انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں۔ انسانی سماج کی تاریخ انقلابا ت کے بغیر نا مکمل ہے۔ ایک لمبے عرصے تک مخصوص ڈگر پر چلنے کے بعد سماج ایک ایسے نکتے پر پہنچ جاتا ہے جہاں موجود سماجی رشتے اور نظریات ذرائع پیداوار اور سماج کو آگے لے جانے کے بجائے اسے پیچھے کی جانب دھکیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے میں سماج کی ایک مکمل تبدیلی کی ضرورت پیدا ہوتی ہے جس کے لیے نئے نظریات جنم لینا شروع کرتے ہیں جوسماج میں موجود تضادات کا ادراک کرتے ہوئے ان کا حل پیش کرتے ہیں۔ یہ نظریات نئے سماجی رشتوں کی پیش بندی کرتے ہیں۔ ان نظریات کو آغاز میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتاہے اور رائج الوقت دانش اور بوسیدہ نظریات انہیں بزور طاقت ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ لیکن وقت بدل چکا ہوتا ہے اورایک مکمل انقلابی تبدیلی کے لیے زمین تیار ہو چکی ہوتی ہے۔ ایسے میں نئے نظریات اگرچہ ابتدائی حالت میں مقداری طور پر انتہائی قلیل صورت میں موجود ہوتے ہیں لیکن درست ہونے اور سماج کو آگے کا رستہ دکھانے کی صلاحیت ہونے کے باعث آخرکار کامیابی حاصل کرتے ہیں جبکہ پرانے نظریات اپنی تمام تر وسعت اور طاقت کے باوجود زمین بوس ہو کر ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسا تاریخ میں کئی دفعہ ہوا ہے۔ انقلابات کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں نئے نظریات سے لیس قوتوں نے پرانے زمانے کے حاکم نظریات کو شکست فاش دی اور انسانی سماج کی ترقی کا سفر جاری رکھا۔
اٹھارہویں صدی میں انقلاب فرانس میں ایساہی سب کچھ دیکھنے میں آیا۔ انیسویں صدی کے یورپ کی تاریخ بھی انقلابات سے بھری ہوئی ہے جس میں 1871ء کے پیرس کمیون کے انقلابی واقعات نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ بیسویں صدی میں بھی انقلابات کا سلسلہ جاری رہا۔ ان میں1917ء میں برپا ہونے والا انقلابِ روس پیرس کمیون کی طرح ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ کیونکہ ماضی کے انقلابات میں ایک فرسودہ سماجی معاشی نظام کی جگہ ایک جدید سماجی معاشی نظام نے تو لے لی لیکن طبقاتی سماج کا خاتمہ نہیں ہو سکا تھا۔ ان تمام ترانقلابات میں ایک حکمران طبقے کی جگہ دوسرا حکمران طبقہ براجمان ہو گیا تھا۔ انقلابِ فرانس اور دیگر بورژوا انقلابات میں حکمران طبقے میں موجود جاگیر داروں کی جگہ سرمایہ داروں نے لے لی تھی جبکہ اس سے پہلے کے انقلابات میں غلاموں کے آقاؤں کی جگہ جاگیر دار حکمران بنے تھے۔ لیکن پیرس کمیون اور پھر 1917ء میں روس میں کسی اقلیت کی بجائے اکثریت کی حکمرانی قائم ہوئی تھی اور طبقاتی نظام کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم سمیت تمام بنیادی ضروریات کی مفت فراہمی مزدور ریاست کی ذمہ داری قرار پائی اور مظلوم قومیتوں، خواتین، اقلیتوں اور سماج کے تمام محروم حصوں کو ان کے مکمل حقوق فراہم کیے گئے۔ اس انقلاب نے گزشتہ صدی میں پوری دنیا میں اثرات مرتب کیے اور بہت سے ملکوں میں انقلابات کے ایک سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ چین سے لے کر افریقہ اور لاطینی امریکہ تک انقلابات کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے پورے کرۂ ارض کا نقشہ تبدیل کر دیا۔
سوویت یونین کے انہدام اور دیوار برلن کے گرنے کے بعد جہاں سامراجی طاقتوں نے سوشلزم کے خاتمے کا بیہودہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کیا وہاں تاریخ کے خاتمے کا ہی اعلان کر دیا۔ کہا گیا کہ اب پوری دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرمایہ داری ہی قائم رہے گی اور انسانیت کو ہمیشہ کے لیے اسی ظالمانہ اور استحصالی نظام کو بھگتنا پڑے گا۔ سوویت یونین کا انہدام درحقیقت سٹالنزم کا انہدام تھا۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والا انقلاب درحقیقت مارکسزم کے سائنسی سوشلزم کے نظریات کی کامیابی تھی۔ انہی نظریات پر سوویت یونین کی بنیادیں رکھی گئیں تھیں اور اس انقلاب کوپوری دنیا میں پھیلانے کے لیے کمیونسٹ انٹرنیشنل کی بنیاد بھی رکھی گئی تھی۔ جس کے اجلاس پہلے پانچ سالوں میں باقاعدگی سے ہر سال منعقد ہوتے رہے۔ اس دوران پوری دنیا میں کمیونسٹ پارٹیاں تیزی سے ابھرنے لگیں اور مختلف ممالک میں ہونے والے انقلابی واقعات میں مداخلت کرنے لگیں۔ لیکن اس کے باوجود جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ مغربی ممالک میں مختلف وجوہات کی بنا پر مزدور ریاست قائم نہ کی جا سکی اور ان انقلابات کو کامیابی سے ہمکنار نہ کیا جا سکا۔ اسی باعث سوویت یونین کا انقلاب تنہا رہ گیا جس کی وجہ سے بیوروکریسی کی ایک پرت ابھر آئی جس نے مزدور ریاست کو مارکس اور لینن کے نظریات سے دور کرتے ہوئے اس پر اپنے زوال پذیر نظریات کو مسلط کرنا شروع کر دیا۔ اس بیوروکریسی کی ابھرتی ہوئی پرت کا مجسم اظہار سٹالن کی شکل میں ہوا جس نے لینن کی وفات کے بعدسوویت یونین کی مزدور ریاست پر زوال پذیر بیوروکریٹک پرت کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے زوال پذیر نظریات پروان چڑھانے شروع کر دیئے۔ مارکسزم کی بنیاد محنت کش طبقے کی بین الاقوامی جڑت پر ہے لیکن سٹالن نے ’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کے غیر مارکسی نظریئے کو مسلط کیا۔ اسی طرح ٹراٹسکی کے’’ مسلسل انقلاب ‘‘کے نظریئے کو رد کیا گیا جس کے تحت ہی لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا تھااور اس کی جگہ ’’مرحلہ وار انقلاب‘‘ کے غلط نظریئے کو مسلط کیا گیا۔ اس زوال پذیر نظریئے کے تحت سٹالنسٹ پالیسیوں کے ذریعے 27-1925ء میں چین کے انقلاب کوچیانگ کائی شیک جیسے رجعتی شخص کے حوالے کر دیا گیا جس نے چین کی کمیونسٹ پارٹی سمیت پورے انقلاب کو خون میں ڈبو کر اپنی آمریت قائم کر لی۔ انہی غلط پالیسیوں کے باعث اسپین میں 1931ء سے 1936ء کے درمیان ابھرنے والے انقلاب کو کامیاب نہ کیا جا سکا جس سے فرانکو کی خونی آمریت کو بنیاد ملی جبکہ جرمنی میں سٹالنزم کی غلط پالیسیوں کے باعث محنت کش طبقے میں وسیع بنیادیں رکھنے والی سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیاں متحد نہ ہوسکیں اور ہٹلر کو ابھرنے کا موقع ملا۔ اس دوران ٹراٹسکی سمیت بالشویک انقلاب برپا کرنے والے تمام قائدین اور لاکھوں کارکنوں کو قتل کروا دیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر سٹالن نے ہٹلر کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا جبکہ جنگ کے اختتام پر برطانیہ اور امریکہ کی سامراجی قوتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا۔ اسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ایک لمبے عرصے سے غیر فعال کمیونسٹ انٹرنیشنل کو تحلیل کر کے اقوام متحدہ کے سامراجی ادارے کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نو آبادیاتی ممالک میں برپا ہونے والے درجنوں انقلابات کو ’’مرحلہ وار انقلاب‘‘ کے غلط نظریئے اور نام نہاد ترقی پسند بورژوازی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ 1960ء اور70ء کی دہائی میں بھی دنیا بھر میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے وسیع مواقع موجود تھے۔ ایران اور افغانستان سے لے کر فرانس تک محنت کش طبقہ حکمرانوں کے خلاف بر سرِ پیکار تھا۔ لیکن سٹالنزم کی مجرمانہ پالیسیوں کے باعث سرمایہ داری کا خاتمہ نہ کیا جا سکا۔ سوویت یونین کے اندر بھی منصوبہ بند معیشت بیوروکریسی کی حاکمیت کے باعث مسلسل گھٹن کا شکار تھی جو بالآخر اس کے انہدام پر منتج ہوئی۔
