پروگریسو یوتھ الائنس (PYA) کا تاسیسی کنونشن 5 دسمبر 2015ء کو لاہور میں منعقد ہو رہا ہے۔ ہم اپنے قارئین کے لئے اس کنونشن کی مجوزہ دستاویز شائع کر رہے ہیں جس میں PYA کے مختصر تعارف، لائحہ عمل اور نظریات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ PDF فارمیٹ میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔
تاریخی پس منظر اور تناظر
انسانی تاریخ طبقاتی کشمکش سے عبارت ہے۔ ہر دور میں حکمران طبقات نے محکوم عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے ہیں۔ کئی ہزار سال سے انسانوں کی اکثریت سسک سسک کر زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن ظلم و ستم اور بربادیوں کے ہر دور کے بعد انقلابی ادوار آتے ہیں۔ جب مظلوم لوگ ظالموں کے سامنے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا حساب لیتے ہیں اور اپنی گزشتہ نسلوں کے دکھ اور دردکا انتقام لیتے ہیں۔
آج ہم ایک سرمایہ دارانہ سماج میں زندگی گزار رہے ہیں لیکن غلام داری اور جاگیر داری سمیت ماضی کے تمام نظاموں کی طرح سرمایہ داری بھی کوئی ازلی اور ابدی سچائی نہیں ہے۔ دو عالمی جنگوں سے لبریز گزشتہ ایک صدی کی تاریخ بالخصوص واضح اشارہ دیتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام تاریخی طور پر متروک ہو چکا ہے اور انسانیت کی وسیع اکثریت کو آسودگی اور خوشحالی دینے سے یکسر قاصر ہے۔ 2008ء میں عالمی معاشی بحران کے آغاز کے بعد انسانی سماج ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ عالمی سرمایہ داری 1929ء کے ’گریٹ ڈپریشن‘کے بعد ایک اور بڑے ’بریک ڈاؤن‘ کا شکار ہوئی ہے۔ عدم استحکام، انتشار اور عوام کے معیار زندگی میں مسلسل اس عہد کا معمول ہے۔ سرمایہ داری کے اپنے دانشور اور معیشت دان اس نظام کے مستقبل کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں ہے۔ اکانومسٹ اور فنانشل ٹائمز سمیت سرمایہ دارانہ نظام کے تقریباً تمام سنجیدہ اور بڑے جریدوں میں ایک اور معاشی کریش کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔ چین اور پھر دنیا بھر میں سٹاک مارکیٹوں کا حالیہ کا کریش اس کی واضح علامت ہے۔
آج یہ نظام وہ تمام تر سہولیات اور مراعات واپس چھین رہا ہے جو گزشتہ کئی سو سال میں محنت کش طبقے نے لمبی جدوجہد کے بعد حاصل کی تھیں۔ عمومی سوچ کے تحت خوشحال اور ترقی یافتہ سمجھے جانے والے یورپی ممالک میں صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم کی جانے والی ’فلاحی ریاست‘ کو رفتہ رفتہ توڑا جا رہا ہے۔ یونان کے حالات سب کے سامنے ہیں جہاں معیشت 2007ء کے بعد تقریباً 30 فیصد سکڑ چکی ہے، اوسط اجرت اور پنشن 50 فیصد تک کم ہو چکی ہے اور نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح60 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔
ان حالات میں جہاں محنت کش طبقے پر مسلسل معاشی حملے دنیا بھر میں جاری ہیں وہاں نوجوانوں سے ان کا حال اور مستقبل بھی چھینا جا رہا ہے۔ ماضی میں سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات کی گنجائش کسی حد تک موجود تھی۔ نہ صرف یورپ بلکہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں بھی ریاستیں کسی حد تک مفت تعلیم فراہم کرنے کے قابل تھیں۔ آج یہ گنجائش بالکل ختم ہو چکی ہے۔ ایسے میں نظام تعلیم کی نجکاری کی جا رہی ہے اور تعلیم کو سرمایہ داروں کے منافع کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو دانستہ طور پر برباد کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں کوڑیوں کے بھاؤ بیچا جا سکے۔
برطانیہ میں گزشتہ کچھ سالوں کے دوران سرکاری یونیورسٹیوں کی فیس دو سے تین گنا ہو چکی ہے۔ امریکہ میں طلبہ فیسیں ادا کرنے کے لئے بینکوں سے قرض لینے پر مجبور ہیں اور ایک اوسط طالب علم 25 ہزار ڈالر کا مقروض ہو کر یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہوتا ہے۔ دوسرے مغربی ممالک میں بھی مفت یا سستی تعلیم کی سہولت رفتہ رفتہ ختم کی جا رہی ہے۔
