|رپورٹ: مرکزی بیورو، پروگریسو یوتھ الائنس|
سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور کورونا وباء کے دوران لگنے والے لاک ڈاؤن کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے کاندھے پر ڈالا جارہا ہے۔ غربت، بیروزگاری، لاعلاجی، بے گھری اور جہالت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم جو محنت کش طبقے کی پہنچ سے پہلے ہی دور تھی آج صرف حکمرانوں کے بچوں کی عیاشی بن چکی ہے۔ ایک پوری نسل تاریک مستقبل لیے بیروزگاری کے عفریت کے نظر ہونے کو جوان ہوچکی ہے۔ خواتین پر جبر میں شدت آئی ہے اور روزانہ اخبار جنسی زیادتیوں اور ہراسانی کے واقعات سے بھرے ملتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران عوام کو ریلیف دینے کی بجائے محنت کشوں اور غریبوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے کا عمل شدید ہوا ہے۔۔۔آٹا، چینی، دوا اور بنیادی ضروریات کی تمام اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جبکہ دوسری طرف ریاست کی جانب سے امیروں کو نوازنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جارہی۔ لاک ڈاؤن کے دوران جب تعلیمی ادارے بند تھے تو طلبہ سے فیسیں بٹوری گئیں، اداروں کو بیچنے کا عمل تیز ہوا، لوگوں کو بیروزگار کرنے کے عمل میں شدت آئی، اگر یہ کہا جائے کہ ریاست نے غریب عوام کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
ان تمام تر حملوں اور استحصال کے خلاف محنت کشوں اور خاص کر نوجوانوں کو منظم کرنے کیلئے پروگریسو یوتھ الائنس نے 19 دسمبر 2020ء بروز ہفتہ کو ایک ملک گیر ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ منانے کا اعلان کیا ہے۔ جس کے مطالبات میں مفت تعلیم، روزگار یا 20 ہزار روپے بیروزگاری الاؤنس، طلبہ یونین کی بحالی، ہراسمنٹ کا خاتمہ، نجکاری کے حملوں کا خاتمہ اور مفت علاج وغیرہ شامل ہیں۔ ملک گیر سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن کی کال کے فوراً بعد ہی ملک بھر کے مختلف شہروں میں بھرپور مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا، جس کے سلسلے میں خاص کر تعلیمی اداروں کے نوجوانوں کو منظم کرنے کا آغاز کیا گیا اور کراچی یونیورسٹی، لیڈز یونیورسٹی لاہور، ہاسٹل سٹی اسلام آباد، ملاکنڈ یونیورسٹی و دیگر شہروں کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی آرگانائزنگ کمیٹیاں اور پروگریسو یوتھ الائنس کے یونٹ تشکیل دے دیے گئے تھے۔ پورے ملک کے تقریبا تمام بڑے تعلیمی اداروں میں پی وائی اے کی بھرپور مہم جاری ہی تھی کہ حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ آگیا۔ اس فیصلے کے فورا بعد پی وائی اے کی عبوری کابینہ کا ہنگامی اجلاس آن لائن منعقد ہوا اور اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن کی کمپئین کو پوری آب و تاب کے ساتھ نا صرف جاری رکھا جائے گا بلکہ پہلے جو پیغام صرف تعلیمی اداروں تک پہنچنا تھا اب اسے گلی محلّوں، فیکٹریوں، کھیتوں اور کھلیانوں تک لے کر جایا جائے گا اور محلوں کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔
اس سلسلے میں اب تک کراچی کے اندر ماروی گوٹھ، ملتان میں نیو ملتان، کشمیر میں باغ اور اسی طرح دیگر شہروں میں کمیٹیاں تشکیل دی جا چکی ہیں۔ اسی طرح حیدر آباد، نوابشاہ، جامشورو، مِٹھی، پشاور، ملاکنڈ، بونیر، ژوب، کوئٹہ، لورالائی، لاہور، کامونکی، گوجرانوالہ، ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، فیصل آباد، لودھراں، راولاکوٹ، علی سوجھل اور دیگر کئی شہروں میں اس سلسلے کا آغاز ہوچکا ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں پمفلٹ چھاپے جا چکے ہیں اور انہیں طلبہ، مزدوروں اور کسانوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم خود اپنے زورِ بازو پر ہی حکمران طبقے کے حملوں کو نا صرف ناکام بناسکتے ہیں بلکہ اپنے بنیادی حقوق کا حصول بھی صرف اسی ذریعے ہی ممکن ہے۔ وقت آگیا ہے کہ طلبہ، مزدور، کسان اور مظلوم عوام ایک پلیٹ فارم پر منظم ہوں اور حکمرانوں کی عوام دشمن سیاست کا جواب اپنی سیاست کا آغاز کر کے دیں۔ ملک گیر سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ 19 دسمبر کو ہم اپنے اپنے شہروں میں اپنی قوت کا مظاہرہ کریں اور اپنے حقوق کیلئے آواز بُلند کریں۔ پروگریسو یوتھ الائنس ملک بھر کے طلبہ اور محنت کشوں کو دعوت دیتا ہے کہ اس مہم میں شامل ہوں اور حکمرانوں سے ہماری تقدیروں کے فیصلے کرنے کا حق اپنے زور بازو چھین کر اپنی تقدیروں سے فیصلے اپنے ہاتھ میں لیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس آپ کو دعوت دیتا ہے کہ اس مہم کا حصہ بنیں۔۔اپنے اپنے علاقے اور محلّے میں لوگوں کو منظم کریں اور اپنے شہر میں ہونے والی احتجاجی ریلیوں کا حصہ بنیں۔
جینا ہے تو لڑنا ہوگا!