اسی باعث سوویت یونین کا انہدام کسی طور بھی سوشلزم کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ سٹالنزم کی مجرمانہ پالیسیوں کا انہدام تھا جس نے ایک لمبے عرصے تک مارکسزم کے درست نظریات محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں سے دور رکھے اور مسخ شدہ نظریات کا پرچار ہوتا رہا۔ سرمایہ دار طبقے اور سامراجی قوتوں نے اس موقع کو مارکسزم کے نظریات کو غلط ثابت کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور تمام تر ذرائع ابلاغ، ادب، تعلیمی درسگاہوں اوردیگر ذرائع سے یہ زہریلا پراپیگنڈا کیا کہ سٹالنزم کی بیوروکریٹک آمریت ہی درحقیقت مارکسزم اور لینن ازم ہے اور یہ تجربہ سوویت یونین میں ناکام ہو چکا ہے۔ انہوں نے یہ جھوٹ بھی پوری قوت کے ساتھ بولا کہ دنیا میں اب برائی کا منبع ختم ہو چکا ہے لہٰذا نہ صرف یہ کہ طبقاتی کشمکش ختم ہو گئی ہے بلکہ ہر قسم کے تضادات بھی حل کر لیے گئے ہیں اس لیے سرمایہ داری کبھی زوال پذیر نہیں ہو سکتی۔
اس دوران پوری دنیا میں موجود سٹالنسٹ پارٹیاں زوال پذیر ہو کر ختم ہونا شروع ہو گئیں۔ مزدور تحریک اور طلبہ سیاست میں بھی بائیں بازو کی قوتوں کو بڑے پیمانے پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اور سرمایہ داروں کی جانب سے محنت کش طبقے پر شدید ترین حملوں کاآغاز کیا گیا۔ چین کی منصوبہ بند معیشت پر براجمان بیورکریٹک پرت نے بھی اس موقع کو غنیمت جانا اور سرمایہ داری کی جانب سفر کو مزید تیز کرتے ہوئے چین میں بھی نجی ملکیت اور دیگر سرمایہ دارانہ طرز پیداوارکا آغاز کر دیا۔ پوری دنیا میں موجود انقلاب کی تڑپ رکھنے والے نوجوانوں اور محنت کشوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ اس کیفیت میں بہت سے نامور انقلابیوں نے اپنا قبلہ و کعبہ ماسکو سے تبدیل کر کے واشنگٹن کی جانب موڑ دیا اور موقع پرستی اور مفاد پرستی کی اندھی کھائی میں گرتے چلے گئے۔ بائیں بازو کی جدوجہد سے وابستہ بہت سے انقلابی سامراجی پراپیگنڈے پر ایمان لے آئے اور یہ یقین کر بیٹھے کہ اب کبھی کوئی انقلاب نہیں آئے گا اور سرمایہ داری ہی تاریخ کا آخری نظام ہے۔ اس تمام تر عرصے میں ٹراٹسکی کے سٹالنزم کے متعلق مارکسی تجزیئے اوربیوروکریٹک پرت کی موجودگی کے باعث سوویت یونین کے انہدام کی پیش گوئی بھی موجود تھی لیکن معروضی صورتحال کے باعث یہ نوجوانوں اور محنت کشوں کی وسیع پرتوں تک رسائی نہیں حاصل کر پائے تھے۔
اس صورتحال میں سامراجی قوتوں نے محنت کش طبقے پر شدید ترین حملوں کا نیا آغاز کیا اور ایک لمبے عرصے کی جدوجہد کے ذریعے انہوں نے جو حاصلات لڑ کر لی تھیں ان کا خاتمہ کر نا شروع کر دیا۔ پرائیویٹائزیشن، لبرلائزیشن اور ڈاؤن سائزنگ کے نام پر محنت کش طبقے پر شدید حملے کیے گئے۔ ان کی اجرتوں میں کمی کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر برطرفیوں اور چھانٹیوں کا آغاز کر دیا گیا جس کے نتیجے میں ہر ملک میں لاکھوں محنت کش بیروز گار ہوتے چلے گئے۔ عالمی سطح پر اسلامی بنیاد پرستی کے نام سے ایک خود ساختہ’ دشمن‘ اور ’برائی‘ کو تخلیق کیا گیا اور پھر میڈیا کے ذریعے اس غبارے میں ہوا بھرنی شروع کی گئی۔ اس کے خاتمے کے لیے ہزاروں ارب ڈالر اسلحہ ساز اداروں کے منافعوں میں جھونک دئیے گئے اور پوری دنیا میں سامراجی جنگیں برپا کر دی گئیں۔ ایک طرف افغانستان اور عراق میں لاکھوں بے گناہوں کو ان منافعوں کی ہوس میں قتل کردیا گیا اور دوسری جانب’’دہشت گردی کیخلاف‘‘ جنگ کے نام پر عوام کے بنیادی حقوق سلب کیے جانے لگے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حتمی اور آخری ہونے کا نعرہ لگانے والوں نے خود پوری دنیا کو نئے انقلابات کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا۔
اس دوران 2008ء کے عالمی اقتصادی بحران نے اس نظام کے تضادات اور اس کے کھوکھلے پن کو پوری دنیا میں عیاں کر دیا۔ دیو ہیکل بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں چند دنوں میں دیوالیہ ہو گئیں اور پورا سرمایہ دارانہ نظام لرزنے لگا۔ امریکہ سے شروع ہونے والا یہ بحران تیزی سے یورپ اور دیگر خطوں میں پہنچ گیا اور پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ گئی۔ اس دوران عوام کے ٹیکسوں کے پیسے کے ذریعے کھربوں ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج ان سرمایہ داروں کو دئیے گئے تا کہ اس نظام کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھا جا سکے۔ اس تمام تر بحران کا خمیازہ محنت کشوں کے کندھوں پر ڈال دیا گیا۔ اس بحران کے اصلی ذمہ دار بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان تھے جن کی پالیسیوں کے نتیجے میں یہ بحران آیا تھا لیکن اس کا بل عوام سے وصول کیا گیا۔ امریکہ اور یورپ میں لاکھوں کی تعداد میں محنت کش نہ صرف بیروزگار ہو گئے بلکہ ان پر ٹیکسوں کے بوجھ میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ علاج اور تعلیم سمیت تمام بنیادی سہولیات ان کی پہنچ سے دور ہوتی چلی گئی اور ہر روز کٹوتیوں کی پالیسیوں کے تحت ان پر مزید حملے کیے جاتے رہے۔ یہ تمام تر صورتحال طبقاتی کشمکش کے ایک نئے سلسلے کو ابھارنے کا باعث بنی جس کے بعد ان ممالک میں لاکھوں افراد سڑکوں پر اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتے ہوئے نظر آئے۔
2011ء میں اس صورتحال میں ایک نیا موڑ آیا جب عرب انقلابات کا آغاز ہوا۔ تیونس کے ایک گاؤں میں ایک گریجوایٹ بیروزگار نوجوان کی خود کشی نے پوری دنیا میں طوفان برپا کر دیا۔ عرب ممالک میں حالات پہلے ہی پک کر تیا ر ہو چکے تھے صرف ایک چنگاری کی ضرورت تھی جو محمد بو عزیزی کی خود سوزی نے پوری کر دی۔ چند ہفتوں میں تیونس میں تین دہائیوں سے موجود آمریت ہوا میں معلق ہو گئی اور ظالم حکمران زین العابدین بن علی14جنوری کو ملک چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ لاکھوں عوام سڑکوں پر تھے اور حکمرانوں کے مظالم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس موقع پر جب فوجیوں کو گولی چلانے کا حکم دیا گیا تو وہ بھی احتجاجی مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اگر اس موقع پر بالشویک پارٹی کی طرز پرکوئی انقلابی پارٹی موجود ہوتی تو وہاں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا تھا۔ تیونس سے انقلاب کے شعلے مصر میں داخل ہوئے تو حسنی مبارک کی آمریت لرزنے لگی۔ آغاز میں امریکہ، سعودی عرب اور دیگر سامراجی طاقتوں نے اپنے اس برسوں پرانے ساتھی کا بھرپور ساتھ دیا لیکن عوامی طوفانوں کے سامنے سامراجی طاقتیں بھی بے بس ہو گئیں۔ پورے ملک میں نوجوانوں کے ساتھ محنت کش بھی شامل ہونے لگے اور کلیدی صنعتی حصوں میں ہڑتالوں کا آغاز ہو گیا جس میں نہر سوئزکے محنت کشوں نے بھی ہڑتال کی دھمکی دے دی۔ اس کے بعد حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑ نا پڑا۔ یہ انقلابات سامراجی طاقتوں کی مصنوعی کھینچی ہوئی لکیروں کو روندتے ہوئے تمام عرب ممالک میں پھیل گئے اور ہر جگہ احتجاجی تحریکیں اور انقلابات برپا ہوئے۔ یہاں تک کے اسرائیل میں بھی بڑی تعداد میں نوجوان اور محنت کش سڑکوں پر آ گئے اور اپنے حکمران طبقے کے خلاف جدوجہدکا آغاز کیا۔ پہلی دفعہ اس خطے میں محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں نے سامراجی قوتوں کے مسلط کردہ لسانی، قومی و مذہبی تعصبات کو رد کیا اور طبقاتی جڑت کا نمونہ پیش کیا جو پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں کے لیے باعث حیرت تھا۔ مارکسی ایک لمبے عرصے سے یہ مؤقف رکھ رہے تھے کہ فلسطین سمیت پورے عرب خطے میں امن اور استحکام کا واحد ذریعہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام ہے۔ لیکن اسے نام نہاد ’’عملیت پسند‘‘ اور سامراج کے وظیفہ خوار یوٹوپیائی قرار دیتے تھے۔ لیکن ان انقلابی تحریکوں نے بائیں بازو کا نقاب اوڑھنے والے ان سرمایہ داری کے معذرت خواہوں کی سوچ پر طمانچے رسید کیے اور ایک سوشلسٹ مستقبل کی امید روشن کی۔
