|تحریر: ڈاکٹر اعجاز ایوب، ہنزہ|
کرہ ارض پر کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری سماجی انتشار، بھوک، غربت، جہالت اور اخلاقی پستی کا سبب نہ بن رہی ہو۔ ایسی صورتحال میں محنت کش طبقہ اپنی تقدیر بدلنے کے لیے بارہا روایتی سیاسی پارٹیوں کو ٹھوکر مار کر تاریخ کے میدان میں اترتا رہا ہے لیکن کسی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں یہ تحریکیں وقتی طور پر پسپائی کا شکار ہو رہی ہیں۔ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا کہ ’’انسانی سماج کی تمام تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔‘‘ حکمران طبقہ مختلف حیلے بہانوں سے کبھی ملکی سالمیت اور حب الوطنی کا واسطہ دے کر تو کبھی مذہبی تعصب اور قومیت کے نعروں سے محنت کش طبقے کو تقسیم کر کے کچلتا ہے مگر پھر تاریخ میں وہ لمحے بھی آتے ہیں جب دہائیوں پر مشتمل استحصال اور محرومیوں کی مقدار کسی معمولی سے واقعے سے بھی معیار میں بدل جاتی ہے۔ انقلابی تحریکیں ایسے ہی حالات میں جنم لیتی ہیں۔
ایسی ہی صورتحال ان دنوں گلگت بلتستان میں پیدا ہوچکی ہے جہاں حکومت کی جانب سے گندم کی سبسڈی ختم کرنے کے فیصلے کے بعد بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ دراصل یہ واقعہ دہائیوں سے سماج کی تہہ میں محرومیوں، ظلم، استحصال کے خلاف پکنے والے لاوے کو سطح پر لے آیا ہے۔ 15 اپریل سے جاری عوامی دھرنا اگرچہ گندم کی قیمت میں کمی کے حکومتی وعدوں کے بعد ختم کردیا گیا ہے لیکن تحریک ختم نہیں ہوئی ہے۔ حکومت نے یہ وعدہ صرف عوام کے شدید دباؤ کے تحت کیا ہے۔ دائیں بازو کی موجودہ حکومت تحریک کے ٹھنڈا ہونے پر ایک بار پھر گلگت بلتستان کے عوام پر معاشی وار کرنے کی کوشش کرے گی۔ کیونکہ ریاست آئی ایم ایف کی حکم عدولی نہیں کر سکتی اور عوام کی فلاح و بہبود پر ہونے والی اخراجات میں کٹوتیاں پوری دنیا میں گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کی مجبوری بن گئی ہے۔
حالیہ تحریک میں گلگت بلتستان کے لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں نے تمام تر مذہبی، لسانی اور فرقہ وارانہ منافرتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے حصہ لیا جس سے حکمرانوں کے ایوان ہل گئے۔ 22 اپریل کو ہزاروں افراد نے دور دراز علاقوں سے گلگت سٹی کی جانب لانگ مارچ کیااور گھڑی باغ کے مقام پر اکٹھا ہو کر ’’گلگت بلتستان ایکشن کمیٹی‘‘ کی زیر قیادت اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ دھرنا تقریباً 15 دن تک جاری رہا اور پورے علاقے کے طول و عرض میں نوجوان اور بزرگ ذیلی کمیٹیوں کی شکل میں متحرک ہوئے۔ دوسری طرف مراعات یافتہ طبقے کا پراپیگنڈا اور بیہودہ ہتھکنڈے بھی جاری رہے۔ کارپوریٹ میڈیانے اپنی آنکھیں بند کئے رکھیں۔
گلگت بلتستان ایکشن کمیٹی (GBAC) میں اس وقت مختلف طبقہ فکر کے لوگ شامل ہیں۔ تحریک اگر درست سمت میں آگے بڑھتی ہے تو اپنی قیادت خود تراشے گی۔ GBAC کے ایجنڈے میں 9 نکات شامل ہیں:
1)گندم پر سبسڈی کی بحالی
2)تمام غیر ضروری ٹیکس کا خاتمہ (No Taxation without Representation)
3)دیامر بھاشا ڈیم سے متعلق مطالبات کی منظوری اور قومی اسمبلی و سینٹ میں نمائندگی
4)معدنیات کی خرید و فروخت پر پابندی کا خاتمہ اور سامراجی اجارہ داریوں سے نجات
5)لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور تمام بند پاور ہاؤسز کو فنکشنل کرنا
