|تحریر: آدم پال|
اس خطے میں مزاحمت اور انقلابی سیاست کی ایک لمبی تاریخ ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ مزاحمت کی سیاست ختم ہو چکی ہے اور صرف کاسہ لیسی اور گماشتگی کی سیاست ہی عوام کا مقدر ہے۔ اس وقت سیاسی افق پر نظر دوڑائی جائے تو ہر سیاسی پارٹی کسی نہ کسی شکل میں حکومت کا حصہ ہے اور اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ ماضی میں خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہلانے والی تمام قوتیں آج اس ظالمانہ ریاست کی گماشتگی کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں جن میں پیپلز پارٹی سے لے کر قوم پرست پارٹیاں شامل ہیں۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر اگر کوئی چھوٹی پارٹی یا گروپ ایسا ہے جو حکومت میں موجود نہیں تو وہ بھی اس نظام سے مکمل طور پر مصالحت کر چکا ہے اور مزاحمت کی سیاست کو مکمل طور خیرباد کہہ گیا ہے۔
میڈیا اور دیگر ذرائع سے یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی سیاست ہو سکتی ہے تو وہ ریاست کے کسی نہ کسی دھڑے کی پشت پناہی سے ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی نہ کسی سامراجی طاقت کی گماشتگی کو بھی سیاست کا بنیادی جزو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس کے بغیر ’کامیابی‘ کا کوئی تصور نہیں۔ سرمائے کی بھاری مقدار کو سیاست کا جزو لاینفک بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور سب سے نچلی سطح کے سیاسی کارکن تک کے ذہن میں بھی یہ خیال راسخ کر دیا گیا ہے کہ دولت کے بغیر کسی بھی قسم کی سیاست کا کوئی وجود نہیں۔ سیاست صرف پیسے والوں کا کھیل ہے اور جن کے پاس پیسے نہیں وہ ان سیاستدانوں کے نعرے تو لگا سکتے ہیں لیکن ان کی جگہ نہیں لے سکتے۔ اس خدمت کے عوض وہ تھوڑا بہت معاوضہ حاصل کر سکتے ہیں یا پھر اپنے چھوٹے موٹے کام کروا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کارکنان لیڈروں کے ساتھ اپنی تصویر کو نمایاں کر کے سماجی رتبہ اور ذہنی تسکین بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے سیاست کے ذریعے سماجی رتبے اوردولت کا حصول اس پورے عمل کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔
اسی دوران مختلف سامراجی قوتیں اور ریاست کے مختلف دھڑے بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے سرگرم ہیں اور انہیں اپنی شدت اختیار کرتی لڑائی میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی اشد ضرورت ہے۔ ایران اور سعودی عرب سے لے کر روس، چین، ہندوستان اور امریکہ تک سب سامراجی قوتوں کو خطے میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک مخصوص نقطہ نظر سماج میں اتارنے کی ضرورت پیش آتی ہے تاکہ جہاں اپنی پراکسی جنگوں کے لیے خام مال حاصل کیا جا سکے وہاں اپنی پروردہ سیاسی پارٹیوں کو بر سر اقتدار لا کرمخصوص پالیسیاں لاگو کروائی جا سکیں۔ اسی طرح گزشتہ سالوں میں پاکستانی ریاست کی شکست و ریخت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور مختلف دھڑے بندیاں وجود میں آئی ہیں۔ ان دھڑوں کے تانے بانے جہاں مختلف سامراجی قوتوں سے ملتے ہیں وہاں اس ملک میں بھی یہ حکمران طبقے کے مختلف گروہوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اپنی لوٹ مار میں اضافے کے لیے مخصوص نقطہ نظر اتارنے کے لیے اور عوام کے کسی حصے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں مختلف سیاسی پارٹیوں کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ اپنی پروردہ سیاسی قوتوں کی پشت پناہی کرتے رہتے ہیں اور انہیں بر سر اقتدار لا کر یا پھر اپوزیشن کا کردار سونپ کرمختلف طریقوں سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ان طاقتوں کی گماشتگی کا صلہ بھی دولت کی فراوانی کی شکل میں ملتا ہے جس کے باعث محروم رہ جانے والے رالیں ٹپکاتے اس کے حصول کی تگ و دو میں زیادہ جانفشانی سے مصروف رہتے ہیں۔
مزدور تحریک اور طلبہ سیاست کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں اور وہاں بھی اسی قسم کی صورتحال ہے۔ مزدور قیادتوں کی اکثریت اپنے طبقے سے غداری کر چکی ہے اور حکومت کی مزدور دشمن پالیسیوں پر عملدرآمد کروانے کے عمل میں مددگار کا کردار ادا کرتی ہے۔ طلبہ سیاست کے انقلابی رجحانات بھی 90ء کی دہائی میں زوال کے آغاز کے بعد سے اب پاتال کی گہرائی تک جا پہنچے ہیں اور جہاں تھوڑی بہت طلبہ سیاست موجود ہے وہ بھی کسی نہ کسی طرح ریاستی یا سامراجی قوت کا سہارا لے کر لوٹ مارمیں حصہ دار بننا چاہتی ہے۔ بہت سے نام نہاد انقلابی بھی کسی بڑی سیاسی پارٹی کی پناہ کی تلاش میں ہیں یا پھر این جی اوز کے ذریعے بڑے سرمایہ داروں کی چھتر چھایا حاصل کر کے سیاست کر رہے ہیں۔
لیکن اسی صورتحال میں تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی موجود ہے۔ جہاں افق پرموجود قوم پرستوں سے لے کرمزدور لیڈروں تک تمام قیادتیں غداری کر چکی ہیں وہاں پورے ملک میں چھوٹی چھوٹی بے شمار تحریکیں بھی موجود ہیں جن میں مسلسل اضافہ ہوتا چلاجا رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی بڑے شہر میں کسی نہ کسی سرکاری ادارے کے ملازمین احتجاج نہ کر رہے ہوں۔ نجی صنعتوں اور اداروں میں ہونے والے احتجاج اور ہڑتالیں اس کے علاوہ ہیں۔ نجی بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے لے کر صنعتی اداروں تک ہر جگہ آئے روز چھوٹے بڑے احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں ہوتی رہتی ہیں۔ میڈیا کی سرمائے کی مکمل غلامی کے باعث یہ منظر عام پر نہیں آتی۔ اس لیے صرف ٹی وی اور اخباروں کی خبروں کے ذریعے اپنا تجزیہ اور تناظر بنانے والے جمود اور رجعت کا واویلا کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا سماج کی جو تصویر پیش کر رہا ہے وہ حکمران طبقے کی خواہشات کے تابع ایک بالکل جھوٹی تصویر ہے۔ امریکہ کے حالیہ انتخابات میں یہ جھوٹ کھل کر سامنے آگیا۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کو یہ بتایا جارہا تھا کہ ہیلری کلنٹن انتخابات جیتے گی اور یہ کہ وہ برنی سینڈرز سے زیادہ مقبول ہے۔ حقیقت اس کے بالکل بر عکس تھی اور وہ انتخابات بری طرح ہار گئی۔ جبکہ بعد ازاں یہ واضح ہوا کہ برنی سینڈرز ٹرمپ سے بھی زیادہ مقبول تھا۔ اسی طرح چین کی ترقی کے گن گائے جاتے ہیں لیکن وہاں موجود بد ترین غربت اورحکمران طبقے کے خلاف ابھرنے والی بغاوتوں کو منظر سے غائب کر دیا جاتا ہے۔