سامراجی قوتوں کے پراپیگنڈے پر یقین کرنے والے بہت سے دانشوروں نے لاکھوں عوام کی ان انقلابی تحریکوں کو ایک عالمی سازش قرار دے دیا اور اس بوسیدہ مؤقف پر ڈھٹائی سے اڑے رہے کہ دنیا میں انقلابات کا برپا ہونا نا ممکن ہے۔ ایک بالشویک پارٹی کی عدم موجودگی اور لینن اسٹ قیادت نہ ہونے کے باعث یہ عظیم انقلابی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں اور سرمایہ دار طبقہ کسی نہ کسی طرح دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ اقتدار جو تحریکوں کے دوران کئی ہفتوں تک گلیوں اور سڑکوں پر بکھرا ہوا تھا تاکہ کوئی انقلابی پارٹی اسے مجتمع کرتے ہوئے مزدور ریاست کے قیام اور فرسودہ سرمایہ دارانہ ریاست کے خاتمے کا اعلان کرے۔ لیکن المیہ ہے کہ ایسی کوئی منظم قوت موجود نہ تھی اور اقتدار واپس مزدور دشمن قوتوں کے پاس چلا گیا۔ لیکن ان انقلابی تحریکوں نے پورے مشرق وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کر دیا۔ سامراجی طاقتوں کے داخلی تضادات ابھر کر سامنے آئے اور سرمایہ دار طبقے کی گراوٹ کا سفر زیادہ شدت سے آگے بڑھنے لگا۔ اسی سال امریکہ میں آکوپائی وال سٹریٹ کی تحریک کا آغاز ہوا جس نے امریکی سامراج کی کوکھ میں پلنے والے تضادات کو منظر عام پر پیش کیا۔ اس تحریک سے واضح ہوا کہ دنیا کے سب سے جدید اور ترقی یافتہ ملک میں بھی کتنے بڑے پیمانے پر بے چینی اور حکمرانوں سے نفرت موجود ہے۔ اس تحریک میں نوجوانوں نے وال سٹریٹ کی حاکمیت کو چیلنج کیا اور کہا کہ ہم ننانوے فیصد ہیں اور تم ایک فیصد ہو۔ اس نعرے کے طبقاتی کردار کے باعث یہ دنیا بھر میں مقبول ہوااور امریکہ سمیت پوری دنیا میں لاکھوں افراد اس نعرے کے گرد متحرک ہونا شروع ہو گئے۔ ایک کال پر دنیا کے 900سے زائد شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جو خود ایک ریکارڈ ہے۔ اسی دوران روس میں بھی پیوٹن کے خلاف لاکھوں افراد کے مظاہرے ہوئے جس میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد جوان ہونے والی نسل نے پہلی دفعہ کسی احتجاج میں شرکت کی۔
اسی سال لیبیا میں قذافی کی چالیس سال پرانی آمریت کا خاتمہ ہوا جبکہ شام، عراق، یمن سمیت مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بحرانات، خانہ جنگیوں اور احتجاجی تحریکوں کا آغاز ہوا۔ یہ سال سعودی عرب جیسے ملک میں بھی احتجاجی تحریکوں کے حوالے سے سب سے زیادہ سرگرمی کا سال تھا۔ جس میں ٹیلی کام کے ملازمین سے لے کر اساتذہ اور دیگر شعبوں میں احتجاجوں کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ بحرین کے چھوٹے سے ملک میں بادشاہت کیخلاف ایک عوامی بغاوت کا آغاز ہوا جسے کچلنے کے لیے سعودی عرب سے فوج منگوانی پڑی جبکہ پاکستان سے بڑے پیمانے پر پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں میں بھرتیاں کر کے بحرین کی عوامی تحریک کو خون میں ڈبو دیا گیا۔ لیکن تمام تر مظالم اور ایران اور سعودی عرب کی سامراجی مداخلت کے ذریعے فرقہ وارانہ تعصب کا زہر پھیلانے کے باوجود یہ تحریک ابھی تک جاری ہے اور ان تعصبات کا مقابلہ کر رہی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں ابھرنے والے یہ طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہے اور ایک کے بعد دوسرے واقعات اس کی شدت میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ حسنی مبارک کے استعفیٰ کے بعد اخوان المسلمین کے نمائندے مرسی کو کنٹرولڈ انتخابات کے ذریعے عنان اقتدار دیا گیا۔ اس نے آتے ہی آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر سرمایہ دارانہ ریاست کو مضبوط کرنے کے اقدامات کا آغاز کر دیا۔ اس حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر پہلے سے بھی بڑے پیمانے پر انقلابی تحریک برپا ہوئی۔ ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ لوگ مصر کی سڑکوں پر نکل آئے اور سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کے خاتمے کا اعلان کیا۔ انسانی تاریخ میں کبھی اتنا بڑا احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔ لیکن المیہ ایک مرتبہ پھر یہ تھا کہ کوئی انقلابی پارٹی موجود نہیں تھی جو نئی مزدور ریاست کے قیام کا اعلان کرتی۔ لہٰذا فوج کے ذریعے دوبارہ پرانے ریاستی ڈھانچے کو استوار کیا گیا۔ اس دوران ترکی میں بھی احتجاجی تحریکوں کا آغاز ہوا اور اردگان کی مزدور دشمن رجعتی حکومت کے خلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ ترکی میں پہلی دفعہ ایچ ڈی پی کی شکل میں ایک کرد پارٹی انتخابات میں وسیع حمایت لے کر پارلیمنٹ میں داخل ہوئی۔ اس پارٹی کو اپنے سرمایہ دار مخالف پروگرام کے باعث ترک علاقوں سے بھی بڑے پیمانے پر ووٹ ملے۔ اس سیاسی اپ سیٹ کیخلاف اردگان نے زیادہ وحشیانہ طریقے سے حملے شروع کر دیئے اور کردوں کیخلاف فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا۔ اس سے خود ترکی کی ریاست شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے۔
اس دوران یورپ کا اقتصادی بحران مزید گہرا ہوتا چلا گیا اور جہاں پہلے بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی تھیں وہاں ریاستیں دیوالیہ پن کے دہانے پر آ گئیں۔ ان میں یونان سرِ فہرست تھا۔ اس تمام تر بحران کا بوجھ حکمران طبقات نے عوام پر ڈال دیا اور مہنگائی اور بیروزگاری کے بد ترین حملے کیے گئے۔ نجکاری کے ذریعے لاکھوں افراد کو نوکریوں سے برطرف کر دیا گیا اور سرمایہ داروں اور بینکاروں کو تحفظ دینے کے لیے لاکھوں محنت کشوں کو غربت کی کھائی میں دھکیل دیا گیا۔ اس کیخلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا جو جلد ہی ہڑتالوں کی شکل میں پورے ملک میں پھیل گیا۔ اس وقت محنت کش طبقے کی روایتی پارٹی پاسوک بر سر اقتدار تھی۔ جبکہ بائیں بازو کی ایک چھوٹی سی پارٹی سائریزا اس تمام تر مظالم کیخلاف آواز بلند کر رہی تھی۔ یہ سرمایہ داروں کی تمام تر دولت ضبط کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی اور یورپی یونین کی حاکمانہ پالیسیوں کو چیلنج کر رہی تھی۔ لاکھوں عوام نے ان مطالبات کی حمایت کی اور روایتی پارٹی سمیت تمام بڑی پارٹیوں کو رد کرتے ہوئے اس گروپ کے گرد جمع ہو گئے۔ چند ہی ماہ میں یہ چھوٹا سا گروپ یونان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن کر بر سر اقتدار آ گیا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اصلاح پسند قیادت سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے کی بجائے مفاہمت کے رستے پر گامزن ہو گئی۔ اور وہی سرمایہ دارانہ پالیسیاں دوبارہ عوام پر مسلط کرنی شروع کر دیں۔ لیکن اس سارے عمل میں محنت کش عوام نے اہم اسباق حاصل کیے ہیں اور اصلاح پسندی کا خصی پن سب پر عیاں ہو چکا ہے۔
یونان میں ہونے والے ان طوفانی واقعات کے اثرات پورے یورپ پر مرتب ہوئے ہیں جہاں ہر جگہ معاشی بحران کے بعد محنت کشوں کے معیارِ زندگی پر حملے کیے جا رہے تھے۔ اسپین میں روایتی سیاست پر براجمان دو بڑی پارٹیوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوا اور بائیں بازو کی ایک نئی قوت پوڈیموز کے نام سے ابھری۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی پر حاکم دائیں بازو کے بلئیرائٹ دھڑے کے خلاف جیرمی کاربن کی قیادت میں بائیں بازو کے اصلاح پسند دھڑے نے دو دفعہ کامیابی حاصل کی۔ اس دوران لیبر پارٹی کی ممبر شپ ساٹھ ہزار سے بڑھ کر پانچ لاکھ ہو گئی۔ بڑی تعداد میں حالات سے تنگ نوجوانوں اور محنت کشوں نے اس پارٹی میں شمولیت حاصل کی تا کہ گرتے ہوئے معیارِ زندگی کے خلاف بند باندھا جا سکے۔ یہ کشمکش ابھی برطانیہ میں جاری ہے۔ اس سے قبل سکاٹ لینڈ میں علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کروایا گیا جس میں عوام نے پورے جوش و خروش سے شرکت کی اور قوم پرست SNPکو بھاری تعداد میں ووٹ ملا۔ چند ماہ میں یہ پارٹی ایک چھوٹی پارٹی سے عوامی بنیادیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اورسکاٹ لینڈ کی سب سے بڑی عوامی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ اس پارٹی کے ابھار کی وجہ بھی قوم پرستی سے زیادہ گرتے ہوئے معیارِ زندگی کے خلاف رد عمل تھا جس کے حوالے سے اس پارٹی نے حکمران پارٹیوں پر شدید تنقید کی تھی۔ گزشتہ سال ہونے والے بریگزٹ کے ووٹ نے صورتحال کو مزید ریڈیکلائز کر دیا ہے اور پورے سماج میں دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم واضح ہوتی جا رہی ہے۔
