|رپورٹ: آصف لاشاری، مرکزی انفارمیشن سیکرٹری، ریڈ ورکرز فرنٹ|
آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی قرض معاہدے کے بعد سے حکمران طبقے کے عوام دشمن اقدامات میں انتہائی تیزی آئی ہے۔ نگران حکومت کو مکمل طور پر بااختیار بنا کر آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت محنت کش طبقے کے معاشی قتل عام کو تیز ترین طریقے سے عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین حکومت محنت کش طبقے پر تاریخ کا بدترین معاشی حملہ کرنے جا رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ تمام تر اقدامات ایک نگران حکومت سے کرائے جا رہے ہیں جو سرمایہ دارانہ جمہوریت کے طبقاتی جعلی قوانین کے تحت بھی ایسے اقدامات اٹھانے کا کوئی مینڈیٹ نہیں رکھتی۔ ایک طرف بجلی پٹرول گیس پر ظالمانہ ٹیکسوں کو نافذ کر کے اور مہنگائی کا طوفان غریب عوام پر مسلط کر کے محنت کش عوام کو لوٹنے کے عمل میں انتہائی تیزی کی گئی ہے تو وہیں پر دوسری طرف قرض معاہدے کی شرائط کے مطابق نجکاری کے ظالمانہ منصوبے کو بھی عوامی اداروں کے محنت کشوں پر مسلط کر دیا گیا ہے اور نجکاری کے منصوبے پر تیزی سے عمل کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح لیو انکیشمنٹ کے قوانین میں مزدور دشمن تبدیلیاں اور پنشن کے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کرتے ہوئے محنت کشوں پر بدترین معاشی حملہ کیا گیا ہے جس کے خلاف ملازمین پہلے ہی سراپا احتجاج ہیں۔ فوری طور پر 27 عوامی اداروں کی نجکاری کا منصوبہ دیا گیا ہے۔ ان اداروں میں بجلی بنانے و تقسیم کرنے والی کمپنیوں سے لے کر پی آئی اے، محکمہ ڈاک اور پنجاب میں ہزاروں سرکاری سکول بھی شامل ہیں۔ فوری طور پر نجکاری کے لیے پیش کیے جانے والے ان 27 اداروں کے علاوہ مزید 22 اداروں کی نجکاری کے منصوبے پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔
پنجاب میں ہر ضلع کے 20 بڑے بڑے ہائی اور ہائیر سکولوں کو دانش اتھارٹی کے حوالے کرنے کے عمل پر تیزی سے عملدرآمد جاری ہے۔ اس عمل کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کے زیر نگرانی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح پنجاب کے بڑے 1000 تعلیمی اداروں کو مسلم ہینڈز نامی ایک این جی او اور 700 دیگر سکولوں کو پیما نامی این جی او کے حوالے کرنے کے معاہدے کیے جا رہے ہیں۔ مسلم ہینڈز نامی یہ این جی او مختلف اضلاع میں سکولوں کے دورے کر رہی ہے اور سکولوں کو اس این جی او کو حوالگی کے حوالے سے معاملات تیزی سے آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔
نجکاری کے لیے فوری طور پر منتخب کیے جانے والے ان تعلیمی اداروں کے علاوہ پنجاب بھر میں مزید 15 ہزار تعلیمی اداروں کی نجکاری کی بھی تیاری کی جا رہی ہے۔ ٹیچر یونینز جو کہ کم از کم پچھلی ایک دہائی سے انتہائی کمزور ہونے کی طرف گئی تھیں وہ فوری طور پر اس معاشی حملے کے خلاف ابھی تک کوئی خاص تحرک پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں اگرچہ اساتذہ اور سکولوں کے دیگر ملازمین کے اندر اس تمام تر معاشی جبر اور بدترین نجکاری کے منصوبے کے خلاف غم و غصہ مجتمع ہوتا جا رہا ہے۔ ٹیچرز یونین کے مختلف دھڑے اس تمام تر صورتحال میں الگ تھلگ یونین سرگرمیاں اور احتجاجوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ دیگر اداروں کے ملازمین کی طرح تدریسی شعبے کے محنت کش بھی مزاحمت کرنے کے حوالے سے اگیگا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ٹریڈ یونین لیڈران سے لے کر سرکاری تعلیمی اداروں کے محنت کشوں کو بغیر کوئی وقت ضائع کیے منظم ہونا ہوگا اور سکولوں کی نجکاری کے خلاف میدان میں اترنا ہوگا اور پنجاب کے سرکاری سکولوں کے لاکھوں اساتذہ کی طاقت کو منظم کر کے لڑائی کا آغاز کرنا ہوگا۔
