موجود نہیں رہا البتہ عالمی تعلقات کی مخصوص نوعیت (سوویت یونین کا انہدام، امریکہ کو خطے میں پاکستانی حکمرانوں کی گماشتگی کی ضرورت، عالمی تعلقات میں وقتی استحکام) اورطبقاتی قوتوں کے توازن (بالعموم تحریکوں کا فقدان اور بالخصوص مزدور تحریک کا زوال) کے باعث ’سیاسی عدم استحکام‘ کبھی بھی اتنا خطرناک معلوم نہیں ہوتا تھا۔ مگر آج نہ دنیا وہ رہی ہے اور نہ ملک کی اندرونی صورت حال۔ آج دنیا بدترین عالمی معاشی بحران کا شکار ہے جس کے نتیجے میں ہر ملک کی سیاست تہہ و بالا ہو کر رہ گئی ہے۔ بالخصوص امریکی سامراج کے نسبتی زوال نے عالمی تعلقات اور سیاست میں جو دراڑیں پیدا کر دی ہیں اُن کے پاکستان کی ریاست پر بڑے گہرے اثرات پڑ رہے ہیں۔
اسی لیے وہ باتیں جو ماضی میں حکمرانوں کیلئے اتنی پریشان کن نہیں ہوتی تھیں اب وبال جان بن چکی ہیں۔ افغانستان سے انخلا کے بعد اب اس خطے میں امریکی سامراج کو پاکستانی حکمرانوں کی ضرورت نہیں رہی (بالخصوص افغانستان کے حوالے سے) جبکہ چین مخالف گھیرا بندی کے حوالے سے انڈیا اس کا فطری اتحادی بن چکا ہے۔ پاکستان کو FATF گرے لسٹ میں رکھنے سے لے کر دسمبر 2024ء میں نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس (NDC) پر پابندی لگانے تک امریکہ پچھلے چند سالوں سے پاکستانی حکمرانوں کے کان کھینچ رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں ریپبلیکن پارٹی کے ایک رہنما اینڈی بِگز کی جانب سے امریکی ہاؤس میں دوبارہ ایک بِل پیش کیا گیا ہے کہ پاکستان کی نان نیٹو اتحادی ملک کی حیثیت ختم کی جائے جو کہ عملاً کہیں پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔ خطے میں آنے والی اس تبدیلی نے ریاست پاکستان کو بنیادوں سے جھنجھوڑ ڈالا ہے۔
دوسری طرف مودی نے ظالمانہ اقدامات کی انتہا کرتے ہوئے کشمیر کو جبری طور پرباقاعدہ انڈیا کا حصہ بنا لیا ہے اور اسرائیل نے فلسطین پر فوج کشی کر ڈالی ہے اور خون کی ندیاں بہا رہا ہے۔ ان دونوں واقعات پر پاکستانی حکمرانوں کے مکمل طور پر گھٹنے ٹیک دینے کے نتیجے میں نام نہاد نظریہ پاکستان بھی اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ اب 8 جنوری 2025ء کو دبئی میں انڈین وزیر خارجہ کی افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ یہ طالبان حکومت کے ساتھ اب تک کی سب سے بڑی میٹنگ تھی۔ اس سے پہلے اس سطح کا کوئی انڈین ریاستی نمائندہ طالبان حکومت سے نہیں ملا۔ انڈیا کے طالبان حکومت کے ساتھ دوبارہ بہتر ہوتے تعلقات پاکستانی حکمرانوں کیلئے بہت بڑا خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف ٹی ٹی پی مسلسل پاکستان میں حملے کر رہی ہے۔ ڈیورنڈ لائن پر بھی صورت حال مسلسل کشیدہ ہے جبکہ حال ہی میں انڈین آرمی چیف نے کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دیتے ہوئے دھمکیاں لگائی ہیں۔ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ اتنی کمزور ریاست ’سیاسی عدم استحکام‘ قطعاً بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ مگر پھر بھی ’سیاسی عدم استحکام‘ کیوں جاری ہے؟ کیوں پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کی ڈیل نہیں ہو پارہی؟ کیا کوئی ڈیل ہو جائے گی؟ اور اگر یہ ڈیل ہو گئی تو کیا ’سیاسی استحکام‘ آجائے گا؟یہ لڑائی اب ایک غیر معمولی کردار حاصل کر چکی ہے۔ اس لڑائی میں ریاست کے تمام ادارے شدید دھڑے بندیوں کا شکار ہیں اور ڈنڈے کے زور پر تمام اداروں کو چلایا جا رہا ہے۔ اس لڑائی کے موجودہ مرحلے میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ برسر اقتدار دھڑا عمران خان کے ساتھ ایک ایسی ڈیل سے کم پر تیار نہیں جس میں اُس کے پَر کاٹے جا سکیں۔ کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اب کی بار عمران خان موجودہ سیاسی صورت حال میں سے باہر نکلتا ہے تو یہ برسر اقتدار دھڑے کیلئے سیاسی موت ہوگی۔ اُس کے بعد یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی اور جلد ہی الیکشن کرانا مجبوری بن جائے گی۔ ایسے میں پی ٹی آئی کا الیکشن جیتنا طے ہے۔ اس طرح بے لگام طریقے سے اگر عمران خان اور اُس کا دھڑا اقتدار میں آ گیا تو پھر مخالف دھڑے کے ساتھ وہ کچھ ہوگا جس کے سامنے حکمرانوں کی اندرونی لڑائیوں میں انتقام کی ماضی کی تمام مثالیں بہت چھوٹی معلوم ہوں گی۔ اور ’سیاسی عدم استحکام‘اور ریاستی بحران بھی ایک معیاری تبدیلی کے ساتھ نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔ در حقیقت اس سیاسی بحران کی بنیادی ترین وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ ملک بھر میں دیگر تمام سیاسی پارٹیوں اور بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کی سماجی حمایت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ بالخصوص نون لیگ کو تو واضح نظر آ رہا ہے کہ اُن کی سیاست مکمل طور پر ختم ہونے جا رہی ہے۔ مستقبل میں اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کی ڈرامہ بازی کے ذریعے عوامی حمایت لینے کے امکانات بھی تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ ایسے میں برسر اقتدار دھڑے کی ہر ممکن کوشش ہے کہ جیسے بھی ہو اقتدار جاری رکھا جائے، تا وقت یہ کہ معاشی صورت حال کچھ بہتر ہو اور سیاسی صورت حال بھی کنٹرول میں کر لی جائے۔ مگر یہ دیوانے کا خواب ہی ہے۔ اگرچہ ریاست پاکستان بلوچوں، پشتونوں سمیت دیگر مظلوم اقوام اور مزدوروں اور کسانوں پر تو انتہائی وحشیانہ جبر جاری رکھے ہوئے ہی ہے، مگر اپنے طبقے کے ہی ایک گروہ پر سیدھی گولیاں چلا دینا، ملٹری کورٹس میں گھسیٹنا، اور حتیٰ کہ سابقہ آئی ایس آئی چیف کا کورٹ مارشل کرنا یقیناً ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ اور ویسی ہی غیر معمولی پیش رفت پی ٹی آئی کی جانب سے9 مئی کو آرمی اور آئی ایس آئی کی بلڈنگز پر حملہ کرنا، اور فوج میں بغاوت اُبھارنے کی کوشش کرنا بھی تھی۔
9 مئی 2023ء کے واقعات سے لے کر نومبر 2024ء میں ریاست کی جانب سے پی ٹی آئی کے کارکنان پر اسلام آباد ڈی چوک میں سیدھی فائرنگ کرنے اور 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے کھل کر یہ بتانا کہ تمام اداروں کو دراصل چلاتا کون ہے تک، ہمیں حکمرانوں کی اندرونی لڑائی اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جہاں اس سیاسی بحران کے طوالت اختیار کر جانے کے پیچھے عالمی محرکات ہیں (امریکہ کی عدم دلچسپی) وہیں ایک بنیادی ترین وجہ ریاست کے دونوں دھڑوں کا انتہائی خصی اور کرپٹ ہونا بھی ہے۔ مثلاً 9 مئی والے دن پی ٹی آئی کی قیادت اور ریٹائرڈ فوجی افسران یوٹیوب پر براہ راست یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ فوج اور ایجنسیوں کے’خاموش سپاہی‘ کُو کرنے کو تیار ہیں مگر عوام تو نکلے باہر۔ جبکہ پی ٹی آئی کے ایم پی ایز اور ایم این ایز سمیت تمام ’یوتھیے‘ اِن خاموش سپاہیوں کو گالیاں نکال رہے تھے کہ تم کچھ نہیں کر رہے۔ اس طرح وہ نام نہاد انقلاب ناکام ہو گیا۔ اُس کے بعد بھی لگاتار کئی ’بغاوتیں‘ ناکام ہوتی رہیں کیونکہ ان میں عوام کے چھوٹے سے حصے نے بھی شرکت نہیں کی۔ اور اب ان کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکہ سے عمران خان کی رہائی کیلئے کوئی بیان دلوا دیا جائے۔ پی ٹی آئی کے نام نہاد انقلابی ہونے کی حقیقت اب سب کے سامنے عیاں ہو چکی ہے۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ عمران خان کی حکومت امریکہ نے گرائی، اور اب اُسی سے رہائی کی بھیک مانگی جا رہی ہے۔ یہ انسانی تاریخ کے پہلے انقلابی ہیں جو اپنے دشمن کے تلوے اور پتہ نہیں کیا کیا چاٹ کر ملک کو ’حقیقی آزادی‘ دلوانا چاہتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب بظاہر اتنا طاقتور دکھنے والا برسر اقتدار دھڑا تمام تر جبر کے باوجود تاحال دوسرے دھڑے کو مکمل طور پر ختم یا کنٹرول نہیں کر سکا۔ دوسرادھڑا بھی اتنا ہی خصی ہے۔ حالیہ عرصے میں سعودیہ کے دوروں کے حوالے سے کھلے عام یہ باتیں کی جا رہی تھیں کہ حکمران محمد بن سلمان کے ذریعے ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر تک کسی طرح یہ عرضی پہنچا نا چاہتے ہیں کہ امریکی آقا کی غلامی جاری رکھنے کا عظیم فریضہ ہمیں ادا کرنے دیا جائے۔
ابھی حال ہی میں نواز شریف کے پوتے کی شادی ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق اس شادی میں انڈیا کی بھی چند بڑی شخصیات موجود تھیں۔ اِن سے بھی یہی اپیل کی گئی کہ کسی طرح ٹرمپ تک عرضی پہنچا دی جائے۔ اس طرح دونوں دھڑے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ انہیں امریکی آشیرباد حاصل ہو جائے۔فی الحال تو پی ٹی آئی والے ٹرمپ کے آنے سے بہت خوش ہیں کیونکہ ان کی جانب سے حالیہ امریکی الیکشن میں ٹرمپ کیلئے بھرپور کمپین کی گئی تھی۔ شایداسی وجہ سے عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے تقاضوں کے مطابق ڈیل کرنے کو تیار نہیں جبکہ دوسری طرف اس کی ڈیل بھی اس کی سیاسی موت پر منتج ہوگی۔ حال ہی میں آرمی چیف کی پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ ملاقات اور پھر یہ بیان کہ ہم سب سے غلطیاں ہوتی ہیں، ان غلطیوں کو پیچھے چھوڑ کر ملک کے وسیع تر مفاد میں آگے بڑھنا ہوگا، سے وقتی طور پر یوں لگنے لگا ہے جیسے اب ڈیل ہونے جا رہی ہے۔ مگر ابھی بھی دونوں دھڑوں کی جانب سے ٹرمپ تک اپنی عرضیاں پہنچانے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ لہٰذا مستقبل قریب میں کسی ڈیل کے نتیجے میں عمران خان کے باہر آنے کے امکانات کم ہی ہیں، لیکن یہاں زیادہ اہم یہ ہے کہ بالفرض امریکی دباؤ کے تحت ڈیل ہو بھی جاتی ہے تو اُس کے نتیجے میں نئے تضادات جنم لیں گے جو اس بحران کو مزید شدید کر دیں گے۔القادر ٹرسٹ کے بدعنوانی کے مقدمے میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ملنے والی لمبی سزاؤں سے بھی یہی تاثر ملا ہے کہ ڈیل کی شرائط ابھی بھی نرم نہیں ہوئیں اور نہ ہی ہونے کا امکان ہے۔ ایک دھڑے کی سیاسی بقا دوسرے کی موت کے ساتھ ہی جڑی ہوئی ہے۔سفارتی حوالے سے دیکھا جائے تو امریکہ جو ڈیمانڈ کر رہا ہے یعنی چین کیساتھ اسٹریٹجک تعلقات کا خاتمہ، انڈیا کی طے کر دہ خطے کی پالیسی کو فالو کرنا اور اسرائیل کو تسلیم کرنا، دونوں دھڑوں کیلئے مشکل کام ہے۔ یہ باتیں تسلیم کر لینے سے اسٹیبلشمنٹ اور سرمایہ داروں کے ایک دھڑے کے مالی مفادات کو بھی دھچکا لگتا ہے اور فوج کے اتنے بڑے بجٹ سمیت ریاست کی ’نظریاتی بنیادیں‘ بھی ایک مذاق بن کر رہ جائیں گی۔ مگر دوسری طرف ملکی معیشت ایک ماہ بھی امریکی گارنٹی کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اور آئی ایم ایف کی جانب سے شدید پریشر موجود ہے کہ مزید مہنگائی اور نجکاری کی جائے۔ اگرچہ امریکہ کا یہ پریشر کافی لمبے عرصے سے جاری ہے مگر اب فیصلہ کن گھڑی قریب آتی جا رہی ہے۔ بہر حال ٹرمپ کے آنے کے بعدتمام ترتضادات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ مستقبل میں اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم میں تیزی آنا شروع ہو جائے گی اور پاکستان پر بھی اس کا پریشر بڑھنا شروع ہو جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ فیصلے کون لے گا۔ یہ کام کرنے کیلئے ایسا شخص چاہیے جس کی سماجی بنیادیں ہوں۔
لہٰذا ایسے میں عمران خان فیورٹ ہو جاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ عمران خان اور اُس کے دھڑے کو بھی ہے جس کا اظہار شہباز گِل جیسے اشخاص بڑے فخر کے ساتھ آئے روز اپنے وی لاگز میں کرتے بھی رہتے ہیں۔ بہر حال دوسرا دھڑا بھی اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، اور کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ خواہ عمران خان ہو یا کوئی فرشتہ آجائے، بہر حال چین اور امریکہ میں سے کسی ایک کو فیصلہ کن طور پرچننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور پاکستانی ریاست ان دونوں بڑی طاقتوں کے بیچ پنگ پانگ کی گیند بنی رہے گی اور یہ امر ہر گزرتے دن کیساتھ اس کے داخلی بحران کو بھی بڑھاوا دے گا۔ یہاں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت تک تو جو سیاسی بحران ہمیں نظر آ رہا ہے یہ ٹرمپ کے آنے سے پہلے کی صورت حال ہے۔ ٹرمپ کے بعد کی دنیا ہی مختلف ہو گی۔ امریکی خارجہ پالیسی میں آنے والی دیوہیکل تبدیلیاں پوری دنیا کو متاثر کریں گی۔ بالخصوص پاکستان جیسی ریاستوں پر ان کے اثرات بہت زیادہ پڑیں گے۔ بچپن سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے انتہائی سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ملک ہے۔ امریکہ چین لڑائی میں پاکستانی حکمران اسی کا ’فائدہ‘ اُٹھانے کی کوشش کرتے رہے، مگر اب وہ رحمت ایسی زحمت بن گئی ہے کہ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں پاکستان ایک ایسی گھاس بن چکا ہے جو کبھی بھی کچلی جا سکتی ہے۔ ٹرمپ کے بعد اس حوالے سے پاکستان پر مزید پریشر بڑھے گا جو کہ سیاسی و ریاستی بحران کو مزید شدید کرے گا۔ ٹرمپ ایک بگڑا ہوا انا پرست بزنس مین ہے جس کا ماننا ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیل میکر ہے۔ اور ڈیل کا مطلب ہوتا ہے ’کچھ لو اور کچھ دو‘۔ اب جو لوگ ٹرمپ سے بھیک مانگ رہے ہیں انہیں بہت جلد اس کا حساب بھی دینا پڑے گا۔ یاد رہے کہ پچھلے دور اقتدار میں بھی ٹرمپ نے پاکستان کی تمام تر امداد بند کر دی تھی۔ امریکہ چین لڑائی، اور بالخصوص ٹرمپ کی چین پر مرتکز پالیسی؛ اور مسلسل شدت اختیار کرتا معاشی بحران مستقبل میں اس سیاسی و ریاستی بحران کو مزید شدید کرتا جائے گا۔ انتہائی کرپٹ اور موقع پرست حکمرانوں کی اس لڑائی میں فیصلہ کن شکست یا کامیابی کسی بھی ایک دھڑے کو نہیں مل پائے گی اور مستقبل میں نئے گروہ بھی بنیں گے اور اُن میں لڑائی بھی زیادہ شدید ہو گی۔
