|تحریر: معصم شریفی، ترجمہ: اختر منیر|
جنوبی عراق میں جاری احتجاجی تحریک اپنے دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ 8 جولائی اتوار کے روزحکومت کی جانب سے بجلی اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر احتجاج شروع ہوا۔ مظاہرین مقامی آبادی کے لیے نوکریوں کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔
8 جولائی کو مظاہرین کے ایک گروہ نے مغربی قرنہ کو جانے والی سڑک بلاک کر دی، جو بصرہ میں تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا علاقہ ہے۔ سڑک بلاک کرنا تیل کی پیداوار روکنے کی ایک کوشش تھی۔ دس مظاہرین کا ایک گروہ حدود میں بھی داخل ہو گیا لیکن سیکیورٹی اداروں نے جلد ہی کنٹرول واپس حاصل کر لیا۔ جیسا کہ Al-Monitor میں رپورٹ کیا گیا ہے:
’’عراق کو گھروں اور سرکاری عمارتوں میں مسلسل فراہمی کے لیے 23 ہزار میگاواٹ فی گھنٹہ بجلی کی ضرورت ہے، تاہم وہ 15 ہزار 7 سو میگاواٹ سے زائد بجلی نہیں پیدا کر سکتے۔‘‘
احتجاج اور ریاستی تشدد
درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی بلند سطح کو چھو رہا ہے اور آبادی کی اکثریت کو بجلی تک قابل بھروسہ رسائی ہی میسر نہیں۔ انہیں پانی بھی خرید کر پینا پڑتا ہے کیونکہ گھروں میں آنے والا پانی پینے کے قابل نہیں ہوتا۔
وزیراعظم حیدرالعبادی نے اس کا جواب مظاہرین سے نمٹنے کے لیے سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی فورسز کو تعینات کر کے دیا۔ پولیس کی مداخلت سے ایک آدمی ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔ اس سے بصرہ میں مزید بڑی تحریک پھوٹ پڑی جو صوبے کے شمال میں موجود دوسرے شہروں تک بھی پھیل گئی۔ نجف میں مظاہرین نے انٹرنیشنل ائرپورٹ کے کام میں بھی دخل اندازی کی مگر سکیورٹی فورسز نے دوبارہ کنٹرول سنبھال لیا۔ تحریک بغداد سمیت دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئی جہاں تحریر اسکوائر کے مقام پر ایک چھوٹا مجمع اکٹھا ہو گیا۔
بصرہ میں مظاہرین نے سرکاری عمارتوں پر حملہ کیا، مگر پہلی بار ایسا دیکھنے میں آیا کہ انہوں نے شہر میں موجود شیعہ ملیشیا کے دفاتر پر بھی حملہ کر دیا۔ تا دمِ تحریر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 11 ہو چکی ہے اور سینکڑوں زخمی ہیں۔ کچھ تیل کی کمپنیوں نے حالات مزید پر تشدد ہونے کے ڈر سے اپنے سینئر سٹاف کو ملک سے نکال لیا ہے۔ تحریک کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے حکومت پورے عراق میں انٹرنیٹ کی سہولت کو منقطع یا سست کرنے پر مجبور ہو گئی ہے تا کہ اس آگ کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔
عبادی نے تحریک کو دبانے کے لیے شیعہ ملیشیا کے ساتھ سیکورٹی فورسز کو تعینات کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ لوگوں کے پرامن احتجاج کے حق کو تسلیم کرتا ہے، مگر ساتھ ہی اس نے ’’دراندازوں کے اس چھوٹے گروہ‘‘ کے خلاف کارروائی کے عزم کا اظہار کیا جو ’’پر امن مظاہروں کا فائدہ اٹھانے‘‘ کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت نے تحریک کو قابو کرنے میں مدد حاصل کرنے کے لیے قبائلی سرداروں کو گھوس دینے کا پرانا حربہ بھی استعمال کیا۔