اسی طرح واپڈا ڈسکوز کی نجکاری کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے جس میں آئیسکو، لیسکو، گیپکو، میپکو، کیسکو سمیت واپڈا کی مختلف تقسیم کار کمپنیاں شامل ہیں۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے علاوہ مختلف بجلی بنانے والی کمپنیوں کی نجکاری کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے فوری طور پر ان بجلی کی تقسیم کار کرنے والی کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان کی جگہ دیگر محکموں سے بیوروکریٹس کو لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نجکاری کی پالیسی کو بجلی کے محکمے کے تمام تر مسائل کا حل بتایا جا رہا ہے حالانکہ یہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کی نجکاری اور بجلی کے شعبے میں نجی سرمائے کی آمد ہی تھی جو گردشی قرضوں،مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ اور بجلی کے محکمے کی تباہی کا سبب بنی ہے۔ ایسے میں مزید بجلی کے شعبے کی نجکاری بجلی جیسی بنیادی سہولت کو جہاں ایک بہت بڑی محنت کش آبادی کی پہنچ سے دور کر دے گی اور ان کے لیے اذیت کا باعث بنے گی وہیں لاکھوں محنت کشوں کو بے روزگار کرنے کی طرف بھی جائے گی۔ محکمہ بجلی کے محنت کشوں نے ہمیشہ ہی اپنے طبقے کے معاشی و سیاسی حقوق کے لیے شاندار جدوجہد کی ہے اور ہمیشہ متحرک بھی رہے ہیں اور آج بھی اس شعبے کے محنت کش اپنے حقوق کے دفاع کے لیے جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شعبے میں محنت کشوں کی بڑی اور مضبوط ٹریڈ یونین واپڈا ہائیڈرویونین محض علامتی اور بے اثر احتجاجوں کی بجائے ایک سنجیدہ جدوجہد کی جانب آگے بڑھے اور واپڈا کے شعبے کے محنت کش بھی اپنی قیادتوں پر جدوجہد کرنے کے لیے دباؤ بڑھائیں۔
حکومت نے پی آئی اے کی فوری نجکاری کا بھی اعلان کیا ہے اور اس حوالے سے حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی پی آئی اے کو حصوں میں بانٹ کر نجکاری کی جائے گی۔ حکمران پہلے ہی پی آئی اے کے اثاثوں و منافع بخش روٹس کی نجکاری کر چکے ہیں۔پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے دو منصوبوں پر بات ہو رہی ہے جن کے مطابق ایک منصوبے میں کمپنی کے تمام تر منافع بخش آپریشنز کو الگ کر لیا جائے گا اور اس کی نجکاری کر دی جائے گی اور اسی طرح نقصان دہ تمام تر آپریشنز اور ان سے منسلک عملے کو الگ کر لیا جائے گا اور اسے حکومتی کھاتے میں رکھا جائے گا اور بعد میں اس کا کوئی حل نکالا جائے گا۔
ایک اورمنصوبے کے مطابق قومی ائیر لائن کے پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود اثاثوں کو ایک پراپرٹی کمپنی کے طور پر چلایا جائے گا اور ائیر لائن کے دیگر معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک الگ آپریٹنگ کمپنی بنائی جائے گی۔ ایک طرف خسارے کا رونا روتے ہوئے نجکاری کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے لیکن دوسری طرف نجکاری صرف تمام تر منافع بخش آپریشنز اور اثاثوں کی کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی سرمایہ کار منافع خوری کے لیے ہی سرمایہ کاری کرنے کی طرف جائے گا اور اسی لیے یہ تمام تر اقدامات ائیر لائن کی نجکاری کو پرکشش بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی شخص یہ بات آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ مذکورہ منصوبوں پر عمل ہو جانے کی صورت میں بھی قومی ائیرلائن کا خسارہ ختم نہیں ہوگا بلکہ خسارے کا شکار آپریشنز وغیرہ سے جان چھڑانے کے بہانے ان آپریشنز کو بند کر دیا جائے گا اور ان سے منسلک ملازمین کو نکال دیا جائے گا۔ قومی ائیر لائن اس وقت 700 ارب روپے سے زائد کی مقروض ہے اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے پہلے ہی بہت سے جہازوں کو لینڈ کرا دیا گیا ہے۔ انتظامیہ نے ائیرلائن کو فنکشنل رکھنے کے لیے حکومت سے مالی مدد کی درخواست کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قومی ائیر لائن کے خسارے کی تمام تر ذمہ داری نااہل حکمران، انتظامیہ کے افسروں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ادارے کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اس لیے خسارے کے نام پر ادارے کے محنت کشوں پر کسی قسم کا حملہ ناقابل قبول ہے۔ اسی طرح پی آئی اے کا ادارہ اس ملک کے محنت کش عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بنایا گیا ہے اور اس ادارے کی نجکاری کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔ پی آئی اے کے محنت کشوں نے ماضی قریب میں بھی نجکاری کے عمل کو روکنے کے لیے ہڑتال کر کے جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا تھا اور نجکاری کو رکوانے میں کامیاب رہے تھے اور اب بھی محنت کش کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
دیگر اداروں کی طرح پاکستان پوسٹ بھی نجکاری کی لسٹ میں شامل کیے جانے والے اداروں میں سے ایک ہے۔ حکومت پاکستان پوسٹ کی مزید نجکاری کرنے کے حوالے سے بھی اقدامات اٹھا رہی ہے اور اس ادارے کے محنت کشوں پر بھرپور حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ نجکاری کے حملے کا شکار ان تمام اداروں کے محنت کشوں کے روزگار کو بچانے کے لیے آج ان اداروں کے محنت کشوں کے پاس واحد راستہ ایک بڑے اتحاد میں منظم ہو کر احتجاجوں کو منظم کرتے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کا اعلان کرنا ہے۔ تمام اداروں کے محنت کشوں کو یہ بخوبی ادراک ہونا چاہیے کہ اب الگ تھلگ جدوجہد کر کے اس معاشی حملے کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اداروں کی جدوجہد کو آپس میں جوڑا جائے اور متحد ہو کر جدوجہد کی جائے۔ ان تمام عوامی اداروں کے محنت کش جو کہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں اگر منظم ہو کر لڑائی لڑیں تو موجودہ حکومت تو درکنار اس سے سو گنا زیادہ مضبوط حکومت بھی آ جائے تو ان اداروں کی نجکاری نہیں کر سکے گی۔ لیکن نجکاری کے اس حملے کو روکنے کے لیے بزدل قیادتوں کی بجائے ایسی بہادر قیادت کی ضرورت ہے جو محنت کشوں کے انقلابی نظریات اور ان کی طاقت پر یقین رکھتی ہو اور کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔ آج محنت کش طبقے کو اپنی صفوں سے ایسی قیادت تراش کرنی ہوگی جو ان تمام تر چیلنجز سے نبردآزما ہو سکے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ نجکاری کے حملے کا شکار ان تمام اداروں کی تباہی کا ذمہ دار اس ملک کا حکمران طبقہ اور ان کا نظام ہے۔ اگر آج بھی سول و فوجی افسر شاہی کی ان لٹیری جونکوں کو ان تمام اداروں سے نکال پھینکا جائے اور ان اداروں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلایا جائے تو ان اداروں کے خسارے کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور ان اداروں کو کامیاب ادارے بنایا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنے کے لیے اس ملک میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے محنت کشوں کی حکمرانی قائم کرنی ہوگی۔