|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
پاکستان میں تمام سرکاری اداروں پر نجکاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ریاست آئی ایم ایف کی ایما پر عوامی اداروں کو بیچنے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ اسی پالیسی کے تسلسل میں پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کی منظوری دی جا چکی ہے۔ پہلے مرحلے میں سٹیل ملز کے 45 سو ملازمین کی جبری برطرفیوں کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکاہے جبکہ بقیہ ماندہ کے سروں پر بھی برطرفی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس مزدور دشمن اقدام کے خلاف پورے پاکستان میں سٹیل ملز کے محنت کشوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور اس کے خلاف احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 26 نومبر کو کراچی میں گلشن حدید سے اللہ والی چورنگی سٹیل ٹاؤن تک شاندار احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں سینکڑوں محنت کشوں نے شرکت کی۔
یکم دسمبر کو سٹیل ملز کے محنت کشوں نے کراچی میں بن قاسم کے قریب ریلوے ٹریک پر احتجاجی دھرنا دیا گیا جو رات دیر تک جاری رہا۔۔اس دوران محنت کشوں نے تبدیلی سرکار کے خلاف خوب نعرے بازی کی۔ اس کے علاوہ، 2 دسمبر کو لاہور میں واقع سٹیل ملز کے یونٹ میں کام کرنے والے محنت کشوں اور ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے جبری برطرفیوں کے خلاف شاندار احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں سٹیل ملز اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان کے ساتھ ساتھ واپڈا ہائیڈرو یونین، ریل مزدور اتحاد، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن سے وفود نے بھی شرکت کی اور سٹیل ملز کے محنت کشوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ کچھ روز پہلے وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بیان دیا ہے کہ پاکستان سٹیل ملز ملکی خزانے پر بوجھ بن چکی ہے سو اس کی نجکاری کرنا ضروری ہے۔ اس کے برعکس سٹیل ملز کے ملازمین کا کہنا ہے کہ تمام حکومتوں میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سٹیل ملز کو تباہ کیا گیا ہے۔
اس وقت بھی سٹیل ملز کے عہدیداران کی عیاشیوں کے لیے پیسے ہیں لیکن محنت کشوں کو تنخواہوں کی ادائیگی ملکی خزانے پر بوجھ ہے۔ ہمیشہ کی طرح جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہوئے ”گولڈن شیک ہینڈ“ دینے کی بات کی جا رہی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے ملازمین پر بہت بڑا احسان کیا جا رہا ہو۔ گولڈن شیک ہینڈ کے نام پر ملازمین کو لگ بھگ 23 لاکھ روپے فی کس ادا کیا جائے گا۔ حقیقت میں یہ سٹیل ملز میں کام کرنے والے ملازمین کے بقایاجات ہیں۔ بے شمار ملازمین کو ابھی تک پچھلے 6 ماہ کی اجرتیں ادا نہیں کی گئیں اور یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ یہ ہے نام نہاد ”گولڈن شیک ہینڈ“ کی حقیقت! اب یہ بقایاجات ادا کرکے محنت کشوں سے روزگار چھینا جا رہا ہے جس کا ازالہ کسی ”گولڈن شیک ہینڈ“ سے نہیں ہو سکتا۔ اس وقت بھی سٹیل ملز کے پاس اربوں روپے کے اثاثہ جات ہیں جن میں پروڈکشن پلانٹس، 6ہزار گھر، ہسپتال، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ (جس میں کئی سکول اور کالج آتے ہیں)، کراچی میں تعمیر شدہ گیسٹ ہاؤس اور پارکس وغیرہ شامل ہیں۔ نجکاری کے عمل کو آسان بنانے کے لیے سٹیل ملز کو دو حصوں میں تقسیم کی جا رہا ہے (یہی طریقہ واردات باقی اداروں میں بھی استعمال کیا گیا ہے)۔
ملازمین کو نکالنے کے بعد اگلے مرحلے میں ادارے کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیا جائے گا۔ سٹیل ملز کے محنت کش سراپا احتجاج ہیں لیکن ریاست ڈھٹائی سے نجکاری کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان سٹیل ملز نجکاری کی زد میں آنے والا کوئی پہلا اور آخری ادارہ نہیں ہے سو تمام اداروں کے محنت کشوں کو مل کر نجکاری کی پالیسی کے خاتمے تک لڑنا ہوگا۔
آئی ایم ایف کی گماشتہ اس حکومت کے حملوں کا جواب ایک ملک گیر عام ہڑتال سے دینا ہوگا۔ پورے ملک کے محنت کشوں کی جانب سے ایک عام ہڑتال کی صورت میں جوابی حملہ حکمرانوں کو پسپا کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کو ان کی طاقت کا احساس دلائے گا۔ دھرنوں اور احتجاجوں سے آگے بڑھتے ہوئے نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ، ان بنڈلنگ، اجرتوں میں اضافے، پنشنوں اور مستقل ملازمتوں کے حصول کے لیے ایک عام ہڑتال ہی واحد کارآمد راستہ بچا ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ ملازمین کی جبری برطرفیوں اور ادارے کی نجکاری کی شدید مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ نجکاری کا عمل روک کر ملازمین کو فی الفور بحال کیا جائے۔ سٹیل ملز کو چالو کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے سٹیل کی درآمد پر بھاری محصولات عائد کیے جائیں۔ سٹیل ملز کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے سرمایہ کاری کی جائے۔