برسلز (جہاں وہ داعش مخالف اتحاد کی میٹنگ میں شریک تھا) سے واپسی پر عبادی سیدھا بصرہ گیا اور صوبے میں تین ارب ڈالر لگانے کا اعلان کیا، ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا کہ تعمیرات، صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں مزید اخراجات کیے جائیں گے۔ لیکن اس کا تالیوں کے ساتھ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ اس کی بجائے غضبناک لوگوں کے ایک گروہ نے اس کے ہوٹل پر حملہ کر دیا، مگر ہجوم کے پہنچنے تک وہ وہاں سے جا چکا تھا۔
مقتدیٰ الصدر کی چالبازیاں
شیعہ ملیشیا کے لیڈر مقتدیٰ الصدر نے زیادہ احتیاط سے کام لیا ہے۔ اس نے خاموشی کے ساتھ مظاہروں کی حمایت کی ہے مگر اپنے حامیوں کو باہر آنے کے لیے نہیں کہا۔ اس کی ان حرکات کو عراقی عام انتخابات کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ 21 جون کو عدالت نے اعلان کیا تھا کہ 12 مئی کو ہونے والے انتخابات کے ووٹوں کی دوبارہ سے گنتی کی جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ حکومت کی مدت تب تک ہے جب تک ووٹوں کی دوبارہ گنتی مکمل نہیں ہو جاتی، جو ابھی شروع نہیں ہوئی۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ مقتدیٰ الصدر، جو مئی کے انتخابات جیتا تھا، نے اس کی مخالفت کی تھی۔
گو کہ وہ پچھلے کچھ سالوں سے عراق کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ نہیں رہا، جس وجہ سے اسے کچھ مقبولیت حاصل ہے (زیادہ درست انداز میں کہا جائے تو لوگ اس سے ذرا کم نفرت کرتے ہیں)۔ دراصل صدریوں کے دفاتر پر حالیہ مظاہروں کے دوران دوسری پارٹیوں کی نسبت کم حملے کیے گئے ہیں۔ وہ عوام کے لیے اپنی حمایت ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ مگر یہ سوچنا غلطی ہوگی کہ وہ دل سے عراقی عوام کے ساتھ ہے۔ مقتدیٰ الصدر بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہے اور اس کے مفادات بھی اسی کی ساتھ جڑے ہیں۔
بلاشبہ مقتدیٰ الصدر کی عوام میں سیاسی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ باقی پارٹیوں کی طرح اقتدار میں نہیں رہا۔ حکمران طبقے کے ایک نوزائیدہ دھڑے کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ عوام کے غصے کا سہارا لے کر اقتدار میں اپنا حصہ لینا چاہتا ہے۔ مگر ان کے حقیقی ارادوں کی غمازی اس بات سے ہوتی ہے کہ صدری پہلے ہی عبادی، ہادی الامیری (جو فتح بلاک کا سربراہ اور ایران کے قریب ہے) اور عمارالحکیم (حکمت الوطنی تحریک کا لیڈر) کے ساتھ اتحاد بنا چکے ہیں۔ سو، امید کے عین مطابق، پرانے کھلاڑی نئی کابینہ بنانے کے لیے دوبارہ اکٹھے ہو گئے ہیں۔
مقتدیٰ الصدر نے عراق میں بجلی کے شعبے کی نجکاری کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ دراصل نجکاری روکنا مظاہرین کے مطالبات میں سے ایک ہے، کیونکہ انہیں نظر آرہا ہے کہ اس سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور ریاست کی طرف سے دئیے جانے والے روزگار میں کمی آئے گی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کی مقتدیٰ الصدر کس طرف کھڑا ہے۔ چونکہ وہ حکمران طبقے کا ایک نسبتاً کمزور فرد ہے اس لیے بڑے کھلاڑیوں کو یہ انتہائی ناگوار گزر رہا ہے کہ ان کو اس کے ساتھ اقتدار بانٹنا پڑے گا۔
بدنام اسٹیبلشمنٹ
