”ہم صورت گر کچھ خوابوں کے“
زیرِ نظر کتاب کی پہلی اشاعت کو لگ بھگ دو سال ہونے کو آئے ہیں۔ دو سال، عام طور پر، ایک انسانی معاشرہ تو الگ بات ہے کسی ایک فرد کی زندگی میں بھی کوئی بڑا عرصہ نہیں سمجھا جاتا۔ مارکسی فلسفے کے بنیادی اجزا میں ایک اصول ”مقدار کی معیار میں تبدیلی“ کا ہے۔ تاریخ کی سائنسی سمجھ بوجھ کے حوالے سے یہ اصول فیصلہ کن اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ کارل مارکس سے لے کر رواں عہد تک، تمام مارکسی اساتذہ بار بار استفسار کرتے ہیں کہ بسا اوقات کئی عشرے بھی چپ چاپ اپنا احساس تک دلائے بغیر ہی بسر ہو جاتے ہیں، مگر پھر چند سال، مہینے یا حتیٰ کہ ایسے دن بھی آتے ہیں کہ جن کے پل پل میں صدیاں گزر جاتی ہیں۔ گزشتہ دو برس کا تعلق بھی مؤخر الذکر قبیلے سے ہی تھا۔ آج دو سال بعد یہ دنیا پہچانی ہی نہیں جا رہی۔ کیا کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ ان دو سالوں کے بظاہر تنگ دامن میں کس قدر وسیع الامکان کائنات جاگزیں ہے۔ شاید نہیں۔ جی ہاں، بالکل، سوائے مارکس وادیوں کے کوئی ان امکانات کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ تمام مناظر دم بخود ہیں اور چاروں اطراف میں حیران، پریشان اور لاچار پھٹی پھٹی آنکھیں ایک دوسرے کو گھورے جا رہی ہیں، سوچنے کی صلاحیت سے عاری دماغ مضطرب دلوں کی طرح بے ترتیبی سے دھڑک رہے ہیں اور آسمان و زمین ایک دوسرے کو کوس رہے ہیں۔ یہ مارکس وادی ہی ہیں جن کی آنکھوں میں حیرت کم اور امید زیادہ ہے، جن کی آواز میں لرزش ناپید اورجلال رقصاں ہے اور جو منزل کو گنگناتے ہوئے برق رفتاری سے دیوانہ وار دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ یہ مستقبل سے آشنائی کا معجزہ ہی مستقبل کے خال و خد سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی جسارت عطا کرتا ہے۔ زندگی تو سب کی گزر ہی جاتی ہے مگر مارکسی سائنس زندگی گزارنے کا فن ہدیہ کرتی ہے، تکلیف کی معراج پر مسکرانا سکھاتی ہے اور تاریخ سے سیکھ کر نئی تاریخ رقم کرنے کا گُر عطا کرتی ہے۔
اس کتاب کے پہلے باب میں ہی ان دو سالوں کے بارے میں کچھ یوں پیش گوئی کی گئی تھی ”پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان سالوں میں انتہائی حیران کن اور غیر متوقع واقعات رونما ہوں گے“۔ یہ پیش گوئی نہ صرف من و عن درست ثابت ہوئی بلکہ ان واقعات کا حجم اور دائرہ اثر لگائے گئے اندازے سے بھی کہیں بڑھ کر ثابت ہوا۔ یہ د و سال کئی حوالوں سے جدیدانسانی تاریخ کے انتہائی متلاطم اور تہلکہ خیز سال قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ 2019ء کا سال گزشتہ ایک دہائی سے چلے آ رہے معاشی تناؤ کے باعث بہت سے سماجوں میں غیر معمولی سیاسی اتھل پتھل اور اس کے نتیجے میں عوام کی وسیع تر پرتوں کی سیاست میں دلچسپی کے حوالے سے ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ عراق، لبنان، سوڈان، ہانگ کانگ، فرانس، چلی، ایکواڈور، ایران اور بھارت سمیت دنیا بھر میں عوامی تحریکیں اور انقلابات سیاسی افق پر نمودار ہوئے۔ یہ واقعات جہاں ایک خاص حد تک متحرک عوامی شعور کا اظہار تھے وہیں عوامی شعور کی محدودیت پر فیصلہ کن وار بھی تھے۔ اس عمل کو کورونا وبا نے وقتی تعطل کا شکار کر دیا۔ ایسا ہی ہوتا ہے، کوئی بھی عمل خطِ مستقیم میں یکساں رفتار اور کردار سے جاری نہیں رہ سکتا۔ 2020ء کو سماجی حوالے سے انتہائی پر آشوب اور آسیب زدہ سال قرار دیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ پوری صدی میں جنگ کے علاوہ اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں کسی ایک سال تو کیا ایک دہائی میں بھی نہیں ہوئی ہوں گی۔ وہ آسیب جو اتنے انسانوں کو نگل گیا، لاکھوں گھرانے اجاڑ گیا اور ابھی تک اجاڑ رہا ہے، وہ کورونا وائرس نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی لاش کا تعفن ہے جس کو برداشت کرنے کی سکت انسانی پھیپھڑوں میں نہیں ہے اور عوام کا دم گھٹ رہا ہے۔ اور بدقسمتی سے اس لاش کو دفنانے والے گورکن ابھی مناسب اور موزوں اوزار سے محروم ہیں۔
گزشتہ آسیب زدہ سال میں صرف وبا سے 19 لاکھ کے لگ بھگ لوگ لقمہئ اجل بنے اور 8 کروڑ سے زائد لوگ اس مرض میں مبتلا ہوئے اور اربوں انسان موت کے خوف کی وجہ سے ایک سے زیادہ دفعہ مر مر کر زندہ لاشوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ موت کا یہ کھلواڑ صرف تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک تک محدود نہیں تھا بلکہ اس بار اس نے ان جدید ترقی یافتہ ممالک کو اپنا مرکز بنایا جنہیں ہمارے لبرل ناقدین سرمایہ دارانہ نظام کی تخلیق کردہ جنت کے نمونے کے طور پر پیش کیا کرتے ہیں اور جو، بلاشبہ، لبرل ڈیموکریسی کے مراکز اور عملی نمونے ہیں۔ امریکہ میں اب تک 5 لاکھ 62 ہزار، فرانس میں 98 ہزار، برطانیہ میں 1 لاکھ 27 ہزار، اٹلی میں 1 لاکھ 14 ہزار، سپین میں 76 ہزار، جرمنی میں 78 ہزار، سویڈن میں ساڑھے 13 ہزار اور حتیٰ کہ سوئٹزرلینڈ جیسے ملک میں بھی لگ بھگ 10ہزار انسان اس آدم خور وائرس کے عذاب کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ تو کیا لبرل ڈیموکریسی محض تماشائی بنی رہی؟ ہر گز نہیں بلکہ اس نے اپنا تاریخی فریضہ پوری دلجمعی سے ادا کیا اور سرمایہ داروں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے عوام کے خون پسینے کی کمائی کو پانی کی طرح بہا دیاگیا۔ سی این این کی 27 مارچ 2021ء کی ایک رپورٹ کے مطابق سرمایہ داروں کو وبا کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے پہنچنے والی معاشی گزند سے نبردآزما ہونے کے لیے دیئے جانے والے بیل آؤٹ کا حجم پہلے چار ماہ میں ہی 7 ٹریلین ڈالر (سات ہزار ارب ڈالر) تک پہنچ چکا تھا۔ 17 نومبر کو سی این این نے رپورٹ کیا کہ بیل آؤٹ کا حقیقی حجم عالمی سطح پر 19.5 ٹریلین ڈالر سے بڑھ چکا ہے اور اس کے ابھی مزید اوپر جانے کے امکانات ہیں۔ اس وقت دنیا کے کل جی ڈی پی کا تخمینہ 142 ٹریلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ اس حساب سے گزشتہ برس سرمایہ داروں پر نچھاور کی جانے والی کل رقم عالمی جی ڈی پی کے 15 فیصد کے لگ بھگ بنتی ہے اور یہ سلسلہ ابھی تھمنے والا نہیں ہے۔ صرف امریکہ میں یہ بیل آؤٹ اور قرضے وغیرہ ملا کر 4 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ یہ اسی ریاست کی سخاوت ہے جسے ہمارے لبرل ناقدین کے خیال میں کسی بھی قیمت پر معیشت میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ضرورت پڑنے پر ”منڈی کا ان دیکھا ہاتھ“ ریاست کے سامنے گڑگڑانے اور بھیک مانگنے سے کبھی گریز نہیں کرتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ گڑگڑاہٹ محض دکھاوا ہی ہوتی ہے اور اصل میں یہ نام نہاد قومی خزانے ہمیشہ سرمایہ داروں کی جیبوں میں ہی پڑے ہوتے ہیں۔ یہی ہے ریاست کا حقیقی کردار جسے لبرل ازم کا چوغہ پہنا کر ہمیشہ چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
