|تحریر: یاسر ارشاد|
12 اپریل 2022ء کو نام نہاد آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کے خلاف ان کی اپنی ہی پارٹی کے 25 اراکین اسمبلی نے چھے نکاتی چارج شیٹ اور تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جس کے جواب میں وزیر اعظم نے سینئر وزیر سمیت چار وزرا کو برطرف کیا۔ یہ خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بننے کے ساتھ ہی 14 اپریل کی شام کو وزیر اعظم آزادکشمیر عبدالقیوم نیازی نے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق وزیر اعظم کا استعفیٰ منظور کیے جانے کے بعد انہیں نئے وزیر اعظم کے انتخاب تک عبوری طور پر وزارت عظمیٰ کے فرائض سر انجام دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ دو تین روز میں ہونے والی اس پیش رفت نے نام نہاد آزاد کشمیر کی متحدہ اپوزیشن کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ہے جو چند ہفتوں سے پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کی ساز باز اور تیاریوں میں مصروف تھی۔ درحقیقت پاکستان میں سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد کشمیر میں بھی متحدہ اپوزیشن اس منصوبے کی تیاری کر رہی تھی لیکن پاکستان میں عدم اعتماد کے گرد شروع ہونے والی ہنگامہ خیز لڑائی نے انہیں محتاط رویہ اپنانے پر مجبور کر دیا تھا۔ دوسری جانب کشمیر میں متحدہ اپوزیشن کے پاس کل 19 ممبران اسمبلی ہیں اس لیے انہیں عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے مزید کم از کم چھے سے سات ممبران کی حمایت درکار تھی جو پھر ان کے منصوبے کے مطابق پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد تحریک انصاف آزاد کشمیر کی ٹوٹ پھوٹ سے ہی ممکن تھی۔ اسی لیے کشمیر میں متحدہ اپوزیشن سست روی سے اس جانب بڑھنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن تحریک انصاف نے خود ہی اپنے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد پیش کر کے انہیں حیرت زدہ کر دیا۔
گزشتہ برس حکومت آزاد کشمیر کی تشکیل کے وقت بھی تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی میں وزارت عظمیٰ کے دو مضبوط امیدواروں کے درمیان شدید لڑائی کے نتیجے میں عبدالقیوم نیازی کے نام وزارت عظمیٰ کا قرعہ نکل آیا تھا۔ قیوم نیازی اس وقت شائد کسی چھوٹی موٹی وزارت کی امید بھی نہیں کر رہا تھا جب اس لڑائی کے سبب اسے اچانک وزارت عظمیٰ سونپ دی گئی تھی۔ یوں بطور فرد وہ جس طرح اچانک وزیر اعظم بنا تھا اسی طرح اسے اس منصب سے فارغ بھی کر دیا گیا ہے اور اس نے چند شکایتی فقروں اور اشعار کے ذریعے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا اظہار کرتے ہوئے تحریک انصاف کے نامزد امیدوار کو ووٹ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔
اگرچہ قیوم نیازی نے اپنی پریس کانفرنس میں ممبران اسمبلی کی اربوں روپے میں خرید و فروخت کا الزام عائد کیا ہے لیکن یہ الزام حزب مخالف کی کسی پارٹی پر نہیں بلکہ اپنی ہی پارٹی کے صدر سمیت علی امین گنڈا پور پر لگایا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ قیوم نیازی کے خلاف اس کی اپنی پارٹی نے جو چارج شیٹ پیش کی ہے وہ زیادہ تر انہی نکات پر مشتمل ہے جو حزب مخالف نے تیار کر رکھی تھی۔ تحریک انصاف نے برطرف سینئر وزیر تنویر الیاس کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ تنویر الیاس کے حوالے سے یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ اس نے نہ صرف اسمبلی ممبران کو بھاری رقوم کے عوض خریدا بلکہ تحریک انصاف پاکستان کو بھی بھاری معاوضہ ادا کیا ہے۔ سپیکر اسمبلی نے 15 اپریل کے اجلاس میں ہی ایک ایک گھنٹے کے وقفے سے نئے قائد اعوان کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے ان کی پڑتال اور پھر شام چار بجے نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا شیڈول جاری کیا جس کے خلاف حزب اختلاف نے ہائی کورٹ مظفر آباد میں درخواست دائر کی کہ یہ اقدام غیر آئینی ہے۔ ہائی کورٹ مظفرآباد نے سپیکر کے ان اقدامات کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے سپیکر کے تمام اقدامات کو کالعدم قراردے کر 18 اپریل تک اس عمل کو روکنے کا حکم دیا ہے۔ تحریک انصاف نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جس پر سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اسمبلی کا نیا اجلاس بلانے کا حکم دیا ہے۔ صدر آزاد کشمیر نے 18 اپریل کو اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں نئے قائد ایوان کا انتخاب کیا جائے گا۔
عام طور پر نام نہاد آزاد کشمیر کے انتخابات یا حکومت کی تشکیل کا عمل کافی سیدھا سادہ اور آسان ہوتا تھا۔ وفاق میں بر سر اقتدار جماعت کی ذیلی یا اتحادی جماعت کشمیر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیتی تھی اور حکومت کی تشکیل بھی وفاقی وزیر امور کشمیر کی نگرانی میں بغیر کسی لمبی چوڑی چوں چراں کے پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا تھا۔ اس موجودہ حکومت کی تشکیل کے وقت بھی موجودہ صدر آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور سینئر وزیر تنویر الیاس کے درمیان وزارت عظمیٰ کے حصول کی لڑائی کے نتیجے میں یہ بندوبست کیا گیا تھا۔ اس حکومت کی تشکیل کے بعد ہی اس بندوبست کو عارضی قرار دیا جا رہا تھا جس میں بیرسٹر سلطان محمود کو راستے سے ہٹانے کے لیے قیوم نیازی کو وزیر اعظم بنایا گیا تا کہ کچھ عرصے بعد اس کی ایک یا دوسرے طریقے سے برطرفی کر کے تنویر الیاس کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کیا جا سکے۔ تنویر الیاس کو تحریک انصاف کی نئی ATM قرار دیا جا چکا ہے اور جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے لوگوں کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ آنے کے بعد تنویر الیاس کی اہمیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ نام نہاد آزادکشمیر کی حکمران اشرافیہ وفاق کی اس حد تک شرمناک غلامی کی عادی ہو چکی ہے کہ انہیں وفاق کی جانب سے جس قدر ذلت ناک انداز میں بھی دھتکارا جائے یہ اس طرح بھی ناراضگی کا اظہار نہیں کر پاتے جتنا پاکستان کی سیاسی قیادت اپنے حقیقی آقاؤں کی جانب سے دھتکارے جانے کے بعد کر لیا کر تی ہے۔ اس لیے کشمیر کے اس قسم کے حکومتی سیاسی بحرانوں کی عام طور پر زیادہ وقعت نہیں ہوتی تھی لیکن موجودہ صورتحال اور بحران ماضی کے بحرانوں سے قدرے مختلف ہے اور اسی لیے اس کے ماخذ کا ہی زیادہ تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے۔
یہ درحقیقت پاکستان میں حکمران طبقات کی جاری لڑائی کا ہی تسلسل ہے اس لیے اس میں ہونے والے پیش رفت پاکستان میں حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں میں طاقتوں کے توازن کی صورتحال کے حوالے سے کافی اہمیت کی حامل ہو گی۔ پاکستان میں متحدہ اپوزیشن نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے توبرطرف کر دیا ہے لیکن حکمرانوں کی یہ لڑائی ختم نہیں ہوئی اور نہ اس کے فوری خاتمے کے کوئی امکانات ہیں۔ کشمیر میں اپنی حکومت کو بچانے کے لیے اپنے ہی وزیر اعظم کی قربانی دے کر تحریک انصاف نے اگلے چند ماہ کے لیے حکومت بچانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ اگر ہائی کورٹ جمعہ کے روز ہونے والی اسمبلی کی کاروائی میں مداخلت نہ کرتی تو 28 سے 32 ممبران کی حمایت کے دعوے کے ساتھ بظاہر یہ کامیابی یقینی نظر آرہی تھی۔ مگر 18 اپریل تک اس کاروائی کو روکے جانے کے باعث اب صورتحال کافی حد تک بے یقینی کا شکار ہو چکی ہے۔ جہانگیر ترین گروپ نے بھی کشمیر میں اقتدار کی اس لڑائی میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے اور عون چوہدری نے ایک ٹویٹ کے ذریعے عمران خان کو چیلنج کیا ہے کہ جہانگیر ترین کے جہاز کا رخ اب کشمیر کی جانب ہو گا۔ یوں اگلے دنوں میں خرید و فروخت اور دھونس دھاندلی جیسے ہر ہتھکنڈے کے ذریعے ریاست کے دونوں دھڑے کشمیر میں اپنی حاکمیت قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ کشمیر میں نئی حکومت کے قیام کی اس حوالے سے اہمیت ہوگی کہ پاکستان کے ریاستی دھڑوں میں جاری کشمکش اور تصادم میں دونوں دھڑوں کی باہمی طاقت کا توازن کس کی جانب جھکاؤ اختیار کر رہا ہے۔ عدلیہ کی مداخلت کے بعد متحدہ اپوزیشن کو بھی خرید و فروخت کے لیے کچھ وقت میسر آگیا ہے۔ آنے والے دنوں میں گلگت بلتستان میں بھی اسی قسم کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
پاکستان کا سیاسی بحران اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار
بظاہر ایسا ہی نظر آ رہا ہے کہ اپوزیشن کی پشت پناہی کرنے والے دھڑے کا پلڑا بھاری ہے لیکن مخالف دھڑا تا حال اتنا کمزور نہیں ہوا کہ مکمل زیر ہو جائے۔ 16 اپریل کو پنجاب اسمبلی میں ایک پر تشدد اجلاس کے بعد متحدہ اپوزیشن آخر کار کامیاب ہو گئی ہے۔ ریاستی دھڑوں کی شدید لڑائی اور طاقتوں کے معیار میں بہت واضح فرق نہ ہونے کی وجہ سے ہی یہ ہنگامہ آرائی طویل ہوتی جا رہی ہے۔ فوج کی اندرونی کشمکش کافی زیادہ بڑھ چکی ہے جس کا اندازہ آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ کے متن سے واضح ہے۔ عسکری شعبے کے تعلقات عامہ کی جمہوریت کے حق میں دی گئی بریفنگ کی ]انتہائی سنجیدہ[ یقین دہانیاں از خود اسی امر کی دلالت کرتی ہیں جس سے انکار کی کوشش کی جا رہی تھی۔ عام لوگ تو درکنار وہاں موجود ان کے اپنے صحافی بھی اس بات پر یقین نہیں کر پائے۔ اگرچہ حکومتی ذرائع ابلاغ سمیت تمام نام نہاد جمہوری قائدین اور سبھی لبرلز، راحت اندوری کے الفاظ میں کہا جائے تو، اس”سرکاری اعلان“ پر جشن منا رہے ہیں۔ درحقیقت اس بریفنگ میں بنیادی طور پر گزشتہ دنوں کی بھر پور مداخلت پر پردہ ڈالنے کے ساتھ اندرونی لڑائی کو تھوڑا ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسری جانب اس بریفنگ سے ’مداخلت‘ اور ’سازش‘ کے مابین فرق کی ایک نئی لا یعنی بحث چھڑ چکی ہے۔ ہمارے لبرلز اور مفاد پرستوں کے چہیتے بلاول زرداری نے بھی اس ”سرکاری اعلان“ کو جمہوریت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا ہے۔ درحقیقت سیاستدانوں کا ہر وہ دھڑا عوام کو عسکری اداروں کے جمہوریت پسند ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے جس کے حق میں مداخلت کی جاتی ہے اور دوسرے کا موقف اس کے الٹ ہوتا ہے۔ اس تمام تر سطحی بکواس میں یہ وضاحت نہیں کی جاتی کہ فوج کی سیاست میں مداخلت کی معاشی بنیادیں کیا ہیں اور اگر آج ’سرکاری اعلان‘ ہو گیا ہے کہ اب سیاست میں مداخلت نہیں ہو گی تو ایسی کیا تبدیلی آگئی ہے جس کی وجہ سے ایسا ہو گا۔ پاکستان کی گلی سڑی، تاخیر زدہ اور خصی بورژوازی کی تاریخی کمزوری نے ریاست کی معیشت اور پھر اسی بنیاد پر سیاست میں مداخلت کی بنیادیں استوار کیں تھیں لہٰذا ان بنیادوں کو مسمار کیے بغیر اس مداخلت کا خاتمہ تو درکنار اس میں تھوڑی بہت کمی آنے کا تصور بھی بیہودہ حد تک احمقانہ ہے۔ باجوہ صاحب نے مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا اعلان بھی درحقیقت فوج کے اندر اپنی حمایت میں اضافہ کرنے کی ایک کوشش کے طور پر کرایا ہے۔