6)آمد و رفت کے لیے سبسڈی کی بحالی
7)علاج کی فیس میں کمی
8)غیر قانونی بھرتیوں کی خاتمہ اور روزگار کی فراہمی
9)دہشتگردی کا خاتمہ
گلگت بلتستان کی کُل آبادی 20 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور یہ خطہ یکم نومبر 1947ء کو ڈوگرہ راج اور برطانوی سامراج کے تسلط سے آزاد ہو ا تھا۔ 16 دن تک خود مختار ریاست کے طور پر انتظامات چلانے کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا تھا۔ مگر اب تک اس خطے کو آئینی حیثیت نہیں ملی اور قومی اسمبلی و سینیٹ میں گلگت بلتستان کے عوام کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے گندم پر سبسڈی دی تھی جو موجودہ حکومت ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سبسڈی کی لاگت صرف 1.5 ارب روپے سالانہ ہے جبکہ اسی حکومت نے ملک کے سرمایہ دار طبقے کو 478 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی ہے۔ 2010-11ء کے انتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی کو بھاری مینڈیٹ سے جتوایاتھا مگر گزشتہ 5 سالوں میں عوام اس پارٹی سے بہت بد ظن ہوئے ہیں۔ یہ وہی پیپلز پارٹی ہے جو 1968-69ء کی تحریک میں عوام کی روایت بن کر ابھری تھی اور سوشلزم اور روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا۔ آج پیپلز پارٹی کی گرتی ہوئی مقبولیت کی بنیادی وجہ بنیادی سوشلسٹ منشور سے انحراف اور قیادت کی جانب سے ریاست اور سامراج کی اطاعت ہے۔
گلگت بلتستان کی سماجی حالت دیکھی جائے تو نوجوانوں کا آبای میں حصہ 70 فیصد ہے جبکہ 3 لاکھ سے زائد گریجوایٹ بیروزگار ہیں۔ شرح خواندگی 52 فیصد ہے اور نصف سے زائد طلبہ نجی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ صحت کی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ہیں۔ لوگ دور دراز علاقوں سے خواتین کی زچگی کروانے اور بچوں یا ضعیفوں کا علاج کروانے گلگت شہر کا رخ کرتے ہیں۔ مریضوں کی بہت بڑی تعداد سی ٹی اسکین، ایم آر آئی، انجیو گرافی مشینیں نہ ہونے کے باعث ملک کے دوسرے شہروں کا رخ کرتی ہے۔ 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جو کہ بچوں میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
دہشت گردی اور مذہبی فرقہ واریت کو 1988ء سے اب تک ریاستی پشت پناہی میں ہوا دی جاتی رہی ہے جس سے ہزاروں بے گناہ مارے جاچکے ہیں۔ اس خطے کی سٹریٹجک اہمیت، معدنیات اور قدرتی وسائل کے ذخائرباعث انڈیا، چین اور امریکی سامراج کی مداخلت نے پراکسی وار کی شکل اختیار کر لی ہے جس کی قیمت گلگت بلتستان کے عوام اپنے خون سے چکا رہے ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ ان سامراجی اجارہ داریوں سے کمیشن کھا رہا ہے اور خطے کے مقامی حکمران بھی اس لوٹ مار میں شریک ہیں۔
موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے جمہوری حقوق یا صوبائی سیٹ اپ جیسے مطالبات گلگت بلتستان کی عوام کی محرومیوں کا حل نہیں ہیں۔ جو نظام سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے عوام کے مسائل حل نہیں کر سکاوہ گلگت بلتستان میں کیا بہتری دے گا؟ گلگت بلتستان کے محنت کش عوام کو پاکستان کے استحصال زدہ طبقات کے ساتھ مل کر اس سرمایہ دارنہ نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہو گااور سوشلسٹ انقلاب تک ناقابل مصالحت جدوجہد کرنا ہو گی۔ چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی!