|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پختونخوا|
اس وقت پختونخوا خصوصاً دیر اور سوات میں دہشت گردی کے حالیہ بڑھتے واقعات کے خلاف عوامی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ لوئردیر کی تحصیل میدان میں 9 اگست 2022ء کو عوام نے ایک بہت بڑا احتجاج کیا جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد سوات میں بھی احتجاج ہوئے جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ 16 اگست 2022ء کو ایک بار پھر دیر میدان میں عوام ہزاروں کی تعداد میں گھروں سے نکلے اور دہشت گردی کے خلاف احتجاج کیا۔ ان تمام احتجاجوں کی قیادت کسی بھی سیاسی پارٹی نے نہیں کی بلکہ عام عوام اور بالخصوص نوجوانوں نے ایکشن کمیٹی کے نام پر انہیں منظم کیا۔ اس جرات مندانہ اقدام کے حوالے سے یہ تمام نوجوان یقینا داد کے مستحق ہیں۔
لیکن یہ تحریک اب تک صرف احتجاجوں اور جلسوں تک محدود ہے اور اس کے پاس کوئی سیاسی پروگرام موجود نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی اور طالبا نائزیشن کی تاریخ کا گہرائی میں تجزیہ کیا جائے اور اس کی روک تھام کیلئے ٹھوس بنیادوں پر سیاسی حکمت عملی تشکیل دی جائے۔
مذہبی بنیاد پرستی کا پس منظر
1978ء میں افغانستان میں ثور انقلاب برپا ہوا۔ یہ غریبوں، محنت کشوں اور چرواہوں کا انقلاب تھا، جو دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کیلئے تھا۔ اس لیے سرمایہ درانہ دنیا اور بالخصوص امریکی سامراج اس انقلاب کا راستہ روکنا اس لیے ضروری سمجھتا تھا کہ کہیں یہ انقلاب باقی دنیا تک نہ پھیل جائے۔ اپنے سامراجی مفادات کے حصول کے لیے امریکہ نے پٹرو ڈالر جہاد کا آغاز کیا جس کے لئے پوری دنیا سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو جہاد کے نام پر افغانستان میں داخل کیا۔ پاکستانی حکمرانوں نے ڈالروں کیلئے تزویراتی گہرائی کی پالیسی کے تحت اس جہاد کا بیڑہ اُٹھایا۔ اس کیلئے پورے ملک میں مدرسے بنائے گئے اور نوجوانوں کی برین واشنگ کر کے انہیں افغانستان بھیجا گیا۔ اسی طرح سابقہ فاٹا میں نام نہاد جہادیوں کے لیے ٹریننگ سنٹر بھی قائم کیے گئے، اور فاٹا سے افغانستان میں دہشت گردوں کو بھیجا گیا۔ لیکن جب سوویت یونین افغانستان سے واپس نکل گیا تو امریکہ بھی وآپس چلا گیا اور افغانستان میں طویل خانہ جنگی کے بعد پاکستان کی سرپرستی میں طالبان افغانستان میں حکومت پر قابض ہوگئے۔ لیکن پھر جب امریکہ اور طالبان حکومت کے تعلقات گیس پائپ لائن کے ٹھیکوں اور دوسرے مفادات کے اوپر خراب ہوگئے تو نائین الیون کے بعد امریکہ نے دوبارہ افغانستان میں اپنے ہی پالے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا۔ اس ضمن میں ایک بار پھر پاکستان کے حکمرانوں کو ہڈیاں پھینکی گئیں اور ایک بار پھر پاکستانی حکمرانوں نے اپنی زمینی اور فضائی حدود امریکہ کے حوالے کر دیں۔ پاکستانی جرنیلوں نے ایک طرف امریکہ سے اربوں ڈالر وصول کیے جبکہ دوسری طرف منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ میں بھی اربوں کمائے۔ اس طرح ایک متوازی کالے دھن کی معیشت کھڑی کی گئی جو اب ریاست کی رگوں میں سرائیت کر چکی ہے اور اسے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اس مد میں جرنیلوں اور دیگر سرمایہ داروں نے خوب مال بنایا۔ انہوں نے بیرونِ ممالک میں پورے کے پورے جزیرے خریدے، بینک بیلنس میں خوب اضافہ کیا، مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائیں۔