گزشتہ سال کو خاص طور پر انتہائی واہیات قسم کی توہمات سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ کچھ نادان دوست تو اسے منحوس سال قرار دے رہے تھے۔ ہمیں ان سے بے حد ہمدردی ہے کیونکہ وہ 2020ء کے اختتام پر سکھ کا سانس لے رہے ہیں کہ ”جان بچی، سو لاکھوں پائے“۔ ہم تو انہیں بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو محض ابتدا تھی آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ 2021ء کا دھماکے دار آغاز ہی بتا رہا ہے کہ استحکام اور اطمینان چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے ملنے والے نہیں۔ آرام اور سکون کی زندگی کا خواب دیکھنے والے غلط عہد میں پیدا ہوئے ہیں۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں امریکہ میں ہونے والے واقعات نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقت کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کر دیا ہے۔ عظیم مارکسی استاد لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ ”امریکی سامراج وہ دیوہے جس کے پاؤں ریت کے بنے ہوئے ہیں“۔ اگر تاریخی اعتبار سے امریکی سامراج اور اس کے پیشرو برطانوی سامراج کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ دونوں سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا کے مختلف مراحل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ٹراٹسکی نے بجا طور پر نشاندہی کی تھی کہ امریکی حکمران طبقے نے اس وقت عالمی سرمایہ داری کی نکیل سنبھالی تھی جب سرمایہ دارانہ نظام کا ترقی پسندانہ کردار آخری سانسیں لے رہا تھا۔ جہاں ایک طرف فاسٹ فوڈ، پاپ میوزک اور پورن انڈسٹری کی شکل میں امریکی سامراج کا ثقافتی اور جمالیاتی افلاس جھلکتا ہے، وہیں ”نیو لبرل ازم“ امریکی سامراج کی معاشی جارحیت کی پیداوار تھا۔ دنیا بھر میں اس معاشی و ثقافتی یلغار نے بحیثیتِ مجموعی سرمایہ دارانہ نظام کی عدم تعقلیت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی تھی۔ نیو لبرل ازم کو معاشی دہشت گردی کہا جائے تو ہر گز غلط نہ ہو گا۔ لیکن، چونکہ، وقتی طور پر اس سے ترقی کی شرح میں شماریاتی اعتبار سے بہت تیزی آئی تھی، اسی لیے اسے نسلِ انسانی کی ہزاروں سالہ اجتماعی مشقت کا نچوڑ قرار دے دیا گیا تھا۔ انسانی تاریخ کے خاتمے کے نظریئے کی تخلیق، ترویج، تشہیر اور تیقن کے لیے جس درجے کی عدم تعقلیت اور جس پائے کا فکری تعفن درکار تھا وہ صرف اور صرف اسی معاشی دہشت گردی کی بنا پر ہی ممکن تھا۔ گزشتہ تین دہائیوں کی معاشی مہم جوئیوں کے خالقوں کے دماغوں میں رینگنے والے کیڑے اسی گوبر میں ہی پیدا ہو سکتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے لبرل دانشوروں نے اس گوبر کو اپنے منہ پر مل لیا تھا اور بڑے بھرم سے ضمیر کے بازار میں اترائے اترائے پھرا کرتے تھے۔ ایک ردِ انقلابی کیفیت کی طوالت کے باعث جنم لینے والی سیاسی بے حسی اور اجتماعی فکری بانجھ پن کے باعث ان گوبر زدہ چہروں پر تھو تھو کرنے کی بجائے لوگ واہ واہ کر دیا کرتے تھے۔ ایک مشہور حکایت ہے کہ کسی بادشاہ کے جلال سے مرعوب ایک ہوشیار درزی نے جان بچانے کی غرض سے یہ دعویٰ کر دیا تھا کہ میں بادشاہ سلامت کے لیے ایسی پوشاک تیار کروں گا جس کو دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے عریانی کو ہی بادشاہ سلامت کی پوشاک بنا دیا اور دربار میں موجود اندھوں کے ہجوم میں اس پوشاک میں ملبوس بادشاہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔ لبرل معیشت دانوں، سیاسی اکابرین اور دانشوروں کی حالت بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ فرائیڈ مین کی تخلیق کردہ معاشی پوشاک کی عریانی اب عالمی پیمانے پر منکشف ہو رہی ہے۔ یہ ”واہ واہ“ کے ”تھو تھو“ میں بدلنے کا وقت ہے اور تمام لبرل خواتین و حضرات منہ پر ملا گوبر چاٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں لگے ہوئے ہیں۔
ایسے میں سیاسیات، عمرانیات، فلسفے اور ادب کے زیادہ تر طالبِ علم اور سماجی و سیاسی کارکنان کی بھاری اکثریت اس سارے عمل سے ٹھوس نتائج اخذ کرنے کے معاملے میں تذبذب کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کی سب سے بنیادی وجہ گزشتہ تین دہائیوں میں تمام سماجی علوم اور عملی زندگی سے نظریات کا بتدریج انخلا اور عملیت پسندی، کیریرازم اور شارٹ کٹ کی نفسیات کی تیزترین سرایت ہے۔ عدم تفکر اور نظریئے کی فروعیت کی اس حاوی سوچ کو معاملہ فہمی یا ”نظریہئ ضرورت“ کا نام بھی دیاجاتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں سے لے کر ٹریڈ یونین تک ہر جگہ اس کا غلبہ دیکھا جا سکتا ہے۔ سامراجیوں اور مقامی حکمرانوں کے لیے یہ موضوعی ماحول تمام تر تحریکوں اور بغاوتوں کے باوجود اپنے نظام کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے مضبوط افواج، عمومی ریاستی نظم و ضبط اور اخلاقیات سے بھی زیادہ کارآمد ہتھیار ہے۔ یہ درست ہے کہ انسانی شعور واقعات کے پیچھے پیچھے چلتا ہے مگردرست نتائج اخذ کرنے کی نااہلیت کے باعث دیو ہیکل واقعات بھی اسٹیٹس کو کے خاتمے کے لیے انتہائی مخدوش اور عاجزانہ خدمات ہی سر انجام دے پاتے ہیں۔ ماضی کی فرسودگی مستقبل میں نیا نقاب اوڑھ کر پھر مسلط ہو جاتی ہے۔ انہی خدشات کے پیشِ نظر دو سال قبل اس کتاب کی اشاعت کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ کتاب درحقیقت محض علمی موشگافی نہیں تھی بلکہ ایک دھماکہ خیز مستقبل کے تناظر کے متوازی طبقاتی جنگ میں محنت کشوں اور طلبہ کی فوجی (نظریاتی) مشق کے اہم اوزار کے طور پر شائع کی گئی تھی۔ یہ بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ جو افواج مشقیں ترک کر دیتی ہیں شکست ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں محنت کشوں کو نظریاتی طور پر کند کر دیا گیا ہے۔ ان کی تلواریں زنگ آلود ہیں۔ ایسے میں این جی اوز کے ذریعے ان کے دماغوں میں لبرل ازم انڈیلا جا رہا ہے۔ لبرل ازم کے ذریعے لبرل سرمایہ داری سے نہیں لڑا جا سکتا۔ یوں محنت کشوں کو انقلابی نظریات سے مسلح کرنے کے اپنے اہم مقصد میں یہ کتاب ایک عاجزانہ سی کوشش تھی۔ ابھی مارکسی دھارے میں شامل نوجوانوں تک ہی بمشکل اس کی رسائی ہو پائی ہے، اس میں موجود اہم مباحثے ٹریڈ یونینز اور طلبہ کے ہراول تک پہنچنا ابھی باقی ہیں۔لبرل اشرافیہ کے مچائے جانے والے شورو غل میں ایک اہم پراپیگنڈا یہ بھی شامل ہے کہ اب کتاب پڑھنے کا عہد گزر چکا ہے۔ اکیسویں صدی ڈیجیٹلائزیشن کی صدی ہے۔ بھارت کے مشہور رومانوی شاعر اور ہدایتکار گلزار نے بھی کئی دہائیاں پہلے ہی کہہ دیا تھا، ”یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی“۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی معلوم پڑتی ہے مگر لبرل اشرافیہ کی طرف سے اس پر کیا جانے والا اصرار اور استفسار درحقیقت اسی پروپیگنڈے کا ہی تسلسل ہوتا ہے کہ اب نظریئے کی ضرورت اور افادیت ہی معدوم ہو چکی ہے۔ ہم مارکس وادی ٹیکنالوجی کی اہمیت سے انکار کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صدی واقعی ڈیجیٹلائزیشن کی صدی ہے۔ لیکن ہماری رائے میں یہ ڈیجیٹلائزیشن محض سائنس کی ”داخلی ریاضت“ کا کرشمہ نہیں بلکہ نہ صرف یہ کہ یہ خود ماضی میں برپا ہونے والے عظیم انقلابات کے نتیجے میں انسانی شعور، بصیرت، تفکر اور نظریات کی جستوں کے مرہونِ منت ہے بلکہ اس نے نظریات کی ضرورت اور اہمیت کو کم کرنے کی بجائے پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا دیا ہے۔ کتابوں کی اشاعت اور خریدو فروخت بھی ڈیجیٹلائزیشن کی وجہ سے کم ہونے کی بجائے اور زیادہ بڑھے گی، ہاں البتہ اس شعبے میں بھی دیگر شعبہ جات کی طرح ظاہری تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ دی اکنامک ٹائمز کی ویب سائٹ پر 5 جنوری 2021ء کو بھارت کے پبلشنگ ہاؤسز کے کاروبار پر لاک ڈاؤن کے اثرات کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس بھارت میں کتابوں کی آن لائن خریداری میں چونکا دینے والا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ HarperCollins انڈیا کے CEO آنندتھ پدمانبھن کے مطابق 2020 ء میں حجم اور منافعوں کے اعتبار سے 2019ء کے مقابلے میں کتابوں کی خرید و فرخت میں بلند ڈبل ڈیجٹ کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ 14 نومبر 2020ء کی دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق اس سال ڈیجیٹل بکس کی خریداری کے حوالے سے برطانیہ میں تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ دنیا بھر میں یہی رجحان دیکھا جا سکتاہے۔ تیسری دنیا میں ابھی تک آبادی کی بھاری اکثریت اس ڈیجیٹلائزیشن سے بہرہ مند ہونے کی استطاعت نہیں رکھتی، لیکن درمیانے طبقے میں اس ضمن میں کافی دلچسپی دیکھی جا سکتی ہے۔ دراصل یہ حکمران طبقے کی خواہش ہے کہ لوگ غورو فکر اور سوچ وچار کرنا ہی ترک کر دیں تاکہ وہ ان کے غیر فطری اور لایعنی نظام کے بارے میں سنجیدہ سوالات کرنے کے قابل ہی نہ ہو سکیں۔ لبرل دانشور اپنے آقاؤں کی اسی خواہش کو عملی جامہ پہنانے میں جی جان سے سرگرمِ عمل رہتے ہیں اور اس قسم کے منفی پروپیگنڈے میں آئے روز اضافہ دیکھنے میں آتا رہتا ہے۔ ان لبرل خواتین و حضرات کی بھی شعوری یالاشعوری کاوش اور خواہش یہی ہوتی ہے کہ عوام علمی اعتبار سے کبھی خود کفیل نہ ہو پائیں تاکہ ’اندھوں میں کانے‘ راجاؤں کی طرح ان کی لولی لنگڑی دانش کی دھاک بیٹھی رہے اور ہر جگہ ان کا طوطی بولتا رہے۔ ان تمام کاوشوں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ جوں جوں عوام پر حکمران طبقے کی معاشی بربریت اور اقتصادی وحشت بڑھتی چلی جاتی ہے اور ردِ عمل کے طور پر عوام مزاحمت کرنے پر مائل ہوتے ہیں، توں توں ان کی نہ صرف سماجی بلکہ کائناتی اسرارو رموز کو جاننے کی طلب اور جستجو مسلسل بڑھتی چلی جاتی ہے۔یہی جستجو ریاستی اداروں کو بھی اندر سے طبقاتی بنیادوں پر منقسم کر دیتی ہے۔ ایک نامور انگریز شاعر نے کہا تھا کہ ”تمہاری طاقت تمہارے ٹینک ہیں، لیکن تمہارا المیہ یہ ہے کہ تمہارے ٹینک چلانے والے انسان ہیں جو سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں“۔ اور جب یہ سوچنے کی صلاحیت مستعمل ہو جائے تو توپوں اور ٹینکوں کے رخ بدل جایا کرتے ہیں۔ 60ء کی دہائی میں بننے والی انقلابی فلم سپارٹیکس کا ہیرو ایک غلام باغی ہے جو انقلابی جدوجہد کے ایک پڑاؤمیں دورانِ مکالمہ اپنی جاننے اور سیکھنے کی خواہش کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ ہوائیں کہاں سے آتی ہیں، سورج کہاں سے آتا اور کہاں چلا جاتا ہے۔۔۔“ ہر لڑائی، ہر مزاحمت، ہر بغاوت اور ہر انقلاب انسان کے شعور کو جلا بخشتے ہیں۔