اگر معاشی و سماجی طور پر ترقی یافتہ ترین ممالک میں یہ حالات ہیں تو پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں صورتحال کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ لیکن بات صرف مہنگی تعلیم پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ جو طلبہ والدین کی جمع پونجی لٹا کر یا پارٹ ٹائم نوکریاں کر کے کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کر بھی لیتے ہیں ان کے لئے روزگار ناپید ہے۔ بیروزگاری اس دور میں سماجی وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جہاں پہلے سے بر سرِروزگار لوگوں سے روزگار چھینا جا رہا ہے اور مستقل نوکریوں کو ٹھیکیداری نظام کے تحت دہاڑی یا کنٹریکٹ کی نوکریوں میں تبدیل کیا جارہا ہے وہاں نئے روزگار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان میں 20 لاکھ نوجوان ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں۔ اتنی نوکریاں پیدا کرنے کے لئے کم از کم 10 فیصد کی معاشی شرح نمو درکار ہے جبکہ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق شرح نمو 2 فیصد سے نہیں بڑھ پا رہی۔ گزشتہ دنوں موجودہ حکومت کے ایک وزیر نے خودتسلیم کیا کہ بیروزگاری میں کمی کی کوئی صورت نہیں کیونکہ 7 فیصد سے زائد شرح نمو پر ہی کچھ روزگار پیدا ہو سکتا ہے۔
اسی طرح جو نوجوان کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی سکت رکھتے بھی ہیں ان کے لئے ان تعلیمی اداروں کو جیل خانہ بنا دیا گیا ہے۔ ادارے کی منیجمنٹ میں طلبہ کی مرضی و منشا صفر ہے۔ انتظامیہ کی بے جا دھونس، طلبہ کی تضحیک، بات بات پر جرمانے، حاضری اور دوسرے معاملات میں خوامخواہ کی سختیوں جیسے جبری اقدامات ناقابل برداشت ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں طلبہ یونین پرگزشتہ تیس سال سے پابندی عائد ہے۔ ضیا آمریت کے اس اقدام کو بعد کی کسی بھی نام نہاد ’’جمہوری حکومت‘‘ نے ختم نہیں کیا کیونکہ آج بھی سیاست پر ضیا الحق کے سیاسی اور نظریاتی وارث ہی براجمان ہیں۔ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے ان سیاسی گماشتوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت طلبہ کو اپنے حقوق کی جدوجہد اور سیاست سے بیگانہ کیا ہے تاکہ سیاست پر حکمران طبقے اور اس کی آنے والوں نسلوں کی اجارہ داری مسلسل برقرار رہے اور بغاوت کی کوئی چنگاری ہی بھڑکنے نہ پائے۔
اگر ہم طلبہ سیاست کی تاریخ کا جائزہ لیں تو عالمی سطح پر اس کی زوال پزیری 1980ء کی دہائی میں شروع ہوئی تھی۔ اس سے قبل طلبہ تحریک ایک ٹھوس سیاسی اور سماجی قوت کا درجہ دنیا بھر میں رکھتی تھی۔ خاص کر 1960ء اور 70ء کی دہائیاں طلبہ سیاست کے نقطہ عروج کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس عہد میں مضبوط ٹریڈ یونینز اور مزدور تحریک موجود تھی اور پوری دنیا میں انقلابی تحریکیں برپا ہو رہی تھیں۔ کیوبا، شام، مصر، یمن، ایتھوپیا، موزمبیق اور تیسری دنیا کے کئی ممالک میں انقلابات برپا ہوئے اور سامراج مخالف بائیں بازو کی قوتیں برسر اقتدار آئیں۔ جنگ ویت نام اس عہد کے کردار کی علامت کا درجہ رکھتی ہے۔ سامراج کے خلاف یہ جنگ صرف ویت نام کے جنگلوں میں ہی نہیں بلکہ امریکہ کی سڑکوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی لڑی گئی تھی۔ امریکی ریاست کے بد ترین تشدداور جبر کے باوجود بھی طلبہ نے جنگ مخالف تحریک جاری رکھی اور سامراج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ 1968ء کے انقلاب فرانس کا آغاز ہی طلبہ نے کیا تھا جس میں بعد ازاں محنت کش طبقہ بھی شامل ہو گیا۔ فرانس کی فیکٹریاں، دفاتر، کالج اور یونیورسٹیوں پر محنت کشوں اور نوجوانوں نے قبضے کر لئے، انتظامی امور کے لئے کمیٹیاں منتخب کی گئیں اور ریاست کو مفلوج کر دیا۔ لیکن روایتی ٹریڈ یونین قیادت کی غداری نے اس انقلاب کو ضائع کر دیا جو یورپ اور پوری دنیا کا نقشہ بدل سکتا تھا۔ پاکستان میں بھی 1968-69ء کے انقلاب کا آغاز طلبہ نے ہی کیا تھا۔ پاکستان میں اس وقت نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) اور پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF) جیسے بائیں بازو کی بڑی طلبہ تنظیموں کا ابھار ہوا جن کی نوجوانوں میں وسیع بنیادیں اور حمایت موجود تھی۔ بعد ازاں ریاستی جبر اور قومی استحصال کے خلاف بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) کی جدوجہد کی بھی لمبی تاریخ ہے۔
پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں تعلیم کے بجٹ میں کئی گنا اضافہ، مفت تعلیم کی یقین دہانی، طلبہ کو ٹرانسپورٹ کرایوں میں استثنیٰ اور نجی تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن اسی انقلاب کی حاصلات تھیں جس میں طلبہ نے ہراول کردار ادا کیا تھا۔
