|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، ملتان|
پی ٹی سی ایل جیسے منافع بخش ادارے کو 2006ء میں مشرف دور کے آخری عرصے میں نجکاری کے ذریعے چھبیس فیصد حصص اتصالات کو اونے پونے داموں فروخت کر دیے گئے۔ اس وقت پی ٹی سی ایل مزدوروں کی نجکاری کے خلاف ایک بڑی تحریک بھی موجود تھی،جسے غدار قیادت نے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ مل کر بیچ دیا۔ گزشتہ ماہ پی ٹی سی ایل کے چیف ہیومن آفیسر سیدمظہر حسین نے پریس کانفرنس کے ذریعے کہا کہ مزید 9000 ملازمتوں کا خاتمہ کیا جائے گا،جس سے کمپنی کو 10 ارب کی بچت ہوگی۔
اس سلسلے میں ریڈ ورکرز فرنٹ ملتان کی ٹیم نے ادارے کے ایک ملازم سے گفتگو کی جس کے دوران ادارے کے اندر موجود مزدوروں کی دردناک کیفیت کھل کر سامنے آئی۔ اس کے بعد سے اب تک،وقفوں وقفوں سے پی ٹی سی ایل مزدوروں کو سرمایہ دارانہ ہوس پرستی کے حملوں کو نشانہ بنایا جاتا رہاہے۔ نجکاری سے پہلے ادارے میں 64000 ملازمین کام کرتے تھے، جو کہ اب 18000 رہ گئے ہیں۔ اُن چونسٹھ ہزار ملازمین کے باوجود بھی یہ ادارہ ٹیکس ادائیگی کے بعد 38 ارب کا منافع سرکاری خزانے میں جمع کراتا تھا اور اب 46000 ملازمتیں ختم کرنے کے بعد یہ ادارہ 8.8 ارب کا منافع کماتا ہے، جو کہ اب نجی جیب میں جاتا ہے۔
اس سے ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ حکومت کے تمام دعوؤں کے باوجود نجکاری ایک پالیسی کے طور پر اس ملک کے عوام یا براہ راست حکومت کے لیے ایک نقصان دہ، فیل شدہ قدم ہے جس کا محض نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے۔ قانون کے مطابق جب تک کسی ادارے کے پچاس فیصد حصص فروخت نہ کئے جائیں تو تب تک اس کے انتظامی امور (مینیجمنٹ ) پرائیویٹ کمپنی کو منتقل نہیں کئے جا سکتے، لیکن پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے وقت ہر طرح کی شفافیت اور قوانین کو کوڑے دان میں ڈالتے ہوئے کم ترین قیمت پر ادارے کے انتظام کو بھی اتصالات کو سونپ دیا گیا۔ اتصالات،جس کااپنا حتمی مقصد آج بھی تمام شہروں میں ادارے کی بہترین کمرشل لوکیشن پر موجود پراپرٹی حاصل کرنا ہے۔ اسی پراپرٹی کی قیمت کے تعین کے گرد ہی اتصالات نے حکومت کو بقایا رقم کی ادائیگی کا تنازعہ بناکر بقیہ ادائیگی روکی ہوئی ہے۔ کیونکہ ان کے مطابق حکومت نے اس پراپرٹی کی قیمتیں زیادہ لگائی ہیں۔ اس بارکی چھانٹیوں کے ٹارگٹ بھی پورے ہونے مشکل ہیں کیونکہ یہاں کے ملازمین نے انتہائی تلخ تجربے کے بعد یہ سبق سیکھا ہے کہ باہر بڑے بڑے کاروباری مگر مچھوں کے ہوتے، ان کواتصالات انتظامیہ کی جانب سے ملازمت چھوڑنے کے عوض ملنے والی چھوٹی چھوٹی رقوم (گولڈن ہینڈ شیک، وی ایس ایس)، جن میں بیس، تیس یا چالیس تنخواہیں شامل ہوں، اس سے ان کے گھروں کا حال اور مستقبل شدید خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں کہ پہلے وی ایس ایس لے کر جانے والے مستقل ملازموں میں سے کئی نے کاروبار ناکام ہو کر ختم ہونے کی صورت میں واپس آ کرچپڑاسی کی سیٹ پر عارضی نوکر ی لینے کی بنتیاں کی ہیں جسے انتظامیہ نے رد کر دیا۔
اس کیفیت میں انتظامیہ نے اپنے چھانٹیوں کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں لالچ اور پھردور دراز علاقوں میں ٹرانسفر کرنے کی دھمکیوں کا طریقہ کار استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن گزشتہ تلخ تجربے کی روشنی میں ملازمین ان ہتھکنڈوں سے دبائے نہیں جا سکتے۔ ملازمین کا کہنا ہے تنخواہ بہت کم اور ورک لوڈ بہت زیادہ ہونے کے باوجود بھی ہمارے گھر کا چولہا تو جل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پینشن سے مستقبل میں بھی کام چل جائے گا لیکن اس وقت نوکری سے ہاتھ دھو کر کاروبار کرنے کا رسک نہیں لیا جا سکتا۔ تعلیم، علاج، پی ٹی سی ایل کالونیوں میں میسر نسبتاً سستی رہائش جیسی بنیادی ضروریات کسی پرائیوٹ نوکری یا چھوٹے موٹے کاروبا ر سے پوری نہیں ہو سکتی۔ دھمکیوں کے علاوہ ملازمین کی سالانہ پرفارمنس رپورٹ کے ذریعے بھی مزدوورں کو ہراساں کیا جانے کا سلسلہ جا ری ہے جس میں ناقابلِ حصول ٹارگٹس دے کر ان کے رزلٹ کی بنیاد پر تنخواہوں کا(زیادہ تر) گھٹانے یا بڑھانے کے معیار کا کام لیا جاتا ہے۔ اس عمل میں مرکز سے ہی افسران کو ہدایات ہیں کہ کسی کو اے گریڈ نہیں دینا،اس کے علاوہ گریڈ بی، سی اور ڈی کی فیصدی مقدار بھی اوپر سے بتائی جاتی ہے۔ پھر اس کے بعد سی اور ڈی گریڈ والے ملازمین کا ورک لوڈ بڑھا کر ان کی کٹوتیاں کی جاتی ہیں۔ بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے جنہیں تنخواہوں میں اٖضافہ نصیب ہو پاتا ہے۔
اجتماعی طور پر دیکھا جائے تو نجکاری، ملازمین، عوام اورحتیٰ کہ خود حکومتی آمدن کی کمی کے نقصان کی صورت میں ایک ناکام منصوبہ ثابت ہو چکی ہے۔ آئندہ بھی نجکاری جیسے ناکام منصوبے کو جاری رکھنے پر حکومت بضد ہے کیونکہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں جو کہ ان امیر زادوں کا نظام ہے، اس کو چلانے، اپنے منافعوں کی ہوس کو پورا کرنے اور اس نظامِ معیشت کو بربادی سے روکنے کے لیے ان کے پاس سوائے نجکاری جیسی ناکام پالیسی کے، اور کوئی حل بھی نہیں ہے۔ لیکن پی ٹی سی ایل ایک زندہ مثال ہے یہ نجکاری مزدوروں کے لیے زہر قاتل کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے خلاف لڑنے کے لیے پی آئی اے کے مزدوروں کی جدوجہد ہمارے لیے مشعل راہ ہے، جو آنے والی لڑائیوں میں بھی رہنمائی فراہم کرے گی۔