یورپ میں اس وقت کوئی ایسا ملک نہیں جہاں بڑے پیمانے پر سیاسی تبدیلیاں رونما نہ ہو رہی ہوں۔ یورپی یونین مسلسل انہدام کے خطرات سے دوچار ہے اور آئے دن اس کے ٹوٹ کر بکھرنے کی پیش گوئیاں آتی رہتی ہیں۔ اٹلی کے حالیہ ریفرنڈم میں حکمران پارٹی کی شکست نے صورتحال کو مزید بحران زدہ کر دیا ہے۔ اس سال فرانس، جرمنی اور ہالینڈ کے انتخابات میں غیر متوقع نتائج کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ جہاں انتہائی دائیں بازو اور انتہائی بائیں بازو کے درمیان معرکہ آرائی ہو رہی اور پورا بر اعظم احتجاجی تحریکوں اور ہڑتالوں کی لپیٹ میں ہے۔ بیلجیم جیسے ملک میں گزشتہ دو سال میں حالیہ تاریخ کی سب سے زیادہ ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں۔
چین سمیت مشرقی ایشیاکے ممالک میں صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے چین میں ہڑتالوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور محنت کش طبقہ جدوجہد کے میدان میں اپنا قدم رکھ چکا ہے۔ کروڑوں محنت کش ہر سال گرتے ہوئے معیارِ زندگی اور ریاستی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں کر رہے ہیں جن میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ چین کی ریاست پر حکمران طبقے کی آمرانہ طرز حکومت اور آہنی گرفت کے باوجود چین کے سماج کو انقلابی طوفانوں سے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔ ایک وقت میں 13 فیصد سے زیادہ شرح سے ترقی کرنے والی سرمایہ دارانہ معیشت اب ساڑھے چھ سے بھی کم سطح پر آ چکی ہے اور اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔ ایسے میں نئی ا حتجاجی تحریکوں کا ابھرنا نا گزیر ہے جو پوری دنیا پر اثرات مرتب کریں گی۔ جنوبی کوریا میں ایک لمبے عرصے سے بر سر اقتدار حکمران جماعت کے خلاف لاکھوں افراد کے مظاہروں نے صدر پارک کو معزول ہونے پر مجبور کیا ہے اور اب اس کیخلاف کرپشن کے مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سام سنگ اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان کے خلاف بھی بد عنوانی کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں اور انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ سب خطے میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا آغاز ہے جس سے حکمران خوفزدہ ہو رہے ہیں۔ ان تحریکوں کو کچلنے کے لیے شمالی و جنوبی کوریا سمیت خطے کے دیگر تنازعات کو بھڑکانے کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے تا کہ سامراجی جنگیں برپا کر کے عوامی تحریکوں کو کچلا جا سکے۔
جنوبی افریقہ سے لے کر برکینا فاسو تک اور نائیجیریا سے لے مراکش تک یہ بر اعظم بھی احتجاجی تحریکوں اور انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں ہے۔ برکینا فاسو میں عوام نے بر سر اقتدار فوجی آمریت کا تختہ ایک عوامی تحریک کے ذریعے الٹ دیا اور تھامس سنکارا کے انقلابی نظریات کی گونج پورے بر اعظم میں دوبارہ سنائی دینے لگی۔ جنوبی افریقہ میں بر سر اقتدار بائیں بازو کی روایتی پارٹیوں کے خلاف نفرت کا لاوا مسلسل پک رہا ہے اور اس کی چنگاریاں مختلف احتجاجوں اور تحریکوں میں نظر آتی ہیں۔ 2013ء میں ماریکانا میں کان کنوں کے احتجاج پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں سے پورے ملک کے محنت کشوں میں غم و غصہ نظر آیا تھا۔ اب وہاں فیسوں میں اضافے کیخلاف طلبہ کی ایک ملک گیر تحریک موجود ہے جسے جبر اور تشدد سے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں واضح ہو گیا ہے کہ سفید فام کی جگہ اگر سیاہ فام حکمران بنیں تب بھی محنت کشوں کی غربت اور محرومی ختم نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنا ہو گا اور رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے بالا تر ہو کر طبقاتی بنیادوں پر قوتیں منظم کرتے ہوئے انقلاب برپا کرنا ہوگا۔ نائیجیریا میں بھی پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف دو سال قبل ایک بہت بڑی تحریک ابھری تھی۔ اسی طرح دیگر تمام ممالک میں احتجاجی تحریکیں اور انقلابی بغاوتیں ابھر رہی ہیں جو ایک انقلابی پارٹی نہ ہونے کے باعث پھر حتمی کامیابی حاصل نہیں کر پاتیں۔
جنوبی ایشیا میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ ہندوستان میں گزشتہ دو سالوں میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتالیں ہو چکی ہیں۔ جس میں سولہ سے اٹھارہ کروڑ محنت کشوں نے شرکت کی اور ایک دن کے لیے پورے ملک کی تمام صنعتوں اور سرکاری اداروں کو جام کر دیا۔ بینکوں سے لے کے کوئلے کی کانوں تک اور بسوں سے لے کر ائیر لائنوں تک تمام ادارے مکمل طور پر مفلوج ہو گئے۔ ابھی تک بائیں بازو پر ایک بہت بڑا خلا موجود ہے جسے کوئی بھی رائج الوقت کمیونسٹ پارٹی پر نہیں کر رہی اور نہ ہی ان کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ اسے پر کر سکیں۔ اس دوران طلبہ کی بھی بہت بڑی تحریکیں ابھر رہی ہیں جو ریاست اور اس کی سامراجی پالیسیوں کو چیلنج کر رہی ہیں۔ کشمیر میں تاریخ کی سب سے بڑی بغاوت جاری ہے جو عوامی بنیادیں حاصل کر چکی ہے۔ انتہائی کم عمر کے نوجوان اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر فوجی جبر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کا جوش و ولولہ اتنا بلند ہے کہ کوئی بھی موجودہ سیاسی پارٹی ان کی قیادت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور نوجوان انہیں رد کر کے انقلابی متبادل تلاش کر رہے ہیں۔
اس تمام تر صورتحال میں امریکی صدارتی انتخابات نے ایک معیاری جست لگائی ہے اور پوری دنیا میں سیاسی و معاشی صورتحال کو مزید بڑے بحرانوں میں دھکیل دیا ہے۔ جب امریکہ میں 2016ء کے صدارتی انتخابات کے لیے دوڑ کا آغاز ہوا تو ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ہیلری کلنٹن اور ریپبلکن کی جانب سے جارج بش کا بھائی جیف بش مضبوط امیدوار تھے۔ تمام تر میڈیا اور تجزیہ نگار ان انتخابات کو بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے چلے آرہے انتخابات کی طرح کی معمول کی کاروائی کے طور پر لے رہے تھے۔ جس میں سرمایہ دار طبقے کے مختلف دھڑے ایک یا دوسرے امیدوار کی حمایت کرتے ہیں۔ اور جو زیادہ بڑے سرمایہ داروں اور ان کی فنڈنگ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہی جیت جاتا ہے۔ ٹی وی چینلوں، اخبارات، مختلف رائے عامہ کے سروے عوام کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں اور انہیں باور کروایا جاتا ہے کہ انہوں نے جمہوری طریقے سے اپنا نمائندہ منتخب کر لیا ہے۔ جبکہ درحقیقت دونوں امیدوار ہی سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