اسی جھوٹی تصویر کو پیش کرنے کے بعد یہ نقطہ نظر بھی پروان چڑھایا جاتا ہے کہ سیاست بھی اسی مخصوص دائرہ کار میں رہ کر کی جا سکتی ہے اور جو کچھ گزشتہ چند دہائیوں سے ہوتا آ رہا ہے ویسا ہی آنے والی دہائیوں میں بھی دہرایا جاتا رہے گا۔ پاکستان میں عوام کو باور کروایا جاتا ہے کہ ان کے پاس موجود آپشن میں صرف پیپلز پارٹی، ن لیگ اور پارلیمنٹ میں موجوددیگر پارٹیاں ہی ہیں یا پھر ان کی جگہ ایک فوجی آمریت عنان اقتدار سنبھال سکتی ہے جو پھر انہی پارٹیوں کو مختلف طریقے سے بروئے کار لائے گی۔ اس لیے اگر کوئی سیاست کرنا چاہتا ہے یا اپنے مطالبات منوانا چاہتا ہے تو وہ انہی کے در پر سجدہ ریز ہو۔ اس کے علاوہ سیاست کا کوئی تصور نہیں۔
ایسے میں یہ سوا ل ابھرتا ہے کہ کیا تمام تر اسٹیٹس کو، ظالم ریاست اور سامراج کے خلاف مزاحمت کی سیاست کی بھی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ کسی بڑی سرمایہ کاری اور مقبول شخصیت کے بغیر سیاست کا تصور موجود ہے یا نہیں۔ اس کے لیے انقلابی سیاست کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو باآسانی جواب مل جاتا ہے اور روس کی بالشویک پارٹی سے لے کر پوری دنیا میں پھیلی ہوئی انقلابی پارٹیوں کی تاریخ اس سوال کا جواب دیتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کی سینکڑوں تحریکیں اور انقلابی سیاست کے شاندار ماضی سے اہم اسباق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
مزاحمت کی سیاست کے لیے جہاں انقلابی نظریات، لائحہ عمل اور تناظر کی ضرورت ہوتی ہے وہاں ان نظریات کو اپنانے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے جرات اور دلیری کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ جرات اور دلیری کے بغیر نظریات ایسے ہی ہیں جیسے سپرنگ کے بغیر گھڑی۔ آج مزاحمتی سیاست کے زوال کی بنیادی وجہ انقلابی نظریات کا فقدان ہے۔ نظریاتی سیاست کے اسی خلا کے باعث آج بکھری ہوئی تحریکوں کو مجتمع نہیں کیا جا رہا۔ لیکن نظریات کا فقدان حوصلوں کو بھی پست کرتا ہے اور سیاسی کارکنان کو مشکلات سے کنارہ کشی کرتے ہوئے مفاد پرستی کے گھٹیا رستے پر چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک متبادل نظام پر سائنسی یقین کی عدم موجودگی اسٹیٹس کو کے ازلی اور ابدی ہونے کایقین دلاتی ہے جو مزاحمتی سیاست کے لیے درکار بلند حوصلوں کے فقدان کا باعث بنتا ہے۔ مزاحمت اور انقلاب کے رستے پر گامزن ہونے والوں پر آغاز سے انجام تک پھول نہیں نچھاور کیے جاتے بلکہ یہ کانٹوں سے بھرا ہوا رستہ ہے۔ انہی خاردار رستوں پر چل کر منزل کی جانب بڑھنا پڑتا ہے۔ جہاں سب سے پہلی رکاوٹیں اپنے ہی رجحان سے وابستہ ماضی کے مزاروں کی جانب سے آتی ہے وہاں ماضی کی تحریکوں کی پسپائی سے مایوس لوگ بھی حوصلہ شکنی بھرپور انداز میں کرتے ہیں۔ موجود نظام کو ازلی اور ابدی تصور کرنے والے عام افراد کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ لیکن عشق کے امتحانوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ریاستی اداروں اور رجعتی قوتوں کے ساتھ ٹکراؤ کی صورت میں زیادہ شدت اختیار کرتا ہے اور انقلابیوں کی جرات اور عزم کا امتحان لیتا ہے۔ سائنسی نظریات اور متبادل پر یقین نہ ہونے کے باعث انہی مشکلات کاخوف مزاحمتی سیاست کو ترک کرنے پر مجبور کرتا ہے اور اکثریت پتلی گلی سے نکلنے کو ترجیح دیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست کے انہی ظالمانہ قوانین اور جبر کے اداروں پر مبنی اوزاروں کی موجودگی کے باعث حکمران طبقہ کسی بھی قسم کے باغی خیالات کو کچلنے میں پر اعتماد ہوتا ہے۔ جہاں پیسے اور سماجی رتبے کا لالچ بہت سے سیاسی کارکنا ن کو مزاحمت کی بجائے مفادات کی تکمیل کے رستے پر چلنے پر مجبور کر دیتا ہے وہاں ریاستی جبر کا خوف بھی انہیں غدار سیاسی قوتوں کا کاسہ لیس بنا دیتا ہے۔
انقلابی سیاست کی تاریخ گواہ ہے کہ بد ترین ریاستی جبر اور تشدد بھی انقلابی تنظیموں کو ختم نہیں کر سکا بلکہ انہیں مزید مضبوط کرنے کا باعث بنا ہے۔ بالشویک پارٹی بھی دوستوں کی حمایت کی نسبت دشمنوں کے حملوں کے نتیجے میں مضبوط ہوئی تھی۔ یہاں پیپلز پارٹی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کے لیڈر کو پھانسی دے دی گئی اور کارکنان کو کوڑے مارے گئے اور جیلوں میں ڈال کر بد ترین جبر کا نشانہ بنایا گیا لیکن اس کے باوجود اس پارٹی کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ جبکہ قیادت کی غداریاں آج اسے سیاسی قبرستان میں لے آئی ہیں۔
آج بھی مزاحمت کی سیاست کرنے والوں اور انقلابی نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنے والوں کو رجعتی قوتوں کی جانب سے بد ترین انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بننے کے لیے تیار رہنا ہو گا اور اس کیخلاف سیاسی لڑائی لڑنے کا لائحہ عمل موجود حالات میں ترتیب دینا ہوگا۔ اپنے فوری مطالبات کے حصول کی جدوجہد سے لے کر سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے کی جدوجہد تک ہر سطح پر مصائب کے پہاڑ ان کے منتظر ہوں گے۔ دولت مند افرادکے لیے قائم اس نظام میں سب سے پہلے ان کا امتحان مالی قربانی کا ہوگا۔ انقلابی تنظیمیں سرمایہ داروں یا ان کے گماشتوں کے پیسوں سے تعمیر نہیں ہوتیں بلکہ اس طبقے کے خلاف لڑنے والے محنت کشوں کے دس بیس روپے اکٹھے کر کے تعمیر ہوتی ہیں۔ یہاں بھی ماضی میں کارکنان سے چندہ اکٹھا کر کے تنظیموں کو چلایا جاتا تھا لیکن این جی اوز کی غلاظت اور نظریاتی سیاست کے زوال کے باعث ان انقلابی روایات کا خاتمہ کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دولت ہی سیاست کا ایندھن اور مقصد بن چکی ہے۔ اسی طرح پہلے سے مختلف شعبوں کی مقبول شخصیات یا بڑے بڑے سیاسی ناموں کو اپنی جانب متوجہ کر کے منزل تک جلدی جلدی پہنچنے کا شارٹ کٹ تصور عام ہو چکا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام بڑے نام خود اپنی مقبولیت کے سحر میں گرفتار ہو کر نرگسیت کی انتہاؤں کو پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک کائنات کا محور ان ہی کی شخصیت اور مقبولیت ہوتی ہے اور اس کو قائم رکھنے اور بڑھاوا دینے کے لیے ہی کسی عام ڈگر سے منفرد خیال کی جانب متوجہ ہوتے ہیں یا اس کو ترک کر دیتے ہیں۔ ان سے کسی بھی قسم کے مزاحمتی کردار کی توقع کرنا بیوقوفی ہے۔ انقلابی سیاست کی بنیاد بڑے بڑے لیڈر اور نامور شخصیات نہیں بلکہ گمنام کارکنان بنتے ہیں جو دن رات اپنی جانی اور مالی قربانیوں کے ذریعے اس تحریک کی پرورش کرتے ہیں۔ ان ہی کارکنان کی اجتماعی قیادت انقلابی تنظیموں کو منزل کی جانب رواں دواں رکھنے کا باعث بنتی ہے۔ ماضی کے تمام مشہورانقلابیوں کی زندگیوں پر نظر دوڑائی جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ ان کی اکثریت نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ گمنامی میں جدوجہد کرتے ہوئے گزارا تھا اور کسی نام و نمود، عہدے یا دولت کی لالچ کے بغیر نا انصافی پر مبنی نظام کیخلاف جدوجہد کرتے رہے اور مشکلات سے ٹکراتے رہے۔
اس کے بعد ریاستی اداروں اور رجعتی قوتوں کے ساتھ ٹکراؤ اس سفر کا ایک ناگزیر مرحلہ ہے جس سے گزرے بغیر کوئی بھی مزاحمتی تحریک منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ اگر کوئی سیاسی کارکن سمجھتا ہے کہ ان عوام دشمن قوتوں سے ٹکرائے بغیر اپنی قوتوں کو تعمیر کر لے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ حقیقت کا سامنا کرنے پر ایسے افراد یا تو بھگوڑے ہو جاتے ہیں یا پھر ان ہی قوتوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اسی طرح چند دہائیوں سے سیاست پر حاوی قوتوں کو ازلی اور ابدی تصور کرلینا بھی حماقت ہے۔ یہ سمجھنا کہ سیاست گزشتہ چند دہائیوں سے ایک دائرے میں گھوم رہی ہے اور ہمیشہ ایسے ہی گھومتی رہے گی سراسر خام خیالی ہے۔ اب سماج جس کیفیت میں داخل ہو چکا ہے اس میں یہ قوتیں ناکارہ ہو چکی ہیں اور معروض میں معیاری تبدیلی آ چکی ہے جس کے باعث نئی سیاسی قوتوں کے ابھرنے کے امکانات روشن ہو چکے ہیں۔ یہ نئی سیاسی قوت کسی عدالتی حکم نامے، پارلیمانی قرارداد، اینکر پرسنز کی چیخ و پکار یا بڑے بڑے سائن بورڈ لگانے سے وجود میں نہیں آئے گی بلکہ سماج میں جاری زندہ عوامل ان قوتوں کی تشکیل کریں گے۔ یہ عمل سیاسی کارکنان کے عزم اور ہمت کا بار بار امتحان لے گا اور کمزور قوتوں کا صفایا کرتے ہوئے سب سے مضبوط اور مستقل مزاج قوتوں کو ہی حتمی لڑائی کے لیے منتخب کرے گا۔ ایسی قوتیں ہی بالآخر حاوی ہوں گی جو تمام تر مشکلات کے مقابلے میں اپنے نظریے پر ڈٹی رہیں گی۔
اس صورتحال میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ نہ صرف آج بھی مزاحمت کی سیاست کی جاسکتی ہے بلکہ اس کی اشد ضرورت بھی موجود ہے۔ ایک ایسی سیاست جس میں ذاتی مفادات کے حصول کے لیے منافقت اور حقائق سے پردہ پوشی کی بجائے جرأت اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقی صورتحال کو منظر عام پر لایا جائے اور ناانصافی پر مبنی سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی جدوجہد کی جائے۔ درست نظریات اور تناظر پر مبنی ایسی سیاست یقیناًاس ملک میں سیاست کے نئے افق روشن کرتے ہوئے سماج میں موجود غم و غصے کے آتش فشاں کے پھٹنے پر اس کو درست راستہ فراہم کرے گی۔