1978ء میں چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام سے مزدور تحریک کے ساتھ طلبہ تحریک کو بھی شدید دھچکا لگا۔ 1989ء میں چینی افسر شاہی نے تیانامن اسکوائر میں چینی طلبہ کی عظیم الشان تحریک کوخون میں ڈبو دیا۔ پوری دنیا میں روایتی بایاں بازو ٹوٹ کر بکھرنے لگا، ٹریڈ یونینز کو کچل دیا گیا اور محنت کش طبقہ پسپائی کا شکار ہو گیا۔ ’’سوشلزم کے خاتمے‘‘ کے زہریلے پراپیگنڈا کی یلغار سامراج اور حکمران طبقے نے پوری دنیا میں کی اور انقلابی مارکسزم کی قوتیں انتہائی محدود ہو گئیں۔ ان تلخ معروضی حالات کے نوجوانوں پر اثرات نا گزیر تھے۔ محنت کش عوام میں پھیلنے والی مایوسی کا فائدہ حکمران طبقے نے خوب اٹھایا اورآئی ایم ایف جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کی ایما پر پوری دنیا میں نجکاری کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ سماجی و سیاسی جمود اور نیو لبرل ازم نے سرمایہ داری کو وقتی طور پر کچھ آکسیجن ضرور فراہم کی لیکن تاریخی طور پر متروک نظام کے تضادات کو زیادہ عرصے تک دبایا نہیں جا سکتا۔
2008ء کا معاشی کریش ثابت کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام انسانیت کو ترقی، آسودگی اور خوشحالی دینے سے قاصر ہو چکا ہے۔
لیکن دو دہائیوں بعد آج مایوسی، جمود اور پراگندگی کا دور ماضی میں بدل رہا ہے اور ایک نیا عہد طلوع ہو رہا ہے جو دھماکہ خیز واقعات اور انقلابی تحریکوں سے بھرپور ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران تعلیم کی نجکاری اور فیسوں میں اضافے کے خلاف فرانس، چلی، سپین، یونان اور برطانیہ میں طلبہ کی طاقتور ایجی ٹیشن، امریکہ میں آکوئی وال سٹریٹ تحریک اور 2011ء میں پور ے مشرقِ وسطیٰ کو لرزا دینے والے عرب انقلاب جیسے واقعات ثابت کرتے ہیں محنت کشوں کی طرح نوجوان بھی پوری دنیا میں بیداری کی انگڑائی لے رہے ہیں اور تاریخ کے میدان عمل میں اتر رہے ہیں۔ اس نظام کے پاس دینے کے لئے ناخواندگی، بیروزگاری، ذلت، محرومی اور غربت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سرمایہ داری کا بحران کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھے گا اور حکمران طبقہ زیادہ زور دار معاشی حملے کرے گا۔ لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن فتح تبھی ممکن ہے جب اس لڑائی کو انقلابی مارکسزم کے نظریات کے تحت طبقاتی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ پاکستان میں جمود کا یہ عہدسدا نہیں چلے گا۔ نوجوانوں کے لئے حالات ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ وہ بغاوت کریں گے اور بغاوت کی تیاری ابھی سے ان کی نظریاتی تربیت اور تنظیم سازی کے ذریعے کرنا آج کا تاریخی فریضہ ہے جسے ادا کرنے کے لئے پروگریسو یوتھ الائنس (PYA) ملک بھر میں نوجوانوں کے ترقی پسند رجحانات اور طلبہ تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے میں سرگرم ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس (PYA) کیا ہے؟
پروگریسو یوتھ الائنس (PYA) کوئی طلبہ یونین یا فیڈریشن نہیں ہے۔ PYA کا مقصد ترقی پسند رجحان رکھنے والے نوجوانوں اور طلبہ تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنا ہے تاکہ سیاسی جمود اور پراگندگی کا شکار زوال پذیر طلبہ سیاست کو عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق نظریاتی بنیادوں پر منظم اور متحرک کر کے نوجوانوں کے حقوق اور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔ PYA جہاں طلبہ میں منشیات، جرائم، غنڈہ گردی اور اسلحہ کلچر کی شدید مذمت کرتی ہے وہاں ان رجحانات کے ذمہ دار اس سرمایہ دارانہ نظام اور موجودہ حکمرانوں کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کا عزم کرتی ہے۔
طلبہ حقوق، مسائل اور جد وجہد
طلبہ حقوق کا حصول اور تحفظ PYA کی جدوجہد کامحورہے طلبہ کسی بھی سماج کا ہراول، حساس اور باشعور حصہ ہوتے ہیں جو سماج میں پائی جانیوالی ناانصافیو ں، ظلم اور استحصال کو سب سے پہلے محسوس کرتے ہیں اور اس کے خلاف احتجاج اور بغاوت کا آغازبھی عموماًطلبہ اور نوجوان ہی کیا کرتے ہیں۔ اس لیے PYA کا یہ اولین فریضہ ہے کہ وہ طلبہ اور نوجوانوں کے بنیادی سیاسی اور جمہوری حقوق کے حصول کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ نوجوانوں اور طلبہ کی انقلابی تربیت کا بھی اہتمام کرے۔ اگر موجودہ دورمیں طلبہ اور نوجوانوں کے مسائل کو دیکھا جائے تو ان میں سر فہرست طلبہ یونین کی بحالی، طبقاتی اور فرسودہ نظام تعلیم کا خاتمہ، ہر سطح پر آبادی کے تناسب سے جدید تعلیمی اداروں کا قیام، طلبہ کو تعلیم کی مفت فراہمی اور روزگار کی ضمانت کے ساتھ ساتھ کھیل، ٹرانسپورٹ اور ثقافتی سر گر میوں تک رسائی شامل ہیں۔ PYA طلبہ سیاست میں غنڈہ گردی، اسلحہ کلچر اور جنونی دہشت گرد عناصر کی شدید مخالفت کرتا ہے اور ان کے خلاف جدوجہد کی علمبردار ہے۔ چونکہ حکمران طبقات طلبہ اتحاد کو توڑنے کے لیے شعوری طور پر طلبہ سیاست میں دہشت گردی اور غنڈہ گردی جیسے گھناؤنے کلچر کو اپنی پالتو بنیاد پرست اور انتہاپسند تنظیموں کے ذریعے فروغ دیتے ہیں تاکہ طلبہ کو غیر ضروری لڑائیوں میں الجھا دیا جائے اور وہ اپنے حقوق کی جدوجہد نہ کر سکیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہر شہری کو مفت تعلیم، مفت علاج اور روزگار فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ ان حقو ق کے حصول کے لئے تمام طلبہ کا متحد ہونا ضروری ہے تاکہ اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد کو آگے بڑھا تے ہوئے محنت کش طبقے کے مسائل کی جدوجہد کے ساتھ منسلک کرکے اس نظام کے خلاف لڑاجائے۔ طلبہ حقوق پر اس ریاست کا سب سے بڑا ڈاکہ طلبہ یو نین پر پابندی ہے۔ طلبہ یونین جو طلبہ کے حقوق کی جدوجہد کا سب سے منظم ادارہ تھاجس کے ذریعے تمام طلبہ اپنے ووٹ کے ذریعے قیادت منتخب کرتے تھے جو تعلیمی اداروں کے انتظامی اور دیگر معاملات میں طلبہ کے حقیقی نمائندے ہوتے تھے۔ تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اس وقت تک ایک روپے کا اضافہ بھی ممکن نہیں ہوتا تھا جب تک طلبہ یونین اس کی اجازت نہ دے۔ حکمرانوں نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کرنے کے بعد تعلیمی اداروں کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کر دیاہے جس کی وجہ سے غریب اور محنت کش طبقے کے نوجوانوں کے لئے معیاری تعلیم کا حصول ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ اس ریاست اور نظام کا دوسرا بڑا جرم بے روزگاری ہے۔ ان تمام مشکلات کو عبور کرتے ہوئے نوجوان تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے کے بعد ڈگریا ں ہاتھ میں لیے آنکھوں میں خواب سجائے روزگار کی تلاش میں فیکٹریوں، صنعتوں اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں در بدر بھٹکتے ہیں، لیکن انہیں روزگار نہیں مل پاتا۔ بیروزگاری کی مسلسل اذیت کا شکار ہوکر نوجوان مسائل کے حل کے لیے یا تو جرائم کا راستہ اپناتے ہیں یا پھر مایوسی اور بددلی کے اندھیروں میں ڈوب کر منشیات کا سہارا لے کر فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں اوربربادی کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔ روزگارکی تلاش میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مشرق وسطیٰ اور یورپ وامریکہ میں انتہائی ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ نوجوانوں کے تمام تر مسائل کا حل اس نظام کے خاتمے سے وابستہ ہے اور PYA میں منظم نوجوانوں اور طلبہ تنظیموں کا یہ عزم ہے کہ وہ ان مسائل اور اس نظام کے خاتمے کے نظریے اور پروگرام کی بنیاد پر نوجوانوں اور طلبہ کو منظم، متحد اور متحرک کرتے ہوئے آخری فتح تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔
پروگرام و مطالبات
* تمام تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹی فیسوں میں اضافہ فی الفور واپس لیا جائے۔
* تعلیمی اداروں میں یونین سازی طلبہ کا آئینی، سیاسی اور قانونی حق ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی فی الفور ختم کر کے یونین الیکشن کروائے جائیں، طلبہ کو اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کا حق دیا جائے اور تعلیمی اداروں کے تمام انتظامی امور میں طلبہ کی رائے کو فوقیت دی جائے۔
* تعلیمی اداروں میں طلبہ کو فنون لطیفہ، تکنیک، ریسرچ لیبز، فیلڈ وزٹ، کھیل کے مواقع، تفریحی اور ثقافتی سرگرمیوں کے لئے سہولیات فراہم کی جائیں۔
* ہر تعلیمی ادارے میں ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ طلبہ کی تعداد کے تناسب سے فراہم کئے جائیں۔
* تعلیمی اداروں میں ’’ڈسپلن‘‘ کے نام پر انتظامیہ کی بے جا دھونس کا خاتمہ کیا جائے۔ طلبہ کو کسی بھی طرح سے ہراساں یا بلیک میل کرنے والے انتظامیہ یا فیکلٹی اہلکاروں کا محاسبہ کیا جائے۔
* طرح طرح کے انٹری ٹیسٹ، ’’میرٹ‘‘ اور سیلف فنانس کو فوری طور پر ختم کر کے طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ اور ہر سطح ہر یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے۔
