|تحریر: صبغت وائیں|
یہ ایک سوال ہے جو کافی سارے دوستوں نے کیا۔
مجھے بھی حیرانی ہے کہ ایک بھی لفظ لکھنے کی تحریک یا توفیق نہیں ملی مجھے اس بدترین ظلم پر۔
البتہ دس جنوری ہی کی تین سال پہلے کی ایک میری اپنی تحریر فیس بُک والوں کی طرف سے میرے سامنے آ گئی جس میں، میں نے اس ماں کے دُکھ کی خبر کو محسوس کرنے کو کہا تھا جس کی بچی کسی کے گھر کام کرنے کے لئے گئی تھی اور انہوں نے اسے مار ڈالا تھا۔ لیکن الائیڈ ہسپتال والوں نے پوسٹ مارٹم کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کی وجہ سے کیس درج نہیں ہو سکتا تھا۔ مظلوم ماں ہر راہ گزرنے والے کو چھڑیاں مار رہی تھی۔
اس کے بعد مجھے طیبہ اور دیگر لڑکیاں یاد آ گئیں۔ جن کے مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔ اس سال کی پہلی خبر یعنی سرفراز کے قاتلوں کو صدر مملکت نے معاف فرما دیا، یاد آئی۔ لیکن شاہ زیب کے قاتل جتوئی کا بھاری رقم دے کر چھوٹ جانا بھی یاد آ گیا جو کہ پچھلے سال کی آخری خبروں میں سے ایک خبرتھی۔ اس کے بعد سوچتا ہوں تو جیسے آنکھوں کے سامنے فلم چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ کیسے ایک کو پکڑوں اور دیگر کو چھوڑ دوں؟ اگر میں ایک وقوعے پر لکھوں اور دیگر سے قطع نظر کروں تو اپنا آپ مجرم نظر آتا ہے، اور اگر نہ لکھوں تو یہ چند انباکس والے میسج ہی نہیں بلکہ اپنا انسان ہونا بھی تنگ کرتا ہے۔ اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی کی بورڈ پر انگلیاں چلنا شروع ہو گئی ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ بات کہ کمیونسٹ ظلم کوبرا، شدید اورغلط مانتے ہیں، لیکن استحصال کو بد تر، شدید تر اور غلط تر مانتے ہیں۔ اس لئے ہم ظلم کی خبروں پرشدید دکھ اور غم محسوس کرتے ہیں اور مظلوم کے ساتھ نہ صرف بھرپوراظہار یکجہتی کرتے ہیں بلکہ ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوششوں کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ استحصال کی طرف توجہ دلوانے کے لئے بھی مسلسل نہ صرف لکھتے اور بات کرتے ہیں بلکہ اس کے خاتمے کی جدوجہد کو بھی منظم کرتے ہیں۔ کیوں کہ ظلم تو وہ ہے جو سامنے آ گیا، اور اس کا ظاہر ایسا ہے جو سب کو دکھتا ہے اور ہر کوئی اس کو ناجائز اور غلط مانتا ہے۔ لیکن استحصال جس کو ہم شدید تر اور غلط تر مانتے ہیں، وہ ہے جو اپنے ظاہر میں برا اور غلط نظر نہیں آتا۔ اس کے شدید تر ہونے کو ہم صرف حواس کو کام میں لا کر نہیں دیکھ سکتے۔ اس کو دیکھنے کے لئے تعقل اور گہرے جذبات کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اسی لئے ہم اپنی یہ مختصر زندگی استحصال کو دیکھ پانے والی آنکھیں پیدا کرنے اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی خاطر وقف رکھتے ہیں۔
اس لیے ہم زینب کے ساتھ ساتھ آج ’’طیبہ‘‘ اور ’’شازیہ‘‘ کے دو کیس لے کر بھی بات کریں گے۔حالاں کہ مجھے یقین ہے کہ ان مجرموں کو اگر کیفرِ کردار تک پہنچابھی دیا جائے ، جس کا امکان نظر نہیں آتا تو بھی اس نظام میں رہتے ہوئے اس طرح کے واقعات ختم ہوں گے، اور نہ ہی ان میں کمی آئے گی۔ پہلے بھی بہت بار ایسا ہو چکا ہے، اس قسم کے مجرموں کو سامنے لانے سے پہلے ہی بھگا کر گولی مار دی جاتی ہے، کیوں کہ ریاست کو خود بھی اپنے قوانین اور ججوں پر اعتماد اتنا ہی ہے، جتنا کہ عوام کو۔