ریاست کا بحران اور فسطائیت کا واویلا
عمومی طور پر یہ ساری سیاسی ہنگامہ آرائی، دھڑے بندیاں، اقتدار پر قبضے کی کشمکش اور حکمران طبقات میں پھوٹ اس نظام اور ریاست کے جاری بحران کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے کا اعلان ہے۔ یہ نیا مرحلہ پہلے کے تمام مراحل سے زیادہ ہنگامیہ خیز ہوگا اور اس میں پہلے کی تمام لڑائیوں کے طریقہ کا ر دوبارہ سامنے آ سکتے ہیں۔ اس تمام ہنگامہ آرائی کو محض چند افراد کی اقتدار کے حصول کی لڑائی کا شاخسانہ قراردینا سرا سر حماقت ہے۔ بہت سے لبرل اور نام نہاد بائیں بازو کے افراد بھی بحران کی وجہ کو زیادہ تر عمران خان کی شخصیت میں موجود خامیوں اور اس کے منفی رویوں میں تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ وضاحت کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ یہی عمران خان ان تمام خامیوں سمیت گزشتہ ساڑھے تین سال سے زیادہ عرصہ اس ملک کے تمام اداروں کا محبوب گماشتہ رہا ہے۔ عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کا نواز شریف کی بے دخلی اور دونوں کے جوابی رد عمل کا موازنہ بھی بالکل غلط ہے۔ سادہ سا سوال اس کی وضاحت کرنے کے لیے کافی ہے کہ آج عمران خان کی جگہ کوئی دوسرا فرد اقتدار سے بے دخل کیا جا رہا ہوتا تو کیا محض اس فرد کی ذاتی خصوصیات کے باعث اس جاری لڑائی کی شدت میں کمی واقع ہو سکتی تھی یا اس کا کردار تبدیل ہو سکتا تھا؟ ہر گز نہیں! یہ درست ہے کہ اس لڑائی کی شدت کا اظہار جن الفاظ اور رویوں کے ذریعے کیا جا رہا ہے وہ اس سے کچھ مختلف ہو سکتے تھے چونکہ ان کا تعلق فرد کی انفرادی سوچ و شعور کے ساتھ ہوتا ہے مگر اس سے زیادہ کوئی فرق نہیں ہونا تھا۔ آج عمران خان اور اس کے حامیوں کے جارحانہ اور گستاخانہ رد عمل کو فسطائیت اور ہنگامہ آرائی کی اس طوالت کی وجہ قرار دینے والے نام نہاد بائیں بازو کے لوگ بھی اس بات کو فراموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چند سال قبل نواز شریف اور مریم نواز کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف احتجاج میں انہیں ماضی کے عظیم انقلابیوں کی جھلک نظر آنا شروع ہوگئی تھی۔ ان کا نوازشریف کو چی گویرا قرار دینا بھی اتنا ہی سطحی اور غلط تھا جتنا آج عمران خان کی حمایت کو فسطائیت قراردینا غلط اور سطحی ہے۔ سرمایہ داری نظام کے گل سڑ جانے کے باعث ہمیں عالمی سطح پر یہ مظہر نظر آ رہا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی قیادتوں، پارٹیوں اور تحریکوں میں فاشزم سے مماثل نعرے، نسلی تعصب اور انتہا پسندی کے عناصر کا ابھار ہو جاتا ہے مگر اپنے جوہر میں یہ تحریکیں وقت کے اس موجودہ لمحے میں حقیقی فاشزم کی نمائندہ نہیں ہیں نہ ہی ان کا ابھار سماج پر فاشزم کے غلبے کی عکاسی کرتا ہے۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس یہ مظہر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ نظام اس حد تک گل سڑ چکا ہے کہ اس کے انتہائی دایاں بازوکی تشکیل کے لیے آج کے عہد میں جو مواد دستیاب ہے اس میں فسطائیت کے عناصر کی ملاوٹ شامل ہے۔ اس نظام کے اندر حقیقی معنوں میں دائیں بازو یا اصلاح پسندی کی پالیسیوں پر عملدرآمد کی گنجائش ختم ہونے کے باعث انتہائی دائیں بازو کی تشکیل کسی مختلف معاشی پالیسی پر نہیں بلکہ انتہائی متعصبانہ، نسل پرستانہ یا نیم فسطائی نعروں کی صورت میں ہوتی ہے جن کے ذریعے اس نظام کے تعطل سے نکلنے کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔ دوسری جانب ان انتہائی دائیں بازو کی تحریکوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مروجہ نظام کے ضابطوں، قواعد اور اقدار و اخلاقیات سے نفرت ان کو پر تشدد طریقوں سے انہیں روندتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کے راستے پر لے جاتی ہے۔ یہ پر تشدد طریقے اپنانے کی وجہ سے اس نظام کی بنیادیں لرزنے لگتی ہیں جس پر اس نظام کے رکھوالے لبرلز اور مزدور تحریک میں ان کے گماشتے آنکھیں بند کر کے چلانا شروع ہو جاتے ہیں کہ یہ فاشسٹ ہیں، یہ اس نظام کے نام نہاد جمہوری اور آئینی اطوار کی پاسداری نہیں کرتے۔ یہ درست ہے کہ اس نظام کے لبرل رکھوالے درمیانے طبقے کی اس نظام کے تعطل سے نکلنے کی ان کوششوں کو اپنی بے پناہ مالیاتی اور بھاری بھر کم ریاستی مشینری کے ذریعے روک کر ان کو پر تشدد راستے پر دھکیل دیتے ہیں۔ دوسری جانب درمیانے طبقے کی اپنی نامیاتی تاریخی اور سماجی نا اہلی اور کمزوری بھی انہیں متشدد طریقے اپنانے پر مجبور کر تی ہے۔ یہی تشدد پھر محنت کش طبقے کو اس نام نہاد فسطائیت سے خوفزدہ کر کے لبرلز کی اندھی پیروی پر قائل کرنے کے ساتھ اس نظام کو تبدیل کرنے کی ہر سوچ اور کوشش کو خونریزی اور انارکی ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن پھر اس نظام کا زوال ہی حکمران طبقے کے تمام حاوی حصوں کی کمزوری کی صورت میں عارضی طور پر ایسے مظاہر کی مضبوطی کا سامان فراہم کرتا ہے۔ اگر نواز شریف کا احتجاج اعتدال کی حدود کے اندر مقید تھا تو اس کی وجہ اس کی ترقی پسندانہ سوچ یا اس کا اعلیٰ اخلاقی معیار اور جمہوریت پسندی نہیں تھی بلکہ اس کی پشت پناہی کرنے والے آقاؤں کی کمزوری کی عکاسی تھی۔ اور آج عمران خان کے احتجاج کا جارحانہ اور گستاخانہ رویہ اس کی پشت پر موجود دھڑے کی نسبتاً زیادہ طاقت کے ساتھ عمومی طور پر اس نظام کے پہلے سے زیادہ گہرے بحران کی غمازی ہے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان کی حمایت سماج کی جس پرت میں ہے اس کی اخلاق باختگی اپنی تئیں ایک ناقابل تردید حقیقت ہے لیکن اسی پرت کا نامیاتی خاصہ (جو اس کی اخلاقیات سے زیادہ اہم عنصر ہے) طاقت کی پرستش ہے۔ طاقت کی حمایت کا احساس حاصل کیے بغیر پیٹی بورژوازی کی سبھی گستاخی کسی اجتماعی سیاسی اظہار سے محروم نجی کتھارسز تک ہی محدود رہتی ہے۔ ریاستی دھڑوں کی لڑائی کی شدت ہی وہ بنیاد ہے جو اس تمام خصی غم و غصے کو ایک اجتماعی سیاسی اظہار فراہم کر رہی ہے۔
معاشی بحران
معیشت کی صورتحال بھی چند سال پہلے کے مقابلے میں بد تر ہوتی جارہی ہے جس کے باعث پیٹی بورژوازی کی فرسٹریشن انتہاؤں کو پہنچ چکی ہے۔ عمران خان کی حمایت میں جس غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اس میں عمران خان کی حمایت سے زیادہ اس بات کا غصہ موجود ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ گزشتہ ساڑھے تین سال تک جس حکمران گروہ کے خلاف ان پرتوں کو متحرک رکھا گیا آج اچانک اسی ٹولے کو دوبارہ نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جارحانہ رد عمل کے پس پردہ بے وفائی کا دکھ اور سابقہ حکمرانوں سے نفرت ہے جس کا اظہار ہٹ دھرمی کی حد تک عمران خان کے دفاع کی صورت میں ہو رہا ہے۔ عمران خان کے حمایتیوں کو فسطائی قرار دے کر ان کو مسترد کرنے والے بالواسطہ طور پر نئے حکمرانوں کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ نئے حکمرانوں کو جس معاشی بربادی کی حالت میں مسلط کیا جا رہا ہے اور جس طرح ذرائع ابلاغ کی تقریباً ساری فوج یہ ثابت کرنے کے درپے ہے کہ ان کے آنے سے پاکستان کے تمام مسائل بس حل ہونا شروع ہو چکے ہیں یہ بھی ایک المیہ ہی ہے۔ یہ درست ہے کہ جس بربادی کی حالت میں ان پرانے لٹیروں کو نجات دہندہ بنا کر مسلط کیا جا رہا ہے اس میں وہ مجبور ہیں کہ بد تر حالات کا رونا رونے کے ساتھ ہر صورت میں کچھ نہ کچھ، چاہے کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، بہتری لانے کا تاثر دینے میں کامیاب ہو جائیں۔ عوام کی زندگیوں میں بہتری کے حوالے سے دیکھا جائے تو کسی قسم کی بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جس دس فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا اس کے اپنے ہی معاشی مشیر مفتاح اسمٰعیل نے اس پر عملدرآمد سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ کم از کم اجرت 25 ہزار روپے کرنے کا اعلان بھی ایک بھڑک بازی ہی تھی، چونکہ نجی شعبے میں سرمایہ دار حکومت کی کسی پالیسی پر عملدرآمد نہیں کرتے اور نہ ہی ان سرمایہ داروں کے گماشتے حکمرانوں میں اتنی جرات ہے کہ وہ اس حوالے سے ان سے پوچھ بھی سکیں۔ اسی طرح اس حکومت نے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ چار روپے سے زیا دہ کا اضافہ کر دیا ہے۔ اوگرا نے 15 اپریل سے 30 اپریل تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے جو سمری بھیجی تھی اس نے بھی یہ واضح کر دیا ہے (یا اس سمری کے ذریعے یہ واضح کرایا گیا ہے) کہ آنے والے دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کس حد تک جا سکتی ہیں۔ اگرچہ ان پندرہ دنوں کے لیے حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی بھی رد و بدل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ عندیہ بھی دے دیا ہے کہ سابقہ حکومت نے جاتے جاتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے جو سبسڈی دی تھی اس کو برقرار رکھنا نا ممکن ہے اس لیے عوام تیار رہیں جلد ہی نئی حکومت کی جانب سے ان پر پٹرول بم گرایا جائے گا۔ نئی حکومت کے معاشی مشیر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کرنے جا رہے ہیں تا کہ گزشتہ قرض کی روکی گئی قسط بحال کرا سکیں اور شائد کوئی نیا قرض بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ زر مبادلہ کے ذخائرخطر ناک حد تک کم ہو چکے ہیں جن کو فوری طور پر بڑھانے کا واحد ذریعہ نئے قرضوں کا حصول ہے جو براہ راست اگر آئی ایم ایف سے نہیں بھی لیے جاتے تو ان کی ضمانت پر دیگر ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ حال ہی میں سری لنکا کی حکومت نے دیوالیہ ہونے کا جو اعلان کیا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی ساہوکارپاکستان کی معیشت کو فوری طور پر شائد اسی قسم کے انجام سے محفوظ رکھنے کے لیے قرض کا بندوبست کر دیں لیکن یہ سہارا اس دیوالیہ پن کے اعلان کو محض کچھ عرصے کے لیے ٹالنے اور اس کے حجم میں اضافہ کرنے کا باعث بنے گا۔ دوبارہ مسلط کیے جانے والے پرانے لٹیروں کی انتظامی صلاحیتوں کا جتنا واویلا کیا جا رہا ہے یہ ان کی بربادی کا ایک نسخہ ثابت ہو گا۔ یہ درست ہے کہ معاشی بحران کے بڑھنے میں کسی حد تک عمران حکومت کی نا اہلی کا بھی ایک عنصر شامل تھا لیکن یہ واحد عامل نہیں تھا۔ اس توجیح کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی بھی معاشی نظام کی حرکیات اور عروج و زوال کی مادی وجوہات کو یکسر فراموش کر کے محض منتظمین کی صلاحیتوں کو ہی عروج و زوال کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ درحقیقت بحرانوں کے عہد میں بر سر اقتدار آنے والے حکمرانوں کی بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ انہیں ایسے بے قابو عوامل سے واسطہ پڑتا ہے جن کو قابو میں لانے کے لیے انفرادی یا گروہی صلاحیتیں ناکافی ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی تاریخ کا المیہ ہوتا ہے کہ ایسے ادوار اپنے اظہار کے لیے کچھ ایسے ہی افراد کے متقاضی ہوتے ہیں جن میں حالات کی گھمبیرتا کو سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں ہوتی اور یوں وہ ایسے بحرانی ادوار کی مجسم تصویر بن جاتے ہیں مگران کی ناکامی کی تمام تر وجہ ان کی نا اہلی ہی نہیں ہوتی۔ ایسے ادوار میں انتہائی قابل افراد بھی شرمناک ناکامیوں سے دوچار ہو جاتے ہیں جنہیں کسی نسبتاً بہتر ادوار میں موقع میسر آئے تو شائد وہ نتائج پر اثر انداز ہو جائیں۔ اس بنیاد پر بحران کی موجودہ شدت کو محض عمران خان کی نا اہلی قرار دینا اور شہباز شریف کی انتظامی اہلیت کو تمام مسائل کا حل بنا کر پیش کرنا نہ صرف غلط اور سطحی تجزیہ ہے بلکہ شہباز شریف جیسے سطحی ذہنیت کے شخص کے ساتھ بھی ظلم ہے۔ پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ماضی میں نسبتاً بہتر حالات میں بلا شبہ شہباز شریف حکمران طبقے میں ایک بہتر منتظم کی حیثیت سے خود کو منوا چکا ہے لیکن موجودہ حالات میں شائد ایسا نہیں ہو پائے گا۔ پاکستان کی معیشت عالمی طور پر اس نظام کے زوال اور بحران سے الگ اپنے طور پر کسی معجزاتی عروج کی جانب کیسے جا سکتی ہے؟ یہ محض انتظامی معاملہ نہیں ہے اگرچہ سابقہ حکومت کی بد انتظامی کی پیدا کردہ کچھ ایسی خرابیاں ضرور ہوں گی جن کو شہباز شریف اپنی مہارت کی بنیاد پر ٹھیک کر دے گا لیکن عمومی طور پر اس نظام کا معاشی بحران محض بد انتظامی کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس لیے محض انتظامی تجربے اور مہارت کی بنیاد پر پاکستان کی معیشت کے تمام مسائل اور بحرانوں کا خاتمہ کرنا ممکن نہیں۔ اس حکومت کے پاس بھی معیشت کے تمام مسائل کے حل کا پروگرام وہی پالیسیا ں ہیں جن پر سابقہ حکومت عمل پیرا تھی۔ آنے والے چند ماہ کے دوران ہی بحران کی مادی وجوہات اور بد انتظامی کا اس میں حصہ کھل کر واضح ہو جائے گا۔ اگر معاشی پالیسیاں وہی ہیں اور معیشت کے نجات دہندہ بھی عالمی مالیاتی اور سامراجی ادارے ہی ہیں تو ان سامراجی اداروں کی اپنی اہلیت اتنی زیادہ نہیں کہ وہ پاکستان کے بے قابو ہوتے بحران کو زیادہ عرصے تک قابو میں رکھنے کا سامان فراہم کر سکیں۔ نئے حکمرانوں کے آنے سے سامراجی اداروں کی لوٹ مار اور ہوس کم نہیں ہو گئی نہ ہی سرمایہ داری کے بنیادی قوانین میں کوئی تبدیلی وقوع پذیر ہو گئی ہے کہ اب وہ استحصال کم کر دیں گے۔ اس لیے نئی حکومت کے ساتھ جن خوش فہمیوں کو وابستہ کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ جلد ہی خاک میں مل جائیں گی۔ نئی حکومت بھی سابقہ حکومت کی طرح ہی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر ڈالنے کی کوشش کرے گی۔ حکمرانوں کی اپنی لڑائی جتنی بھی شدید ہو محنت کش طبقے کے خلاف حملوں میں کمی آنے کے امکانات نہیں ہیں اور نہ ان دونوں دھڑوں میں سے کوئی ایک بھی دھڑا اس ملک کے محنت کشوں کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی لیے ہمیں حکمرانوں کی اس لڑائی میں محنت کش طبقے کی اکثریت خاموش دکھائی دے رہی ہے۔ یہ خاموشی اس لڑائی کے تماش بینوں کی خاموشی نہیں ہے بلکہ اس خاموشی اور لاتعلقی میں ایک نئی طبقاتی لڑائی کی تیاری کا عمل جاری ہے۔
ریاستی ادارے، مظلوم قومیتیں اور راہِ نجات