لیکن اس دفعہ یہ انتخابات غیر معمولی نوعیت اختیار کر گئے جس کی وجہ سماج میں پکنے والی نفرت کا لاوا تھا جو کسی سیاسی موقع کی تلاش کر رہا تھا۔ بر نی سینڈرز نے جب سوشلزم اور ’’سیاسی انقلاب‘‘ کے نام پر اپنی کمپئین کا آغاز کیا تو ہر شہر میں چند درجن لوگ ہی اسے سننے کے لیے آتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے نعروں کو زیادہ بائیں جانب موڑا اور حکمران طبقے، وال سٹریٹ اور سرمایہ دارانہ نظام پر شدید حملے شروع کر دئیے۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ اس کی انتخابی مہم کا حصہ بنتے چلے گئے۔ اس کی مہم میں فنڈنگ بھی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بجائے عام لوگ کر رہے تھے۔ جو چند سو ڈالروں سے لے کر چند ہزار ڈالر اس کی مہم کے لیے جمع کروا رہے تھے۔ ان لوگوں کی فنڈنگ سے اسے کروڑوں ڈالر فنڈ کی صورت میں حاصل ہوا جو اس کی وسیع ترین حمایت کا ثبوت تھا۔ اس کمپئین سے نہ صرف ہیلری کلنٹن اور اس کے حمایتی بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں شدید خطرے کا شکار تھیں بلکہ امریکی ریاست بھی برنی سینڈر سے شدید خطرہ محسوس کرنے لگی۔ نیویارک میں جب اس کے جلسے میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ افراد کے درمیان لوگوں نے شرکت کی تو پوری ریاست لرزنے لگی اور اس پر دوڑ سے باہر نکلنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا گیا۔ برنی سینڈرز اپنے اصلاح پسندانہ خصی پن کے باعث اس دباؤ کا سامنا نہ کر سکا۔ آخر کار ایک فراڈ کے ذریعے ڈیموکریٹک پارٹی کے جعلسازی پر مبنی داخلی انتخابات کے نتائج کے ذریعے ہیلری کلنٹن ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار بن کر ابھری۔ برنی سینڈرز کے پاس موقع تھا کہ وہ الگ پارٹی بنا کر یا آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لیتا اورتین صدارتی امیدواروں کی موجودگی میں اس کے جیتنے کے بڑے مواقع موجود تھے۔ لیکن اس نے ہیلری کلنٹن کی حمایت کر کے اپنے پروگرام اور لاکھوں امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں سے غداری کی جس کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے انتخابات میں ووٹ ہی نہیں ڈالا۔
دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے انتہائی دائیں بازو سے امریکی اسٹیبلشمنٹ اور حکمران طبقے پر حملے کرنے شروع کر دئیے اور ایک بالکل غیر روایتی انداز میں تقریریں شروع کر دیں جس میں امریکی پالیسیوں کا مذاق اڑایا جاتا۔ آغاز میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اسے ہنسی مذاق میں اڑا دیا گیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس نے نعرہ دیا کہ وہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائے گا۔ اس نے کہا کہ وہ دنیا میں جاری امریکہ کی غیر ضروری مداخلتوں کا خاتمہ کرے گااور جو روزگار صنعت کے چین میں منتقل ہونے سے ختم ہوئے ہیں انہیں واپس لائے گا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ دوسرے ممالک سے آنے والے محنت کش امریکی محنت کشوں کا روزگار چھین رہے ہیں اس لیے وہ باہر سے آنے والے لوگوں پر پابندی لگائے گا۔ خصوصی طور پر میکسیکو سے آنے والے مہاجرین کو روکنے کے لیے اقدامات کرے گا جس میں سرحد پر ایک دیوار بھی تعمیر کی جائے گی۔ بیروزگاری اور گرتے ہوئے معیار زندگی سے تنگ بہت سے لوگوں کو ٹرمپ کے اس انتہائی دائیں بازو کے زہریلے پروگرام میں امید نظر آئی۔ اس دوران ٹرمپ امریکہ کے حکمران طبقے کو بھی سخت نا اہل اور نکما قرار دے رہا تھا اور ان پر تمام مسائل کی ذمہ داری ڈال رہا تھا۔ اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ عوام پر ٹیکسوں میں کمی کرے گا اور ساتھ ہی سرکاری سطح پر بڑے بڑے منصوبے شروع کرے گا تا کہ روزگار کے مواقع میسر آ سکیں۔ امریکی معیشت کو دیکھتے ہوئے واضح تھا کہ یہ تمام تر پروگرام ناقابل عمل ہے اور امریکی ریاست پہلے ہی کھربوں ڈالر قرضے میں ڈوبی ہوئی ہے جس میں بڑے منصوبے شروع کرنا ممکن نہیں۔ لیکن ٹرمپ اس تمام تر جھوٹ کو پرفریب انداز میں اپنی تقریروں میں بیان کرتا رہا جس کے باعث اس کی حمایت میں اضافہ ہوتا گیا اور ری پبلکن پارٹی کے دیگر تمام امیدوار ایک ایک کر کے دوڑ سے باہر ہوتے چلے گئے۔ اپنی کمپئین میں اس نے نسل پرستی، خواتین کے حوالے سے انتہائی غلیظ زبان اور مذہبی تعصبات کو بھرپور استعمال کیا اور انتہائی دائیں بازوکی نعرے بازی جاری رکھی۔ اس کی کمپئین خود ری پبلکن پارٹی کے لیے بھی ناقابل قبول تھی اور اس پارٹی کے تمام بڑے لیڈروں نے ٹرمپ کی شدید مذمت کی اور اسے دوڑ سے دستبردار ہونے کے لیے کہا۔ ایک موقع پرری پبلکن پارٹی کے پچاس کے قریب اہم قائدین نے ایک کھلا خط لکھا جس میں ٹرمپ کی شدید مذمت کرتے ہوئے ووٹروں کو اس کیخلاف ووٹ ڈالنے کی اپیل کی گئی۔ امریکی ریاست اور اسٹیبلشمنٹ بھی ایسے شخص کے امریکی صدر بننے کے امکان سے خوفزدہ ہو گئی اور پوری قوت سے ہیلری کلنٹن کی حمایت شروع کر دی گئی۔ تمام بڑے بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، میڈیا گروپوں اور ریاستی اداروں نے کلنٹن کو جتوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ رائے عامہ کے مختلف سروے میں بھی دھاندلی کروائی گئی اور یہ نتائج نکالے گئے کہ کلنٹن کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اسی طرح اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینلوں پر اس کے جلسوں کی زیادہ کوریج کی گئی اور دکھایا کہ کتنی بڑی تعداد میں لوگ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس تمام ترپراپیگنڈے سے کلنٹن مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ بن کر ابھری جس کے باعث عوام میں اس کیخلاف نفرت مزید بھڑک اٹھی اور انہوں نے حکمران طبقے کو شکست دینے کے لیے انتہائی دائیں بازو پر کھڑے ٹرمپ کو ووٹ دے دیا۔ گوکہ ایک بڑی تعداد نے ووٹ ہی نہیں ڈالا لیکن اس کے باوجود بہت سے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں نے ہیلری کلنٹن اور حکمران طبقے سے شدید نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ٹرمپ کو ووٹ دے کر کامیاب کیا۔ بہت سے قنوطیت پرست ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں کامیابی کو رجعتیت کی کامیابی قرار دے رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک مسخ شدہ انداز میں یہ حکمران طبقے سے نفرت کا اظہار ہے۔ اس سے پہلے ہندوستان کے 2014ء کے عام انتخابات میں یہی عمل دیکھا گیا تھا جب بائیں بازو کے کسی متبادل کی عدم موجودگی میں عوام کی اکثریت نے انتہائی دائیں بازو پر موجود مودی کے ترقی اور وکاس کے جھوٹے نعرے کو ووٹ دیا اور کانگریس کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ انتخابات سے قبل ٹرمپ کو بھی اپنی جیت کا یقین نہیں تھا اور وہ واضح طور پر اظہار کر رہاتھا کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اس کو ہرانے کے لیے بہت بڑی دھاندلی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ لیکن وہ اس دھاندلی پر خاموش نہیں بیٹھے گا اور تمام تر دھاندلی دنیا کے سامنے بے نقاب کرے گا۔ لیکن جب انتخابات کے نتائج آئے تو پوری دنیا حیران رہ گئی اور ہیلری کلنٹن واضح طور پر شکست سے دوچار ہوئی۔
سرمایہ داری کے تمام تر تجزیہ نگار، دانشور، معیشت دان اور یونیورسٹیوں کے پروفیسر اس نتیجے پر شدید حیرانگی اور پریشانی کا شکار تھے۔ ان کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ امریکی عوام میں دولت مند افراد کیخلاف کتنی زیادہ نفرت موجود ہے اور سماج کتنے بڑے پیمانے پر تبدیل ہو چکا ہے۔ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے چلی آ رہی سماجی صورتحال کے اتنے عادی ہو چکے تھے کہ انہیں اس تبدیلی کا ادراک ایک بڑے دھچکے کے ذریعے ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے پاس سماج کو سمجھنے کا جو نظریہ موجود ہے وہ کسی تبدیلی یا تضاد کو تسلیم ہی نہیں کرتا اس لیے وہ اس سارے عمل کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں۔
ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد نہ صرف امریکی حکمران طبقے میں تمام تر تضادات کھل کر سامنے آ گئے ہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک لمبے عرصے سے موجود ورلڈ آرڈر بکھر چکا ہے۔ ٹرمپ کی حلف بردار ی سے پہلے ہی اوباما نے روس کے ساتھ تنازعے کو مزید بھڑکانا شرو ع کر دیا۔ سی آئی اے اور ٹرمپ کے درمیان سر عام گالم گلوچ اور الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پولینڈ میں روسی سرحد پر امریکی فوجی دستے تعینات کر دئیے گئے۔ اسی طرح دوسرے بہت سے اقدامات کیے گئے تا کہ ٹرمپ کو اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے سے روکا جا سکے۔ جبکہ اسی دوران ترکی میں روسی سفیر کے قتل کا اندوہناک واقعہ بھی رونما ہوا جس نے عالمی سطح پر موجود کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا۔ اسی طرح امریکی ریاستی اداروں کو مضبوط کیا گیا تا کہ فرد واحد خواہ صدر ہی کیوں نہ ہو ان پر اپنی مرضی مسلط نہ کر سکے۔ لیکن ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد یہ تمام اقدامات ہوا میں معلق ہو گئے۔ ریاستی ادارے پہلے ہی بحران کے باعث زوال کا شکار تھے اب ان کے تضادات مزید ابھر کر سامنے آنا شروع ہو گئے۔ لیکن سب سے بڑا رد عمل عوام کی جانب سے سامنے آیا جو لاکھوں کی تعداد میں ٹرمپ اور امریکی حکمران طبقے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ کسی بھی امریکی صدر کی حلف برداری کیخلاف اتنے بڑے مظاہرے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ اس کے بعد خواتین کے حقوق کے دفاع کے لیے اس سے بھی بڑے مظاہرے ہوئے جس میں ایک اندازے کے مطابق پورے امریکہ میں چھیالیس لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ امریکہ سمیت دنیا کے چھ سو اہم شہروں میں یہ احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ نیویارک ائیر پورٹ پر تو لوگ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ریاستی اہلکاروں سے گتھم گتھا ہو گئے اور پابندی سے متاثر ہونے والے مسافروں کو زبردستی امریکہ میں داخل کروانے کی کوشش کی۔
یہ سب ایک نئے عہد کے آغاز کی غمازی کرتا ہے۔ ایک ایسا عہد جس میں پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران اور زوال کا شکار ہے۔ امریکی سامراج اپنے معاشی بحران اور مختلف ممالک میں پے در پے شکستوں کے بعد انتہائی کمزور اور خصی پن کا شکار ہے اور عالمی سطح پر تھانیدار کا کردار نہیں نبھا سکتا۔ اس عرصے میں روس اور چین سمیت مختلف ممالک مخصوص خطوں میں اپنے سامراجی مفادات کی تکمیل کے لیے جارحیت کر رہے ہیں۔ جس کے باعث ان کے نہ صرف آپس میں تضادات ابھر رہے ہیں بلکہ امریکہ کے ساتھ بھی سامراجی تضادات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں روس، ترکی، ایران، سعودی عرب، اسرائیل اور قطر سمیت مختلف ممالک کا باہمی ٹکراؤ اور تنازعہ موجود ہے جس سے پورا خطہ آگ اور خون میں دھکیل دیا گیا ہے۔ مشرقی یورپ میں یوکرائن کے مسئلے سمیت بلکان میں روس، یورپی یونین کے مختلف ممالک اور امریکہ کی سامراجی مداخلت موجود ہے۔ مشرقِ بعید میں امریکی پشت پناہی سے جاپان اور جنوبی کوریا چین کے ساتھ تنازعے کی جانب بڑھ رہے ہیں جس سے خطے کے دیگر ممالک کے حکمران بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے دوست اور دشمن کا چناؤ کر رہے ہیں۔ فلپائن جسے امریکی اپنے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں اور جو خطے میں عالمی مالیاتی اداروں کا مرکز بھی ہے اس کے موجودہ صدر نے کھل کر امریکی سامراج کی مذمت کرتے ہوئے چین کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پورے خطے میں نئے تنازعات ابھر رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں چین کی سامراجی مداخلت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور وہ بحر ہند میں پندرہ بندرگاہیں تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے جہاں چین کے بحری اڈے قائم کیے جائیں گے۔ گوادر سمیت بہت سی بندر گاہوں میں کام آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے جبکہ باقی پر کام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اس سے پورے خطے کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ لاطینی امریکہ میں بھی گزشتہ عرصے میں بہت بڑے پیمانے پر انقلابی تحریکیں برپا ہوئی تھیں جن کے نتیجے میں بائیں بازو کے پاپولسٹ بر سر اقتدار آئے تھے۔ لیکن اپنی تمام تر اصلاحات کے باوجود وہ سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے نہیں اکھاڑ سکے جس کے باعث آج وہ شدید معاشی بحرانوں کا شکار ہیں اور دائیں بازو کی قوتیں ان پر حملے کر رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایک نئی زیادہ شدید طبقاتی جنگ کے لیے میدان تیار ہو رہا ہے۔
اس تمام تر صورتحال کی بنیاد جس سرمایہ دارانہ معیشت پر ہے وہ پہلے کی نسبت زیادہ بحران کا شکار ہو چکی ہے۔ 2008ء کے بحران کے بعد برکس ممالک کے ذریعے عالمی معیشت کو سہارہ دینے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن آج یہ ممالک خود شدید بحران کا شکار ہیں اور عالمی سطح پر سرمایہ داری کے پاس کوئی امید کی کرن نہیں۔ خود بورژوا تجزیہ نگار 2008ء سے بڑے مالیاتی بحران کی پیش گوئی کر رہے ہیں جس میں چین اور یورپ سمیت پوری دنیا کی معیشتیں متاثر ہو ں گی۔ اس بحران کے سیاسی اور سماجی اثرات پوری دنیا میں کیا طوفانی تبدیلیاں لائیں گے اس کے متعلق جتنی گفتگو کی جائے کم ہے۔
نیاعہد
یہ تمام تر صورتحال واضح کرتی ہے کہ ہم جس دنیا میں آج زندگی گزار رہے ہیں وہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ تیز ترین تبدیلیاں آج کے عہد کی نمایاں خصوصیت بن چکی ہیں۔ گزشتہ عرصے میں سرمایہ داری کے منافعوں کو قائم رکھنے کے لیے کی جانے والی گلوبلائزیشن کے باعث پوری دنیا پہلے کی نسبت کہیں زیادہ جڑی ہوئی ہے۔ اسی لیے کسی ایک جگہ ہونے والی اہم تبدیلیاں پوری دنیا پر اثرات مرتب کرتی ہیں۔
اس عہد کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ سوشل ڈیموکریسی یا اصلاح پسندانہ سیاست کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سرمایہ داری کے معاشی عروج کے باعث اصلاح پسندی کے نظریات کو عوامی بنیادیں ملی تھیں اور بہت سی اصلاح پسند جماعتیں مختلف ممالک میں بر سر اقتدار بھی آئی تھیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے بہتر معیار زندگی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن آج اس نظرئیے کا کھوکھلا پن مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، بیوروکریسی اور میڈیا سمیت سرمایہ دارانہ ریاست کے تمام ادارے ایک ایک کر کے آزمائے جا چکے ہیں اور عوام کی ایک بڑی اکثریت کا ان سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ پوری دنیا میں محنت کش عوام اب پورے نظام کی تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ سوشلزم کے انقلابی نظریات پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں اور محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں میں ان نظریات کے لیے پیاس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب انتہائی رجعتی اور فاشسٹ نظریات بھی سماج کی پسماندہ پرتوں میں سرایت کر رہے ہیں اور انقلابی قوتوں کیخلاف منظم ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال میں اس عہد کے کردار کو سمجھنا اور اس کا درست تجزیہ کرتے ہوئے سائنسی تناظر تخلیق کرنا انتہائی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