* فنی تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ کو عام کیا جائے۔
* تعلیم اور ملازمت میں خواتین کو خواتین کو یکساں مواقع فراہم کئے جائیں اور مخلوط نظام تعلیم رائج کیا جائے۔ جنسی بنیادوں پر ہر قسم کے تعصب اور استحصال کا خاتمہ کیا جائے۔
* فرسودہ نظام تعلیم اور طریقہ امتحان کو ختم کیا جائے، مدرسہ جاتی اداروں کو نیشنلائز کر کے جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔
* اساتذہ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر کے ٹیوشن مافیا جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جائے۔
* تمام اداروں کو خصوصاً تعلیمی اداروں کو فوری طور پر منشیات کے بیوپاریوں سے پاک کیا جائے۔
* تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کر کے تعلیم کے کاروبار کو بند کیا جائے۔
* تعلیم کے بجٹ میں کم از کم 10 گنا اضافہ کیا جائے۔ ریاست آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضے ضبط کرتے ہوئے ان وسائل کو عوام کی صحت اور تعلیم پر خرچ کرے۔
* تمام بیروزگاروں کو رجسٹر کر کے روزگار یا کم ازکم 15 ہزار روپے بیروزگاری الاؤنس دیا جائے۔
* کام کے اوقات کار 6گھنٹے پر لائے جائیں تاکہ چار شفٹوں کے ذریعے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں۔
* چائلڈ لیبر پر پابندی یقینی بنائی جائے اور تمام بے سہارا بچوں کی کفالت ریاست کرے۔
* تمام نجی بینکوں کو نیشنلائز کر کے اس سرمائے سے عوامی سہولیات اور صنعتکاری کے منصوبے شروع کئے جائیں۔
* بند نجی صنعتوں کو نیشنلائز کر کے چلایا جائے تاکہ نیا روزگار پیدا ہو۔
* انفرادی دہشت گردی اور مذہبی فرقہ واریت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی جائے۔
* قومی، لسانی، مذہبی اور علاقائی تعصب کے خلاف پر عزم جدوجہد کی جائے۔
* مظلوم قومیتوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا جائے۔
* ریاست کو مذہب سے الگ کیا جائے۔
* طلبہ اور نوجوانوں کی سیاسی اور نظریاتی تربیت کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد تیز کی جائے۔
موجودہ عہد اور PYA کا لائحہ عمل
تاریخ کے ہر عہد کا اپنا مخصوص کردار ہو تا ہے۔ تاریخ کے کسی بھی عہد کے کردار اور اس کے مستقبل کے تناظر کو سمجھے بغیر اس کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اسی طرح ہر عہد کے اپنے نظریات ہوتے ہیں جو اس عہد کو سمجھنے اور اس کی وضاحت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ انقلابیو ں کا اولین فریضہ یہ ہو تا ہے کہ وہ جس عہد میں زندہ ہوتے ہیں سب سے پہلے اس عہد کی اپنی مخصوص کیفیات اور کردار کو اس کے تاریخی تسلسل کے پس منظر میں سمجھتے ہوئے اس کے مستقبل کا تناظر تخلیق کریں اور پھر اس تناظر کے مطابق اپنے انقلابی کردار کا تعین کریں۔ آج کے جدید سائنسی دور میں کسی بھی چیز کی درست وضاحت صرف سائنسی بنیادوں پر ہی ممکن ہے۔ جو سائنس ہمیں انسانی سماجوں کے ارتقا، عروج و زوال اور تبدیلیوں کے عمل کی درست سمجھ بوجھ اور وضاحت کرنے میں مدد دیتی ہے، وہ مارکسزم ہے۔ مارکسی فلسفے کا بنیادی اصول ہے کہ اس کائنات کی ہر شے بشمول انسانی سماج ہر حرکت اور تبدیلی کے مسلسل عمل سے گزر رہی ہے اور کوئی بھی شے حتمی یا مقدس نہیں۔ اگر موجودہ دنیا کو دیکھا جائے تو اکیسویں صدی کے آغاز پر ہمیں پوری دنیا میں جو معاشی بحران، جنگیں، خو نریزیاں، دہشت گردی، بھوک، بیروزگاری، افلاس اور عدم استحکام نظر آتاہے وہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام اپنے زوال کی انتہاؤں کو چھو رہاہے اور اب اس میں انسانیت کو ترقی دینے اور اس کے مسائل حل کرنے کی معمولی سی گنجائش بھی باقی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا وجود ہی ہر روز نئے مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ دوسری جانب سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن نے پوری دنیا کو معاشی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی حوالے سے ایک ایسی اکائی بنادیاہے جہاں دنیا کے کسی بھی خطے میں رونما ہونے والا کو ئی واقعہ، حادثہ یا تبدیلی پوری دنیاپر اپنے اثرات مرتب کرتاہے۔ عالمی سامراج امریکہ اور چھوٹی سامراجی اور علاقائی قوتیں جنوب ایشیا، افغانستان، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں منڈیوں پر تسلط، معدنی ذخائر کی لوٹ مار اور اسلحہ ساز صنعت کے منافعوں کے لئے معصوم انسانوں اور تہذیبوں کو برباد کر کے سرمایہ داری کی لاش کی اکھڑی ہوئی سانسوں کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آج ایک جانب ٹیکنالوجی ترقی کے اس معیار کو چھو رہی ہے کہ انسان چاند، مریخ اور اس سے دور دراز سیاروں پر زندگی کے آثار تلاش کررہاہے تو دوسری جانب اس کرہ ارض پر نسل انسانی کی آدھی سے زیادہ آبادی بھوک اور بیماری سے سسک سسک کر مرنے کے لیے جی رہی ہے اور جینے کے لیے مررہی ہے۔ دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ 2016ء میں امیر ترین 1فیصد افراد کی دولت دنیا کی 99 فیصد آبادی کی مجموعی دولت سے تجاوز کر جائے گی۔ دنیا بھر سے غربت کے مکمل خاتمے کے لئے صرف 150 ارب ڈالر درکار ہیں جبکہ 2 ہزار ارب ڈالر سے زائد رقم ہر سال جنگوں اور اسلحے پر خرچ کی جا رہی ہے۔ اسی طرح ملٹی نیشنل اجارہ داریاں اور بڑے سرمایہ دار 32 ہزار ارب ڈالر کسی پیداواری عمل میں صرف کرنے کی بجائے آف شور بینکوں اور ٹیکس ہیونز میں چھپائے ہوئے ہیں۔ کرہ ارض پر اتنا اناج پیدا ہوتا ہے کہ 10 ارب انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں لیکن نجی ملکیت اور منافع کی ہوس پر مبنی اس نظام کے تحت بھوک بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ خود حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ اور قحط کا شکار ہے اور 44 فیصد بچوں کی جسمانی و ذہنی نشونما نا مکمل ہے۔ تیسری دنیا کے تمام دوسرے ممالک میں کم و بیش یہی صورتحال ہے۔
اگر آج کی جدید ٹیکنالوجی اور پیداواری صلاحیت کو سرمایہ داری کے منافع کی ہوس پوری کرنے کی بجائے سوشلزم کے ذریعے انسانوں کے مسائل کو حل کرنے اور ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جائے تو صرف دس سال میں اس کرہ ارض سے سرمایہ داری کی پیدا کردہ غربت، جہالت، بیماری، دہشتگردی اور جرائم سمیت تمام مسائل کا نشان تک مٹاکر اس دنیا کو انسانوں کے لیے حقیقی جنت بنایا جاسکتا ہے۔ عالمی سطح پرہم ایک ایسی کیفیت میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ایک جانب مرتا ہوا سرمایہ دارانہ نظام اپنے ساتھ انسانی نسل کو بھی بربریت کی جانب دھکیل رہا ہے تو دوسری جانب پوری دنیا میں محنت کش اور نوجوان اس نظام کے خلاف بغاوت کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
بالخصوص 2008ء کے عالمی مالیاتی کریش کے بعد سے پوری دنیا میں عوام کا معیار زندگی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور اس بحران کی قیمت محنت کشوں اور نوجوانوں سے وصول کی جارہی ہے۔ تمام تر عالمی، مالیاتی و سامراجی ادارے (IMF، ورلڈ بینک، WTO ) اپنی قاتلانہ معاشی پالیسیوں (ڈاون سائزنگ، نجکاری وغیرہ) کے ذریعے محنت کش طبقے، نوجوانوں اور طالب علموں کو بر باد کرتے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ ایک بیکار اور سامراج کے دلال اور مفلوج ادارے کے طورپربے نقاب ہو چکاہے اور اس میں کشمیر اور فلسطین سمیت کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام اور عالمی سامراج ہی پاکستان سمیت دنیا بھر کے مظلوم، محکوم اور استحصال کا شکار عوام کی غلامی اور مصائب کا اصل سبب ہے اس لئے سرمایہ داری کو عالمی سطح پر شکست دیے بغیر سوشلزم کی تعمیر اور نسل انسانی کی حقیقی آزادی ممکن نہیں۔ موجودہ عہد کی سب سے بنیادی خاصیت یہی ہے کہ اس عالمگیریت کے عہد میں جہاں استحصال اور جبر وغلامی بین الاقوامی ہے تو اس استحصال اور غلامی کے خلاف ابھرنے والی محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریک کا کردار بھی بین الاقوامی ہے۔ اسی بنیاد پر PYA یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے طلبہ کی تحریک کو فتح مند کرنے کے لیے برصغیر اور دنیا بھر کے طلبہ اور محنت کشوں کی تحریکوں سے طبقاتی جڑت بناتے ہوئے سرمایہ داری کے خاتمے اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کرنا ہو گی۔ سرمایہ دارانہ ریاستیں انسانوں کو تقسیم کر کے ان کو ایک دوسر ے کا دشمن بناتی ہیں جبکہ سوشلزم کا مقصد انسانوں کے درمیان تمام تفریقوں اور تقسیمو ں کو مٹاتے ہو ئے عظیم عالمی انسانی یکجہتی کو فروغ دیناہے۔ یہی وہ فریضہ ہے جس کی تکمیل کا آغاز طالب علموں اور نوجوانوں نے کردیا ہے اور جس کی تکمیل دنیا بھر کے محنت کش، طالبعلم اور نوجوان کریں گے۔
سوشلزم کا علم تھامے آگے بڑھو…آخر ی فتح ہمارا مقدرہے!
