|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کوئٹہ|
ریاست کی جانب سے حیات بلوچ کے سفاکانہ قتل کے خلاف بی ایس ای او (بلوچ سٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن) کی جانب سے 22 اگست کو ملک گیر احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ اسی سلسلے میں 22 اگست کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے صوبے کی مختلف طلبہ تنظیموں نے آل بلوچستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشنز کے پلیٹ فارم سے تربت کے علاقے آبسر میں حیات بلوچ کے ریاستی بہیمانہ قتل کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے میں نوجوانوں اور خواتین کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی تھی، جو بلوچستان کے طلبہ کے اندر ریاستی غنڈہ گردی پر شدید غم و غصے اور طلبہ میں اُبھرتی ہوئی سیاسی فعالیت کی غمازی کرتی ہے۔
مظاہرین نے میٹروپولیٹن پارک سے اپنی احتجاجی ریلی کا آغاز کیا اور یہ ریلی شاہراہِ عدالت سے ہوتے ہوئے پریس کلب کے سامنے احتجاجی جلسے میں تبدیل ہو گئی۔ اس ریلی میں مظاہرین کی جانب سے انتہائی پُرجوش نعروں کے ذریعے ریاستی قتلِ عام اور جبر کی مذمت کی گئی اور حیات بلوچ کے لیے انصاف کے شدید نعرے لگائے گئے۔ طلبہ یونین کی بحالی اور حیات بلوچ کے قاتلوں کوکیفرِ کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا۔ مظاہرے میں مختلف طلبہ تنظیموں کے مقررین نے اپنی تقریروں میں بھی حیات بلوچ کے ریاستی قتل کی شدید مذمت کی اور ان کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔
پروگریسو یوتھ الائنس نے بھی اس احتجاجی مظاہرے میں بھرپور مداخلت کی اور اپنا بک اسٹال بھی لگایا۔پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے کامریڈ کریم پرہر نے حیات بلوچ کے ریاستی قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور مظاہرے میں شریک طلبہ اور نوجوانوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حیات بلوچ کا واقعہ بالخصوص بلوچستان سمیت ملک بھر میں کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے، جبکہ ریاستی اداروں کی جانب سے دہشتگردی کے ایسے واقعات کثرت سے واقع ہو رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف بلوچستان میں ڈیتھ اسکوارڈ کے کارندے بھی انہی اداروں کے حمایت یافتہ ہیں، جو سانحہ ڈنک (تربت) میں ملوث تھے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ریاستی جبر کے خلاف لڑنے کے لیے اس وقت ریاستی جبر کو سمجھنا بہت ضروری ہے، جب تک ہم ریاستی جبر کی وجوہات نہیں سمجھ پاتے، تب تک ہم ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کو منظم نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے کہا کہ بلوچستان سمیت پوری دنیا میں لوگ نئے متبادل کی تلاش میں ہیں، جس کا اظہار ہم نے بلوچستان سمیت ہر جگہ پر دیکھا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم پُرانے آزمودہ طریقہ کار سے ہٹ کر نئے راستوں اور نئے نظریات کا چناؤ کریں اور جب تک ہم اس جاری مزاحمتی تحریک سمیت جمہوری حقوق کی مزاحمت کو بلوچستان کے دیگر سوالات اور محکوم طبقات کے ساتھ نہیں جوڑتے، کامیابی ہمارا مقدر میں نہیں ہو سکتی۔ آخر میں انہوں نے مظاہرین کو یکجہتی کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ جب حق مانگنے سے نہیں ملتا تو حق چھیننا پڑتا ہے اور اپنا حق چھیننے کے لیے ہمیں تمام تعصبات اور تفرقات سے بالاتر ہوتے ہوئے، الگ الگ اپنی لڑائی لڑنے کی بجائے یکجہتی اور اتحاد کے ساتھ لڑنا ہو گا۔
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
حیات بلوچ کو انصاف دو!