پاک چین اقتصادی راہداری یا سی پیک کا حجم تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ جب اپریل 2015ء میں اس کا اعلان ہوا تھا تو اس کا حجم 46ارب ڈالر تھاجو اس وقت پاکستان کے کُل جی ڈی پی کا 20فیصد تھا۔ اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہو سکے گی اور یہ منصوبہ واقعی آگے بڑھ سکے گا اس پر کسی کو بھی یقین نہیں تھا۔ جن افراد نے یہ اعلان کیا تھا شاید انہیں بھی یقین نہیں تھا کہ یہ اتنی تیزی سے آگے بڑھے گا۔ کچھ ہی عرصے میں اس کاحجم 60ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور اب چین اور پاکستان کے درمیان چینی کرنسی یوان میں تجارت جیسا اہم فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح چین کے پاکستان میں بحری اور فوجی اڈوں کے حوالے سے پیش رفت پر بحث کی جا رہی ہے۔
اس منصوبے کے اتنی تیزی سے آگے بڑھنے کی ایک وجہ چین کا تیزی سے بڑھتا ہو ا زائد پیداوار کا بحران ہے اور چین اپنی پیداوار کی کھپت کے لیے تیزی سے نئے منصوبوں کا آغاز کر رہا ہے۔ اس کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ (BRI) کے نام سے منصوبے کا آغاز کیا جا چکا ہے جس کا کُل حجم 900ارب ڈالر سے زائد ہے۔ یہ دنیا کے مختلف کونوں میں پھیلے ہوئے چین کے منصوبوں پر مشتمل ہے۔ اس مقصد کے لیے 14-15مئی 2017ء کو بیجنگ میں ایک سربراہ اجلاس بھی منعقد کیا گیا جس میں 29ممالک کے سربراہان مملکت جبکہ 130ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی جبکہ 70عالمی تنظیموں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو دوسری عالمی جنگ کے بعد مارشل پلان کے منصوبے کے بعد دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین کی صنعتوں کو چلانے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن اس کے سٹرٹیجک اوردفاعی پہلو بھی قابل غور ہیں۔ سی پیک بھی اسی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ ان تمام منصوبوں میں اسے ایک زندہ مثال کے طور پر ابھارا جا رہا ہے جس کے باعث دنیا کی نظریں اس کی جانب مرکوز ہیں۔ سی پیک کو بیلٹ اینڈ روڈ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاکہ اس کی کامیابی یا ناکامی کی بنیاد پر دیگر منصوبوں کو جانچا جا سکے۔ چین بھی اسی لیے سی پیک پر خاصی توجہ دے رہا ہے اور پاکستان میں اپنا کردار پھیلاتا چلا جا رہا ہے۔
اس منصوبے کے تیزی سے آگے بڑھنے کی ایک دوسری وجہ اس کے خلاف کمزور مزاحمت ہے۔ آغاز میں واضح تھا کہ امریکہ اس منصوبے کی شدید مخالفت کرے گا اور اسے کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ گوادر کی بندرگاہ پر چین کی اجارہ داری امریکہ کے خطے میں سٹرٹیجک مفادات کے لیے شدید خطرہ تھی۔ گوادر آبنائے ہرمز کے سرے پر واقع ہے جو تیل کی تجارت کے حوالے سے خلیج فارس میں ایک اہم گزر گاہ ہے۔ یہاں پر امریکی بحری بیڑے کی مسلسل نگرانی موجود رہتی ہے اور پورے خطے میں امریکی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے یہ ایک اہم کڑی ہے۔ چین بھی اس اہمیت سے باخبر ہے اور اسی لیے گوادر پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بظاہر اس منصوبے کا مقصد چین کا سامانِ تجارت باقی دنیا تک پہنچانا ہے لیکن یہ ہر کسی پر واضح ہے کہ چین بنیادی طور پر سٹرٹیجک مفادات کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔
لیکن اس دوران امریکہ کی طاقت اور اجارہ داری دنیا بھر میں کمزور ہوئی ہے اور اسے مشرقِ وسطیٰ سمیت اہم محاذوں پر بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکہ کا معاشی بحران بھی ایک عروج میں تبدیل نہیں ہو سکا اور ابھی تک 2008ء کے معاشی بحران کے اثرات موجود ہیں۔ بلکہ بہت سے تجزیہ نگار اور معیشت دان ایک نئے اور بڑے بحران کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ اس دوران ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے سے امریکہ کا سیاسی و ریاستی بحران بھی پوری دنیا پر واضح ہو چکا ہے بلکہ پوری دنیا ہی تہہ و بالا ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ایسے میں چین کے لیے آگے بڑھنے کے بھرپور مواقع موجود تھے جن سے وہ فائدہ اٹھا رہا ہے۔ امریکہ کی کمزوری کے باعث اسے اس خطے سے باہر دھکیلنے کی کوششوں میں سی پیک ایک اہم مہرہ ثابت ہو رہا ہے۔ امریکہ بھی رضاکارانہ طور پر شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور ہر طریقے اور پہلو سے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ٹرمپ بار بار یہاں حملوں کی دھمکی بھی دے رہا ہے۔ اس سے پہلے ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد افغانستان میں ’’بموں کی ماں‘‘ نامی بم گرا کر انتباہ بھی کیا جا چکا ہے۔
اس حوالے سے سی پیک اور اس کے گرد ابھرنے والی خطے کی صورتحال کا تجزیہ و تناظر انتہائی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ درحقیقت یہ اس خطے میں رہنے والوں کی زندگیوں کے ساتھ جڑ چکا ہے اور دن بدن اس کی سرایت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے گرد ہونے والی سیاست کو سمجھنا، ریاستی اداروں کی لڑائی کا ادراک حاصل کرنا اور مختلف باہمی طور پر برسرِپیکار سامراجی قوتوں کے حقیقی عزائم کا پردہ چاک کرنا آج کے تیزی سے تبدیل ہوتے عہد میں اس خطے کو سمجھنے کے لیے انتہائی بنیادی اہمیت کاحامل ہے۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس موضوع پر یہاں سنجیدہ بحث کا فقدان نظر آتا ہے۔ حکومتی پراپیگنڈہ تو بڑے پیمانے پر موجود ہے جس میں ملک میں لاحق ہر مسئلے اور ہر بیماری کا تریاق سی پیک کو بتایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب امریکہ کے تھنک ٹینک اور تحقیقاتی ادارے اس کے بارے میں بحثیں کررہے ہیں جن کا مقصد اس خطے میں امریکہ کی سامراجی پالیسی کو بہتر انداز میں ترتیب دینا ہے۔ پاکستان کے میڈیا میں بھی اس حوالے سے کوئی سنجیدہ بحث نظر نہیں آتی۔ اگرچہ روزنامہ ڈان، ایکسپریس ٹریبیون اور دیگر انگریزی جریدوں میں کچھ سنجیدہ بحثیں اور اعدا د و شمار شائع ہوئے ہیں لیکن عمومی طور پر ایک خاموشی نظر آتی ہے۔ ڈان اور ٹریبیون کی بحثوں کا مقصد بھی مقامی سرمایہ داروں کے تحفظات اور خدشات کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ایک عام مزدور اور کسان کے لیے اس منصوبے میں کیا ہے اور وہ اسے کیسے دیکھتا ہے، اس پر کوئی بھی بات نہیں کی جا رہی۔ سیاسی پارٹیاں در حقیقت جرائم پیشہ افراد کے گروہ بن چکے ہیں جو آج سماج کے کسی بھی حصے کی نمائندگی نہیں کر رہے۔ یہ ریاست کے مختلف حصوں کے نمائندے ہیں اور ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ بد عنوانی اور لوٹ مار کرنا ہے۔ ٹی وی پر بیٹھے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کے حالات بھی زیادہ مختلف نہیں۔ ایسے میں محنت کش طبقے کے نکتہ نظر سے اس تمام ترمنصوبے کا جائزہ لینااور اس کا درست تجزیہ کرتے ہوئے تناظر تخلیق کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ تصنیف اسی سلسلے میں ایک قدم ہے۔
آج جو لوگ اس سماج کو گہرائی میں جا کر سمجھنا چاہتے ہیں اور اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے نظریاتی مواد بہت کم دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ سماج کے عمومی زوال کے باعث مطالعہ کا رجحان بھی کم ہوا ہے۔ آج کل کے زیادہ تردانشور اور کالم نگار بھی پڑھنے اور تحقیق کرنے سے زیادہ لکھنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
