|رپورٹ: آصف لاشاری |
عالمی سامراجی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی ایما پر پنجاب کے 18 ہزار سرکاری سکولوں کی نجکاری کا عمل جاری ہے۔ نجکاری کا حالیہ منصوبہ تین مرحلوں میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ پہلے مرحلے میں لگ بھگ 18 ہزار سکولوں کو مختلف این جی اوز اور پرائیویٹ مالکان یعنی سرمایہ داروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے مرحلے میں نجکاری کا شکار ہونے والے سکولوں کی لسٹیں جاری کر دی گئی ہیں۔
پہلے مرحلے میں پرائیویٹ ہونے والے سکولوں کی مالکان کو حوالگی کے بعد دوسرے اور تیسرے مرحلے کے سکولوں کو ان کے مالکان کے حوالے کیا جائے گا۔ نجکاری کے عمل میں سہولت کاری کے لیے حال ہی میں ٹرانسفر ز کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جس میں دہائیوں بعد اساتذہ کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ بغیر ایس ٹی آر کی شرط کے اپنا تبادلہ کرا سکیں۔ تبادلوں کے عمل کے پورے ہو جانے کے بعد خالی رہ جانے والے سکولوں کو پھر سے نجکاری کی لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔
اس سے پہلے پرائمری سکولوں کی نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے دہائیوں بعد پرائمری سکولوں کے اساتذہ کی پرموشن کی پالیسی پر عمل در آمد کیا گیا اور کافی سالوں سے رکی ہوئی پروموشنز کی گئیں۔ دہائیوں سے رکے ہوئے پروموشن کے عمل کو ابھی جاری کرنے کا مقصد پرائمری سکولوں میں اساتذہ کی تعداد کو کم کرنا تھا تاکہ ان سکولوں کو نجکاری کے لیے پیش کیا جا سکے۔
ماضی میں سرکاری سکولوں کی نجکاری کے لیے بچوں کی کم تعداد کو جواز بنایا گیا تھا لیکن اس دفعہ ان سکولوں کی نجکاری کی گئی ہے جن میں بچوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی لیکن وہاں پر اساتذہ کم تعداد میں موجود تھے۔ پروموشن کے بعد پیدا ہونے والی اور پہلے سے موجود خالی اسامیوں پر نئی بھرتیاں کرنے کی بجائے اس دفعہ ایسے سکولوں کو پرائیویٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جن میں ایک یا دو اساتذہ موجود تھے۔
نجکاری کے لیے پیش کیے جانے والے اسکولوں میں ایسے سکول بھی شامل ہیں جو ہر حوالے سے انتہائی بہترین انداز میں کام کر رہے تھے۔ بچوں کی تعداد سے لے کر تعلیم کے معیار تک سب کچھ اچھا تھا لیکن پہلے سے موجود اساتذہ کی پروموشن کے بعد پیچھے کم اساتذہ کے بچ جانے کی وجہ سے ان سکولوں کو پرائیویٹ مالکان کے حوالے کر دیا گیا۔
اب پرائمری سکولوں کی نجکاری کے ساتھ ساتھ مڈل سکولوں کی نجاری کی بھی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے مڈل سکولوں کے ہیڈز کا فوری طور پر ہائی سکولوں میں تبادلہ کیا جا رہا ہے اور اس طرح رد و بدل کے ذریعے اسکولوں کو نجکاری کے کرائیٹیریا پر لایا جائے گا اور پھر ان کی لسٹیں بھی جاری کر دی جائیں گی۔
اسی طرح سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو جبری طور پر گھر بھیجنے کے لیے اساتذہ کے لیے گولڈن ہینڈ شیک پیکج تجویز کیا جا رہا ہے جس میں اساتذہ کی سروس اور کیڈر کی بنیاد پر ان کو مختلف رقوم دے کر گھر بھیجا جائے گا۔ اس سے پہلے پنشن اور لیو انکیشمنٹ کے قوانین میں بھی بڑے پیمانے پر مزدور و ملازمین دشمن تبدیلیاں کی گئی تھیں اور سرکاری اساتذہ کے حقوق پر انتہائی بھیانک حملہ کیا گیا تھا۔
نجکاری کے حالیہ حملے آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں اور آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کا قرضہ منظور ہونے کے بعد محنت کشوں پر جاری معاشی حملوں کی شدت میں تیزی آنے کی طرف جائے گی۔
مختلف اساتذہ تنظیموں کے اتحاد گرینڈ ٹیچرز الائنس کی جانب سے 26 ستمبر کو لاہور میں دھرنے کی کال دی گئی تھی جس پر اساتذہ کی ایک قابل ذکر تعداد نے قیادت پر اپنے تمام تر شکوک و شبہات کے باوجود لبیک کہا اور سیکرٹریٹ کے سامنے پہنچے۔ دھرنے کو کامیاب بنانے کے لیے کسی قسم کا گراؤنڈ ورک نہیں کیا گیا تھا بلکہ اوپر سے بیٹھ کر صرف کال دینے پر ہی اکتفا کیا گیا تھا۔
اگر اس دھرنے سے قبل اساتذہ کو متحرک کرنے کے لیے پورے پنجاب میں سکولوں کے دورے کیے جاتے اور اساتذہ کی کمیٹیاں تشکیل دی جاتیں اور اساتذہ کی ایک بہت بڑی پرت کو منظم کرتے ہوئے دھرنے کی طرف بڑھا جاتا تو نہ صرف یہ کہ سیکرٹریٹ کے سامنے لاکھوں اساتذہ کو لایا جا سکتا تھا بلکہ تمام اضلاع میں تدریسی و غیر تدریسی سرگرمیوں کے بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ مرکزی دھرنے کی طاقت بڑھانے کے لیے تمام اضلاع میں دھرنے یا جلسے جلوس کیے جا سکتے تھے لیکن موقع پرست قیادت یہ سب کچھ کرنے سے قاصر رہی۔
حکومت نے دھرنے پر بیٹھے اساتذہ سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کیے اور انہیں دھرنا ختم کرنے کا کہا یا بصورت دیگر گرفتاریاں کرنے کی دھمکیاں دیں۔ دھرنے کی قیادت نے پہلے دن شام کو ہی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور سکولوں میں علامتی احتجاج، تدریسی بائیکاٹ کرنے اور پھر اضلاع میں احتجاج کرنے کے بعد دوبارہ لاہور دھرنے کی طرف بڑھنے کے لائحہ عمل کا اعلان کیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس لائحہ عمل کا اعلان بھی صرف اپنی ناک بچانے اور اساتذہ کی نچلی پرتوں میں غم و غصے کو زائل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد کہیں بھی موثر طور پر تعلیمی بائیکاٹ یا احتجاج کی کوشش نہیں کی گئی۔
اگر اساتذہ قیادت سنجیدہ ہے تو اب بھی اس لائحہ عمل پر سنجیدگی سے کام کیا جا سکتا ہے اور تعلیمی بائیکاٹ کو کامیاب کرنے کے لیے شہروں اور دیہاتوں کے سکولوں کے دورے کرتے ہوئے اساتذہ کی احتجاجی کمیٹیاں بنائی جا سکتی ہیں اور پھر ان کمیٹیوں کے ذریعے تحصیل و ضلع کی سطح پر انتہائی منظم احتجاج، جس میں طلبہ اور ان کے والدین کی شرکت کو بھی یقینی بنایا جائے، کرتے ہوئے لاہور میں ایک تاریخی بڑے دھرنے اور عام ہڑتال کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔
سکولوں کے علاوہ دیگر بہت سے عوامی ادارے بھی اس وقت نجکاری کے حملے کا شکار ہیں۔ ان اداروں کے محنت کشوں کو اپنے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے اور ایک مشترکہ لڑائی لڑی جا سکتی ہے۔ موجودہ کٹھ پتلی حکومت پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین حکومت ہے اور مکمل طور پر فوجی بیساکھیوں پر انحصار کر رہی ہے۔
اپنے ظاہری تمام تر ٹھاٹھ باٹھ کے باوجود یہ حکومت اندر سے کھوکھلی ہے اور مزدوروں کے ایک سنجیدہ احتجاج سے گرائی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے اساتذہ سمیت تمام عوامی اداروں کے محنت کشوں کو کشمیر اور گلگت بلتستان کے محنت کش عوام کی طرح خود کو منظم کرنا ہو گا۔