عالمی منظر نامہ اور ہمارا مؤقف
* ہم عالمی سامراج کو کرہ ارض پر ناسور تصور کرتے ہیں اور دنیا بھر میں عالمی سامراج کے خلاف برسر پیکار قوتوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سامراجیت سرمایہ داری کا ناگزیر نتیجہ ہے جس کا وجودہی دنیا بھر میں بھوک، ننگ، افلاس، قحط، جنگ، استحصال، ظلم، جبر، بربریت اور سماجی نا انصافی کا باعث ہے۔ چنانچہ ہم عالمی سامراج کو نیست ونابود کرنے کی خاطر دنیا بھر میں طا لب علمو ں، مزدوروں اور کسانوں کے اتحاد کے پرچم تلے جدوجہد کے داعی ہیں۔
* ہم غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں کہ سوشلزم ہی دنیا کو ناامیدی اور یاسیت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکال سکتاہے۔ سوشلزم ہی انسانیت کی بقا کا ضامن ہے۔ چنانچہ ہم عملی طور پرسوشلزم کی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عالمی سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے لیے کی جانے والی جدوجہد کااٹوٹ انگ گردانتے ہیں۔
* تمام نام نہاد غیر جانبدار عالمی ادارے (آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ) عالمی سامراج کے آلہ کا رہیں اس لیے عالمی سطح پر ان ادارو ں کی بجائے محنت کش طبقے کی انقلابی تحریکوں سے جڑتبناتے ہوئے سو شلسٹ انقلاب کو جاری رکھناہم اپنا بین الاقوامی فریضہ سمجھتے ہیں۔
دستور
شق نمبر 1:
اس دستور کا اطلاق پروگریسو یوتھ الائنس (PYA) کے تمام ممبران، عہدیداران اور اتحادی تنظیموں پر ہوتا ہے۔
شق نمبر 2:
ہر وہ طالب علم، نوجوان یا تنظیم جو PYA کے بنیادی نظریات، تناظر، پروگرام، لائحہ عمل اور طریقہ کار سے متفق ہو، PYA کے نظریات کو دوسروں تک پہنچائے اور PYA کی سرگرمیوں میں بھرپور کردار ادا کرے وہPYAکا ممبر ہو گا۔
شق نمبر 2 ذیلی شق نمبر (i)
بنیادی نظریات: PYA کا بنیادی مقصد تعلیم کے بیوپار، مذہبی بنیاد پرستی، بیروزگاری، ریاستی جبر، انتظامیہ کی دھونس، جنسی تفریق اور جمہوری حقوق کی صلبی کے خلاف جدوجہد کے لئے طلبہ اور نوجوانوں کو سیاسی طور پر منظم اور متحرک کرنا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مسائل آخری تجزئیے میں تاریخی طور پر متروک گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں جس کا خاتمہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ سائنسی سوشلزم کی بنیادوں پر طلبہ اور نوجوانوں کو نظریاتی، سیاسی اور تنظیمی طور پر منظم کرنا ہے ہی PYA کا بنیادی نظریہ ہے۔
شق نمبر 2 ذیلی شق نمبر (ii)
تناظر:
موجودہ عہد کے تقاضوں کے مطابق نوجوانوں اور طلبہ کے طاقتور اتحاد کی تعمیر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سائنسی بنیادوں پر حالات و واقعات کو سمجھا اور پرکھا جائے اور اس کے بعد ایک تناظر تخلیق کر تے ہوئے ایک موزوں حکمت عملی اختیار کی جائے۔ اس لئے ہر سال PYA کے مرکزی بیورو کی طرف سے ایک دستاویزچھپوا کر تمام ممبران اور ممبر تنظیموں میں تقسیم کی جائے جس میں سماجی تبدیلی کا تناظر واضح کیا جائے۔
شق نمبر 3:
