|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|
پچھلے چار مہینوں سے جامعہ پشاور کے 550 ملازمین کی تنخواہیں بند ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملازمین کو مستقل نوکریاں نہیں دی گئیں اور وقت آنے پر ان سے روزگار کا حق چھین لیا گیا۔ ان ملازمین میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کو یونیورسٹی میں نوکری کرتے ہوئے 15 سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف ہے کہ یونیورسٹی کو بحران کا سامنا ہے جبکہ ملازمین کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک بہانہ ہے کیونکہ آئے روز نئی عمارتیں بن رہی ہیں۔ پشاور یونیورسٹی میں بھاری فیسوں اور طلبہ کی تعداد میں مسلسل اضافے کے باوجود بحران کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ مثلا صرف پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں پچھلے 3 سال سے (صرف) بی ایس میں 150 تک طلبہ کو داخلے دیے جا رہے ہیں۔
نوکریوں سے نکال کر یہ محنت کش انتہائی مشکل میں ہیں اور گھر کی اشیاء بیچ کر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔ عدالتی حکم کے باوجود تنخواہیں بحال نہیں ہورہیں۔ اس کے خلاف یونیورسٹی کے محنت کش ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ ان کا احتجاج 9 ستمبر سے جاری ہے۔ ابرار اللہ جو ایک ملازم ہے، کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی بھی ایم این اے یا ایم پی اے کی جانب سے ہمارا حال نہیں پوچھا گیا جبکہ ووٹ مانگنے سب آجاتے ہیں۔
وی سی آفس کے سامنے احتجاج ایک دفعہ عدالت کی یقین دہانی پر ختم کیا گیا لیکن تنخواہیں بحال نہیں ہوئیں۔ یونین کے مطابق وہ پھر سے مطالبات کے پورا ہونے تک احتجاج جاری رکھیں گے۔ ہر روز صبح 8 بجے سے دو پہر 1 بجے تک وی سی آفس کے سامنے دھرنا ہوتا ہے۔ احتجاج کا اگلا مرحلہ پریس کلب اور گورنر ہاوس کے سامنے دھرنا ہوگا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ، یونیورسٹی ایمپلائز کے مطالبات کی حمایت کا اعلان کرتا ہے اور اس جدوجہد میں انکے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا عزم کرتا ہے۔