بہرحال حکمرانوں کی تمام تر اندرونی لڑائیوں کے باوجود جس پر یہ سب متفق رہیں گے وہ محنت کش عوام پر بحران کا بوجھ ڈالنا اور ان کی تحریکوں کو بدترین جبر کے ذریعے کچلنا ہے۔ اس کے نتیجے میں مستقبل میں محنت کش عوام کی بھی بڑی بغاوتیں جنم لیں گی جو سرمایہ دارانہ نظام کو ہی جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی جانب بڑھیں گی۔
ملک کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟
جس طرح ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ حکمران طبقے کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ بن چکا ہے کہ اُن کے پاس سوائے پی ٹی آئی کے اور کوئی پارٹی بچی ہی نہیں جس کی کچھ نا کچھ سماجی بنیادیں ہوں۔ موجودہ صورت حال میں سب کو یہ نظر آ رہا ہے کہ کسی بھی وقت بنگلہ دیش کی طرز کی بغاوت جنم لے سکتی ہے۔ اس سے سب خوفزدہ ہیں۔ مگر اس بغاوت کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی بھی سیاسی پارٹی موجود نہیں۔ نون لیگ، پی پی پی سمیت دیگر قوم پرست اور مذہبی پارٹیاں مکمل طور پر اپنی سماجی حمایت کھو چکی ہیں۔ ان سیاسی پارٹیوں کا تو اب کوئی مستقبل نہیں۔ دو نئی نسلیں جنم لے چکی ہیں جنہوں نے ان پارٹیوں کو صرف کرپشن، لوٹ مار، غنڈہ گردی اور اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کا کردار ادا کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ پچھلے الیکشن میں کھل کر اس کا اظہار بھی ہوا تھا جب ان پارٹیوں کو کھلے عام دھاندلی کے نتیجے میں سیٹیں دلوائی گئیں۔
اس الیکشن میں ایک اور اہم سیاسی تبدیلی بھی رونما ہوئی، وہ تھی الیکٹیبلز کی سیاسی موت۔ مستقبل میں انتخابی سیاست کے میدان میں یہ تبدیلی کئی تضادات کو جنم دے گی جس سے سیاسی و ریاستی بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔ آج لوگ اُسی پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہو۔ پی ٹی آئی کی وقتی مقبولیت کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت ہے۔
بہر حال اگر نون لیگ کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ نظر آ رہا ہے کہ مستقبل میں اگر وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کا ڈرامہ بھی کرتی ہے تو پھر بھی اُس کی سماجی حمایت پیدا ہونے کے امکانات بالکل نہیں۔ پی پی پی بھی سندھ تک محدود ہے اور سندھ میں بھی درحقیقت وہ ہوا میں معلق ہے۔ انتہائی مزدور دشمن پالیسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کا کردار ادا کرتے رہنے کی بدولت اِس کی سماجی بنیادیں ختم ہو چکی ہیں۔ اب تو پی پی پی نے اپنا منشور ہی یہ بنا لیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی گماشتگی کرنی ہے۔
بہر حال اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ فوری طور پر ہی یہ پارٹیاں ملکی سیاست سے مکمل طور پر غائب ہو جائیں گی۔ اس ملک میں ان کے معاشی مفادات اتنے زیادہ ہیں کہ سیاست کے بغیر ان کا معاشی وجود بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا جب بغیر کسی سماجی حمایت کے یہ پارٹیاں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گی تو اِس کے نتیجے میں سیاسی بحران مزید شدت اختیار کرتا جائے گا۔ ان کے مقابلے میں اگر پی ٹی آئی کو دیکھا جائے تو بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے عمران خان کے باہر آنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پی ٹی آئی ہی اقتدار میں رہنے والی ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ نتیجہ تب نکلتا ہے جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ پی ٹی آئی کی بہت بڑی سماجی حمایت موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی اس وقت مین سٹریم پارٹیوں میں سب سے زیادہ سماجی بنیادیں رکھتی ہے۔ مگر اس کی اکثریتی سپورٹ مڈل کلاس میں ہے۔ محنت کش طبقے کی بھی کچھ بالائی پرتوں میں اس کی حمایت موجود ہے مگر وہ انتہائی محدود ہے۔ اس سیاسی حمایت کو بھی اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ حمایت سے زیادہ باقی پارٹیوں اور بالخصوص اسٹیبلشمنٹ سے نفرت کا اظہار ہے۔