سب سے پہلے ہم یہ سوچتے ہیں، کہ شازیہ مسیح، جس کی ہڈیاں توڑ دی گئی تھیں، کے مجرم کو کیوں چھوڑ دیا گیا تھا جو کہ لاہور بار کا شاید صدر بھی رہا تھا۔۔۔ تو جواب ملتا ہے کہ عدالت کے سامنے جس ڈاکٹر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آئی تھی اس میں لکھا تھا کہ لڑکی کو موت کسی ’’جلد ی بیماری‘‘ سے ہوئی تھی۔
دوسرے کیس میں ہم اس اختر کی بات بھی کر سکتے ہیں جو عطیہ کا بھائی تھا، جو بہن بھائی ایک خاتون ایم پی اے کے ہاں اکٹھے کام کرتے تھے اور عطیہ کے کہنے کے مطابق اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بھائی کو ’’باجی نے مار ڈالا‘‘، لیکن باجی ایم پی اے کی بیٹی تھی۔
تیسرا کیس طیبہ کا ہے جس میں ابھی تک جج کی بیوی ماہین کو اور اس جج کو سزا کیوں نہیں ہوئی۔ یا اس معاملے کو کیوں ٹھنڈا کیا جا رہا ہے؟
یہ تھا مختصر سا احوال ظلم کے ایک دو واقعات کا۔ لیکن ان واقعات پر اتنا بڑا احتجاج دیکھنے میں کیوں نہیں آیا اور اس واقعہ پر اتنا احتجاج کیوں ہوا۔اس حوالے سے بہت سے افراد کا گلہ بھی نظر آتا ہے کہ زینب پر بہت سے لوگ دکھ اور غم و غصے پر اتنا اظہار کر رہے ہیں اور دیگر بہت سے واقعات پر اتنے بڑے احتجاج نہیں ہوئے۔اسی کو بنیاد بناتے ہوئے قصور کے لوگوں کو کوسا یا برا بھلا کہا جا رہا ہے۔دوسری طرف بہت سے سیاستدان، ملاں اور این جی اوز کا مکروہ دھندہ کر کے پیسہ کمانے والے بھی مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں جس کے بعد عام لوگوں میں ان کے لیے نفرت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
لیکن مارکسی فلسفے میں کہا جاتا ہے کہ مقدار معیار میں تبدیل ہوتی ہے۔ زینب کے ریپ اور قتل پر ہونے والا احتجاج اور غم و غصے کا اظہار ایک لمبے عرصے سے چلے آ رہے مظالم اور سماج کی گراوٹ کے خلاف احتجاج ہے۔ اس سے پہلے قصور میں چھوٹے بچوں سے وسیع پیمانے پر بد فعلی کرنے والے منظم گروہ کاکردار سامنے آ چکا ہے لیکن اس کے باوجود کسی سرغنہ کو سزا نہیں ملی۔ جن پانچ افراد کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا ان میں سے چار کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
درحقیت اس واقعے سمیت یہ تمام واقعات ریاست اور اس کے تمام اداروں کی ناکامی کا کھلا اظہار ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان وقعات کی رفتار تیز ہوتی جا رہی ہے۔عدالتیں، پولیس اور فوج کے ادارے ، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور دیگر تمام ریاستی ادارے مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اور ان کا کام صرف عوام پر گولیاں برسانا اورجبر و تشدد کرنا ہی رہ گیا ہے۔جبکہ اپنے پالتو ملاؤں اور دیگر سیاسی لے پالکوں کے ’’حلال‘‘ احتجاجوں کو میڈیا کے ذریعے عوام پر مسلط کرنا ان کا کام ہے۔ یہ رپورٹ بھی سننے میں آئی ہے کہ پولیس والوں نے زینب کی نعش اس کے گھر والوں کے حوالے کرنے پر دس ہزار روپے مٹھائی کے مانگے تھے۔ اسی طرح بیروزگاری، مہنگائی اور دیگر معاشی و سماجی مشکلات کیخلاف نفرت اور غصہ اس واقعے پر کھل کر سامنے آیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک چنگاری پورے جنگل کو جلا کرراکھ کردیتی ہے، لیکن یقیناً ہر چنگاری تو ایسا نہیں کرتی۔
