|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|
آج پورے پنجاب میں گرفتار شدہ اگیگا (آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس) کے قائدین و کارکنان کی رہائی اور اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے درجنوں مختلف سرکاری محکموں کے چھوٹے سرکاری ملازمین و محنت کشوں نے زبردست احتجاج کیا۔ صوبہ بھر کے سرکاری سکولوں، کالجوں کے اساتذہ اور طلبہ نے مکمل ہڑتال کی اور سڑکوں پر آ کر زبردست احتجاجی مظاہرے کیے۔ اسی طرح لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی مکمل ہڑتال پر تھیں۔ کئی ایک دیگر محکموں اور پنجاب کے بے شمار شہروں اور قصبوں میں جزوی ہڑتال اور دفاتر کی تالہ بندی رہی اوراحتجاجی مظاہرے ہوئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب اقدامات عام ملازمین و محنت کشوں کی جانب سے اٹھائے گئے اور مرکزی قیادت نے اس حوالے سے قبل از وقت کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کر رکھی تھی اور نہ ہی انہوں نے گرفتاری سے پہلے ہڑتال کی کوئی کال دی تھی۔ صوبہ بھر کے محنت کشوں و ملازمین کے ان جرات مندانہ اقدامات نے حکومت کو چند قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا اور اسے مجبوراً اگیگا کی گرفتار شدہ خواتین قائدین کو رہا کرنا پڑا جن میں لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن کی قائد رخسانہ انور اور ریڈ ورکرز فرنٹ لاہور کی کارکن سلمیٰ ناظر بھی شامل ہیں۔ اسی طرح ملازمین کے احتجاج و ہڑتال کے دباؤ کی وجہ سے عدالت کو بھی کئی ایک گرفتار شدگان کی رہائی کا حکم دینا پڑا جن میں سے کچھ کو رہائی کے ساتھ ہی ایک نئی کاٹی گئی ایف آئی آر میں گرفتار کر لیا گیا اور انہیں 16 ایم پی او کے تحت ایک ماہ کے لیے کوٹ لکھپت جیل بھیج دیا گیا۔ ان دوبارہ گرفتار کئے گئے قائدین میں اگیگا کے مرکزی راہنما رحمان باجوہ بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ اگیگا پنجاب کے پلیٹ فارم سے صوبہ بھر کے مختلف سرکاری محکموں کے ملازمین و محنت کش منگل کے روز سے لاہور سول سیکرٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دے کر بیٹھے تھے جس کے بنیادی مطالبات میں سر فہرست لیو انکیشمنٹ اور پنشن کے قوانین میں مزدور دشمن تبدیلیوں اور سرکاری سکولوں کی نجکاری کا خاتمہ تھے۔ اس سے قبل جولائی میں بھی ملازمین ان مطالبات کے گرد ایک دھرنا دے چکے ہیں جسے حکومت کی زبانی یقین دہانیوں کے بعد ختم کر دیا گیا تھا اور بعد ازاں حکومت حسب روایت اپنے وعدے سے مکر گئی تھی۔
حالیہ دھرنے کے دوسرے ہی روز رات گئے پولیس کی بھاری نفری نے دھرنے پر دھاوا بول کر بہت سے مرکزی قائدین کو گرفتار کر لیا۔ اگلے دن دوپہر کو پولیس نے ایک بار پھر ملازمین پر لاٹھی چارج کیا اور بہت سے ملازمین کو گرفتار کیا۔ ایک اندازے کے مطابق کل تقریباً ڈھائی سو کے قریب ملازمین کو پولیس نے گرفتار کیا تھا جن میں سکول اساتذہ کی بڑی تعداد شامل ہے۔ ان گرفتار کارکنان میں ریڈ ورکر فرنٹ لاہور کے نوجوان راہنما ارسلان فیاض اور پروگریسو یوتھ الائنس لاہور کے راہنما ثاقب اسماعیل بھی شامل ہیں جو اس تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لیے گئے تھے اور ملازمین کے ساتھ شانہ بشانہ اس جدوجہد میں شامل رہے۔ ان تمام گرفتار افراد پر جھوٹے مقدمے قائم کیے گئے ہیں جو ریاستی جبر اور ظلم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ آزمائش کی اس گھڑی میں اگیگا پنجاب اور تمام محنت کش و ملازمین کے ساتھ کھڑا ہے اور ہمیشہ کی طرح ان کے شانہ بشانہ ساتھ رہے گا۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اگیگا کی قیادت صوبے بھر کے ملازمین و محنت کشوں کے جوش و جذبے کا ادراک کرے جنہوں نے ان کی کال کے بغیر ہی اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہڑتال کی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اگیگا قیادت اب تمام متعلقہ سرکاری محکموں میں مطالبات کی منظوری تک ہڑتال کی کال دے اور مشترکہ مطالبات کے گرد اس ہڑتال کا دائرہ کار واپڈا، ریلوے، پوسٹ سمیت دیگر عوامی اداروں تک بھی پھیلانے کی کوشش کرے جو ابھی اگیگا کا حصہ نہیں ہیں۔ مزید برآں دیگر تمام صوبوں اور وفاق کے اگیگا اتحادوں کو بھی اگیگا پنجاب کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے زبردست احتجاجی مظاہرے کرنے کی ضرورت ہے اور حکومتی ہٹ دھرمی کی صورت میں ہڑتال کا دائرہ کار ملک گیر سطح تک پھیلایا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ حکومت اگر پنجاب میں اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہوگئی تو ان مزدور دشمن اقدامات کا نشانہ تمام صوبوں، وفاق اور عوامی اداروں کے محنت کش و ملازمین بھی بنیں گے۔
فتح کی سمت متحد۔۔۔بڑھے چلو! بڑھے چلو!
مزدور اتحاد۔۔۔زندہ باد!