حکمران طبقہ اپنے پالتو لبرل دانشوروں سے کہیں زیادہ چالاک اور مکار ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ان کی ثقافتی بالادستی ہی ان کے لایعنی نظام کی بقا کی ضامن ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عوام کو سوچنے، سمجھنے سے ہمیشہ باز نہیں رکھا جاسکتا۔ مشہور امریکی انقلابی رہنما ابراہم لنکن نے کہا تھا، ”کچھ انسانوں کو لمبے عرصے کے لیے اور بھاری اکثریت کو کچھ عرصے کے لیے بیوقوف بنایاجا سکتا ہے لیکن تمام لوگوں کو لا امتناعی طور پر بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا“۔ حکمران طبقہ زیادہ سے زیادہ عرصے تک لوگوں کو جاہل رکھنے کے لیے اپنے زرخرید لبرل دانشوروں سے غلیظ اور عوام دشمن نظریات کا پرچار کرواتا رہتا ہے۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں کتابیں چھپتی ہیں، جن میں کوئی کام کی بات نہیں کی جا تی۔ یونیورسٹیوں میں آئے سال نت نئے ڈیپارٹمنٹس بنتے رہتے ہیں جہاں گیان کی بجائے جہالت بانٹی جاتی ہے۔ ایسی فلمیں بنائی جاتی ہیں جن کے ذریعے عوامی شعور کو ان دیکھی قوتوں کے رحم و کرم پر رہنے کا عادی بنایا جا سکے۔ اعصاب کو معطل کر دینے والی ہیجان پرور موسیقی اوراشتعال انگیز مصوری کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان تمام فضولیات کواعلی انسانی اقدار اور اوصاف کا معیار قراردے دیا جاتا ہے۔ اسی ثقافتی بالا دستی کو بے نقاب کرنے کے لیے زیرِ نظر کتاب شائع کی گئی تھی۔ جن سیاسی و علمی حلقوں تک یہ کتاب پہنچ پائی وہاں سے اسے خاطر خواہ پذیرائی بھی میسر آئی اوراس کا پہلا ایڈیشن پہلے ہی سال ہاتھوں ہاتھ نکل گیا تھا، مگر گزشتہ برس کچھ لاجسٹک مسائل کے باعث دوسرے ایڈیشن کی اشاعت ممکن نہیں بنائی جا سکی، لہٰذا اب یہ دوسرا ایڈیشن شائع کیا جا رہا ہے تاکہ اس کتاب کے مطلوبہ اہداف حاصل کیے جا سکیں۔
دوسری اشاعت سے قبل اس کتاب کا تفصیلی ریویو کیا گیا ہے۔ انتہائی ہنگامہ خیز دو سالوں کے بعد بھی اس میں بڑے پیمانے کی ترامیم اور اضافوں کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، محض کچھ اسلوبی اور لسانی درستگیوں کے ساتھ اسے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ اس موضوع پر حرفِ آخر ہے، ہاں البتہ اسے بحث کے آغاز کے اعتبار سے ایک مؤثر مارکسی مقدمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اپنی نوعیت اور گہرائی کے باعث ان مباحث کی تشنگی اس قسم کی ہر دستاویز کے بعد کم ہونے کی بجائے ہمیشہ بڑھتی ہی رہے گی۔ اس سے پہلے شاید اس موضوع پر کوئی مفصل دستاویز ہمارے قارئین کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ اس کتاب میں جس پہلو پر سب سے کم بحث کی جا سکی وہ جمالیات سے متعلق ہے۔ اس کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ موضوع کمتر اہمیت کا حامل ہے بلکہ اس کے بالکل برعکس نظریاتی میدان میں اس کی اہمیت کئی حوالوں سے سیاسیات اور معاشیات سے بھی بڑھ کر ہے۔ دوسرے ایڈیشن میں ”آرٹ کا زوال“ نامی باب میں اضافے اور ترمیم کی گنجائش موجود تھی مگر وقت کی قلت کے باعث اس پر کام نہیں کیا جا سکا۔ یہاں صرف اتنا کہہ دینا ضروری ہے کہ کو بہ کو بلکتی ہوئی روحوں کو ایک حقیقی، انسان دوست اور دل گداز انقلابی آرٹ کی جتنی آج ضرورت ہے شاید ہی ماضی میں کبھی رہی ہو۔ انقلابی آرٹ کیا ہوتا ہے؟ جو معروضی سچائی پر چڑھے اخلاقی، آئینی، قانونی اور توہماتی غلاف کو اتار پھینکے اور سماجی المیوں کی درست عکاسی کر سکے۔ جو آرٹسٹ کی داخلی یا باطنی ترجمانی سے زیادہ اجتماعیت کا نمائندہ ہو، ایسی اجتماعیت جو فرد کی کامرانی کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہو۔ آفاقیت فن کی جبلت ہے، اسے اس سے محروم کر کے تشہیرو تزئین کے لیے تو برتا جا سکتا ہے مگر تعمیرو تسخیر کے لیے بروئے کار نہیں لایا جا سکتا۔ اسے غیر جانبداریت کے جھانسے میں مروجہ ڈھانچے کی خدمت پر مامور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ جبر اس پر آزادی کے نام پر مسلط کیاجا رہا ہے۔ ہومر سے لے کر شیکسپئر تک اور ٹالسٹائی سے لے کر کرشن چندر تک، دائمی افادیت رکھنے والا فن اور ادب ہمیشہ ”آزادانہ طور پر جانبدار“ رہا ہے۔ ادب کو غیر سیاسی کر دینے سے اس کا مقام بڑھانے کی بجائے کم کر دیا گیا ہے، اس کا حقیقی مقام سیاست کی لونڈی کا نہیں بلکہ اس کے رہنما کا ہے اور بند گلی میں پھنسی عالمی سیاست کو آج اپنے اس رہنما کی مسیحائی کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
امریکی صدر کی آشیربادمیں پارلیمان پر دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے حملے نے نہ صرف امریکی حکمران طبقے کو سکتے میں ڈال دیا ہے بلکہ عالمی پالیسی سازوں کی نیندیں اڑ چکی ہیں۔ نامور امریکی سیاست دان اور سابقہ صدر بش سینئر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ کسی ”بنانا ریپبلک“ کے مناظر لگتے ہیں۔ اس سے امریکی سرمایہ داروں کے اجتماعی خوف کی عکاسی ہوتی ہے۔ لیکن لبرل ازم کے تابوت میں یہ کوئی آخری کیل نہیں ہے۔ مارکس وادیوں نے ہمیشہ امریکی سامراج کے رجعتی اورا نسان دشمن کردار کو نہ صرف آشکار کیا بلکہ اس کے خلاف ہر ممکن مزاحمت بھی کی۔ آج کل توپاکستانی ریاست کے انتہائی دائیں بازو کی طرف سے بھی ”امریکہ کا جویار ہے، غدار ہے، غدار ہے“ کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ یہ نعرہ اس وقت مارکس وادیوں نے تخلیق کیا تھا جب یہ ریاست امریکی سامراج کی گود میں جہاد کی لوریاں سنا کرتی تھی۔ لیکن مارکس وادیوں نے ہمیشہ یہ وضاحت کی کہ امریکی سامراج کو باہر سے توڑنا ممکن نہیں ہے۔ نام نہاد سامراج مخالف کیمپ خود معاشی نوسر بازی کی دلدل میں گردن تک دھنسا ہوا ہے، اس میں اتنی سکت نہیں کہ وہ امریکی سامراج کا قلع قمع کر سکے۔ امریکی سامراج جب بھی منہدم ہو گا داخلی تضادات کی جہ سے ہو گا اور سب سے فیصلہ کن داخلی تضاد طبقاتی تضاد ہی ہے۔ اس کے تابوت میں آخری کیل امریکہ کے محنت کش ہی ٹھوکیں گے۔ امریکی محنت کش، حکمران طبقے کی اس شدید خانہ جنگی سے اہم اسباق اخذ کر رہے ہیں۔ حکمران طبقے کی یہ بے قابو ہوتی ہوئی لڑائی لیننؔ کے بقول انقلاب کی شرطِ اولین ہے۔ امریکہ کادرمیانہ طبقہ پہلے ہی بلیک لائیوز میٹر کی شاندار تحریک میں سرمایہ دارانہ نظام کی یکسانیت سے اپنی بیزاری کا سیاسی نمونہ پیش کر چکا ہے۔ واضح انقلابی پروگرام سے مسلح ایک سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی میں نیم فسطائی قسم کے عناصر سیاسی خلاکو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت سے لبرل دانشور تو بہت پہلے سے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو فاشسٹ قرار دے چکے ہیں۔ حقیقت میں اپنی تمام تر ڈھٹائی، سفاکی اور غلاظت کے باوجود نہ تو ڈونلڈ ٹرمپ فاشسٹ ہے اور نہ ہی امریکہ میں مستقبل قریب میں فاشزم کے اقتدار میں آنے کا کوئی خطرہ موجود ہے۔ فاشزم کوئی محض انسانی رویہ نہیں بلکہ ایک پیچیدہ سیاسی مظہر ہے جس کے لیے سماج میں ایک مخصوص طبقاتی توازن درکار ہوتا ہے۔ پارلیمان پر حملہ آور ہونے والے ٹرمپ کے حمایتیوں کی تعداد چند ہزار پر مشتمل تھی۔ امریکی محنت کش طبقے کا حجم اور جوبن فاشزم کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ماضی قریب میں امریکی محنت کش طبقے کو کوئی قابلِ ذکر سیاسی شکست نہیں ہوئی ہے، ہاں البتہ، دھوکے ضرور ہوئے ہیں۔ لیکن ان دھوکوں نے محنت کشوں کو پسپا نہیں کیا بلکہ سیاسی طور پر چوکنا کیا ہے۔ حالیہ سیاسی بحران کی ذمہ داری امریکی حکمران طبقے سے زیادہ اصلاح پسندوں پر عائد ہوتی ہے۔ برنی سینڈرز نے دو بار محنت کشوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ محنت کش طبقے کی اپنی الگ پارٹی کی سیاسی ناگزیریت اب آہستہ آہستہ عوامی شعور میں جڑیں پکڑ رہی ہے۔ اگر یہ پارٹی سیاسی افق پر نمودار ہو گئی تواسے ایک بڑی عوامی طاقت بننے میں زیادہ مدت نہیں لگے گی۔ اس کی تاخیر کی صورت میں بھی امریکہ میں ”اچھے دنوں“ کی طرف واپسی مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکی ہے۔
برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا بھی بالآخر اپنے انجام کو پہنچا۔ نئے سال کی ابتدا سے قبل ہی بورس جانسن نے پارلیمنٹ سے بریگزٹ معاہدے کی تصدیق کی خوشخبری نشر کرتے ہوئے بڑی بڑی بڑھکیں ماریں اور اسے ”آزادی اور خود مختاری“ کی واپسی سے تعبیر کیا۔ درحقیقت، سنجیدہ معاشی ماہرین اور خود برطانوی حکمران طبقہ بھی جانتا ہے کہ یہ بڑھکیں سوائے کتے کی طرح اپنی دم کھجانے کے اور کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ برطانوی حکمران طبقے کی مسابقت کی صلاحیت اس معاہدے کے بعد بڑے پیمانے پر سکڑے گی۔ خاص طور پر عالمی معاشی زوال برطانوی معیشت کا گلاگھونٹ کر اسے حالتِ نزع تک لے جانے کا موجب بن سکتا ہے۔ پیداواری لاگت کو کم سے کم رکھنے کے لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ محنت کشوں کی حقیقی اجرتوں میں کمی کرنا برطانوی حکمران طبقے کے لیے شرحِ منافع کو بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ محض برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہوتا جائے گا۔ برطانیہ کے محنت کشوں کو تیسری دنیا کے محنت کشوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ معیارِ زندگی پر ہونے والے یہ مسلسل حملے برطانوی محنت کشوں کو ایک طویل عرصے کے بعد پھر سیاسی میدان میں دھکیلیں گے۔ برطانیہ کی شاہراہیں، فیکٹریاں، کام کی جگہیں اورتعلیمی ادارے ایک بار پھر بیک زبان انقلابی ترانے گاتے ہوئے ایک دوسرے سے بغل گیر ہوں گے۔ یہ عمل خطِ مستقیم میں ایک ہی شدت اور حدت کی بجائے مختلف نشیب و فراز سے ہوتا ہوا آئندہ برسوں میں آگے بڑھتا رہے گا۔ باقی ماندہ یورپ کے تضادات بھی بریگزٹ کے بعد کم ہونے کی بجائے شدت اختیار کریں گے۔ حکمران طبقے کی داخلی چپقلشیں، یورپی حکمران طبقات کی تحفظاتی رقابت، مسلسل کٹوتیاں اور حسبِ ضرورت ریاستی جبر یہ تمام عوامل مل کر یورپ کی عوامی سیاسی بیداری کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ امریکہ کی طرح یورپ میں بھی مارکسی نظریات اور سوشلزم میں لوگوں کی دلچسپی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو رہا ہے۔ دائیں بازو کے پاپولزم کی طبعی عمر بھی پوری ہونے کو ہے۔ لاطینی امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ سمیت تمام خطے مختلف رفتار سے ہی سہی اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں گزشتہ چند سالوں سے سیاسی پلڑا دائیں طرف جھکا رہا ہے مگر اب مخالف سمت سے پھر تیز رفتار ہوائیں چلنا شروع ہو رہی ہیں۔ سعودی عرب سمیت خطے کی ساری رجعتی طاقتیں کمزور اور ننگی ہو رہی ہیں۔ اسرائیل اور عرب شیوخ کے معاشقوں نے عوامی شعور پر گہرے اور مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ اپنی اپنی جغرافیائی، ثقافتی اور تاریخی مخصوصیت کے باوجود تمام خطے ایک ہی منزل کے راہی بن چکے ہیں۔ سرمایہ دارانہ عالمگیریت منہدم ہو رہی ہے اور اس کے ملبے پر مزدور بین الاقوامیت کی بنیادیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ آئندہ برسوں میں ان بنیادوں پر پائیدار اور بے مثال عمارت تعمیر ہو گی۔ اس کے فنِ تعمیر کی جمالیات نئی اور حقیقی انسانی اقدار کا منبع ہو گی۔ طبقاتی جنگ اس نو آموز عشرے کے ماتھے کا جھومر بنے گی اور یہ سوشلسٹ نظریات کے احیا کا عشرہ ثابت ہو گا۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو کی اشاعت کے 172 سال بعدآج یورپ ہی نہیں ساری دنیا پر کمیونزم کا بھوت پھر سے منڈلا رہا ہے۔امریکی ریاست کے بحران نے بین الاقوامی تعلقات میں بھی بھونچال برپا کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ چین کو امریکہ کے متبادل اور ایک نئے سامراج کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ بہت سے لبرلز جو ماضی میں چینی معیشت کی ریاستی جکڑبندی کے سب سے بڑے ناقدین تھے، اب چین کو عالمی سرمایہ داری کا نجات دہندہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ اپنے مخصوص میکانکی طرزِ فکر کے باعث وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکہ کا بحران صرف امریکہ کا بحران نہیں بلکہ عالمی سرمایہ داری کا بحران ہے اور عالمی منڈی پر فیصلہ کن انحصار کے باعث چین اس بحران سے زیادہ عرصے تک محفوظ نہیں رہ سکتا۔ یہ ممکن ہے کہ یورپ اور امریکہ کی معیشتوں کے تیز ترین زوال کے مقابلے میں چینی معیشت کی سست رفتارگراوٹ ظاہری طور پر چین کی امریکہ پر برتری کے تاثر کا باعث بنے، مگر اپنے جوہر میں چینی معیشت خطرناک حد تک غیر یقینی پن کا شکار ہے۔ ماضی کی ”سوشلسٹ“ حاصلات کو محفوظ بنانے اور اسے اگلی نسل تک منتقل کرنے کے لیے چین کے محنت کش طبقے کو اقتدار ایک دفعہ پھر اپنے ہاتھ میں لینا ہو گا۔ یہ درست ہے کہ یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں چینی معیشت نے ماضی میں مجتمع کیے گئے بڑے ریزروز کے بلبوتے پر کسی حد تک بحران کے خلاف خاطر خواہ مزاحمت کی ہے مگر اس مزاحمت کی اپنی حدودو قیود ہیں۔ ہم پہلے بھی کئی دفعہ وضاحت کر چکے کہ چین نے بحران کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے اسی راستے کوچنا ہے جو، بالآخر، اسی چوراہے پر ختم ہوتا ہے جہاں آج یورپ اور امریکہ پہنچ چکے ہیں۔ قرضوں کا حجم اتنی تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ ان کے قابلِ واپسی ہونے پر بہت سے شکوک وشبہات جنم لینا شروع ہو چکے ہیں۔ اس کی واضح مثال حال ہی میں نومبر2020ء کے ماہ میں ہونے والا بانڈ ڈیفالٹ کا واقعہ ہے جس نے نہ صرف چین بلکہ دنیا بھر کی سرمائے کی منڈی میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ڈیفالٹ ہونے والے اداروں میں 11 ریاستی ادارے بھی شامل ہیں۔ چینی میڈیا گروپ کائشن کے مطابق سال بھر میں ریاستی اداروں کے بانڈ ڈیفالٹ کا اندازہ 47 بلین یوان یعنی 7.1 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ یہ چین کے مجموعی بانڈ ڈیفالٹ کا 35.05 فیصد بنتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے سبق آموز ہے جو آج بھی چین کو سوشلسٹ ملک قرار دینے سے باز نہیں آتے۔ عالمی منڈی کی فیصلہ کن سبقت میں ریاستی تحویل ایک ایسی بیساکھی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتی جو ہر قدم پرتڑختی رہتی ہے اور پھر اس کا ٹوٹ کر بکھر جانا ناگزیر ہوتا ہے۔ چین کی نام نہاد ”ملغوبہ معیشت“ بھی اب تڑخنا شروع ہو گئی ہے۔ چین نے جتنے بڑے پیمانے پر اور جتنی تیزی سے دنیا بھر میں سرمایہ کاری کی ہے، اسے عالمی معیشت کی حالیہ کیفیت میں معاشی مہم جوئی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس قسم کا ایڈہاک ازم اس صورت میں ہی مفید ہو سکتا تھا جب وقتی ٹوٹ پھوٹ کے بعد عالمی معیشت کی فوری بحالی کے امکانات موجود ہوتے۔ لیکن آئی ایم ایف سمیت تمام عالمی مالیاتی ادارے اور ماہرین ایک نئے ڈیپریشن کی ناگزیریت پر متفق دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے میں چین کا ”معاشی معجزہ“ کسی بڑے حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر چین کے اندر طبقاتی خلیج بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اصل میں چین کے اس نام نہاد معاشی معجزے کی بنیاد ہی چینی محنت کشوں کے استحصال کی مسلسل بڑھتی ہوئی رفتار پر استوار ہے۔ 11 جنوری 2011ء کو ایکسپریس کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ایک چینی کمپنی ”انپو الیکٹرک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی“ کے انتہائی وحشیانہ کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مذکورہ کمپنی نے ایک نوٹس کے ذریعے کمپنی ملازمین کوآگاہ کیا ہے کہ وہ دورانِ ڈیوٹی صرف ایک بار ہی ٹوائلٹ جا سکتے ہیں۔ دوسری بار ٹوائلٹ استعمال کرنے والے ورکر کو 20 یوآن یعنی لگ بھگ 500 روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ اس اقدام کو ملازمین کی کام چوری کے تدارک کی ترکیب بنا کر پیش کیا گیاہے۔ نجی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں میں بھی محنت کشوں کے استحصال میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے اور محنت کش اس کے خلاف منظم اور متحد بھی ہو رہے ہیں۔ ہانگ کانگ میں گزشتہ برس جو سیاسی طوفان برپا ہوا تھا وہ اور زیادہ شدت کے ساتھ آئندہ برسوں میں سارے چین کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ایسے میں آج کل چین کی مبینہ کامیابی کو سرمایہ دارانہ پالیسیوں کی طرف واپسی سے منسوب کرنے والے لبرل خواتین و حضرات پھر سے سوشلزم کی ناکامی کا راگ الاپنا شروع کر دیں گے۔ اور بائیں بازو کے چوغے میں چھپے وہ لبرلز جو آج چینی معیشت کے معجزے کو سوشلزم کی فتح قرار دے رہے ہیں، ان کی حالت دھوبی کے کتے سے زیادہ مختلف نہیں ہو گی۔
آئندہ برسوں میں دنیا بھر کے سیاسی معمول کا اندازہ بھارت کے کسانوں کی فقیدالمثال جدوجہد سے لگایا جا سکتا ہے۔ بھارت، بلاشبہ، ایک انقلابی کیفیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دہلی کی سڑکوں پر تاریخ رقم کرنے والے انقلابی کسانوں نے مودی کو فاشسٹ قرار دینے والے لبرل دانشوروں کے منہ پر تھوکا ہے۔ تاریخ کے ادنیٰ سے طالبِ علم کو بھی یقینا علم ہو گا کہ فاشزم کی سماجی بنیادیں، درحقیقت، پیٹی بورژوازی یعنی درمیانے طبقے اور بالخصوص کسانوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اس وقت بھارت کے کسانوں کی بھاری اکثریت نے مودی سرکار کے معاشی حملوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا ہوا ہے۔ 26 نومبر کے روز بھارت کے مزدوروں نے پھر ایک عظیم الشان عام ہڑتال کی ہے۔ یہ گزشتہ چند سالوں میں تیسری بڑی عام ہڑتال ہے۔ ہر بار پہلے سے زیادہ محنت کش ان عام ہڑتالوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس بار 25 کروڑ سے زائد محنت کشوں نے اس عام ہڑتال کو کامیاب بنایا۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارتی محنت کشوں نے عام ہڑتال کو اب سالانہ معمول بنا لیا ہے۔ یہ معمول دوہرے کردار کا حامل ہے۔ اس کا مثبت پہلو ظاہر ہے محنت کشوں کے اتحاد میں مسلسل ہونے والی مضبوطی اور یگانگت ہے جبکہ دوسری طرف ٹریڈ یونین قیادت کی نظریاتی کمزوری اس کا منفی پہلو ہے جو ہر بار وقتی طور پر محنت کشوں میں مایوسی اور شکست خوردگی کا ماحول پیدا کر کے سامراجیوں اور ان کے گماشتے مقامی سرمایہ داروں کے نئے حملوں کے لیے فضا کو سازگار کرنے کا موجب بنتا ہے۔ ان ٹریڈ یونینوں کی قیادت پر زیادہ تر گلے سڑے سٹالنسٹ براجمان ہیں اور یہ سٹالنسٹ پارٹیوں کی قیادت اب معروضی طور پر بھارت میں انقلاب کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ اس بار بآسانی کسانوں کی حالیہ تحریک کو محنت کشوں اور طلبہ کے ساتھ جوڑ کر نہ صرف مودی سرکار کو فیصلہ کن شکست دی جا سکتی تھی بلکہ بھارت کی تعفن زدہ سرمایہ داری پر بھی فیصلہ کن وار کیا جا سکتا تھا۔ مگر بھارتی سٹالنسٹ پارٹیاں، درحقیقت، لبرل معیشت پر ایمان لا چکی ہیں اور انقلاب کی مرحلہ واریت سے بھی توبہ تائب ہو کر اب بتدریج ترقی کو ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ سمجھتی ہیں۔ ایسے میں کسانوں، طلبہ اور محنت کشوں کی تحریکوں کا سفر انتہائی پُر پیچ اور گنجلک ہو گا۔ پسپائیاں اور انگڑائیاں ایک دوسرے کی جگہ لیتی رہیں گی لیکن محنت کشوں کی نئی قیادت اسی گنجلک مسافت کے دوران ہی ابھر سکتی ہے۔