اس واقعے پر اتنے بڑے احتجاج اور ملک گیر سطح پر پھیلے غم و غصے میں ہمیں اجتماعی شعورمیں آگے کی جانب سفر بھی نظر آتا ہے۔ جس میں بہت سے لوگوں کو زینب اور اس کے والدین اپنے جیسے نظر آئے۔ یہ انفرادیت سے اجتماعیت کی جانب سفر ہے گو کہ یہ ابھی ابتدائی مرحلے پر ہے ۔اس عمل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کیا اتنے لوگوں نے ا س سے پہلے کے مظالم کو مظالم نہیں سمجھا، یاانہیں قابلِ توجہ نہیں سمجھا؟ آخر کیا وجہ ہے، کہ اتنا احتجاج ان پہلے والے معاملات میں دیکھنے میں نہیں آیا جتنا کہ زینب کے معاملے میں آیا؟ میں نہیں مانتا کہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ: لڑکی کے ماں باپ انتہائی دین دار تھے اس لئے، وہ مسلمان تھے اس لئے، وہ عمرے پر گئے تھے اس لئے، یا لڑکی قرآنِ پاک پڑھنے گئی تھی اس لئے اتنا احتجاج سامنے آیا ۔
یوں دیکھیں تو عطیہ، اختر اور طیبہ تینوں مسلمان ہیں۔ اب اگر کوئی کہے کہ اتنا احتجاج اس وجہ سے ہوا کہ زینب تو قتل ہو گئی تھی۔ تو شازیہ مسیح بھی لڑکی تھی جس کی ایک ایک ہڈی توڑ کر اس کو مار دیا گیا تھا۔ اگر کوئی کہے کہ اس کے قاتل کو اس لیے چھوڑ دیا گیا کیوں کہ قاتل مسلمان تھا، تو یہ بات بھی غلط ہے۔ کیوں کہ زینب کا قاتل بھی (تصویر میں بھی) ممکنہ طور پر مسلمان ہی نظر آ رہا ہے۔ اب اختر کو بھی مار ڈالا گیا تھا۔ جس کی قاتل ’’باجی‘‘ کی بعد میں کوئی خبر نہیں آئی کہ اس کو گرفتار بھی کیا گیا تھا یا نہیں۔ مجھے جو سمجھ آتی ہے وہ انتہائی اہم سچ ہے جس کی طرف ارسطو نے پوئٹکس میں لطیف سا اشارہ کیا ہے:
’’انسان المیے کے ہیرو پر گزرنے والی ہولناکیوں سے اس لیے خوف زدہ ہوتا ہے، کیوں کہ وہ ان کے اپنے جیسا ہوتا ہے‘‘۔
یعنی خوف کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ’’مصیبت زدہ‘‘ ان کے اپنے جیسا ہے۔ اب کون اپنے جیسا ہے اور کون نہیں، اس کا فیصلہ کون کرتا ہے؟ اس بات کا فیصلہ کیا لوگ خود کرتے ہیں؟ ان کا شعور کرتا ہے؟ ان کے شعور کی تعیّین (ڈٹرمینیشن) کون کرتا ہے؟ ان کی اس ’’انفرادیت‘‘ کو کیا ان کا اپنا وجود متعین نہیں کرتا؟ اپنا ’’وجود‘‘ جو کہ وہ ’’ہیں‘‘۔۔۔ اس کا فیصلہ وہ کیسے کرتے، اگر وہ ان حالات میں ’جہاں کہ وہ ہیں‘، نہ ہوتے؟ اور پھر واقعات کے ہتھوڑے بھی تو بنے بنائے شعور کو تبدیل کر کے رکھ دیتے ہیں ۔
مجھے معلوم ہے کہ یہاں بہت زیادہ فلسفیانہ گہرائی میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے، سیدھی بات کریں جو سب کو سمجھ میں آ جائے۔ وہ یہ ہے کہ لوگوں کے ’’علم‘‘ اور ان کی دانشمندی سے زیادہ حالات کا جبر ان کو اس جانب لے جاتا ہے۔یہاں آنکھیں کھول کر دیکھا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ اس قبیح جرم پر سب سے زیادہ درمیانہ طبقہ خوف و ہراس میں مبتلا ہوا ہے، جس کو زینب ’’اپنے جیسی‘‘ نظر آ رہی ہے۔ یہ ’’اپنے جیسا‘‘ نظر آنا ہی اصل خوف و ہراس پیدا کر گیا ہے۔اور اس واقعہ میں ریاست کے تمام اداروں کی ناکامی بھی پوری طرح کھل کر نظر آئی ہے۔