حالیہ احتجاجی تحریک کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ عرب بہار کے آغاز سے ہی پورے عراق میں کہیں نہ کہیں احتجاجی مظاہرے پھوٹتے آ رہے ہیں۔ داعش کے ابھار سے یہ عمل تعطل کا شکار ہوا، مگر داعش کی شکست کے ساتھ ہی روزانہ احتجاج کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ یہ عبادی اور عراق کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے اندازوں کے بالکل منافی ہے۔ ان کا خیال تھا کے داعش کو شکست دینے سے ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا۔ لیکن حقیقت میں جنگی مہم سے نہ صرف جانی اور مالی نقصان ہوا بلکہ اس سے عراقی اسٹیبلشمنٹ بدنام بھی ہوئی۔
موصل تاحال رہنے کے قابل نہیں ہے اور اپنے ہی ملک میں 20 لاکھ عراقی پناہ گزین ابھی تک گھر لوٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ حکومت شمالی علاقے کی تعمیر نو میں ناکام رہی ہے۔ عراق کے سنی اکثریت کے شمالی علاقوں کے خلاف ہونے والی جنگ اور مظالم نے انہیں مزید بیگانہ کر دیا ہے۔ لیکن شیعہ علاقوں میں سیاستدان تھوڑے سے زیادہ مقبول ہیں۔ انہیں لگا کہ وہ داعش کو شکست دینے کے بعد عوام کے ہیرو اور نجات دہندہ بن کر ابھریں گے اور انہیں بڑی حمایت حاصل ہوگی۔ مئی میں ہونے والے انتخابات کے دوران ’’تحفظ کی واپسی‘‘ حقیقتاً عبادی کی مہم کے بنیادی نعروں میں سے ایک تھا۔
یہ محض ایک خوش فہمی ثابت ہوئی۔ انتخابات میں ہی یہ واضح ہو گیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان کا حمایت یافتہ کوئی بھی امیدوار فتح یاب نہ ہو سکا۔ اگر مئی میں انتخابات کے دوران عوام نے بڑی تعداد میں ووٹ نہ دے کر خاموشی سے سیاسی اسٹیبلشمنٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا، تو اب وہ کھلم کھلا اس کا اظہار کر رہے ہیں، سرکاری دفاتر اور ملیشیا کے دفاتر جلا کر۔
حالیہ اٹھنے والی مظاہروں کی اس لہر کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس کا مرکز جنوب میں واقع شیعہ اکثریتی صوبوں میں ہے۔ بصرہ اور جنوبی عراق نہ صرف ملک کا واحد معاشی سہارا ہیں (جہاں زیادہ تر تیل موجود ہے) بلکہ بعد از جنگ عراقی سیاسی اشرافیہ اسے اپنی حمایت کا گڑھ تصور کرتی ہے۔ لیکن جنوب میں بھی حالات قابو سے باہر ہو گئے ہیں۔ اس سے فرقہ وارانہ پالیسیوں کی محدودیت واضح ہوتی ہے، جن پر امریکہ 2003ء میں عراق پر حملے کے بعد عمل پیرا ہوا تھا۔
احتجاج کرنے والوں کی جانب سے اٹھایا جانے والا ایک اور مسئلہ گلی کوچوں میں تحفظ کی کمی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران عراق کے جنوبی علاقوں میں بھی قبائلی تشدد اور مجرمانہ کاروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ ایک زوال پذیر معاشرے کی علامت ہے جو اپنے لوگوں کو کچھ بھی مہیا کرنے سے قاصر ہے۔ نوکریوں، سہولیات اور مواقعوں کی عدم موجودگی میں قبائل اور جرائم پیشہ گروہ مضبوط ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ یوں لگنے لگا ہے کہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر یہی کچھ دے سکتے ہیں۔
حکومت ان عناصر کا اثر و رسوخ ختم کرنے کی بجائے قبائلی سرداروں اور بڑے لوگوں (شیوخ) کو گھوس دینے پر اکتفا کر لیتی ہے، جس کے بدلے میں وہ علاقے میں استحکام قائم کرتے ہیں تا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر سکیں۔
گہرا بحران اور عوامی تحریکیں