پاکستان میں تاحال محنت کشوں کی کوئی ملک گیر تحریک انہیں ابھر سکی لیکن اس سمت میں ان گزشتہ دو سالوں میں اہم پیشرفت ہو ئی ہے۔ گزشتہ برس اسلام آباد کی سڑکیں وقفے وقفے سے احتجاجی محنت کشوں کے قدموں تلے لرزتی رہیں۔ بالخصوص اکتوبر کے مہینے میں اساتذہ اور کلرکوں سمیت دیگر سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد نے دو بار دارالحکومت کا رخ کیا۔ قیادت کے تذبذب کے باوجود محنت کشوں کا بین الصوبائی اتحاد طبقاتی شعور کے اہم ارتقائی مرحلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ریلوے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی سمیت بہت سے اداروں کے بھی چھوٹے بڑے احتجاج یکے بعد دیگرے دیکھنے میں آتے رہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی بڑے پیمانے پر ہونے والی برطرفیوں کے خلاف محنت کشوں نے ملک کے مختلف شہروں میں قابلِ ذکر مزاحمت کی۔ کورونا لاک ڈاؤن کے دنوں میں ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دو کروڑ سے زائد محنت کشوں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ لاک ڈاؤن کے بعد بھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ اب تک کئی کروڑ محنت کش بیروزگار ہو چکے ہیں اور سینکڑوں اداروں کی نجکاری بہت جلد بازی میں کی جا رہی ہے جس کے باعث لاکھوں محنت کش مزید بیروزگار ہو جائیں گے۔ پاکستان اسٹیل سے حال ہی میں ساڑھے چار ہزار ملازمین کی جبری برطرفی کے احکامات صادر ہو چکے ہیں۔ ملازمین نے اس کے خلاف مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے مگر سندھ حکومت اپنی مخصوص ”جمہوری“ اور ”آئینی“ چالبازیوں سے تحریک کو تھکانے اور بھٹکانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ ریلوے کے محنت کشوں نے بھی ممکنہ نجکاری کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ اس حوالے سے مختلف ٹریڈ یونینز، ایسوسی ایشنز اور پہلے سے موجود اتحادوں نے نجکاری کے خلاف یکجان ہو کر یک نکاتی عملی اتحاد کی طرف پیش رفت شروع کر دی ہے۔ جوں جوں تحریک شدت پکڑے گی زیادہ لڑاکا قیادتیں متذبذب اور موقع پرست قیادتوں کو روندتی ہوئی آگے بڑھیں گی اور نہ صرف ریلوے بلکہ ملک بھر کی عمومی مزدور تحریک پر حوصلہ افزا اثرات مرتب کریں گی۔ 10فروری کو ایک دفعہ پھر اساتذہ اور کلرکس سمیت سرکاری ملازمین پر مشتمل اگیگا نامی اتحاد نے معاشی قتلِ عام کے خلاف اسلام آباد کا رخ کیا۔ان محنت کشوں نے تمام تر ریاستی جبر کا جس جرأت اور بہادری سے مقابلہ کیا، اس نے آئی ایم ایف کی دم چھلہ اس حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اوروزیر داخلہ کو محنت کشوں کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا حکم نامہ جاری کرنا پڑا۔ یہ گزشتہ تین سے چار دہائیوں میں محنت کشوں کی ایک اہم فتح ہے جس نے مزدور تحریک کے نئے مرحلے کا آغاز کر دیا ہے۔ اب یہ لڑائی تمام صوبوں کا رخ کر چکی ہے۔ این جی اوز نے مالکان اورریاستی اداروں کی کاسہ لیسی کو ہی مزدور تحریک کا نصب العین قرار دے دیا تھا۔ ان کے خیال میں سرمایہ دار اور ان کی ریاست اتنے طاقتور ہیں کہ ان سے لڑنا نری مہم جوئی کے علاوہ اور کچھ نہیں لہٰذا ان کے ساتھ ’بات چیت‘ سے ہی محنت کشوں کو کچھ مل سکتا ہے۔ اور اس قسم کی بات چیت کے لیے ٹریڈ یونینز کو این جی اوز کی بی ٹیم کے طور پر ہی کام کرنا ہو گا۔ 10 فروری کی کامیابی نے اس سارے بیانیے کو سر کے بل کھڑا کر دیا ہے۔ محنت کشوں نے سیکھا ہے کہ جرأت مندانہ لڑائی کے علاوہ آگے بڑھنے کا اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ تحریک کے ہر نئے مرحلے پر محنت کشوں کو مزید کئی اہم اسباق سیکھتے ہوئے اپنی صفوں کو ان کالی بھیڑوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاک کرنا ہو گا۔ عوام کی وسیع تر پرتوں کی قیادت کرنے کے لیے محنت کش طبقے پر یہ داخلی تطہیر واجب ہو چکی ہے۔
سندھ اور پنجاب میں کسانوں میں بھی شدید غم و غصہ اپنی انتہاؤں کو پہنچ رہا ہے۔ سندھ میں حال ہی میں کسانوں میں سیاسی درجہ حرارت میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس سے قبل پنجاب میں بھی کسان بڑی تعداد میں احتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ بھارت کے کسانوں کے ٹریکٹر مارچ کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں بھی کسان تنظیمیں متحرک ہوئی ہیں اور اسی قسم کے مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔ مگر یہ ابھی آغاز کا بھی آغاز ہے۔طلبہ نے بھی آن لائن کلاسز کے کھلواڑ کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا۔ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد تعلیمی ادارے کھلتے ہی ملک کے تمام بڑے اداروں میں طلبہ نے بھرپور احتجاج کیا۔ ایک ملک گیر طلبہ تحریک کے خوف سے پھر تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے مگر طلبہ سے بھاری فیسیں وصول کی جا رہی ہیں جس کے باعث طلبہ کے غصے اور برداشت پر دباؤ مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ آئندہ برس طلبہ کی ایک بڑی تحریک کے امکانات روشن ہو رہے ہیں۔
