|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|
31 مئی 2022ء کو پشاور پریس کلب کے سامنے ریڈ ورکرز فرنٹ پشاور کی جانب سے چند روز بعد آنے والے بجٹ 2022-23ء سے پہلے احتجاج کا انعقاد کیا گیا، جس میں مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں فی الفور 100 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس احتجاج میں اگیگا خیبر پختونخوا سمیت کئی سیاسی کارکنان نے شرکت کی۔
مظاہرین کی جانب سے آویزاں کیے گئے پلے کارڈز پر ’آئی ایم ایف کا بجٹ نامنظور‘، ’طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کیا جائے‘، ’تعلیمی بجٹ میں فی الفور 10 فیصد اضافہ کیا جائے‘، ’تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے 100 فیصد اضافہ کیا جائے‘، ’طبقاتی نظام کا خاتمہ کیا جائے‘، اور ’معاشی بحران کا بوجھ امیروں پر منتقل کیا جائے‘ جیسے نعرے درج تھے۔
احتجاجی مظاہرین میں ریڈ ورکرز فرنٹ پشاور کے رہنما خالد چراغ کے علاوہ آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (اگیگا) کے صوبائی رہنما وزیرزادہ، سمیع اللہ خلیل، پروگریسو یوتھ الائنس کے صوبائی رہنما ہلال احمد اور دیگر رہنماؤں نے اظہار خیال کیا۔
مقررین نے پاکستان کی موجودہ صورتحال میں محنت کش طبقے پر ہونے والے معاشی حملوں کی شدید مذمت کی اور پاکستان کے حکمران طبقے کو متنبہ کیا کہ محنت کش طبقے کی تنخواہیں کاٹ کر، ان پر ٹیکس اور مہنگائی بڑھا کر، بحران کا بوجھ ان پر منتقل کرنے کی بجائے سرمایہ دار وں اور جاگیرداروں پر ٹیکس بڑھائے جائیں۔ ان سے مراعات چھین لی جائیں اور عوام کی فلاح و بہبود پر سارا پیسہ خرچ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکمران طبقہ اس وقت یہ جواز بنانے کی کوشش کررہا ہے کہ خزانہ خالی ہے، ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور آئی ایم ایف کا دباؤ ہے جس وجہ سے بحران کا بوجھ عوام پر ڈالنا مجبوری ہے۔ مگر یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ یہ قرضے کس نے لئے؟ پاکستان کی عوام نے؟ جواب ہے نہیں! دوسرا سوال یہ کہ، یہ قرضے کیا عوام پر خرچ ہوئے؟ جواب ہے نہیں! تیسرا سوال ہے کہ یہ قرضے آخر گئے کہاں؟ جواب ہے سرمایہ داروں اور جرنیلوں کی جیبوں میں! تو پھر اس بحران کا طوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر کیوں ڈالا جا رہا ہے۔ ان لوگوں پر کیوں نہیں ڈالا جا رہا جو 70 سالوں سے ملک کو لوٹ کر قرضوں میں ڈوبا چکے ہیں؟ اگر خزانہ خالی ہے تو پھر سرمایہ دار طبقے، ملٹری کاروباروں، کارپوریشنز، جاگیرداروں اور نام نہاد سیاسی لیڈروں کو اربوں ڈالر کی مراعات کہاں سے دی جارہی ہیں؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ قرضے چونکہ پاکستان کے محنت کشوں نے نہیں لیے، اور نہ ان پر خرچ ہوئے ہیں، لہٰذا وہ اپنے ٹیکسوں کے ذریعے انہیں واپس کرنے کے مجاز بھی نہیں ہیں۔
احتجاج کے آخر میں نظیم منیر نے ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور محنت کش طبقے کی اس جدوجہد کو تیز کرنے کا عزم کیا۔