عراق کے دوسرے علاقوں میں بھی صورتحال کچھ بہتر نہیں ہے۔ دراصل برسلز میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں عبادی کا بنیادی مقصد مغربی ملکوں سے امداد اور ہتھیار مانگنا تھا۔ جنوب میں احتجاج شروع ہونے سے بالکل پہلے داعش نے کرکوک کے ارد گرد شمالی علاقوں میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی تھیں۔ انہوں نے اربیل سے کرکوک جانے والی سڑک پر عراقی سکیورٹی فورسز کے 8 اہلکاروں کو اغوا کرنے کے بعد انہیں قتل کر دیا۔ بعد میں کیے جانے والے ایک حملے میں انہوں نے 3 مزید اہلکاروں کو قتل کر دیا جو کرکوک کے نزدیک ایک پائپ لائن کی حفاظت کر رہے تھے۔
عراقی سیاسی اسٹیبلشمنٹ ایک گہرے بحران میں ہے۔ جہاں وہ پارلیمانی جوڑ توڑ میں لگے ہیں، عوام کا معیار زندگی بری طرح گرتا جا رہا ہے اور یوں لگتا ہے کہ اسے لے کر اسٹیبلشمنٹ اندھی اور بہری ہو چکی ہے۔ عبادی اگلی حکومت میں بھی اپنی وزیر اعظم کی کرسی پکی کرنے کے چکروں میں ہے اور احتجاج سے متعلق اس کا وہی پرانا رویہ ہے: ڈرانا دھمکانا، کھوکھلے وعدے اور تحریک کو زائل کرنے کے لیے قبیلوں کا ساتھ خریدنا۔
ان طریقوں سے، اور حالیہ تحریک کے پیچھے کسی تنظیم کے نہ ہونے کی وجہ سے، لگتا ہے کہ حکومت ابھی کے لیے یہ طوفان ٹالنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ لیکن یہ محض وقتی ہی ہو سکتا ہے اور یہ مستقبل میں بڑے دھماکوں کا باعث بنے گا۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ یہ کسی بھی طور عوامی مسائل حل کر سکیں۔
عراق میں حکومت بالکل ناکارہ اور ہر سطح پر کرپشن میں غرق ہو چکی ہے۔ اسے بس یہ فکر ہوتی ہے کہ وقت گزرنے سے پہلے پہلے اپنی جیبیں بھر لی جائیں اور اسی دوران ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کام کو یقینی بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے یہ قبائلی سرداروں اور سرغناؤں کو گھوس کھلاتے ہیں اور عوام کو بھوکا مارتے ہیں۔ اس سب کے بدلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ موجودہ نظام کو پوری طرح اکھاڑتے ہوئے ایک نیا نظام قائم کیا جائے۔
یہ نتیجہ عراقی عوام کے سامنے دن بدن واضح ہوتا جا رہا ہے۔ مگر عوام منظم نہیں ہیں، جو حکومت کے لیے آسان بناتا ہے کہ وہ ایک مظاہرے کو وعدوں اور دھمکیوں سے دبا کر آگے کی جانب بڑھ سکے۔ کمیونسٹ پارٹی کا دیوالیہ پن اس امر سے ظاہر ہوتا ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ سڑکوں پر لوگوں کو منظم کرنے کے لیے موجود ہو، وہ مقتدیٰ الصدر کے ساتھ مل کر اتحاد بنانے میں مصروف ہے۔ کسی منظم قیادت کی غیر موجودگی میں آگے کا راستہ کافی لمبا اور کٹھن ہو سکتا ہے۔ لیکن عراق کا حکمران طبقہ بھی کمزور ہے اور عوام میں اس کی حمایت کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ اگر اس کا سامنا کسی منظم تحریک سے ہو تو یہ تاش کے پتوں سے بنے گھر کی طرح بکھر جائے گا۔
عراق میں ہونے والے ان واقعات کو مشرق وسطیٰ میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا چاہیے۔ حال ہی میں ہم نے اردن میں وہ مظاہرے دیکھے جنہوں نے وزیر اعظم کا تختہ الٹ دیا۔ مشرقی سرحد پر ایران بحران کی زد میں ہے۔ عراق کی صورتحال خطے میں اٹھنے والی تحریکوں کی ایک نئی لہر کا حصہ ہے۔
(24 جولائی 2018ء)