مذکورہ بالا پاکستان یہاں کے لبرل خواتین و حضرات کی نظروں سے یکسر اوجھل ہے۔ ان کے کسی تجزیئے، کسی تحریر، کسی تقریر میں اس پاکستان کا ذکر تک نہیں ملتا۔ ان کی امیدوں کا محور یہاں کی نام نہاد اسٹیبلشمنٹ مخالف اپوزیشن ہے۔ وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کو عوام کا نجات دہندہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ زیرِ نظر کتاب میں پہلے ہی ان کی اس کج فہمی کا تفصیلی احاطہ کیا جا چکا ہے۔ وہ آج بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں دو سال قبل موجود تھے۔ ان کے خیال میں اس ملک کا حقیقی مسئلہ فوجی آمریت اورملائیت ہے۔ پی ڈی ایم نے ان لبرلوں کے اپنے مؤقف کی نامیاتی کمزوریوں کو مزید واضح کر دیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس وقت فوجی جبر کے خلاف اس اپوزیشن الائنس میں سب سے توانا آواز مولانا فضل الرحمان کی ہے، جو عمران خان کی موجودہ حکومت پر مغرب زدہ یا لبرل ہونے کے الزامات بھی عائد کرتا رہا ہے۔ جمہوریت اور سیکولرازم، جنہیں عام طور پر بہن بھائی تصور کیا جاتا ہے، یہاں باہم دست و گریبان دکھائی دے رہے ہیں۔ لبرل دانش اس معمے کو حل کرنے سے قاصر ہے۔ وہ تبدیل شدہ عہد میں مسلسل شدت اختیار کرتے ہوئے تضادات اور اپنی ہی ضد میں بدلتے ہوئے عوامل پر رٹے رٹائے کلیے اور فارمولے مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے نام نہاد بائیں بازو کا طرزِ عمل بھی زیادہ مختلف نہیں۔ اس کتاب میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کا زیادہ تر بایاں بازو، درحقیقت، لبرلائیزڈ ہو چکا ہے۔ پی ڈی ایم نے اس مؤقف کو ایک دفعہ پھر درست ثابت کر دیاہے، جہاں لبرلز اور بائیں بازو کے مؤقف میں فرق خوردبین کے ذریعے بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں جہاں پہلے فوجی آمریت اور ملائیت کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیتے تھے اور ان کے چولی دامن کے ساتھ کو ملکی ترقی کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے، اب فوجی جبر کے خاتمے کی خوش فہمی میں اور جمہوریت کے سراب کے تعاقب میں ایک ملاں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پہلے جرنیلوں کو ان کی آئینی حدود کا پابند کر لیں پھر ملاں کو اگلے مرحلے میں دیکھ لیں گے۔ انہوں نے ایران کے انقلاب کے انتہائی اندوہناک تجربات سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ مولانا فضل الرحمان کی توروایتی سماجی حمایت اور آڈیئنس مدارس کے طلبہ تک ہی محدود رہی ہے، لیکن یہ نام نہاد لبرلز کی محبوب بورژوا پارٹیاں اسے درمیانے طبقے کی حمایت کو جیتنے کے بھرپور مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ لبرلز اس اقدام کے اس لیے بھی حامی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں عمران خان بھی مودی اور ٹرمپ کی طرح ہی فاشسٹ ہے، اس لیے اس کی حکومت گرانا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔ عمران خان کو فاشسٹ سمجھنے والوں کا فاشزم سے پہلا تعارف فضل الرحمان کے اقتدار میں آنے کی صورت میں ہی ہو گا۔ گو ابھی اس کاکوئی امکان موجود نہیں ہے۔ رہی بات جمہوریت کے استحکام کی تو پی ڈی ایم میں موجود دونوں بڑی پارٹیاں مسلسل فوجی اشرافیہ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور فوج کے اندر بھی ان کی طرف نرم گوشہ رکھنے والے جرنیلوں کی تعداد اور اعتماد مسلسل بڑھ رہا ہے۔ گلگت میں لبرلز کی قائد مریم نواز نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ وہ اس سلیکٹڈ کی حکومت کا بوریا بستر گول کر دے۔ اسی طرح، 26 مارچ کو طے شدہ لانگ مارچ پی ڈی ایم کی داخلی ناچاقیوں کی وجہ سے ممکن نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے استعفے دینے سے انکار کر دیا۔ نون لیگ اب پیپلز پارٹی پر اسٹیبلشمنٹ سے لین دین کرنے کے الزامات عائد کر رہی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کے بعد یہ لڑائی اب شدت اختیار کر چکی ہے اور پی ڈی ایم کے اس جمہوری معاشقے کے بریک اپ کے بعد لبرل حلقوں میں ایک سوگ کی سی کیفیت دیکھی جا سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرح ن لیگ بھی ’مناسب‘ وقت پر اہم سیاسی قلابازی لینے سے قطعی طور پر گریز نہیں کرے گی۔
بائیں بازو اور لبرلز کے اس روایتی تذبذب کے برعکس محنت کش طبقے، طلبہ اور کسانوں نے پی ڈی ایم کے مبینہ انقلاب کو یکسر مستردکر دیا ہے۔ ایسے میں نظریاتی بحث و مباحثے کی ضرورت، اہمیت اور افادیت پہلے سے کہیں بڑھ چکی ہے۔ یہ، بلاشبہ، ایک عہد کی دوسرے عہد میں منتقلی ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے رو بہ عمل ہے۔ عمومی نفسیات کی جڑیں اسی پرانے نظام میں پیوست ہیں جبکہ معیشت، سیاست اور معاشرت میں دیو ہیکل تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ نفسیات اور معروضی عوامل کے مابین اس کھینچا تانی کے نتیجے میں ہر طرف شدید ہیجان، بے یقینی اور عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔ لبرلز تاریخ کے اس اہم موڑ پر عوامی شعو ر کو قوم پرستی اور ”شناخت کی سیاست“ کے چنگل میں پھنسادینا چاہتے ہیں۔ وہ ”یونائیٹڈ فرنٹ“ کا شور تو مچاتے ہیں مگر عملی میدان میں مرتی ہوئی بورژوا پارٹیوں کے احیا کی سعیئ لاحاصل میں لگے ہوئے ہیں اور محنت کش طبقے کو سرمایہ داروں کی اطاعت پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں اس کتاب کی دوبارہ اشاعت کا واحد مقصد سیاسی کارکنوں اور تحریکوں کی ہراول پرتوں کو بڑی انقلابی لڑائی کی تیاری کے لیے ضروری نظریاتی مواد فراہم کرنا ہے تاکہ وہ دوست اوردشمن میں تمیز کر سکیں اور تحریک کی صفوں میں چھپی کالی بھیڑوں سے جان چھڑا کر انقلاب کے لیے تازہ دم قیادت تیار کی جا سکے۔ اس کتاب کا پیغام دو ٹوک اور واشگاف ہے۔ یہ عالمی سطح پر برپا تباہی و بربادی کے باوجود قنوطیت کو مسترد کرتی ہے۔ اس کی ایک ایک سطر میں قابلِ رشک زندگی کے خواب ہیں۔ یہ آروزمندی کی اذان ہے۔ یہ اعلان ہے کہ زندگی آج بھی خوبصورت ہے۔ اس کی خوبصورتی کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔ اس فرض کی تکمیل کے لیے بے سرو سامانی میں بھی لڑاجا سکتا ہے اور یہ ایسی پُر لطف لڑائی ہے کہ جس کے لیے جیا بھی جا سکتا ہے اور مرا بھی جا سکتا ہے۔
قدم قدم پہ منزلوں کے جھلملاتے عکس ہیں
گا رہی ہے زندگی، خواب محوِ رقص ہیں
پارس جان
کراچی، 31 مارچ 2021ء