PYA کا حصہ صرف وہی طلبہ تنظیمیں اور نوجوان بن سکتے ہیں جو اس کے بنیادی نظریات اور تناظر سے متفق ہوں۔ طلبہ تنظیموں کو PYA کے ساتھ الحاق کے لیے اپنی مرکزی کمیٹی کی منظوری لینا ہوگی۔ الحاق کے بعد اس تنظیم کے ممبران کے کنونشن میں PYA کے ساتھ الحاق کی توثیق کروائی جائے گی۔ یہ الائنس ’ایک کا زخم۔ ۔ ۔ سب کا زخم‘ کے نعرے پر عملدرآمد کرتے ہوئے تمام ممبر تنظیموں کے حقوق کا دفاع کرے گا۔
شق نمبر 3 ذیلی شق نمبر (i)
الائنس کے مرکزی کمیٹی سے لے کر تمام زیریں اداروں میں تمام ممبر تنظیموں کے نامزد مندوبین کو متناسب نمائندگی دی جائے گی۔ الائنس کی ممبر تنظیمیں ہر سال باقاعدگی سے اپنے ممبران کی تعداد کی مکمل فہرست جمع کروا نے کی پابند ہوں گی۔ فیصلہ سازی کے عمل بالخصوص ملک گیر احتجاجی مظاہروں اور تعلیمی اداروں میں ہڑتال جیسے اہم فیصلوں میں اگر ووٹنگ کی نوبت آئے تو مرکزی کمیٹی کو ممبر تنظیموں کے ممبران کی تعدادکی بنیاد پر ووٹنگ کروانے کا حق حاصل ہو گا۔
شق نمبر 3 ذیلی شق نمبر (ii)
PYA کے ہر ممبر اور عہدیدار کی عمر 30 سال سے کم ہونی چاہئے۔
شق نمبر 4:
عہدیداروں کی معیاد دو سال ہو گی اور دو سال بعد تمام سطحوں پر جمہوری طریقہ کار کے ذریعے نئے عہدیداران منتخب کئے جائیں گے۔
شق نمبر 5:
فیصلہ سازی کے لئے مندرجہ ذیل اصول وضع کیے جاتے ہیں۔
(i) تمام اداروں کے اندر کسی اختلافی نقطہ نظر کو حل کرنے کے لئے نظریاتی اور سیاسی بحث کی جائے۔ ووٹنگ کے عمل سے بچنے کے لئے حتی المقدور کوشش کی جائے اور متفقہ فیصلہ قابل ترجیح ہو گا۔
(ii) اگر ووٹنگ ناگزیر ہو تو اقلیت کو اکثریت کا فیصلہ تقسیم کرنا ہو گا اور پوری دلجمعی کے ساتھ اس فیصلے پر عمل کرنا ہو گا۔
(iii) کسی بھی زیریں ادارے کے لئے لازمی ہوگا کہ وہ اپنے بالا اداروں کے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔
(iv) کسی ایک ممبر یا عہدیدار کے خلاف اگر تادیبی کاروائی ضروری ہو جائے تو اس کے لئے اس ادارے کے ممبران کی اکثریت درکار ہو گی۔ اس کاروائی کے خلاف وہ شخص PYA کے مرکزی بیورو یا بالائی سطح کی کسی باڈی کواپیل کرنے کا حق رکھتا ہے۔
(v) کسی زیریں اور بالا ادارے کے درمیان اختلاف کی صورت میں بالا ادارے کے فیصلے کو بر تر حیثیت حاصل ہو گی۔
(vi) اگر کسی بھی بالا ادارے کے اندر اختلاف ہو تو اسے بحث کے ذریعے حل کیاجائے۔
شق نمبر 7:
PYA کے تنظیمی ڈھانچے مندرجہ ذیل ہوں گے۔
۱۔ مرکزی ڈھانچہ
(i) صدر (ii) سینئیر نائب صدر(iii) نائب صدر (iv) سیکرٹری جنرل (v) سیکرٹری انفارمیشن و نشر و اشاعت (vi) سٹڈی سرکل انچارج (iiv) فنانس سیکرٹری
۲۔ ڈویژنل، ضلعی اورتحصیل کے ڈھانچے بھی صوبائی ڈھانچے کی طرز پر ہوں گے۔
۳۔ ہر تعلیمی ادارے یونیورسٹی، کالج، سکول میں بھی ادارے کی سطح پر یہی ڈھانچے اسی طرز پر ہوں گے۔
شق نمبر 8: ہر سال ضلعی کنونشن کا انعقاد ضلعی عہدیداران کی ذمہ داری ہو گی۔
شق نمبر 9: ہر دو سال کے بعد PYA کے مرکزی کنونشن کا انعقاد مرکزی عہدیداران کی ذمہ داری ہو گی۔
شق نمبر 10 ذیلی شق نمبر (i)
PYA کا نشان پانچ کونوں والا ستارہ ہو گا جو انسانیت کے سوشلسٹ مستقبل کی غمازی کرتا ہے۔ ستارے میں کالے رنگ کامکا سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت کی علامت ہے جس کے نیچے ’پروگریسو یوتھ الائنس‘ لکھا ہو گا۔
شق نمبر 10 ذیلی شق نمبر(ii)
PYA کا جھنڈا سرخ رنگ کا ہو گا جس پر PYA کا نشان واضح ہو گا۔