|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، خیبر پختونخوا|
6 اگست 2022ء کو میدان لوئر دیر میں پی ٹی آئی کے ایم پی اے کی گاڑی پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک بچے سمیت پانچ افراد جاں بحق جبکہ ایم پی اے اور دیگر لوگ زخمی ہوگئے۔ کہا جا رہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے یہ حملہ کیا ہے۔ اسی طرح سوات مٹہ کے بالائی علاقوں کوز شور بر شور، گھٹ پیوچار میں بھی طالبان کو دیکھا گیا ہے۔ یہاں پولیس اور طالبان کے درمیان تصادم بھی ہوا جس کے نتیجے میں طالبان نے مٹہ سرکل کے ڈی ایس پی کو زخمی حالت میں اغوا کر لیا۔ اس کے ساتھ آرمی کے لوگوں کوبھی طالبان نے اغوا کر لیا۔ اسی طرح اپر دیر کے کچھ علاقوں میں بھی طالبان کی موجودگی کی اطلاعات سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
اس وقت عوام میں طالبان، دہشت گردوں اور مذہبی بنیاد پرستی کے خلاف شدید نفرت موجود ہے۔ دہشتگردی اور مذہبی بنیاد پرستی کے خلاف اور امن کیلئے 9 اگست 2022ء کو میدان کی عوام نے ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں پورے علاقے سے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ اسی طرح سوات اور پختونخوا کے باقی اضلاع میں بھی ان واقعات کے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم دوبارہ سے اپنے علاقوں میں بد امنی اور دہشت گردی کسی بھی صورت برداشت نہیں کرینگے۔ اسی طرح وزیرستان میں بھی بیس دنوں سے عوام نے دہشتگردی اور بد امنی کے خلاف دھرنا دیا ہوا ہے۔
اس وقت پاکستانی ریاست کے تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں جس میں افغانستان کی طالبان حکومت ثالثی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی اہم شخصیات اور اہم سماجی اور مذہبی شخصیات نے کابل کے دورے کیے۔ اب تک مذاکرات کے کئی راونڈ ہوچکے ہیں جن کے دوران طالبان کے کئی اہم کمانڈروں کو پاکستان کی جیلوں سے رہا بھی کیاگیا۔ رہا ہونے والوں میں مسلم خان کو بھی رہا کیا گیا۔ مسلم خان تحریک طالبان پاکستان کا اہم کمانڈر ہے۔ لیکن تاحال حکومت اور طالبان کے مابین کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکا۔ اس میں طالبان کی طرف سے جو شرائط رکھی گئی ہیں ان میں فاٹا کا پرانا سٹیٹس واپس بحال کرنا یعنی فاٹا کی پختونخوا کے ساتھ انضمام کو ختم کرنا، اسلحہ رکھنا اور اپنے تنظیمی وجود اور کاروائیوں کو جاری رکھنے کی اجازت شامل ہیں۔اس سے پہلے بھی بار بار تحریک طالبان کے ساتھ حکومت نے امن معاہدے کیے لیکن ہر بار طالبان ان معاہدوں سے پیچھے ہٹ گئے۔
2007ء میں اپنے قیام سے لے کر اب تک تحریک طالبان پاکستان نے 3280 دہشتگردی کے حملے کیے جن میں 320 خودکش حملے بھی شامل ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں 7488 لوگوں کو مارا گیا جبکہ 15 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے جن میں اکثریت عام سویلین کی تھی۔ اسی طرح آرمی پبلک سکول پشاور میں بچوں کو نشانہ بنایا گیا، لوگوں کو ذبح کیا گیا اور ان پر خوفناک ٹارچر کیا گیا۔ ملاکنڈ ڈویژن سے لاکھوں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر آئی ڈی پیز بن گئے اور انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزارنے پر مجور ہوگئے۔ جب وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹے تو ان کے گھر مسمار ہو چکے تھے، اور سارا سامان لوٹ لیا گیا تھا۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور عوام اب اس بات سے خوب واقف ہیں کہ پختونخوا اور افغانستان میں مذہبی بنیاد پرستوں، دہشتگردی اور طالبان کو امریکی سامراج اور پاکستان کے خفیہ اداروں نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کیلئے پروان چڑھایا اور ان کو استعمال کیا۔ پاکستانی ریاست نے وار آن ٹیرر اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں امریکہ سے بقول سابق صدر ٹرمپ 33 ارب ڈالر سے زیادہ رقم حاصل کی۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے آسان قرضوں کے اصولی اور دوسرے فائدے بھی پاکستان کو ملے۔
اس وقت پاکستان ایک گہرے معاشی بحران میں کا شکار ہے جس کی وجہ سے ایک شدید سیاسی اور حتیٰ کہ ریاستی بحران جنم لے چکا ہے۔ پاکستان کے مختلف اداروں کے اندر مختلف مفادات کے حامل گروہوں کے درمیان شدید لڑائی موجود ہے جس کا اظہار اس قسم کے واقعات کی صورت میں ہو رہا ہے۔
مگر دہشت گردی کے خلاف اس بار عوامی مزاحمت بھی موجود ہے جو کہ انتہائی خوش آئند امر ہے۔ ہم عوام کی اس دلیری اور بہادری کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مذہبی بنیاد پرستی اور دہشتگردی کے خلاف حقیقی مزاحمت عوام ہی کر سکتے ہیں اور بدامنی اور دہشتگردی کا راستہ روک سکتے ہیں۔ جبکہ دہشتگردی اور بد امنی کا مستقل خاتمہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ سرمایہ داری نظام کا خاتمہ کر ے ہی ممکن ہے۔