|منجانب: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو صحت کی سہولیات کے لحاظ سے فہرست میں سب سے نیچے آتے ہیں۔ حکومت جی ڈی پی کا صرف 0.9فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتی ہے اور اس کا بھی ایک بڑا حصہ حکومتی نمائندوں، افسر شاہی اور محکمہ صحت کے انتظامی اہلکاروں کی کرپشن اور بد عنوانی کی نظر ہو جاتا ہے۔ اس ریاستی بے حسی کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر سال چار لاکھ سے زائد بچے علاج معالجے کی مناسب سہولیات نہ ملنے کے سبب نمونیا، ملیریااور اسہال جیسی قابل علاج بیماریوں کے ہاتھوں مرتے ہیں۔ ہر سال بیس ہزار سے زائد عورتیں زچگی کے دوران مناسب طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ خوراک کی کمی اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب پاکستان کے 44فیصد بچے ’’Stunted Growth‘‘ کا شکار ہیں یعنی ان کا قد، وزن اور ذہنی صلاحیت اپنی عمر کے لحاظ سے کم ہے۔ ملک میں صحت کے انفراسٹرکچر کی قلت اور زبوں حالی کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ طبی عملے کی بھی شدید کمی ہے۔ یہ ساری صورتحال ملک کے مین اسٹریم میڈیا میں کم ہی موضوع بحث بنتی ہے لیکن اگر اس پر بات ہو بھی تو انتہائی منافقت اور دروغ گوئی سے کام لیا جاتا ہے۔ ان بحثوں میں صحت کی سہولیات کی انتہائی دگرگوں حالت کو ایک ’’قومی المیہ‘‘ قرار دیا جاتا ہے جو کہ بالکل غلط ہے کیونکہ یہ ایک قومی نہیں بلکہ طبقاتی المیہ ہے۔ یہ طبقۂ امرا کے افراد نہیں ہوتے جو علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے سبب قابل علاج بیماریوں سے مرتے ہیں بلکہ اس طرح مرنے والوں کی بھاری ترین اکثریت کا تعلق محنت کش طبقے سے ہوتا ہے۔ یہ امرا کی خواتین نہیں ہوتیں جو زچگی کے دوران طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے جاں بحق ہوتی ہیں۔ یہ دکھ صرف غریبوں کو ہی سہنا پڑتا ہے۔ یہ امراکے بچے نہیں ہوتے جن کو سٹنٹڈ گروتھ کامسئلہ ہوتا ہے بلکہ اپنی عمر کے لحاظ سے چھوٹے قد، کم وزن اور مدقوق چہرے والا ہر بچہ کسی غریب کا ہی لخت جگر ہوتا ہے چاہے اس کا رنگ، نسل، مذہب اور زبان کچھ بھی ہو۔ طبی عملے کی کمی کا شکار امرا تو کبھی نہیں ہوتے۔ ان کے تو ایک اشارے پر بڑے بڑے پروفیسر ڈاکٹرز ہاتھ باندھے حاضر ہو جاتے ہیں۔ اس کمی کا خمیازہ بھی غریب کو ہی بھگتنا پڑتا ہے جسے کسی ڈاکٹر کی شکل دیکھنے کے لئے بھی سینکڑوں میل کا سفر کر کے پھر گھنٹوں لائن میں لگنا پڑتا ہے۔ اسی طرح حکومت اور ریاست کی ناکامی ونااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے جونیئر ڈاکٹرز، پیرا میڈکس اور نرسنگ سٹاف کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے محکمہ صحت کی تمام تر بد حالی کا ذمہ دار انہیں ٹھہرا دیا جاتا ہے جبکہ اصل ذمہ داران اور شعبہ صحت کی تباہی کی حقیقی وجوہات کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔
پاکستان کی ریاست اور حکمران طبقے کو عوام کی صحت سے کوئی خاص دلچسپی تو کبھی بھی نہیں رہی لیکن عالمی معاشی گراوٹ کی صورتحال میں مسلسل بگڑتی ہوئی ملکی معیشت کے پیش نظر حکمران طبقے نے عوامی سہولیات فراہم کرنے والے تمام سرکاری اداروں اور شعبہ جات کی نجکاری کر کے ان سے جان چھڑانے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کے ایما پر شروع کی جانے والی نجکاری کی اس پالیسی کے ان مالیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ ملکی حکمران طبقے کو بھی کئی فوائد ہیں جن میں ’’غیر ضروری‘‘ حکومتی اخراجات میں کمی، منافع بخش اداروں کی اونے پونے داموں لوٹ سیل، منافع بخش ٹھیکوں کا حصول اور اداروں کی ملکیت، قیمتی سرکاری اراضی کی کوڑیوں کے مول بندر بانٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضوں کی واپسی کے لئے بھی ان اداروں کو بیچنا ’’ضروری‘‘ قرار دیا جاتا ہے حالانکہ ان قرضوں سے صرف حکمران طبقے نے اپنی تجوریاں بھری ہیں مگر ان کی واپسی عوام کے ٹیکسوں سے بنے اداروں کو بیچ کر کی جا رہی ہے۔ ابتدا میں نجکاری کی ہٹ لسٹ پر واپڈا، پی آئی اے، اسٹیل مل، ریلوے، پی ٹی سی ایل، او جی ڈی سی ایل، پاکستان پوسٹ اور سرکاری بنکوں جیسے ادارے ہی تھے لیکن اب نوبت محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت جیسے بالکل بنیادی عوامی سہولیات فراہم کرنے والے شعبوں کی نجکاری تک آن پہنچی ہے اور پچھلے چند سالوں میں ملک کے تمام صوبوں میں سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ اب سرکاری ہسپتالوں اور صحت عامہ کے دیگر انفراسٹرکچر کی نجکاری کا عمل تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔
خیبر پختونخوا اور سندھ میں کئی سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے بعد اب پنجاب کے سرکاری ہسپتال بھی نجکاری کے وحشیانہ حملے کی زد میں آچکے ہیں۔ صوبائی حکومت نے ’’ہیلتھ ریفارمز‘‘اور ’’آؤٹ سورسنگ‘‘جیسے خوش نما الفاظ کے پردے میں غریب عوام کو میسر صحت کی تھوڑی بہت سستی سہولیات بھی نجکاری کے ذریعے چھین لینے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ ان نام نہاد ہیلتھ ریفارمز کے تحت پہلے مرحلے میں بنیادی مراکز صحت کی ایک بڑی تعداد اور ڈینگی، پولیو خاتمہ مہم جیسے صحت عامہ کے پروگرامز کو مختلف نجی کمپنیوں اور این جی اوز وغیرہ کو ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے۔اب نجکاری کے دوسرے مرحلے میں پورے کے پورے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں اور ٹیچنگ ہسپتالوں کے ریڈیالوجی، لیبارٹری سروسز کے ساتھ ساتھ کئی غیر طبی شعبوں (جیسے صفائی، الیکٹرک ورک وغیرہ)کو بھی دھڑا دھڑ نجی کمپنیوں کو ٹھیکے پر دیا جا رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو مستقبل قریب میں ٹیچنگ ہسپتالوں کو بھی مکمل طور پر ٹھیکے پر دے دیا جائے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ نجکاری کے ذریعے عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی میں بہتری اور اضافہ ہو گا۔ اس سے بڑا جھوٹ اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیدھی سی بات ہے کہ کوئی بھی نجی کمپنی، این جی او یا ٹھیکیدار عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے تو ہسپتالوں کا ٹھیکہ نہیں لے رہابلکہ ان کا واحد مقصد ہسپتالوں کے ذریعے منافع کمانا ہے اور جب منافع کا حصول ہسپتال چلانے کا واحد مقصد ہوتو پھر عوام کو صحت کی مفت اور معیاری سہولیات فراہم کرنا بھلا کیسے ممکن ہے۔ ہسپتالوں کی نجکاری کے نتیجے میں عوام تو برباد ہو گی ہی لیکن یہ عمل محکمہ صحت میں کام کرنے والے طبی و غیر طبی عملے کے لئے بھی ڈاؤن سائزنگ، اجرتوں میں کٹوتی، اوقات کار میں اضافے اور مستقل ملازمتوں کے خاتمے جیسے وحشیانہ معاشی حملوں کا سبب بنے گا۔ اس کی نہایت سادہ سی وجہ ہے کہ کسی بھی ٹھیکیدار کا مالی فائدہ کم سے کم ملازمین سے تھوڑی سے تھوڑی اجرت میں زیادہ سے زیادہ کام لینے میں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نجکاری کے اس حملے کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟
سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی دوسرے شعبے یا ادارے کی نسبت شعبہ صحت کی نجکاری کرنا کسی بھی حکومت کے لئے زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس معاملے کا تعلق براہ راست عوام کی بنیادی ترین ضرورت کے ساتھ ہوتا ہے اور حکومت کو عوامی رد عمل کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت صحت کی نجکاری کے لئے انتہائی خوش کن نعروں اور لفاظیوں کی آڑ لیتی ہے۔ لیکن اگر جونیئر ڈاکٹرز، پیرامیڈکس اور نرسز سمیت ہسپتالوں کے تمام محنت کش واضح الفاظ میں عوام کو نجکاری کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے سامنے قومی ہیلتھ بجٹ میں اضافے، نئے سرکاری ہسپتالوں کی تعمیر اور پہلے سے موجود ہسپتالوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی، سرکاری دوا ساز کمپنیوں کے قیام اور شعبہ صحت کے طبی وغیر طبی عملے کی تعداد میں اضافے جیسے مطالبات پر مبنی متبادل پیش کریں، تو عوام کی حمایت جیتتے ہوئے نجکاری کے حملے کو روکنا سو فیصد ممکن ہے۔ لیکن اس مقصد کے لئے محکمہ صحت کے تمام محنت کشوں کو سب سے پہلے آپس میں جڑت پیدا کرتے ہوئے ایک نجکاری مخالف پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے۔ حالیہ ہفتوں میں پیرا میڈکس کی کئی تنظیموں نے پورے صوبے میں نجکاری مخالف احتجاج کئے ہیں۔ یہ ایک جراتمندانہ پہل ہے لیکن پیرا میڈکس کی مختلف قیادتوں کے باہمی اختلافات کے سبب یہ تمام احتجاج ایک دوسرے سے الگ تھلگ تھے لہٰذا یہ مطلوبہ اثرات مرتب کرنے میں ناکام رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نجکاری مخالف تحریک میں پیرامیڈکس کی تمام قیادتیں اپنے باہمی اختلافات بھلا کر مشترکہ احتجاج کی کال دیں اور اس احتجاج میں ہسپتالوں کے غیر طبی عملے کی بھر پور شرکت کو بھی یقینی بنائیں۔ اسی طرح نرسنگ سٹاف کی تنظیموں کو بھر پور حرکت میں آتے ہوئے پوری طاقت کے ساتھ اس معاملے پر پیرا میڈکس کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ اس نجکاری مخالف تحریک کی کامیابی کیلئے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کی تنظیموں کا اپنے پیشہ ورانہ احساس برتری سے باہر نکلتے ہوئے دیگر طبی و غیر طبی عملے کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ضروری ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اس معاملے میں ابھی تک سب سے متذبذب کردار ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کا رہا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نجکاری سے پروفیسر حضرات اور انتظامی عہدوں پر براجمان ڈاکٹرز کو تو کچھ فائدہ ہو گا لیکن جونیئر ڈاکٹرز اور حتیٰ کہ درمیانی سطح کے ڈاکٹرز (سینیئر رجسٹرار وغیرہ)کے لئے ہسپتالوں کی نجکاری صرف تباہی اور نقصان کا باعث بنے گی۔ ینگ ڈاکٹرز پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ کوئی بھی نجی ٹھیکیدار محض ان کے ’’پڑھا لکھا ڈاکٹر‘‘ ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتے گا کیونکہ ٹھیکیدار کی نظر میں ایک جونیئر ڈاکٹر بھی ایک محنت کش ہی ہے جس کا خون نچوڑ کر وہ اپنے منافع میں اضافہ کرنا چاہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نجکاری سے نجات کے لئے ینگ ڈاکٹرز کو بھی اپنے آپ کو محنت کش تسلیم کرتے ہوئے ہسپتال کے دیگر محنت کشوں کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ اس سلسلے میں چند روز پہلے YDAکی طرف سے نجکاری مخالف تحریک کا حصہ بننے کا اعلان یقیناً خوش آئند ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ قیادت اس اعلان کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پورے صوبے کے ینگ ڈاکٹرز کو نجکاری کے مضمرات سے آگاہ کرنے کے لئے فی الفور ایک مہم کا آغاز کرے اور پیرامیڈکس اور نرسنگ تنظیموں کے ساتھ ایک نجکاری مخالف اتحاد کی تشکیل کی جانب بڑھے۔ اسی طرح باقی صوبوں کے شعبہ صحت کے محنت کشوں اور نجکاری کی زد میں آئے ہوئے دیگر تمام اداروں کے ورکرز کے ساتھ بھی طبقاتی بنیادوں پر جڑت قائم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ حکومت کو ایک منہ توڑ جواب دیتے ہوئے صحت اور تعلیم سمیت تمام اداروں کی نجکاری کا خاتمہ کیا جا سکے۔