لیکن اس عمومی صورتحال کے باوجود نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جس میں سچ کو جاننے کی تڑپ موجود ہے اور وہ ایسا نظریاتی مواد تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ایسے نوجوان صرف حالات پر تبصرے تک ہی محدود نہیں رہنا چاہتے بلکہ ان کو تبدیل کرنے کی جدوجہد میں بھی شامل ہونا چاہتے ہیں۔ یہ کتاب انہی نوجوانوں کے لیے ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ یہ کتاب ان محنت کشوں، مزدوروں اور کسانوں کے لیے بھی ہے جو معاشی حالات کی مسلسل خرابی سے تنگ آ چکے ہیں اور ہر طرف ہاتھ پاؤں مار کے دیکھ چکے ہیں لیکن حالات کے سدھار کی کوئی امید پیدا نہیں ہو رہی بلکہ وہ دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ تمہاری سستی اور نالائقی کے باعث ایسا ہے اور سیانے لوگ معاشی مشکلات پر قابو پا لیتے ہیں۔ گوکہ حقیقت اس کے الٹ ہے۔ جس کے پاس اس نظام میں دولت اور حاکمیت آ جائے اسے ہی سیانا سمجھا جاتا ہے خواہ وہ عقل سے کتنا ہی پیدل کیوں نہ ہو اور یہ دولت، تمام امیر افراد کی طرح جرائم اور دھوکے بازی کے ذریعے ہی کیوں نہ کمائی گئی ہو۔ جبکہ کتنا ہی دانا، ذہین اور ایماندار شخص غربت کی زندگی گزار رہا ہو تو اسے کم عقل، کند ذہن، سست کہنے کے ساتھ ساتھ دنیا کی ہر گالی دی جاتی ہے۔ یہی اس طبقاتی نظام کی حقیقت ہے۔
اس لیے انفرادی ناکامیوں اور کامیابیوں کو نظام اور سماج کے عمومی عمل کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو نہ صرف درست طورپر سمجھاجا سکے بلکہ ان کو تبدیل کرنے کی اجتماعی جدوجہد کا بھی حصہ بنا جا سکے۔
سی پیک کو سمجھنے کے لیے آج کے عہد کی دنیا اور اس میں امریکہ اور چین کے تنازعے کی بنیادوں کو جاننا ضرور ی ہے۔ اسی لیے پہلے دو ابواب میں اس پر بحث کی گئی ہے۔ اس کے بعد بیسویں صدی میں چین میں ہونے والے اہم انقلابی و رد انقلابی واقعات کو سمجھنا ضروری ہے جس کے بغیر آج کے چین کو درست طور پر نہیں جانا جا سکتا۔ تیسرے باب میں انہی واقعات کے تسلسل کو بیان کیا گیا ہے۔
آج کے عہد میں سامراج کے کردار کی سائنسی بنیادوں کو جاننا اور اس کے گرد ہونے والی نظریاتی بحث کا ادراک بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح چین کی ریاست کے کردار اور اس کے سامراجی عزائم کی نظریاتی بنیادوں کو جاننا اہمیت کا حامل ہے جس کوچوتھے باب میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ پانچواں باب آج کے چین میں موجود تضادات اور اس کی سیاست اور اس میں موجود تضادات کے بارے میں ہے جبکہ چھٹا باب سی پیک کے منصوبے کے خدوخال واضح کرتا ہے۔ ساتویں باب میں سی پیک کے پاکستان پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے جبکہ آٹھواں باب پاکستان میں قومی سوال کی موجودگی اور سی پیک کے اس پر اثرات کے متعلق ہے۔ نواں باب جنوبی ایشیا پر سی پیک کے اثرات کی تفصیلات بیان کرتا ہے جبکہ آخری باب ترقی اور خوشحالی کے حقیقی رستے اور اس کے لیے درکار جدوجہد کے طریقہ کار کے متعلق ہے۔
یہ سی پیک پر اپنی نوعیت کی پہلی تصنیف ہے لیکن آخری ہر گز نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس میں وہ تمام بنیادیں موجود ہیں جن پر ایک سنجیدہ بحث کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ یہ بحث اور اس کے نتائج پاکستان اور خطے میں بسنے والے کروڑ ہا عوام کی زندگیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس بحث کے درست نتائج اور ان پر استوار ہونے والی جدوجہد اس خطے کی تاریخ بدل سکتی ہے اور یہاں پر رائج ظلم اور بربریت کے نظام کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرتے ہوئے مزدور طبقے کی فیصلہ کن فتح کا نقارہ بجا سکتی ہے۔
آدم پا ل
8جنوری 2018ء
لاہور