رپورٹ:| عطا اللہ |
ورکرز یونین آف پورٹ قاسم (CBA) کے زیر اہتمام نیشنل ہائی وے اور پورٹ قاسم روڈ کے سنگم پر احتجاجی دھرناایک ہفتے سے جاری ہے جس میں ہزاروں محنت کش شامل ہیں۔ دھرنے کی قیادت حسین شاہ ، عبدالواحد ، شاہ خالد ، گل باچا، شاہد ندیم ، فضل معبود، غلام یوسف، بہر مند خان، محمد زیب ، نعیم خان اور قاری عطااللہ کر رہے ہیں ۔ انھوں نے ورکر نامہ کے نمائندے کو بتایا کہ یہ دھرنا محنت کشوں پر ہونے والے ان تمام ظلموں کے خلاف ہے جو حکمرانوں نے ان سے روا رکھا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے تب تک یہ دھرنا نا صرف جاری رہے گا بلکہ ہم پورٹ قاسم کو مکمل بند کر نے کے ساتھ ساتھ نیشنل ہائی وے بھی بند کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔
CBAکے جنرل سیکرٹری حسین شاہ نے کہا ’’ پورٹ قاسم کو بھی بتدریج نجکاری کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جس کے لئے ابتدائی طور پر محنت کشوں سے کام چھینا جا رہا ہے اور اس پلاننگ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے برتھ نمبر 3 اور4کو ٹرمینل بنایا جا رہا ہے ۔ جس کا مقصد صرف اور صرف پورٹ قاسم کو تباہ کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمران اور چیئر مین مل کر ورلڈ بینک اورIMFکو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ یہاں مزدوروں کو تباہ کیا جا رہا ہے‘‘۔
شاہد ندیم نے بھی نجکاری کی پالیسی پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ’’ اداروں کو فروخت کرنا مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ اداروں کو درست پلاننگ کے ساتھ چلانے اور ان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ منافع میں چلنے والے اداروں کو فروخت کرنا سراسر احمقانہ حرکت ہے۔ جب 1981ء میں پورٹ قاسم پر ویرانہ تھا اور پہلا جہاز لنگر انداز ہوا تھا تب سے ڈاک ورکرز یہاں محنت اور ایمانداری سے کام کر رہے ہیں ۔ پورٹ قاسم کی موجودہ ترقی میں ان کا کردار سب سے اہم ہے۔ ان ورکرز کے ساتھ کسی قسم کی نا انصافی ہم قطعاََ برداشت نہیں کریں گے‘‘ ۔ فضل معبود نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’ پورٹ قاسم کی نجکاری اس ادارے کے 15 ہزار ورکرز اور ان کے گھر والوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے اور یہ بے رحمانہ عمل ہر صورت میں قابل مذمت ہے۔ اس لئے ہم حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس عمل کو فوراََ روکا جائے ۔ان کا کہنا تھا کہ پورٹ قاسم پر دوسرے ٹرمینل مثلاََ QICTاور FAPکو پورٹ قاسم کے ورکرز کے کنٹرول سے چھین کر اجارہ دارانہ انداز سے چلانا بھی سراسر نا انصافی ہے ۔ ان ٹرمینلز پر بھی پورٹ قاسم کے ورکرز کو کام کرنے کا پورا موقع ملنا چاہیے ۔ اور ویسے بھی یہ عمل کمپیٹیشن ایکٹ 2010ء کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس عمل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ٹرمینل منہ مانگے کرائے وصول کرتے ہیں۔ اور کارگو ہینڈلنگ کے اخراجات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں‘‘۔
غلام یوسف نے کہا کہ’’ حکومت کا پلان ہے کہ وہ برتھ نمبر 3اور4کو گرا کر ان کی جگہ نئی تعمیر کی جائے جبکہ اس کی بجائے نئی جگہ ٹرمینل بنانا سب سے بہتر حکمت عملی ہے جس میں پورٹ قاسم کی توسیع ہوگی ۔ مگر پورٹ قاسم کی انتظامیہ منصوبہ بندی کے بنیادی اصولوں سے بھی واقف نہیں ہے ۔ ہم انتظامیہ اور حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس غلط اور تخریبی حکمت عملی کو ختم کرتے ہوئے حقیقی بنیادوں پر ملک اور محنت کش طبقے کی ترقی کی منصوبہ بندی کی جائے ورنہ ہم ملک کے باقی اداروں کے محنت کشوں کو شامل کرتے ہوئے عام ہڑتال کر دیں گے‘‘۔
CBAکے تمام عہدیداروں اور ورکرز نے ورکر نامہ کے ذریعے ملک بھر کے محنت کشوں سے اپیل کی کہ وہ ان کے حقیقی مسائل اور ان کے حل کے لئے مطالبات کی لڑائی میں ان کا ساتھ دیں ۔
مطالبات:
1۔ برتھ نمبر 3ارو 4پر کول ٹرمینل بنانے کی بجائے کسی اور مقام پر کول ٹرمینل بنایا جائے ۔
2۔ PIBT، QICT،FAP، سمیت تمام ٹرمینل ڈاک ورکرز ایکٹ 1974کے مطابق ڈاک ورکرز کا پورا گینگ بک کیا جائے۔
3۔ KPTکی طرح پورٹ قاسم اتھارٹی بھی ڈاک ورکرز کی تنخواہوں میں 30%اضافہ کرے۔
4۔ PQAڈاک ورکرز کے تمام رکے ہوئے کارڈز فوراََ جاری کیے جائیں۔