|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
ریڈ ورکرز فرنٹ اور ریلوے محنت کش یونین کی جانب سے تنخواہوں میں 100 فیصد اضافے کیلئے یکم جون 2022ء کو کوئٹہ لوکوشیڈ سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ ریلی میں شریک مظاہرین نے مختلف پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے تھے جن پر تنخواہوں میں 100 فیصد اضافے اور مہنگائی کے خلاف مطالبات درج تھے۔ ریلی لوکو شیڈ سے شروع ہو کر موجودہ حکومت اور نظام کے خلاف خوب نعرہ بازی کرتے ہوئے، اور بجٹ 2022-23ء میں تنخواہوں میں 100 فیصد اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے ریلوے سٹیشن پہنچی تو ایک احتجاجی جلسے میں تبدیل ہوگئی۔ اس احتجاج میں ایپکا بی ایم سی یونٹ کے صدر باسط شاہ، آل پاکستان کلریکل اینڈ ٹیکنیکل ایمپلائز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر شمس اللہ کاکڑ اور ترقی پسند طلبہ و نوجوانوں کی ملک گیر تنظیم پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے بھی شرکت کی۔
مقررین کا کہنا تھا کہ آئے روز انتہائی خوفناک طریقے سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے، جس میں پٹرول کی قیمتوں سے لے کر بنیادی ضروریات زندگی جیسے آٹا، گھی، دال، چاول اور ادویات وغیرہ کی قیمتوں میں پچھلے دو ڈھائی سالوں کے اندر دو سے تین سو فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے، اور مہنگائی اور بے روزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ مگر ایسے میں تنخواہیں اپنی جگہ جوں کی توں برقرار ہیں۔ ہر سال محنت کشوں کی طویل اور انتھک جدوجہد کے بعد، جس میں انہیں پولیس کی لاٹھی چارج، آنسو گیس، جعلی ایف ائی آریں اور جیلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کی تنخواہوں میں بمشکل پانچ سے دس فیصد اضافہ کیا جاتا ہے۔ محنت کشوں کو پچھلے عرصے میں ملنے والے مختلف الاؤنسز میں سے اکثر کا یا تو خاتمہ کر دیا گیا ہے یا وہ الاؤنسز انتہائی تاخیر سے دیے جاتے ہیں۔ اس لیے اس بار مہنگائی کی تیز ترین شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے تنخواہوں میں فی الفور 100 فیصد اضافہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ریلوے کے مزدوروں کے تمام مسائل پر تفصیل سے بات کی گئی۔
ایپکا بی ایم سی یونٹ کے صدر باسط شاہ نے کہا کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ہم تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں اب محنت کشوں کی بقا کا سوال آن کھڑا ہوا ہے۔ اب محنت کشوں کے پاس دو ہی راستے ہیں، یا تو وہ مختلف چھوٹی چھوٹی آپسی لڑائیوں اور مصنوعی تعصبات میں مگن رہتے ہوئے اپنے معیار زندگی کو مزید ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دکھیلتے رہیں، یا پھر ہر طرح کی تقسیم سے بالاتر ہوکر ایک فیصلہ کن جنگ کی جانب بڑھیں۔
آل پاکستان کلریکل اینڈ ٹیکنیکل ایمپلائز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر شمس اللہ کاکڑ نے مہنگائی اور بے روزگاری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ملازمین کی تنخواہوں اتنی کم ہیں کہ ان سے دو وقت کی روٹی بھی پوری نہیں ہوپاتی۔ لہٰذا اب جینا ہے تو لڑنا ہوگا۔
ریلوے محنت کش یونین کے نومنتخب صدر مجید زہری نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بحرانی کیفیت میں آئی ایم ایف کے غلام حکمران تمام سرکاری اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کے درپے ہیں۔ ریلوے جیسے ایک منافع بخش ادارے سمیت ملک بھر میں دیگر منافع بخش عوامی اداروں کو اونے پونے داموں بیچا جارہا ہے۔ مگر تاحال محنت کش طبقے کی جانب سے بھی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی مزاحمت نظر آرہی ہے، جبکہ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ محنت کش طبقے کو ملک گیر سطح پر ایک پلیٹ فارم پر منظم ہونا چاہئیے۔ اسی صورت ہی نجکاری سمیت محنت کش طبقے کو درپیش مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کی جا سکتی ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی سیکرٹری جنرل کریم پرہار کا کہنا تھا کہ ریڈ ورکرز فرنٹ کی طرف سے پورے پاکستان میں ایک ہی مطالبے کے ساتھ احتجاجوں کے ایک سلسلے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ یہ مطالبہ بجٹ 2022-23ء میں تمام محنت کشوں و ملازمین کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافے کا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی ریاست بھی دنیا کی باقی ریاستوں کی طرح ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے، جو سرمایہ داروں کے منافعوں کے دفاع اور ان کو فروغ دینے کے لیے محنت کشوں پر مہنگائی کے پہاڑ توڑ رہی ہیں۔ ایک طرف اگر ہر سال افراط زر میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف صحت، تعلیم اور عوام کو ملنے والی دیگر بنیادی سہولیات میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ اس سب کے باوجود حکمران ایک طرف محنت کشوں کی تنخواہوں کو کو بڑھانے سے انکار کرتے ہیں، تو دوسری طرف فوجی اشرافیہ اور سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرتے ہوئے ان کو 2700 ارب روپے کی سبسڈیاں دیتے ہیں۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کا مطالبہ ہے کہ فوجی بجٹ میں کمی کرتے ہوئے تمام عسکری اور سول اشرافیہ پر ٹیکس لاگو کیے جائیں۔ اسی طرح آئی ایف کے قرضے ضبط کیے جائیں یا پھر انہیں وہ حکمران خود اپنی لوٹی ہوئی اربوں ڈالروں کی جائیدادوں سے ادا کریں جنہوں نے یہ قرضے لیے ہیں۔ یہ قرضے نہ تو محنت کشوں نے لیے ہیں اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے ہیں، تو پھر ان کا بوجھ محنت کشوں پر کیوں؟ وقت آ گیا ہے کہ بلوچستان سمیت ملک بھر کے محنت کش ایک ملک گیر ہڑتال کی جانب بڑھیں۔
ریڈ ورکر فرنٹ کے کارکنان کی جانب سے محنت کشوں کا ملک گیر اخبار ”ماہانہ ورکرنامہ“ بھی احتجاج کے شرکاء میں فروخت کیا گیا۔