پاکستان کے اصل حکمران طبقات کی شدید لڑائی کا اکھاڑا تو پارلیمان اور سیاسی پارٹیاں ہی ہیں لیکن ساتھ ہی ایک بار بھر عدلیہ کی ثالثی کا کردار بھی بہت بڑھتا جا رہا ہے۔ لاہور سے کشمیر تک آج کل انصاف کے مندروں میں ہی جمہوریت پسندی سے لے کر پاسداری آئین اور حب الوطنی کے تمغے دیے جا رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں ضرورت پڑنے پر غداری کے سرٹیفکیٹ بھی جاری کیے جائیں گے۔ عدلیہ کا حد سے زیادہ تحرک خود عدلیہ کو بڑے پیمانے پر عوام کے سامنے بے نقاب کرتا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کی لڑائی کے میدان اور طریقے تبدیل ہوتے رہیں گے لیکن یہ جاری رہے گی۔ معیشت میں اس حد تک بہتری کے امکانات بالکل مخدوش ہیں جو اس حاکمیت میں کھل چکی دراڑوں کو بھرنے کے لیے درکار ہے۔ عالمی سطح پر تعلقات میں تبدیلی پاکستانی ریاست سے جس قسم کی تبدیلیوں کا تقاضا کر رہی ہے وہ بھی اس تمام تر لڑائی میں ایک اہم عنصر ہے۔ چند سال قبل باجوہ ڈاکٹرائن نامی کچھ پالیسیاں تھیں جن پر عملدرآمد کی کوشش ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد وہی باجوہ صاحب ایک نئی ڈاکٹرائن لے آئے ہیں مگر ابھی تک پرانی ڈاکٹرائن کے ماننے والے اپنی ضد پر قائم ہیں۔ آنے والے دنوں میں معیشت کے بحران میں اضافہ حاکمیت کے اس بحران میں بھی اضافہ کرے گا اورساتھ ہی اس ملک کے محنت کشوں اور عوام کے لیے اس نظام کی انہی دراڑوں سے اس کے خلاف بغاوت کا راستہ ہموار کرے گا۔ کشمیر کے محنت کشوں اور عوام کے حالات زندگی میں تبدیلی کا راستہ پاکستان بھر کے محنت کش عوام کی اس نظام کے خلاف فیصلہ کن لڑائی سے جڑا ہو ا ہے۔ اس خونخوار نظام کے خلاف لڑائی قومیتوں کی تنگ حدود کے اندر مقید رہ کر نہیں لڑی جا سکتی۔ قومی حدود تک محدود رکھنے والی ہر سوچ اور نظریہ عوام اور محنت کشوں کی طاقت کو کمزور کرکے ان کی غلامی میں طوالت کا باعث بنتا ہے۔ ہر قوم کا حق خود ارادیت، اس کا بنیادی حق ہے لیکن اس کی بنیاد پر سرمایہ داری کے خلاف محنت کشوں کی مشترکہ لڑائی میں رخنہ ڈالنا ایک رد انقلابی سوچ اور اقدام ہے۔ کشمیر یا کسی بھی دوسری قوم کے حق خود ارادیت کا حصول صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ قومی تنگ نظری اور تعصبات کو مسترد کر کے تمام قوموں کے محنت کشوں کو ایک انقلابی لڑائی میں متحد کرتے ہوئے اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ پاکستان کے اندر اور اس کے زیر انتظام یا زیر قبضہ تمام علاقوں کے محنت کشوں کا اتحاد اور اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی مشترکہ جدوجہد ہی اس نظام کے خاتمے کی صورت میں ایسے حالات پیدا کر سکتی ہے جن میں ہر قوم کے محنت کشوں کو ان کے اپنے خطے پر مکمل کنٹرول اور اختیار میسر آ سکے۔ کشمیر کے قوم پرستوں کے کچھ حصوں کو اس وقت کشمیر کے حکومتی بحران میں پاکستانی حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کی مداخلت سے ایک بار پھر اپنی بد ترین غلامی کا احساس ہو رہا ہے۔ وہ اس غلامی پر کشمیر کے حکمرانوں کی گماشتگی کو کوستے رہتے ہیں لیکن اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ سرمایہ داری نظام کے اندر رہتے ہوئے جس طرح پاکستان کے حکمران طبقات عالمی سامراجی طاقتوں کی غلامی سے چھٹکارا نہیں حاصل کر سکتے اسی طرح کشمیر کی غلامی بھی ایسے ہی قائم رہے گی۔ اس نظام کو اکھاڑ کر ہی غلامی کی ہر شکل کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ آزادی یا حق خود ارادیت کا حصول سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے ممکن ہی نہیں۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ہر قسم کی غلامی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ اس انقلاب کا وقت قریب آتا جا رہا ہے اس کی انقلابی تیاری کا معیار ہی اس کی کامیابی کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