اس میں سب سے پہلے توایسے قنوطیت پسند ہیں جو ان تمام ترواقعات کے باوجود اسے ایک نیا عہد تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ یہ در حقیقت ماضی کی سیاست اور سماجی حقیقتوں کو ہی ازلی اور ابدی تسلیم کر چکے ہیں اور اس سیاست کے گرد گھڑے گئے فارمولوں سے باہر ہی نہیں نکلنا چاہتے۔ ان کے نزدیک سیاست ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتی رہی ہے اور ہمیشہ ایسے ہی ہوتی رہے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کا بڑا حصہ اس عہد کی سیاست میں گزرا ہے۔ اور اب وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے ہیں جہاں وہ نئی حقیقتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پرانے عہد میں مروجہ ڈھانچے ان کے ذہنوں میں ایسے چمٹے ہوئے ہیں جیسے کسی پرانے بوسیدہ ویرانے میں مکڑی کے جالے لٹکے ہوتے ہیں۔ یہ اپنے تمام تر خیالات اور منصوبے انہی بوسیدہ خیالات کے تحت بناتے ہیں جن کا زمین پر موجود حقیقتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن کوئی انہیں ان خیالات کو ترک کرنے کا کہے تو انہیں صدمہ پہنچتا ہے اور شدید کرب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ آج کے عہد کی حقیقتوں کو انہی پرانے ڈھانچوں میں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی طرح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ امریکہ آج بھی سپر پاور ہے اور پہلے سے مضبوط سامراجی طاقت ہے۔ معاشی بحران نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا۔ اسی طرح ٹرمپ کی کامیابی کو ریپبلکن پارٹی کی معمول کی کامیابی قرار دیتے ہیں اور اس کی پالیسیوں کو ریپبلکن پارٹی کی ماضی کی پالیسیوں کے ساتھ جوڑنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس کے لیے مختلف اعداد و شمار ڈھونڈ کر نکالتے ہیں اور انہیں پوری صورتحال پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح عوام کے عظیم الشان مظاہروں اور احتجاجی تحریکوں کو معمول سے وقتی انحراف کہہ کر ہنس دیتے ہیں اور یہ کہہ کر سکون قلب حاصل کرتے ہیں کہ جلد ہی عوام کو معلوم ہو جائے گا کہ نظام کو کبھی بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور انقلابات ماضی کا قصہ ہیں۔ دوسرے الفاظ میں سامراجی پراپیگنڈے کے تحت پھیلایا جانے والا ’’تاریخ کے خاتمے‘‘ کا نظریہ دہراتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خود بہت سے بورژوا تجزیہ نگار اور سرمایہ دار ی کے دلال دانشور یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ موجودہ نظام زیادہ لمبے عرصے تک نہیں چل سکتا اور اس میں عوام کے ایک بڑے حصے کی شمولیت کے لیے کوئی طریقہ کار وضع کرنا پڑے گا۔ لیکن ماضی میں زندگی گزارنے والے نام نہاد بائیں بازو کے دانشورحکمران طبقے کے زیادہ وفادار ہیں اور کسی بھی قسم کی تبدیلی کو گنجائش دینے کے لیے ہی تیار نہیں۔
لیکن اس کی بنیاد مارکسی نظریات کی بنیادی سمجھ بوجھ کا فقدان ہے۔ مارکسزم انسانی تاریخ کا سب سے جدید نظریہ ہے جس کی بنیادمادے کی مسلسل تبدیلی کے قانون پر ہے۔ یہ تبدیلی کسی دانشور کے ذہن کی اختراع نہیں بلکہ ایک زندہ معروضی حقیقت ہے جسے مارکسزم نے دریافت کیا ہے۔ یہی تبدیلی کا قانون سماج کے ہر حصے میں بھی مسلسل جاری ہے اور مقدار کو معیار میں تبدیل کرتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے دیگر تمام فلسفے تضاد کو رد کرتے ہیں اور رسمی منطق کے ذریعے کسی بھی تضاد کے بغیر دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر اپنی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔ لیکن مارکسزم اپنی بنیاد ہی جدلیاتی تضاد کو بناتا ہے اور اس کے ذریے کائنات میں جاری ہر عمل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ سماج کے ہر شعبے میں بھی موجود تضادات کا درست طور پر ادراک حاصل کر کے ان کے باہمی تعلق کے نتیجے میں ابھرنے والی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کا تناظر تخلیق کیا جاتا ہے۔
ایک نیا عہد جس کے تمام تر خد و خال ابھی مکمل طورپر واضح نہیں ہوئے اور جو ابھی اپنی ابتدائی حالت میں ہے اس کو سمجھنے کے لیے مارکسی نظریات پر مضبوط گرفت درکار ہوتی ہے۔ پرانا عہد جس میں تما م تر عالمی تعلقات، سماجی رشتے اور طبقاتی قوتوں کا توازن طے ہو چکا تھا بہت سے افراد کی سوچ پر حاوی ہے اور وہ ایک مختلف عہد اور اس میں موجود نئے عالمی تعلقات اور طبقاتی قوتوں کے توازن کو سمجھ نہیں سکتے جب تک وہ مارکسزم کے نظریات کا گہرائی میں مطالعہ نہیں کرتے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک گھنا سایہ دار درخت موجود ہو جس کی لمبی لمبی مضبوط شاخیں چاروں طرف پھیلی ہوں اور اس پر پھول پتے پوری آ ب و تاب کے ساتھ موجود ہوں۔ اس کے مقابلے میں ایک نئے درخت کا بیج کسی کو دکھایا جائے تو وہ اسے درخت تسلیم کرنے سے انکار کر دے گا۔ اسی طرح جب کوئی بچہ جنم لیتا ہے تو اس کی پہلی سانس کے ساتھ ہی اس نئی زندگی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کی شخصیت اور اس کے مستقبل کا مکمل طور پر تعین نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ کہنا بھی سراسرغلط ہو گا کہ نئی زندگی ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔
اسی طرح یہ کہنا درست ہے کہ ہم ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں گو کہ اس کو درست طور پر سمجھنے کے لیے سطح پر جاری واقعات سے نیچے گہرائی میں جاری عوامل کا جائزہ لینا ہو گا۔ پرانی سوچیں اور خیالات واقعات کے ہتھوڑوں سے ٹوٹ کر بکھر جائیں گی۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے ایسے نظریات اور خیالات کی ضرورت پیش آئے گی جو عوام کی وسیع ترین اکثریت کی امنگوں کی درست ترجمانی کر سکیں۔ پوری دنیا میں کروڑوں لوگ اس نظام سے تنگ ہیں اور اس کے خاتمے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ وہ اس کیخلاف احتجاج بھی کرتے ہیں، ہڑتالیں کرتے ہیں اور ہر قسم کی قربانیاں دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود جھوٹے وعدوں اور طفل تسلیوں سے انکو بہلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہت سی جگہوں پر چہروں کو تبدیل کر دیا جاتا ہے لیکن نظام اسی طرح موجود رہتا ہے اور عوام کو کچلتا چلا جاتا ہے۔ جس کیخلاف دوبارہ تحریکیں برپا ہوتی ہیں۔ انہیں جھوٹ بول کر خاموش کروایا جاتا ہے کہ موجودہ ریاستی ڈھانچے کے علاوہ کوئی متبادل موجود نہیں اور اسی سرمایہ دارانہ جمہوریت یا دیگر طریقوں کے ذریعے ہی سماج کو چلایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود سماج میں موجود بے چینی اور نفرت ختم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے۔
کیسی پارٹی کی ضرورت ہے؟
اس ساری صورتحال میں ایک ایسی سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے جو ایک متبادل نظام کا پیغام عوام کی وسیع تر پرتوں تک لے جا سکے۔ ایک ایسا نظام جو ایک متبادل معاشی، سیاسی و ریاستی ڈھانچے کو تفصیل سے بیان کر سکے۔ اور ایک ایسا نظام جو موجودہ نظام سے زیادہ جدید ہو۔ آج کے عہد میں سوشلزم ہی ایک ایسا نظام ہے جو منصوبہ بند معیشت کے ذریعے منڈی کی معیشت کا خاتمہ کر سکتا ہے اور فرسودہ سرمایہ دارانہ ریاست کی جگہ جدید مزدور ریاست اور سوشلسٹ جمہوریت قائم کر سکتا ہے۔ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کسی بھی قسم کی تبدیلی عوام کے گرتے ہوئے معیار زندگی کو روک نہیں سکتی اور نہ ہی امیر ترین افراد کی دولت ضبط کر کے عوام کے استعمال میں لائی جا سکتی ہے۔ لیکن اس انقلاب کو برپا کرنے کے لیے ایک ایسی سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے جو مارکسزم کے نظریات پر مضبوط گرفت رکھتی ہو اور اس کا ڈھانچہ جمہوری مرکزیت کے جدید اصولوں پر مبنی ہو۔ پوری دنیا میں ہم ایسی انقلابی پارٹی کا فقدان دیکھ رہے ہیں جس کے باعث بہت سی انقلابی تحریکیں کامیابی کے بالکل قریب پہنچ کر بھی کامیابی حاصل نہیں کر پائیں۔
