|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|
پروگریسو یوتھ الائنس کراچی کی جانب سے 18 نومبر بروز اتوار، روس کے بالشویک انقلاب کی 101 ویں سالگرہ کے موقع پر’’موجودہ عہد میں خواتین اور نوجوانوں کے لیے اسباق‘‘ کے عنوان سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
تقریب میں اسٹیج سیکرٹری کے فرائض علی اوسط نے ادا کیے۔ تقریب کے پہلے مقرر ثناء اللہ زہری نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے بالشویک انقلاب کی حاصلات پر تفصیلی بات رکھی۔ کامریڈ نے انسانی تاریخ کی ترقی میں خواتین کے کردار، دنیا کے پہلے مزدور انقلاب یعنی پیرس کمیون، انقلاب سے قبل روس میں محنت کش خواتین کا کردار، خواتین اور نوجوانوں کے لیے انقلاب کی حاصلات پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد عادل راؤ نے عمومی طور پر بالشویک انقلاب اور آج تک خاص کر سوشلزم پر ہونے والے حملوں کا تذکرہ کیا کہ خود یہ حملے سوشلزم کی درستگی کا اظہار ہیں۔ اس کے بعد معراج ہاشمی نے نوجوانوں کے مسائل پر بات رکھی۔ انعم خان نے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں قائم کی گئی منصوبہ بند معیشت کی حاصلات، انقلاب سے قبل روسی سماج کی پسماندگی اور اس کے خاتمے کی تدابیر پر بات رکھی۔ اس کے بعد عطا آفریدی نے بات کرتے ہوئے کہا حکمران ہمیشہ انقلابات کی تاریخ کو عام انسانوں کی معلومات سے دور رکھنے کی ناکام کاوشیں کرتے ہیں۔ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود بھی یہ عوامی انقلابات ہی ہوتے ہیں جو لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ تاریخ عام نوجوانوں تک لے کر جانی ہے۔ جنہیں شاید بڑے بڑے الفاظ تو سمجھ میں نہ آئیں لیکن انہیں اپنے مسائل اور ان کا حل ضرور سمجھ آتا ہے۔ ان کہنا تھا کہ دائیں بازو کی طلبہ تنظیموں میں بھی نوجوان نظریاتی وجوہات پر نہیں ضرورت اور عدم تحفظ کی نفسیات کے تحت جاتے ہیں۔ عام نوجوانوں کے سلگتے ہوئے مسائل کا حل سوائے ہمارے اور کسی کے پاس نہیں ہے۔ تسنیم بھٹی نے سندھ کی انقلابی تحریکوں کا تذکرہ کیا۔ پروگرام کے آخری مقرر پارس جان نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بحث کو سمیٹا۔
آخر میں شرکاء نے مزدوروں کے عالمی ترانہ گا کر پروگرام کا اختتام کیا۔