|تحریر: صبغت وائیں|
گٹر صاف کرنے والوں کے اجتماع میں جب پہلی بار شریک ہوا تو کئی دن تک انہی کے متعلق سوچتا رہا۔
یہ درست ہے کہ میں ان کے متعلق نہ کوئی نوشن بنا سکا جو عام مزدور سے الگ ہوتا اور نہ ہی کچھ لکھ سکا۔ البتہ کئی بار خواب میں بھی ان کو دیکھا۔
اس گندگی میں گردن تک اتر کر صاف کرنے والوں پر بھلا کوئی کیا لکھے جس گندگی کی ایک چھینٹ پڑ جانے سے ہم خود سے گھن کھانے لگتے ہیں۔ حالاں کہ یہ گندگی ہمارے گھروں سے نکل کر گئی ہے اور خود ہمارا اور ہماری خوراک کا حصہ رہی ہے۔ پھر بھی وہ لوگ جو اس کو صاف کرتے ہیں نفرت کا شکار ہیں اور معاشرے میں سب سے کم تنخواہ پانے والا طبقہ ہیں۔
اس اجلاس میں یہ لوگ اپنی یونین بنانے کی مانگ کر رہے تھے جو کہ بننے نہیں دی جا رہی تھی۔ دوسری مانگ ان کے حفاظتی لباس اور گیس ماسک و دیگر کٹ کی تھی۔ جو کہ باوجود موجود ہونے کے ان کو نہیں دی جاتیں۔ کہ یہ ننگے پاؤں اور ننگے بدن اچھا کام کرتے ہیں۔
آج بہاولپور کے ندیم، دانش اور سلیم کی گٹر میں گیس سے ہونے والی اموات کا پڑھ کے جانے کیوں دل کو احساس ہوا کہ مجھ سمیت سارا معاشرہ مجرم ہے۔ ہمارے جرم کئی ایک ہیں۔ شاید ہم میں اتنی جرات نہیں کہ ان کو ایک ایک کر کے گنوا سکیں۔
دانش ولد پطرس مسیح عمر بیس سال جس کی سات ماہ قبل شادی ہوئی ہے گٹر میں صفائی کے لئے اترا اور واپس نہیں آیا۔ اس کو نکالنے کے لئے اٹھارہ برس کا ندیم اترا اور وہ بھی نہیں پلٹ پایا ندیم کا باپ سلیم مسیح دونوں کی مدد کو نیچے اترا اور اس کے واپس نہ آنے پر ریسکیو بلایا گیا۔ جس نے جواں سال ندیم اور دانش کی لاشیں نکالیں اور میری عمر کے سلیم کو لاش بن جانے سے پہلےادھ مری حالت میں نکالا۔ جس نے بھی ہسپتال جا کر جان اپنے وطن کی مٹی کی بجائے گاب اور فضلے کے ہاتھوں ہار دی۔
ایسی مثال کسی اور ادارے میں کارِ سرکار کرتے ہوئے پیش آتی تو شاید ایثار و قربانی کی عظیم مثال بن کر جگمگاتی ہوئی ہماری درسی کتابوں کی زینت بنتی اور کم از کم بعد والے دو کو میڈل بھی ملتے۔
اس اجتماع جس میں میں بھی شامل تھا، میں کارکنان نے بتایا کہ بہت سے مسلمان اس “سرکاری نوکری” کے مزے لوٹ رہے ہیں اور وہ گھر بیٹھے مفت کی تنخواہیں لیتے ہیں بس انہیں اپنی تنخواہ کا ایک حصہ اپنے افسر کی نذر کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے یہ چیز بھی سامنے آئی کہ کچھ لوگ ان کو بہت مراعات یافتہ بتا رہے تھے کہ ان کو بے روزگاری کی لعنت سے پالا نہیں پڑتا اور سرکاری نوکری مل جاتی ہے۔ جس کی تنخواہ بھی خاصی معقول ہے۔
میں نے تو وہاں بھی تین چار مطالبات ہی رکھے تھے جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1۔ یہ گٹر صاف کرنے والے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان مسلمان چھوکروں کو نوکریوں سے فارغ کیا جائے جو کہ گھر بیٹھے تنخواہ لیتے ہیں۔ لیکن میرا مطالبہ یہ ہے کہ ان تمام شریف زادوں کو ڈیوٹی پر حاضر کیا جائے اور ان سے ڈیوٹی لی جائے۔
2۔ کٹس پوری دی جائیں۔ پوری نہیں ہیں تو امپورٹ کی جائیں۔
3۔ ’’ننگے خوش رہتے ہیں‘‘ کی بے ہودہ سوچ کو ترک کریں اور ان کو حفاظتی لباس میں گٹر صاف کرنے کی باقاعدہ تربیت دلوائی جائے۔ ان کو باہر کے ممالک کے دورے کروائے جائیں اور وہاں سے حفاظتی اقدامات کی تربیت لے کر آئیں۔
4۔ ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔ ان کی تنخواہ ’’زیادہ‘‘ ہرگز نہیں۔ کیوں کہ ہم میں سے کوئی یہ کام کرنے پر راضی نہیں ہے۔ یقین کیجئے سارا مسئلہ ہی تنخواہ کا ہے۔ کوئی نہ کوئی تنخواہ ضرور ایسی ہو گی کہ ہمارے وہ وزیر جو ہر سال اپنی تنخواہ میں اضافہ کرواتے رہتے ہیں اور بہت سے دیگر لوگ جو دلالیوں سے اپنا کام چلاتے ہیں، اس کام کو کرنے آ جائیں گے۔ گٹر صاف کرنے کی جاب کے لئے بھی این ٹی ایس ٹیسٹ لیا کرے گی۔ صرف تنخواہ اتنی کر دیں، جتنے کا یہ لوگ کام کرتے ہیں۔ یعنی جس پر بہت سے لوگ اس نوکری کے لئے ویسے ہی درخواست دیں جیسے اس گریڈ پر کام کرنے کے لئے ہزاروں لاکھوں دیگر درخواستیں آتی ہیں۔
لیکن وہاں بھی ہوا یہ تھا کہ جب میں دوبارہ تقریباً دو سال بعد ان کی میٹنگ میں گیا تو سب کچھ وہی تھا۔ وہی شکلیں تھیں جو سامنے حاضرین میں بیٹھے تھے۔ سات آٹھ سو سالڈ ویسٹ والے اور دیگر خاکروب۔
لیکن اب ان کی یونین بن چکی تھی۔ ان کی یونین کا مطالبہ تسلیم کیا جا چکا تھا۔
لیکن ان کی یونین کے تمام لیڈر جو میرے ساتھ سٹیج پر تھے میرے لئے ’’وہاں‘‘ اجنبی تھے۔ ان میں سے کوئی حاجی صاحب تھے اور کوئی بٹ صاحب۔ ۔ ۔
مجھے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کو کہا گیا۔ ۔ ۔ لیکن میں نے نہیں کیا۔
مجھے ابھی بہت سا کام کرنا تھا۔
نوٹ: ابھی میں نے عمرکوٹ کے عرفان مسیح کا ذکر نہیں کیا جس کا علاج پرھیز گار ڈاکٹر نے اس لئے نہیں کیا تھا کہ وہ روزے سے ہے اور اس گندگی (عرفان کے لتھڑے ہوئے جسم) کو چھونے سے اس کا روزہ خراب ہو جائے گا۔ اس نے کہا تھا کہ اس کو نہلا کر لائیں۔ اتنی دیر میں وہ زندگی کی بازی ہار چکا تھا۔