’’اپنے جیسا‘‘ نظر آنا بہرحال قابلِ تعریف ہے۔ اور یہ عمل یہاں رکنے والا نہیں بلکہ یہ آگے بڑھے گا اور طبقاتی تفریق واضح کرتے ہوئے حکمران طبقے کے تمام افراد اور ان کے نمائندے اپنے دشمن نظر آئیں گے جبکہ سماج کے مزید پسے ہوئے طبقے ’’اپنے جیسے‘‘ نظر آئیں گے اور طبقاتی جڑت بڑھے گی۔گو کہ یہ عمل سیدھی لکیر کی بجائے متضاد انداز میں آگے بڑھے گا۔
زینب کے ریپ اور قتل کا صدمہ اور اس کے خلاف ابھرنے والی نفرت آنے والے عرصے میں ان غریب بچیوں کے غم اور دکھ کے ساتھ بھی جڑے گی جو دولت مند افراد کے گھروں میں لونڈیاں بن کر کام کرتی ہیں۔ آج ان نوے لاکھ سے زائد زینبوں اور اختروں؛ اور شازیاؤں اور طیباؤں، اور عطیاؤں یعنی ہر طرح کے بچوں پر ’’ظلم‘‘ بھی اور ’’استحصال‘‘ بھی ہو رہا ہے۔ ان میں بچیاں بھی ہیں اور بچے بھی، مسلمان بھی، اور غیر مسلم بھی، جن کی کہانیاں سامنے آئی ہیں، نہیں بھی، جن میں سے زندہ بھی ہیں، اور مار ڈالے گئے بھی، جو بچا لئے گئے بھی ہیں، اور وہ بھی جو ابھی تک سردیوں میں ننگے پاؤں فرش دھو رہے ہیں، سبھی۔۔ بغیر کسی تفریق کے۔ آخر یہ تفریق ہے کہاں؟ جنس میں؟ مذہب میں؟
یہ سوال ہے، جو لکھنے کی تحریک دیتا ہے، یا دوسروں کو واویلا کرتے دیکھ کر افسردگی کے عالم میں ڈوبے رہنے اور نہ لکھنے کو کہتا ہے۔ مجھے یہ سوال تنگ کرتے ہیں جو کہ اپنی نوعیت میں شاید اتنے فلسفیانہ نہیں ہیں، کہ جن کو تنگ کرنے کو ایک فلسفیانہ مسائل پر غور کرنے والا ذہن ہی بطور آماجگاہ درکار ہو۔کیا ہیں یہ طبقات؟ کون سے ہیں؟ یہ سوچ آتی ہے۔
امیر اور غریب کے الگ طبقے کیسے ختم ہو سکتے ہیں؟ یا یہ طبقاتی نظام ہی کیسے ختم ہو سکتا ہے؟
کیسے وہ افراد اپنے گھروں میں ان چھوٹے معصوم بچوں سے وہ کام کرواتے ہیں، جو کہ وہ اپنے بچوں کے متعلق سوچ کر بھی کانپ اٹھیں؟
کیوں ان کو ’’نچلی‘‘ کلاس کے بچے ’’اپنے بچے‘‘ یا ’’اپنے بچوں جیسے‘‘ نہیں لگتے باوجود اس کے کہ وہ ان کے ہم مذہب بھی ہیں؟
یہی وجہ ہے کہ ہم پیٹی بورژوا یا مڈل کلاس سطحی جذباتیت کے شعور کو گھٹیا ترین قرار دیتے ہیں جو محض زینب کے قاتلوں کی گرفتاری کو ہی مسئلے کا حل قرار دے رہے ہیں یا پھر عدالتوں کے ذریعے مسئلہ حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ زینب کے قاتل پکڑے جائیں اور سزا پائیں۔ لیکن جن کے قاتل اور جن کو اذیتیں اور عذاب دینے والے پکڑے جانے کے بعد قانون اور عدالت سے ’’باعزت بری‘‘ ہونے کے بعد دندناتے پھر رہے ہیں، ہماری نظر ان پر بھی مسلسل ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ طبقاتی نظام میں رہتے ہوئے یہ سلسلہ اختتام پذیر ہونے والا نہیں اور نہ ہی یہ ریاست اور اس کے تمام ادارے فعال اور بہترہو سکتے ہیں۔واحد حل یہی ہے کہ اس ریاست اور نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے یہاں طبقات سے پاک ایک سوشلسٹ نظام رائج کیا جائے۔ یہی زینب، طیبہ، شازیہ، عطیہ اور دیگر تمام بچیوں پر ہونے والے مظالم کا انتقام ہے۔