آج سے سو سال قبل بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔ جب پہلی عالمی جنگ کے بعد پوری دنیا کے مختلف ممالک میں انقلابی تحریکیں ابھر رہی تھیں۔ ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خلاف ایک بہت بڑی عوامی تحریک ابھری تھی۔ چین سے لے کریورپ تک بہت سے ممالک میں عوام اپنے حکمران طبقات کے خلاف احتجاجی تحریکوں میں ابھر رہے تھے۔ لیکن صرف روس میں ایک ایسی پارٹی موجود تھی جو مارکسی نظریات پر تعمیر کی گئی تھی اور جس کی قیادت سوشلسٹ انقلاب پر مکمل یقین رکھتی تھی۔ اس پارٹی کو جب روس میں موقع میسر آیا تو انہوں نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر عوام کی وسیع پرتوں تک اپنا پیغام پہنچایا اور ان کی قیادت کرتے ہوئے روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر دیا۔ اس انقلاب کی گونج آج تک پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔ سرمایہ دار آج بھی اس انقلاب سے خوفزدہ ہیں اور سو سال گزرنے کے باوجود اس کیخلاف زہریلا پراپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سو سال بعد بھی اس انقلاب کو مسخ کرنے کے لیے نئی کتابیں شائع کی جا رہی ہیں اور ذرائع ابلاغ سے ا س کیخلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس انقلاب نے سرمایہ داروں کی تمام تر دولت اور ریاست پر حملہ کیا تھا اور محنت کش طبقے کو صدیوں پرانی غلامی سے نجات دلائی تھی۔
آج ضرورت ہے کہ انہی بنیادوں پر ایک پارٹی تعمیر کی جائے۔ اس پارٹی کی بنیاد مارکسزم کے نظریات پر رکھی جائے جن کے ذریعے آج کے سماج کا تجزیہ کرتے ہوئے سائنسی تناظر تخلیق کیا جائے۔ موجودہ عہد میں انتہائی تیز ترین تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ انقلابی عمل کبھی بھی سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتا بلکہ انقلاب اور رد انقلاب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اگر ایک وقت میں محنت کش طبقہ بڑی تعداد میں سڑکوں پر ہے اور حکمران طبقات پسپائی اختیار کر رہے ہیں تو کچھ عرصے بعد صورتحال تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ حکمران طبقات سماج کی پسماندہ پرتوں سے حمایت لے کر دوبارہ حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ بالکل ایک جنگ کی کیفیت ہے۔ لیکن یہ دو طبقوں کی جنگ ہے جس میں لاکھوں کروڑوں افراد ایک سیاسی عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ اس لیے ان واقعات میں مداخلت کرنے کے لیے اور ان کا درست تجزیہ کرنے کے لیے جہاں ایک ٹھوس نظرئیے پر گرفت ضروری ہے وہاں ا نقلابی تنظیم کاایک آہنی ڈسپلن بھی درکار ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال میں اگر انقلابی تنظیم کی قیادت اور کارکنا ن فارمولوں کو یاد کر کے عملدرآمد کرتے رہیں تو وہ کبھی بھی انقلاب کے طوفانی واقعات میں مؤثر مداخلت نہیں کر سکیں گے۔ نظریات پر مضبوطی کے ساتھ کاربند رہنے کے ساتھ ساتھ طریقہ کار میں لچک کی ضرورت پیش آئے گی۔ اسی طرح زندہ سماج میں جاری زندہ طاقتوں کی لڑائی میں درست فیصلے صرف اسی بنیاد پر کیے جا سکتے ہیں جب تک صورتحال کا درست تجزیہ موجود ہو اور سوشلسٹ مستقبل پر کامل یقین ہو۔ رسمی منطق اور پرانے فلسفے ایسی صورتحال کے لیے ناکارہ ہیں۔ اس کے علاوہ مایوس اور بد گمان لوگ کسی انقلابی تحریک میں حصہ نہیں لے سکتے اس کی قیادت تو بہت دور کی بات ہے۔
پاکستان اور سوشلسٹ انقلاب
عالمی سطح پر تبدیل ہونے والی صورتحال پاکستان پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ پاکستان کی معیشت، سیاست اور ریاست عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا جزو ہے اور عالمی سطح پر ہونے والے واقعات براہ راست پاکستان پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ امریکی سامراج کی افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ سے پسپائی کے بعد پاکستان میں چین، روس، ترکی اور دیگر سامراجی قوتوں کی مداخلت میں اضافہ ہواہے۔ اسی طرح یہاں نجکاری اور دیگر سامراجی مالیاتی پالیسیوں کے بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور لاکھوں افراد بیروزگار ہوئے ہیں جبکہ آبادی کا ایک بڑا حصہ مزید غربت اور بربادی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اس کے خلاف احتجاجی تحریکیں بھی موجود ہیں جس میں تقریباً ہر ادارے کے ملازمین بڑی تعداد میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسٹیل مل سے لے کر واپڈا اور ریلوے سے لے کر تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کے ملازمین مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ اس میں گزشتہ سال فروری میں پی آئی اے میں ہونے والی آٹھ روزہ ہڑتال نمایاں مقام رکھتی ہے جب پورے ملک میں پی آئی اے کی اندرون ملک اور بیرون ملک پروازیں بند کردی گئیں اور حکومت سے نجکاری کی پالیسی کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس وقت کوئی ٹریڈ یونین قیادت یا سیاسی پارٹی ایسی نہیں تھی جو اس ہڑتال کو دیگر اداروں میں جاری احتجاجی تحریکوں سے جوڑ سکتی۔ اگر ایسا ہوتا تو ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جا سکتی تھی جو اس داخلی جنگ کا شکار استحصالی ریاست پر محنت کش طبقے کی ایک کاری ضرب ہوتی۔
سیاسی افق پر موجود تمام پارٹیاں اپنی حمایت کھو چکی ہیں اور صرف ماضی کے ایک تسلسل کے طور پر موجود ہیں۔ عوامی تحریک کا پہلا ریلا ان تمام پارٹیوں کو بہا کر لے جائے گا اور ان کی جگہ نئی پارٹیوں کو ابھار کر سامنے لائے گا۔ سماج میں بے چینی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور حکمران طبقے کے خلاف نفرت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ فوج، عدلیہ، بیوروکریسی سمیت ریاست کے تمام اداروں کی حقیقت عوام کے سامنے عیاں ہو چکی ہے اور کسی بھی ادارے پر عوام کا اعتماد نہیں رہا۔ ایسے میں اگر ایک عوامی تحریک میں انقلابی پارٹی ابھر کر سامنے آتی ہے اور ان ریاستی اداروں کی جگہ متبادل ریاستی اداروں کے قیام کاپیغام لاتی ہے تو اسے بہت تیزی سے عوامی مقبولیت حاصل ہو سکتی ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں سرمایہ داری کسی انقلاب کے ذریعے نہیں آئی تھی بلکہ برطانوی سامراج کے تسلط کے تحت یہاں سرمایہ داری کو متعارف کرایا گیا تھا۔ اسی باعث یہاں جمہوریت، پارلیمنٹ اور دیگر ریاستی ادارے کبھی بھی صحت مند انداز میں تعمیر نہیں ہو سکے۔ اس لیے ان بوسیدہ اداروں میں اتنی گنجائش اور صلاحیت ہی موجود نہیں کہ وہ سرمایہ دارانہ بنیاد پر ہی کوئی صحت مند کردار ادا کر سکیں۔ اس لیے ان سب کو اکھاڑ کر کوڑے دان میں ڈالنا نا گزیر ہو چکا ہے۔ اس کے لیے ایک انقلابی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے انقلابی پارٹی کو مزدور ریاست اور اس کے جدید اداروں کا اعلان کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے تو معیشت کے کلیدی شعبوں کو مزدور ریاست کی تحویل میں لیتے ہوئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہو گا اور منڈی کی معیشت کا خاتمہ کرتے ہوئے منصوبہ بند معیشت کا اجرا کرنا پڑے گا۔ تمام سرمایہ داروں، جاگیر داروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سامراجی مالیاتی اداروں کی دولت کو ضبط کرنا ہو گا اور اسے مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرنا ہو گا۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، بیوروکریسی، میڈیا سمیت سرمایہ دارانہ ریاست کے تمام ستونوں کا خاتمہ کرتے ہوئے سوویتوں کے ذریعے جمہوری انداز میں مزدور ریاست کے جدید ادارے قائم کرنے ہوں گے۔ روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم سمیت تمام بنیادی ضروریات کی مفت فراہمی کا اعلان کرنا ہوگا اور مزدوروں کی بین الاقوامی جڑت حاصل کرتے ہوئے اس انقلاب کو پوری دنیا میں پھیلانے کا عزم کرنا ہو گا۔
یہ سب کرنے کے لیے یہاں بالشویک پارٹی کی طرز پر ایک انقلابی پارٹی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ سنجیدہ قوت تعمیر کی جا سکے جو آنے والے عرصے کے طوفانی واقعات میں ٹھوس انداز میں مداخلت کرتے ہوئے کسی بھی انقلابی تحریک کو اس کو سوشلسٹ کامیابی سے ہمکنار کر سکے۔ سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہو گی!
آدم پال
لاہور، 11مارچ 2017ء