اسی لیے پچھلے الیکشن میں اسے ووٹ تو بہت زیادہ پڑے مگر احتجاج کیلئے سڑکوں پر وہ لوگ نظر نہیں آتے۔ پچھلے چند احتجاجوں بالخصوص 26 نومبر والے احتجاج کے دوران پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے انتہائی بزدلانہ اور موقع پرستانہ کردار کو دیکھتے ہوئے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد اس سے مایوس ہوئی ہے۔ مگر یہ نوجوان جب دیگر پارٹیوں اورا سٹیبلشمنٹ کو دیکھتے ہیں تو پھر انہیں پی ٹی آئی ہی ایک آپشن نظر آتی ہے۔ اسی لیے اس وقت کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اگر عمران خان باہر آتا ہے تو اگلے الیکشن میں وہ بڑی اکثریت کے ساتھ جیت جائے گا۔ مگر اس جیت کے بعد عمران خان بھی پہلے کی طرح مزدور دشمن پالیسیاں ہی لاگو کرے گا۔ اس کے نتیجے میں اس کی مقبولیت انتہائی تیزی سے ختم ہوگی اور اس کے خلاف بغاوتیں جنم لیں گی۔ یہ تو ہم نے سیاسی افق پر غلیظ سیاست کا ذکر کیا ہے۔ مگر اصل سیاست یہ نہیں۔
اصل سیاست بلوچ تحریک، پشتون تحریک، ’آزاد‘ کشمیر اور گلگت بلتستان میں جاری عوامی تحریک، اور ملک بھر سمیت پنجاب میں جاری سرکاری ملازمین و محنت کشوں کی تحریک کی صورت میں موجود ہے۔ یہی عمل مستقبل میں مزید شدت اختیار کرے گا۔ ’آزاد‘ کشمیر اور گلگت بلتستان میں تمام پارٹیوں کے خلاف عوام نے اپنی عوامی ایکشن کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔ یہ عوامی ایکشن کمیٹیاں ملک بھر میں بننے کی طرف جائیں گی۔ اسی طرح نئی سیاسی پارٹیاں بھی جنم لیں گی جو زیادہ لڑاکا پروگرام پیش کر رہی ہوں گی۔ ان تمام تحریکوں میں سب سے بڑا اور معیاری اضافہ ملک گیر منظم مزدور تحریک کا ہوگا۔ یہ مزدور تحریک جب ایک بار ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھے گی تو سطح پر موجود مین سٹریم سیاست کے نام پر اُبلتے ہوئے گٹر کا سارا گند صاف ہو جائے گا۔ پھر حقیقی انقلابی سیاست کا آغاز ہو گا۔
مزدوروں، کسانوں، طلبہ اور مظلوم عوام کی یہ انقلابی سیاست امریکہ یا اسٹیبلشمنٹ کے بوٹ چاٹ کر ’انقلاب‘ لانا نہیں بلکہ محنت کش عوام فیکٹریوں، کھیتوں کھلیانوں، بنکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں پر ایک فیصد سرمایہ دار طبقے کے قبضے کا خاتمہ کر کے انہیں اپنی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لینے کی جانب بڑھیں گے۔ جس دن اپنی محنت سے پیدا ہونے والی دولت کو وہ مٹھی بھر سرمایہ داروں، بنکاروں، جاگیرداروں اور عالمی مالیاتی اداروں کے قبضے سے چھڑا کر اپنے کنٹرول میں لیں گے، وہ ہوگا اصل انقلاب۔ اس انقلاب کو سوشلسٹ انقلاب کہتے ہیں۔ مگر اس انقلاب کو کامیاب بنانے کیلئے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بننے اور اس کی تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جو کروڑوں محنت کشوں کی ذرائع پیداوار پر قبضہ کرنے کی اس لاشعوری خواہش کو شعوری شکل دینے میں ان کی مدد کرے گی اور انقلاب کے لیے انہیں منظم کرے گی۔