اس دوران پاکستانی ریاست جہاں ایک طرف طالبان کے خلاف امریکہ کی اتحادی تھی وہیں دوسری جانب اپنے مخصوص سامراجی عزائم کیلئے درپردہ طالبان کی پشت پناہی بھی جاری رکھی۔ اسی طرح ڈیورنڈ لائن کے اِس پار بھی طالبان کو پالا گیا اور انہیں کھلی چھوٹ دی گئی تاکہ ڈالروں کی آمد جاری رہے۔ 2007ء میں اپنے قیام سے لے کر اب تک ٹی ٹی پی نے خودکش دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں ہزاروں لوگوں کو قتل کیا ہے جن میں بچوں تک کو نہیں بخشا گیا۔
2008ء کے معاشی بحران کے نتیجے میں امریکہ بطور سامراجی قوت کمزور ہوتا گیا اور بالآخر اس نے اپنے عروج کے دور میں جن ممالک میں جنگ شروع کی تھی، اب بحرانی عہد میں وہ جنگیں مزید جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس لیے اس نے افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کا فیصلہ کیا اور آخر کار اگست 2021ء میں افغانستان سے اپنی فوج نکال لی۔ اس کے بعد وہاں طالبان نے قبضہ کر لیا۔ دوسری طرف جنوبی ایشیا کے حوالے سے امریکہ نے اپنی پالیسی بھی تبدیل کر لی اور انڈیا کو اپنا سٹریٹیجک پارٹنر بنا لیا۔ اس طرح پاکستان کا اس خطے میں کردار بہت کم ہو گیا۔ جلتی پر آگ کا کام آئی ایس آئی کے سربراہ فیض حمید کے افغانستان میں چائے کے کپ کی وڈیو نے کیا۔
عالمی سطح پر ہونے والی تیز ترین تبدیلیوں جن میں امریکی سامراج کا نسبتی زوال سب سے اہم ہے، کی وجہ سے پاکستان جیسے سامراجی گماشتہ ممالک کے پہلے سے موجود معاشی و سیاسی بحران کو مزید شدید کر دیا ہے۔ اس وقت پاکستانی ریاست کے اداروں کے اندر مختلف مفادات کے حامل گروہوں اور مختلف سامراجی قوتوں کے حمایتی گروہوں کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے جس کا اب کھل کر اظہار ہو رہا ہے۔ پختونخوا اور سابقہ فاٹا میں دوبارہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دراصل اسی پاکستانی ریاست کی اندرونی لڑائی کا ہی نتیجہ ہے۔
بہر حال ان احتجاجوں میں موجود لوگوں اور مقررین کی باتوں سے ایک بات اب بالکل واضح ہے کہ عوام اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ دہشت گردوں کے پیچھے ریاستی اداروں کا ہی ہاتھ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف کیسے لڑا جائے؟
آگے کیسے لڑا جائے؟
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اگر ریاست ہی اس میں ملوث ہے تو پھر ریاستی اداروں سے یہ امید رکھنا کہ وہ دہشت گردوں کا راستہ روکیں گے تو یقیناً سراسر خام خیالی ہی ہے۔ ریاست تو ان دہشت گردوں سے مذاکرات کر رہی ہے۔ مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے ٹی ٹی پی کے کئی اہم کمانڈروں اور افراد کو جیلوں سے رہا بھی کیا گیا ہے۔ یہ وہی لوگ ہے جنہوں آرمی پبلک سکول کے بچوں کو شہید کیا اور ہزاروں لوگوں کو خود کش دھماکوں میں مارا اور ذبح کیا۔ اسی طرح اگر ہم سیاسی پارٹیوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ کوئی حل نکالیں گی تو یہ بھی فاش غلطی ہو گی۔ اگرچہ 16 اگست کے میدان میں ہونے والے احتجاج میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے قائدین نے شرکت کر کے تقریریں بھی کیں، مگر اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ان احتجاجوں کو اپنے کنٹرول میں کیا جائے۔ یہ تمام سیاسی پارٹیاں درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کی ہی کٹھ پتلیاں ہیں اور کسی نا کسی ریاستی دھڑے سے منسلک ہیں۔ اسی طرح پچھلے 20 سال کے دوران تمام سیاسی پارٹیاں اس نام نہاد وار آن ٹیرر کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر رہی ہیں۔ انہوں نے طالبان کے ساتھ تمام تر مذاکرات اور پختونخوا میں فوجی آپریشنوں کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ ان آپریشنوں کے دوران جو عام لوگوں کے ساتھ کیا گیا وہ سب جانتے ہیں۔ لہٰذا سیاسی پارٹیوں کے رہنما جب آکر ان احتجاجوں میں تقریریں کرتے ہیں تو ان کو خود اپنی باتوں پر تک بھروسہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا ان لوگوں کو زیادہ سنجیدہ نہیں لینا چاہئے۔
اس وقت اگر دہشت گردی کی روک تھام کوئی کرسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف محنت کش عوام اور انقلابی نوجوان ہیں۔ محنت کش عوام کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے خود منظم ہونا ہو گا اور محلے کی سطح پر ایسی دفاعی اور یکجہتی کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی جو مختلف جرائم اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ایسی ہی کمیٹیاں مختلف صنعتی اور سرکاری اداروں اور کام کی جگہوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی بنانے کی ضرورت ہے جن کی قیادت ان کمیٹیوں کی جانب سے منتخب کیے گئے نمائندے کریں۔اگر کوئی نمائندہ درست نمائندگی نہیں کر پاتا تو اس کو واپس بلا کر اس کی جگہ نیا نمائندہ منتخب کرنے کا اختیار بھی کمیٹی کو دیا جائے۔ سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں اور علاقے کے بااثر اور دولت مند افرادپر انحصار کرنے کی بجائے ان کمیٹیوں کو جمہوری انداز میں چلانے کی ضرورت ہے اور محنت کشوں کی اپنی طاقت پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کمیٹیوں میں جمہوری اندازمیں سب کے سامنے اور فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ان میں محنت کشوں کی بڑی تعداد اور بالخصوص مزدور یونینز کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جن کی رائے فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے۔
دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے بنائی جانے والی کمیٹیوں میں حکمران طبقے کے افراد اور ریاستی اہلکاروں کی شمولیت پر پابندی لگانی ہو گی۔ اس وقت پختونخوا اور پورے پاکستان کے اندر مختلف سرکاری و پرائیویٹ اداروں کے محنت کش اپنے حقوق کے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ان میں ینگ ڈاکٹرز، اساتذہ، پیرامیڈیکس اور محنت کشوں کی دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔ ان سب کو بھی دہشت گردی کے خلاف عوام کا ساتھ دینا ہوگا کیونکہ دہشت گردی کا مسئلہ صرف میدان یا سوات کا نہیں بلکہ پورے پختونخوا اور پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ پہلے بھی سماج کے ہر حصے کے لوگ دہشت گردی سے کسی نہ کسی شکل میں متاثر ہوئے ہیں جس میں ہسپتالوں میں دھماکے کیے گئے، آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا گیا، باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کیا گیا، وکلاء اور عدالتوں پر بھی دہشت گردوں نے حملے کیے۔ اس لیے سب کو مل کر دہشت گردوں اور ان کے پشت پناہوں سے لڑنا ہوگا۔ دہشت گردی کی تمام تر جڑیں اسی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں اس لیے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے تمام افراد اور تنظیموں کو اپنی حتمی منزل سوشلسٹ انقلاب کو بنانا ہو گا۔ اس کے بعد ہی دہشت گردی کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ بھی ہو سکتاہے۔